حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا درس القرآن
29؍ رمضان المبارک 1440 ہجری قمری بمقام مسجد مبارک ٹلفورڈ
(مسجد مبارک، اسلام آباد ٹلفورڈ۔ 29؍ رمضان المبارک، نمائندہ الفضل انٹرنیشنل) وفا کے پیکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جب حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلّم کی بعثت کی خوشخبری عطا فرمائی تو اس میں لوگوں پر آیات کی تلاوت کرنے اور کتاب اور حکمت سکھا کر لوگوں کا تزکیہ کرنے کا کام بتایا گیا۔ آج کے اس بابرکت دور میں حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے غلامِ کامل اور پھر ان کے بعد ان کے خلفاء اس مقدس فریضے کو سرانجام دے رہے ہیں۔ آج لندن میں رمضان المبارک کا آخری روزہ ہے۔ اور یہ دن اس لحاظ سے بھی اپنی برکت اور افادیت میں بڑھ گیا کیونکہ آج حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نئے مرکزِ احمدیت اسلام آباد ٹلفورڈ میں نَو تعمیر شدہ مسجد مبارک سےقرآن کریم کی آخری تین سورتوں کا معرکہ آرا درس ارشاد فرمایا۔ یہ ایم ٹی اے کے توسّط سے پوری دنیا میں براہِ راست سنا اور دیکھا گیا۔ جبکہ اس درس کے دوران دس زبانوں میں اس کا رواں ترجمہ بھی نشرکیا گیا۔
حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آمد سے پہلے مسجد مبارک درس میں شمولیت کے خواہش مند احباب سے پُر تھی۔ دنیا بھر میں ایم ٹی اے کی لائیو ٹرانسمیشن شروع ہو چکی تھی۔ اپنے عشاق کی موجودگی میں پیارے حضور بارہ بج کر اکتیس منٹ پر مسجد میں رونق افروز ہوئے۔اپنی مسند پر تشریف فرما ہونے کے بعد حضورِ انور نے مسجد مبارک اور اس کے ملحقہ ہال میں موجود آٹھ سو کے قریب حاضرین کو نیز ایم ٹی اے کے توسّط سے پوری دنیا میں موجود کروڑوں ناظرین کو ’السلام علیکم‘ کا تحفہ عنایت فرمایا۔ بعد ازاں تعوّذ و تسمیہ کے بعد آخری تین قُل یعنی سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کی تلاوت فرمائی اور ان کا ترجمہ بیان فرمایا۔ حضورِ انو رنے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سورت اخلاص کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حسن ایک ایسی چیز ہے جو بالطبع دل کی طرف کھینچا جاتا ہے اور اس کے مشاہدے سے طبعاً محبت پیدا ہوتی ہے۔ فرمایا حسن باری تعالیٰ اس کی وحدانیت اور اس کی عظمت اور بزرگی اور صفات ہیں جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے
قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۔لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ۔وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ۔
یعنی خدا اپنی ذات اور صفات اور جلال میں ایک ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں۔ سب اس کے حاجت مند ہیں۔ ذرہ ذرہ اس سے زندگی پاتا ہے وہ کل چیزوں کے لیے مبدء فیض ہے اور آپ کسی سے فیضیاب نہیں۔ دنیا کی ہر چیز کو وہ فیض عطا فرماتا ہے، دنیا کی ہر چیز اس سے فیض پاتی ہے لیکن خود اس کو کسی سے فیض لینے کی ضرورت نہیں۔ وہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کسی کا باپ اور کیونکر ہو کہ اس کا کوئی ہم ذات نہیں۔ قرآن نے بار بار خدا کا کمال پیش کر کے اور اس کی عظمت دکھلا کے لوگوں کو توجہ دلائی ہے کہ دیکھو ایسا خدا دلوں کو مرغوب ہے نہ کہ مردہ اور کمزور اور کم رحم اور کم فطرت۔
پھر اللہ کے نام کی وضاحت فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں۔ قرآن کی اصطلاح کی روح سے اللہ اس ذات کا نام ہے جس کی تمام خوبیاں حسن و احسان کے کمال کے نکتہ تک پہنچی ہوئی ہوں اور کوئی منقصت اس کی ذات میں نہ ہو یعنی کوئی نقص اور عیب اس میں نہ ہو۔ فرمایا کہ قرآن شریف میں تمام صفات کا موصوف صرف اللہ کے اسم کو ہی ٹھہرایا ہے۔ یعنی تمام صفات اللہ تعالیٰ کے نام میں پائی جاتی ہیں۔ قرآن کریم نے اللہ کے نام میں یہ تمام صفات رکھ دی ہیں تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اللہ کا اسم تب متحقق ہوتا ہے کہ جب تمام صفات کاملہ اس میں پائی جائیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ ثابت ہو کہ اللہ کا نام تمام کامل صفات کا حامل ہے اور کوئی کمزوری اس میں نہیں ہے۔ اللہ وہ ہے جو ازلی ابدی اور الحی، القیوم ہے اور مالک و خالق اور سب مخلوق کا رب ہے۔ پس اللہ اس ذات کا نام ہے جو تمام صفات کا حامل ہے۔ ’اللہ‘خدا کا ذاتی نام ہے اور یہ نام صرف اسلام میں پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نام صرف قرآن کریم میں ہے اور کسی اَور شریعت میں یہ ذاتی نام کہیں نہیں دیکھا گیا۔ یہی وہ خدا ہے جو اپنی ذات میں اکیلا ہے، کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں۔ قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو خالص توحید کا اعلان کرنے کا کہا ہے۔ دھریہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا کوئی وجود نہیں اور دنیا خود بخود قائم ہو گئی اور کسی خدا کا تصرف اس دنیا پر نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی مرضی سے اور اپنے تصرف سے دنیا میں تبدیلیاں لا سکتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو واضح کر دو کہ تم جھوٹے ہو۔ اللہ تعالیٰ ہے اور تمام نقائص سے پاک ہستی ہے اور تمام صفات کا حامل ہے اور اس کی صفات ہر وقت جلوہ دکھاتی ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری زندگیوںکے سامان میرے مرہون منت ہیں تم میرے محتاج ہو۔ کیا سورج، روشنی، ہوا، موسم، پانی، زمین یہ سب تم نے پیدا کیے ہیں۔ یہ سب خدا کے پیدا کردہ ہیں اور صرف اگر ربوبیت کے پہلو کو ہی لے لو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم سب میری ربوبیت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ رحمانیت ہی ہے جو باوجود انسان کی باغیانہ روش کے اللہ تعالیٰ اسے زندگی کے سامان مہیا کرتا رہتا ہے بلکہ زندگی کو قائم رکھنے کے لیے اس نے کروڑوں سال پہلے سامان مہیا کر دیے۔ اب پانی ہے، اگر یہ پانی ختم ہو جائے تو زندگی ختم ہو جائے۔ کیا یہ لوگ پانی لا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاءٍ مَّعِينٍ (الملک:31)
تو کہہ دے کہ مجھے بتاؤ تو سہی کہ اگر تمہارا پانی زمین کی گہرائی میں غائب ہو جائے تو بہنے والا پانی تمہارے لیے خدا کے سوا کون لائے گا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اس سے روحانی پانی بھی مراد لیا جا سکتا ہے اور ظاہری پانی بھی مراد ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھلا کر اگر روحانی لحاظ سے ہم دیکھیں تو ان کا روحانی پانی تو ختم ہو چکا ہے۔ ظاہری پانی بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ختم ہو سکتا ہے۔ یہ میری رحمانیت ہے، میری ربوبیت ہے جس کی وجہ سے باوجود تمہارے باغیانہ روشوں کے یہ تمہیں میسر آرہا ہے۔ باوجود اس کے کہ تم میرے شریک ٹھہراتے ہو، باوجود اس کے کہ میری ذات پر اور میری ہستی پر تمہیں یقین نہیں ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ بارشیں نہ ہوں تو شور پڑ جاتا ہے لیکن ہم جو ایمان والے ہیں اپنے خدا کی قدرت دیکھتے ہیں، بیسیوں واقعات ایسے ہیں کئی دفعہ میں بیان بھی کر چکا ہوں کہ بارش نہیں ہے، قحط سالی کی حالت ہے پھر بارش کی ضرورت ہوئی۔ ہمارے مشنری نے یہاں لکھا۔ میں نے دعا بھی کی اور ان کو کہا دعا کریں اور لوگوں کو جمع کر کے نماز استسقاء ادا کریں۔ اور پھر لوگوں نے یہ نظارے دیکھے کہ اللہ تعالیٰ نے بارش کے سامان پیدا فرمائے اور وہاں یہ چیز لوگوں کے ایمان میں زیادتی کا باعث ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور ہستی پر یقین پیدا ہوا۔ اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے کہ وہ صمد ہے۔ وہ اپنی ذات میں قائم ہے۔ اسے کسی چیز کی حاجت اور ضرورت نہیں ہے۔ اگر حاجت اور ضرورت ہے تو اس کی مخلوق کو ہے۔ ایک جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ ۚ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُم مِّن دُونِهٖ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمٰى وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ ۗ أَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوْا كَخَلْقِهٖ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ۚ قُلِ اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (سورۃ الرعد17)
کہ تُو ان سے کہہ کہ بتاؤ آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے؟ اس کا جواب وہ تو کیا دیں گے تو خود ہی کہہ دے انہیں کہ اللہ۔ اور پھر تو ان سے کہہ دے کیا پھر بھی تم نے اس کے سوااپنے ایسے مددگار تجویز کر رکھے ہیں جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع کو حاصل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور نہ کسی نقصان کو روکنے کی اور ان سے کہہ کہ کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوسکتاہے؟ یا کیا تاریکی اور روشنی برابر ہوسکتی ہے؟ کیا انہوں نے اللہ کے ایسے شریک تجویز کیے ہیں جنہوں نے اس کی طرح کچھ مخلوق پیدا کی ہے، کچھ تو اللہ تعالیٰ نے چیزیں پیدا کی ہیں تو کیا ان لوگوں نے بھی کچھ پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے اس کی اور دوسروں کی مخلوق ان کے لیے مشتبہ ہو گئی ہو کہ کیا اللہ کا پیدا کردہ ہے اور کیا دوسروں کا پیدا کردہ ہے اس لیے ہم خدا کو نہیں مان سکتے۔ تُو ان سے کہہ کہ اللہ ہی ہر ایک چیز کا خالق ہے اور وہ کامل طور پر یکتا اور ہر ایک چیز پر کامل اقتدار رکھنے والا ہے۔
اس کے بعد حضورِ انور نے سورۂ قصص کی آیت 71؍ پڑھی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَدًا إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ يَأْتِيكُمْ بِضِيَآءٍ ۖ أَفَلَا تَسْمَعُونَ (القصص72)
کہ تُو ان سے کہہ کہ مجھے بتاؤ تو سہی کہ اگر اللہ تمہارے لیے قیامت کے دن تک رات کو لمبا کر دے تو اللہ کے سوا اور کون ہے جو تمہارے پاس روشنی لائے گا۔ کیا تم سنتے نہیں۔ پھر فرمایا
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا إِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ يَأْتِيكُمْ بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيْهِ ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (القصص73)
کہ تو کہہ دے مجھے بتاؤ تو سہی کہ اللہ دن کو قیامت کے دن تک تمہارے لیے لمبا کر دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہارے پاس رات کو لے آئے جس میں تم سکون پا سکو۔ کیا تم دیکھتے نہیں۔ پھر فرمایا۔ آگے اس کے کہ وَمِن رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَلِتَبْتَغُوْامِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (القصص74) یعنی اور یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے ہیں کہ اس رات میں تم سکون حاصل کرو اور اس کے دن میں اس دن میں تم اس کا فضل تلاش کرو تا کہ تم شکر گزار بنو۔ یعنی کام میں لگو، دنیا بھی کماؤ اور اپنی ضروریات کو پورا کرو لیکن ساتھ ہی دوسری جگہ یہ بھی فرمایا ہوا ہے کہ اللہ کو نہ بھولو، اس کے ذکر کو نہ بھولو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں دن میں کام کے دوران بھی یاد رہنا چاہیے۔
حضورِ انور نے اللہ تعالیٰ کے غنی ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ اپنے غنی ہونے کے بارے میں فرماتا ہے کہ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (الحج 65) کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اس کا ہے اور اللہ یقینا اپنے سوا سب وجودوں کی مدد سے بے نیاز اور سب تعریفوں کا مالک ہے۔
پھر فرمایا أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ وَالْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَن تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ (الحج 65) کہ کیا تُو نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے تمہارے کام پر جو کچھ بھی زمین میں ہے اسے بغیر مزدوری کے لگا رکھا ہے اور کشتیاں بھی سمندر میں اس کے حکم سے چلتی ہیں اور اس نے آسمان کو روک رکھا ہے کہ کہیں زمین پر سوائے اس کے حکم کے گر نہ جائے ۔ اللہ تعالیٰ یقینا ًلوگوں سے بہت شفقت کرنے والا اور ان پر بار بار رحم کرنے والا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی شفقت اور مہربانی ہے کہ اس نے آسمانی آفات کو روک رکھا ہے ورنہ انسان اس زمانے میں خاص طور پر جس طرح کی حرکتیں کر رہا ہے اور جو باغیانہ رویے اور روش ہیں، اللہ تعالیٰ کو بھلایا ہوا ہے، ایک تو اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر شریک ہیں دوسرے اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے وجود پر یقین نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو فوری پکڑ لے مگر اللہ تعالیٰ ڈھیل دیتا ہے۔
وہ سوال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پھر پکڑتا کیوں نہیں؟ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے میں ڈھیل دیتا ہوں۔اگر پکڑنا چاہوں تو تمہیں پکڑ سکتا ہوں، دنیا میں کوئی آبادی نہ رہنے دوں لیکن اس کی رحمانیت ہے کہ وہ پھر بھی تمہیں ڈھیل دے رہا ہے اور جلدی اس کو اس لیے نہیں کہ وہ سب طاقتوں کا مالک ہے۔ اسے پتا ہے کہ جب میں نے پکڑنا ہے تو پکڑ سکتا ہوں کوئی مجھے روک نہیں سکتا اور کوئی میری پکڑ سے فرار حاصل نہیںکر سکتا پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس لحاظ سے بھی دیکھ لو تمہیں میری ضرورت ہے اور یہ میری رحمانیت اور ربوبیت کے جلوے ہیں جو میں تمہیں دکھاتا ہوں اور باقی صفات ہیں اللہ تعالیٰ کی۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ کون ہے تم میں سے جو یہ کہہ سکے کہ وہ چاہے تو سورج کی روشنی لا سکتا ہے یا رات کو دن بنا سکتا ہے یا دن کو رات بنا سکتا ہے یا طوفانوں کو روک سکتا ہے۔ نہ جاپان نہ امریکہ نہ اَور کوئی طاقت اپنے تمام دنیاوی وسائل کے ساتھ جو ان کے پاس ہیں اور سمجھتے ہیں ہم بڑے ترقی کر چکے ہیں، بڑے ایڈوانس ہو چکے ہیں وہ بھی چاہیں تو ان طوفانوں کو روک نہیں سکتے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگر وہ چاہے اللہ تعالیٰ تو طوفانوں کے رخ پھر پھیر دیتا ہے۔ فجی میں ہم دورے پر گئے تو وہاں ایک دن صبح صبح فجر کی نماز سے پہلے پاکستان سے فون آئے ناظر صاحب اعلیٰ کے اور خبریں آ رہی تھیں بی بی سی پہ کہ بڑا شدید سونامی آ رہا ہے اور فجی کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ بڑی گھبراہٹ کا اظہار تھا، ہر طرف سے مختلف عزیزوں کے فون آنے لگے۔ نماز کا وقت تھا ہم مسجد چلے گئے اپنی رہائش سے۔ مسجد میں نماز سے پہلے میں نے سب نمازیوں کو کہا کہ نماز میں ہم، سجدے میں اس طوفان کا رخ پھیرنے کے لیے دعا کریں گے۔ میں دعا کروں گا آپ بھی میرے ساتھ شامل ہوں اور دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے وہیں تسکین کے سامان پیدا فرما دیے۔ واپس آئے تو پتا لگا کہ طوفان کا رخ دوسری طرف چلا گیا ہے۔ تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ طاقتیں، دنیاوی طاقتیں اس طوفان کو نہیں روک سکتیں لیکن اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرتا ہے جو خالص اس کو ماننے والے ہیں، اس کی عبادت کرنے والے ہیں ان کی سنتا ہے اور ان دعاؤں سے پھر بارشیں بھی نازل فرماتا ہے، طوفانوں کے رخ بھی پھیرتا ہے، باقی مصائب سے بھی نجات دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کہتا ہے یہ ہوں میں، یہ ہے میری ذات، یہ ہے میرے وجود کی نشانی۔ پس اللہ تعالیٰ جو رحمان ہے، رحیم ہے، مجیب ہے، بہت ساری صفات کا مالک ہے اپنے جلوے دکھاتا ہے لیکن دہریوں کو اور مشرکوں کو اس کی سمجھ نہیں آتی اس لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر آپؐ کے ذریعہ مومنوںکو یہ فرمایا کہ اس شرک کے زمانے میں، اس دہریت کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے وجود سے دنیا کو آگاہ کرو اور اب یہ مسیح محمدی کے غلاموں کا کام ہے کہ اس کام کو احسن طریق پر ادا کرنے کی کوشش کریں۔
اس کے بعد سورۂ فلق کی تشریح بیان کرتے ہوئے حضورِ انور نے فرمایا کہ پھر اگلی سورت ہے سورۃ الفلق۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ایک جگہ اس کے بارے میں فرمایا کہ اے مسلمانو! اگر تم سچے دل سے خداوند تعالیٰ اور اس کے مقدس رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام پر ایمان رکھتے ہو (صلی اللہ علیہ وسلم) اور نصرت الٰہی کے منتظر ہو تو یقینا ًسمجھو کہ نصرت کا وقت آ گیا اور یہ کاروبار انسان کی طرف سے نہیں اور نہ کسی انسانی منصوبے نے اس کی بنیاد ڈالی ہے بلکہ یہ وہی صبح صادق ظہور پذیر ہو گئی ہے جس کی بعض نوشتوں میں پہلے سے خبر دی گئی تھی۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا اب یہ ضرورت تھی کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت آتی، اس کی تائیدات آتیں۔ وہ اپنے دین کے لیے کسی کو بھیجتا۔ پس یہ صبح صادق طلوع پذیر ہو گئی ہے۔
امام راغبؒ نے اپنی لغت کی کتاب ’مفردات‘ میں لکھا ہے کہ ایک معنی فلق کے یہ بھی ہیں فلق سے مراد صبح ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی بعثت سے صبح صادق نمودار ہو گئی لیکن اس زمانے کی دجالی طاقتوں کی کوششوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی پناہ میں آنے کی دعابھی سکھائی ہے کہ یہ صبح صادق نمودار تو ہو گئی لیکن دجالی کوششیں اس بات پر لگی رہیں گی، اس کام پر لگی رہیں گی کہ تمہیں اس صبح صادق سے، اس صبح کی روشنی سے، اس سورج سے فیض پانے سے روکے رکھیں۔ لیکن بہرحال ان کی کوششوں کے باوجود ان شاء اللہ تعالیٰ اس دن نے جو صبح صادق کے ساتھ طلوع ہوا روشن تر ہوتے چلے جانا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو سراجِ منیر ہیں ان کی روشنی نے دنیا میں پھیلنا ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ طاغوتی طاقتوں نے بھی بھرپور کوشش کرنی ہیں، وہ خاموش نہیں بیٹھیں گی اور آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بڑی شدت سے، بہانے بہانے سے یہ لوگ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملے کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑایا جا رہا ہے۔ مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اس انتباہ پر غور نہیں کرتے کہ صبح صادق طلوع ہو گئی ہے اور لیکن پھر بھی تمہیں سمجھ نہیں آ رہی۔ اگر اللہ تعالیٰ کے اب یاد کرنے پر بھی اس طرف توجہ نہیں ہو گی تو پھر اللہ کو بھی کوئی پروا نہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی اس بات کا اظہار بھی ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود حکومتوں کے تمام وسائل کے مسلمانوں کی حالت ابتر سے ابتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اسلام مخالف طاقتیں مسلمانوں کو کمزور کر رہی ہیں اور مسلمان علماء بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی مخالفت میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اس طرف دیکھ نہیں رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر جو فضل کیا ہے اس سے ہم کس طرح فیض پائیں۔ اپنے مکروں سے اس سورج کی روشنی کو دھندلانا چاہتے ہیں۔
حضورِ انور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے فرمایا کہ اس میں دونوں شامل ہیں یعنی دجالی طاقتیں بھی اور نام نہاد علماء بھی۔ پس ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ کر اس کی توحید پر قائم رہ کر ہم ان حملوں سے بچ سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چل کر ان حملوں سے بچ سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں دی ہیں ان کا صحیح استعمال کر کے اس شر سے بچ سکتے ہیں ورنہ اس کے علاوہ کوئی اور راہ فرار نہیں ہے۔ تیل کی دولت کو اگر اپنی عیاشیوں پر استعمال کرنے لگ جائیں، اپنے گھروں کو، اپنے محلات کو سونے کی ورقوں اور پتیوں سے سجانا شروع کر دیں ،اللہ تعالیٰ کے حقوق و فرائض سے صَرف نظر کریں یا ان کا خیال ہی نہ رکھیں یا ان کو ردّ کرتے چلے جائیں یا صحیح ادائیگی نہ کریں، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا نہ کریں تو پھر یہ دولتیں کوئی فائدہ نہیں دیں گی۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اگر دجال کی باتیں سن کر اس دولت کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے لگ جائیں تو پھر اس کے جو منطقی نتیجے نکلنے ہیں وہ نکل رہے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر یہ حالت ہو گی تو تم میری پناہ سے بھی نکل جاؤ گے۔ اپنی خواہشات اور کمزوریوں کی وجہ سے تم ان شرور کے زیر اثر آجاؤ گے، نفسانی خواہشات غالب آ جائیںگی۔ اور جب نفسانی خواہشات غالب آ جائیں تو پھر انسان ان سب شرور کے زیر اثر آ جاتا ہے جو انسان کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی پناہ سے باہر چلا جاتا ہے۔ اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ جب رحمان سے رشتہ ٹوٹا تو پھر شیطان سے رشتہ جڑ گیا اور جب شیطان سے رشتہ جڑ جائے تو پھر نتیجہ ظاہر ہے کہ وہی ہو گا جو شیطان چاہے گا۔ پس ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ آج کل یہی حالات ہیں۔ پس ہر مومن کو یہ بات سامنے رکھنی چاہیے، ہر مسلمان کو یہ بات سامنے رکھنی چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی نعمتوںکا صحیح استعمال کرنا ہے تو مخلوق کے شر سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا ضروری ہے۔ اس زمانے میں جو اللہ تعالیٰ نے پناہ مہیا فرمائی ہے اس کی آغوش میں آنا ضروری ہے۔ جو صبح صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی آمد سے ظاہر ہوئی ہے اس سے فیض اسی وقت اٹھایا جائے گا جب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوںکو توحید کے پھیلانے اور تقویٰ پر چلنے کے لیے استعمال کرو گے۔ اگر دولت کو عیش و عشرت میں صرف کرنے لگ گئے جیسا کہ ہم اکثر دولت مند مسلمان حکومتوں میں دیکھ رہے ہیں تو شیطان کے ہاتھ میںآنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پھر محروم ہو جاؤ گے اور ہم دیکھتے ہیںکہ ہو رہے ہیں مسلمان۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام مخالف طاقتیں مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لیے، مسلمانوں کی وحدت اور اکائی کو ختم کرنے کے لیے، ان میں پھوٹ اور فتنہ فساد ڈالنے کے لیے ہر قسم کے دجالی حربے استعمال کر رہی ہیں ۔ اس کوشش میں ہیں کہ اسلامی ممالک کبھی ترقی نہ کریں اور بدقسمتی سے اسلامی ممالک کے اپنے اعمال جو کہ خدا تعالیٰ کی عطا کردہ تعلیم کے خلاف ہیں ان مخالفین کی کوششوں کو کامیاب بھی کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کی یہ کوشش ہے ہیں کہ اسلامی ممالک کی دولت اور ان کی طاقت اُن دجالی قوتوں کے ہاتھ میں رہے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ بدقسمتی سے مسلمان حکمران جو ہیں وہ باوجود اللہ تعالیٰ کی واضح تنبیہ کےاور اس دعا کے سکھانے کے کہ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ۔کہ اندھیرہ کرنے والے کی ہر شر سے بچنے کے لیے جب وہ اندھیرا کر دیتا ہے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ یہ اللہ تعالیٰ نے دعا سکھائی اور وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ۔ اور تمام ایسے نفوس کی شرارت سے بچنے کے لیے جو باہمی تعلقات کی گرہ میں جو تعلقات کا جو مضبوط بندھن ہے اس تعلق کو تڑوانے کے لیے کوشش کرتے ہیں پھونکیں مارتے ہیں اور جب پھونکیں مار رہے ہیں تو ایسی حالت میں ہم اپنے رب کی پناہ میں آتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ نے دعا تو سکھائی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان یہ دعا تو پڑھتے ہیں کہ ہم اپنے رب کی پناہ میںآتے ہیں، شیطان سے ہم بچتے ہیں لیکن انہی دجالی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیل بھی رہے ہیں۔ کوئی کسی غیر مسلم حکومت سے امداد طلب کر رہا ہے تو کوئی کسی سے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ یہی اسلام مخالف قوتیں ان ملکوں کے اندر دہشت گرد گروہوں کی مدد کر رہی ہیں۔ پھر مدد پر ہی بس نہیں ہے ، جب ان تمام فتنوں کے پیدا کرنے سے تسلی نہیں ہوئی اور بعض ممالک ان کے ہاتھوں میںنہیں آئے یا ان پر جس طرح وہ قبضہ کرنا چاہتے تھے اس طرح قبضہ نہیں کر سکے، ان کی معیشت کو تباہ و برباد کرنے کے بعد بھی ان کی تسلیاں نہیں ہوئیں تو پھر انہوں نے ایک اور پینترا بدلا۔ مسلمانوں کے دین سے لگاؤ کے کارڈ کو اس طرح استعمال کیا کہ ایک خلافت کا فتنہ کھڑا کر دیا۔ یہ فتنہ مسلمانوں کے اندر سے نہیں پیدا ہوا، یہ بھی دجالی طاقتوں کا پیدا کیا ہوا فتنہ ہے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس بات پر مسلمان متفق ہو جائیں گے اور ہم اس حوالے سے اپنی گرفت مسلمان حکومتوں پر مضبوط کر سکیں گے، ایک اڈہ بنا کے ان کو اپنے مطابق ڈکٹیٹ کر سکیں گے اور جہاں جہاں مدد کی ضرورت ہو گی مدد بھی کرتے رہیں گے ۔ اس کے لیے انہوں نے خلافت کا ایک شوشہ چھوڑا اور خلافت کھڑی کیا، اس کی مکمل، بھرپور مدد کرتے رہے۔ بے انتہا جدید قسم کے اسلحہ سے مدد کرتے رہے۔ مالی مدد بھی کرتے رہے اور کروڑوں ڈالروں کی مدد کرتے رہے یہ لیکن یہ ان کو پتا نہیں تھا کہ خلافت کا قیام اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ نظام کے تحت ہی ہو سکتا ہے اور آخر جب اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد وہ نتیجہ نہیں نکلا جو یہ چاہتے تھے تو پھر امداد بھی بند کر دی۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ باتیں ان کے بہت سارے تجزیہ نگار لکھتے ہیں جو غور کرنے والے ہیں، دیکھنے والے ہیں، واقعات کی حقیقت کو سمجھنے والے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ جو بھی داعش تھی یا خلافت کا ایک نظام انہوں نے چلانے کی کوشش کی تھی وہ ان کی مرہون منت تھی، ان کی وجہ سے ہی چل رہی تھی کیونکہ انہوں نے لکھا ہے ساتھ کہ ان کی مدد کے بغیر یہ لوگ حکومتوں کے خلاف یا حکومت کے خلاف اتنی لمبی جنگ کر ہی نہیں سکتے تھے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ پھر جب یہ بھی دیکھا ایک تو یہ جو مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے وہ حاصل نہیں ہوا دوسرے ان کو ختم کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بنی کہ ان کے اپنے ملکوں پر اس کے اثرات پڑنے لگے جو ان کی دجل کرنے کی کوشش کی تھی کہ کس طرح اسلام کو کمزور کیا جائے۔ بہرحال اصل مقصد ان کا مسلمان ممالک کی طاقت کو کمزور کرنا تھا، ان کی معیشت پر قبضہ کرنا تھا، ان کو اپنے زیر نگیں کرنا تھا اور بعض کی کوشش تھی کہ ہمیشہ ان لوگوں کی دنیا پر اجارہ داری قائم رہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ باتیں جیسا کہ میں نے کہا وہ پہلے بھی کرتے رہے تھے اور اب بھی کرتے رہیں گے اور کرتے رہتے ہیں۔ کبھی حکومتوں کو لڑا کر اور کبھی اور حیلے تلاش کر کے ان کی کوشش یہ ہے کہ ہمارا قبضہ اس ریجن میں رہے اور دوسرے یہ کہ مسلمان کبھی متحد نہ ہوں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آئر لینڈ کے دورے پر ایک جرنلسٹ نے مجھ سے سوال کیا کہ پہلے دہشت گرد یا باغی گروپ حکومتوں کے خلاف اٹھتے تھے اس لیے کامیاب نہیں ہوتے تھے اب تو خلافت کا نظام قائم ہو گیا، اب تو مسلمان خلافت کے نام پر اس کے ارد گرد جمع ہو رہے ہیں تو مجھ سے اس نے پوچھا کہ تمہارا کیا خیال ہے؟ میں نے اس وقت اسے یہی کہا تھا کہ یہ بھی باقی شدت پسند گروپوں کی طرح یا دہشت گردوںکی طرح ایک گروپ ہے اور جس طرح پہلے گروپ سوائے اس کے کہ بدامنی پیدا کریں اَور اس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کر سکے یہ بھی کچھ حاصل نہیں کر سکیں گے اور ان کا انجام ان سے زیادہ خطرناک ہو گا اور اپنی موت آپ مر جائیں گے کیونکہ خلافت کو قائم کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تین چار سال کے اندر ہی جس خلافت کا بڑا شور تھا وہ ختم ہو گئی۔
اور اب تھوڑی سی باقیات رہ گئی ہیں جو اس کی اس کے بارے میں ان کے تبصرے آتے رہتے ہیں کہ فلاں جگہ ایک پاکٹ بن گئی، فلاں جگہ بن گئی۔ عین ممکن ہے کہ ان ملکوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے اس نام نہاد گروپ کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے نہیں تو ان کے کنٹرول کے بغیر وہ اس طرح survive کر ہی نہیں سکتے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہوشیار کر دیا اور ساتھ دعا بھی سکھائی کہ آخری زمانے میں جب خاتم الخلفاء کا دور آئے اس وقت ظلمات اور اندھیرے پھیلانے والی طاقتوں سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دینے کی کوشش بھی کرنا اور دعا بھی کرنا۔ مسلمانوں کی اکائی اور اتحاد کو پہلے سے بڑھ کر توڑنے کی کوشش کی جائے گی اور یہی جیسا کہ میں نے کہا ہم دیکھ رہے ہیں کی جا رہی ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی دعا کرنا اور وہ صبح صادق جو اسلام کی نشأۃ ثانیہ کی صبح صادق ہے جو مسیح موعودؑ کے آنے سے طلوع ہوئی ہے، جس میں اس سراج منیر نے دوبارہ دنیا میں چمکنا ہے جو دنیا کو روشن کرنے کے لیے چودہ سو سال پہلے آیا تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری پناہ مانگتے ہوئے، میری پناہ میںآتے ہوئے اس آنے والے خاتم الخلفاء کے ساتھ جڑ جانا۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمانوںکی اکثریت اس الٰہی تنبیہ کی پرواہ نہیں کر رہی۔ اللہ تعالیٰ نے جو دعائیں بتائی ہوئی ہیں ان پہ غور نہیں کر رہی اور دشمن کے جال میں آ کر اندھیروں میں گرتی چلی جا رہی ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ شیطان ہر وقت انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ احمدیوں کو بھی یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم محض مان کر محفوظ ہو گئے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے تینوں قُل رات کو سوتے وقت پڑھنے کی تلقین فرمائی تھی کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رکھنے کے لیے دعا بھی کرتے رہو اور خلافت کے فیض سے فائدہ اٹھانے کے لیے خلافت کے ساتھ ہمیشہ جڑے بھی رہو اور اس کی اطاعت میں بھی کامل ہونے کی کوشش کرو، حتی المقدور اطاعت کرو، فرمانبردار ہو جاؤ ورنہ حاسد تم پر بھی حملہ کر سکتے ہیں جو مخالف بن کر بھی حملہ کر سکتے ہیں اور منافقانہ رویہ دکھا کر بھی تمہیں مہدی معہود کے زمانے کی ترقیات اور جاری خلافت کے فیض سے محروم کرنے کی کوشش کریں گی۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ان کو یہ حسد ہے کہ یہ ترقی کیوں کر رہے ہیں۔ ہمارے جال میں کیوں نہیں آتے ۔کئی جگہ ہمارے بعض لوگوں کے ساتھ ان کے بعض ڈپلومیٹس نے اظہار کیا کہ ہم نے باقی لوگوں کو، مسلمانوں کے گروپوں کو لیڈروں کو تو قابو کر لیا لیکن احمدی جس طرح ہم چاہتے ہیں ہمارے قابو نہیں آئے۔ اگر کوئی منافق یا کمزور ایمان آیا بھی تو اس کی حیثیت کوئی نہیں ہے کیونکہ یہ کر بھی نہیں سکتے قابو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا تھا کہ فری میسنز تم پر مسلط نہیں کیے جائیں گے، یہ دجالی طاقتیں کبھی غالب نہیں آ سکتیں۔ کوششیں ان کی رہیں گی کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو آپس میں توڑتے رہیں اور جماعت میں مختلف حیلوں بہانوں سے، مختلف طریقے سے، ہمدرد بن کے مسلمان بن کے یہ فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ پس اگر ان فتنوں سے کوئی بچا سکتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا رب ہی ہے جو بچائے گا۔ وہ رب بچائے گا جس نے صبح صادق طلوع کر دی۔ جس نے مسیح موعود کو بھیج دیا۔ جس نے ہمیں بتا دیا کہ تمام دنیا کا رب وہ رب ہے جو رب الناس ہے اور پس اگر بچنا چاہتے ہو تو ایک ہی ہستی کو اپنا رب مانو۔ اپنے دلوں کو ٹٹولو اور دیکھو کہ کیا واقعہ میں ہم وہ خدا جو ایک خدا ہے، جو رب الناس ہے، جو تمام دنیا کو پالنے والا ہے اس کی پناہ میں آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ بے شک خدا تعالیٰ نے ہماری مختلف حالتوں میں ہماری پرورش کے لیے ذرائع بنائے ہیں لیکن یہ سب بھی رب الناس کی مخلوق ہیں۔ سورت ناس میں اس کے بارے میں بھی وضاحت فرما دی کہ پرورش کے لیے اللہ تعالیٰ نے والدین کو ایک ذریعہ بنایا ہے۔ ہم ان کے شکرگزار اس لیے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا حکم کہ حکومت وقت ،انصاف پسند حکومت اگر ہماری ضروریات پوری کرتی ہے، ہمیں آزادیاں دیتی ہے یا پرورش کا کوئی بھی اور ذریعہ ہیں تو اس لیے کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے ان کی شکر گزاری کرو لیکن اصل رب الناس وہی واحد و یگانہ خدا ہے، اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا کہ رب حقیقی کو کبھی نہ بھولو جو رب الناس ہے۔
پھر فرمایا کہ مَلِکِ النَّاسِکی پناہ میں آنے کی دعا کرو کہ سب بادشاہوں کا بادشاہ اور سب سے افضل اور زمین و آسمان کا مالک خدائے واحد و یگانہ ہے۔ یہ نعمتیں تمہیں دنیاوی بادشاہ نہیں دے رہے، یہ نعمتیں تمہیں خدا تعالیٰ دے رہا ہے بلکہ جو دنیاوی بادشاہ بنے بیٹھے ہیں ان کو بھی خدا تعالیٰ یہ سب کچھ دیتا ہے۔ سورت اخلاص میں اس کی وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے جو تمام صفات کا مالک ہے اور کامل طور پر یہ صفات رکھتا ہے اور اس کے سہارے کے بغیر چاہے کوئی بادشاہ بھی ہو نہیں رہ سکتا ۔ یہ دنیاوی بادشاہ ناراض ہو جائیں یا اپنی مرضی کے خلاف کوئی بات ہو جائے تو انصاف کے تقاضے بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ ظلم و بربریت کی انتہا بھی کر دیتے ہیں۔ پس اللہ فرماتا ہے کہ تم ایسے زمانے میں جب کہ ظالم بادشاہ اپنے شرور میں بڑھ رہے ہوں تو جو اصل مالک ہے اس کی پناہ میں آنے کی دعا کرو۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ احمدیوں کو خاص طور پر اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ جو مسلمان ملکوں کے سربراہ ہیں، حکومتیں ہیں یہ اپنے آپ کو مالک کل سمجھتی ہیں اور احمدیوں کے خلاف ایسے شر انگیز قانون بنا رہے ہیں کہ کس طرح ہم احمدیوںکو حقیقی اسلام پر قائم رہنے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں رہنے سے روکیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے حالات میں اگر کوئی پناہ کی جگہ ہے، اگر کوئی حقیقی بادشاہ ہے جس کی پناہ میں تم آ سکتے ہو تو وہ ملک الناس ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ پس اس کی پناہ میں آنے کی کوشش کرو۔ وہ تمام انسانوں کا بادشاہ ہے۔ بادشاہ اور حکومتیں بھی اسی کے زیر نگیں ہیں۔ وہی ہے جو ان دنیوی بادشاہوں کی شرارت سے ہمیں بچا سکتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں اِلٰہِ النَّاسِ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ حقیقی معبود اللہ تعالیٰ ہی ہے اور یہ دعا کرو کہ مجھے اے اللہ! اپنی پناہ میں لے کر ان جھوٹے معبودوں کے شر سے بچا اور ان لوگوں کے شر سے بچا جو ہمیں اپنے اصلی معبود سے ہٹا کر ان راستوں پر ڈالنا چاہتے ہیں جہاں ظاہری الفاظ میں تو بے شک نہ ہو لیکن عملاً وہ اپنے آپ کو معبود سمجھتے ہیں یا ان کے لوگوں کے چیلے چانٹے ہیں اور ایجنٹ ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ احمدی بھی اس طرح عبادت کریں جس طرح ہم چاہتے ہیں یعنی کہ احمدیوں کی عبادتیں بھی ان کے کہنے کے مطابق ہوں، ان کی مرضی کے مطابق ہوں۔ اور یہی کچھ احمدیوں کے ساتھ پاکستان میں ہو رہا ہے۔ یہی بعض اَور مسلمان ملکوں میں ہو رہا ہے۔ یہی سعودی بادشاہ چاہتے ہیں کہ رب بھی انہیں بنایا جائے، بادشاہ بھی انہیں بنایا جائے اور عبادتیں بھی ان کے کہنے کے مطابق کی جائیں۔ مخالفین اسلام نے تو ظاہری اِلٰہ بنائے تھے، معبود بنائے تھے اور ان کو بنا کر یہ کہا کہ یہ بھی الوہیت میں حصہ دار ہیں لیکن ان لوگوں نے بڑے طریقے سے اپنی رعایا کو ایسا عبد بنانا چاہا ہے جو ان کی اجازت کے بغیر یا ان کے بتائے ہوئے طریقے کے بغیر خدائے واحد کی عبادت بھی نہیں کر سکتے۔ چنانچہ جیسا کہ میں نے کہا کہ یہی کچھ احمدیوں کے ساتھ ہو رہا ہے کہ جب تک جس طرح ہم کہتے ہیں تم اس طرح نہیں کرو گے تو تم نماز نہیں پڑھ سکتے، مسجد میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے جمع نہیں ہو سکتے۔ گویا دنیاوی لحاظ سے بھی اور دینی لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ کے حکم کو نہیں ماننا بلکہ ان کے حکم کو ماننا ہے۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے صبح صادق طلوع فرمائی ہے اس کا انکار کرو۔ فرمایا ایسے وقت میں معبود حقیقی کے آگے مزید جھکو، اس کی پناہ میں آؤ تا کہ تمہاری دعاؤں اور تمہاری آہ و بکا سے اللہ تعالیٰ تمہیں ان نام نہاد معبودوں سے نجات دے، ہمیں ان مذہبی پیشواؤں کے چنگل سے نجات دے جو اپنے مطابق ہماری عبادتوںکو بھی ادا کروانا چاہتے ہیںاور اپنی پناہ میں لے لے۔
حضورِ انور نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتا ہوں ہر وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے جو ہر قسم کے وسوسے ڈال کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ اور جو انسانوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرتا ہے مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ۔ خواہ وہ مخفی رہنے والے لوگ ہوں یا عوام الناس۔ پس اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ کر ان لوگوں کے ظاہری حملوں سے بھی بچا جا سکتا ہے اور چھپے ہوئے حملوں سے بھی بچا جا سکتا ہے، منافقین سے بھی بچا جا سکتا ہے اور ظاہری حملہ آوروں سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا اس لیے سکھائی ہے کہ جب ان حملہ آوروں کا حملہ ہو یا دوسرے لفظوں میں ان شیطانوں کا حملہ ہو جو ظاہری حملے بھی کریں اور چھپ کر بھی حملے کریں تو اس وقت پھر تم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرو۔ یہ لوگ چھپ کر مختلف حیلوں بہانوں سے وسوسے ڈال کر بھی حملے کریں گے۔ یہ لوگ نام نہاد بڑے لیڈر علماء میں سے ہوں یا عام لوگ ہوں، اُن کے چیلے چانٹے ہوں ان کے شر سے صرف اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ کر ہی بچا جا سکتا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ پھر یہ شیطان صفت لوگ جو ہیں یہ عامۃ المسلمین کے دلوں میں بھی وسوسے پیدا کرتے ہیں اور بالکل ہی ایسی باتیں لوگوں میں مشہور کر رکھی ہیں جن کا کسی احمدی کے ذہن میں شائبہ تک بھی نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ خناس شیطان کے ناموں میں سے ایک نام ہے جب وہ مکر و فریب اور وسوسہ اندازی سے کام لیتا ہے اور یہی آج ان لوگوں کا کام ہے جو اسلام کے کھلے دشمن ہیں کہ اسلام کے خلاف دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہو رہی ہے۔ گو مسلمانوں کے عمل بھی اس میں شامل ہیں اور یہی ان نام نہاد علماء کا کام ہے جو مسیح موعودؑ کے انکار کے لیے عوام الناس کو احمدیوں کے خلاف بھڑکانے کے لیے مختلف وسوسے ڈالتے رہتے ہیں کہ یہ اسلام کو نہیں مانتے۔ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سمجھتے ہیں، بڑا مقام دیتے ہیں، ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے اور آج کل پاکستان میں تو خاص طور پر اس میں بہت زیادہ تیزی آئی ہوئی ہے۔ پس ایسے حالات میں ہمیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میری پناہ میں آنے کے لیے اپنے عمل سے بھی کوشش کرو اور دعا بھی کرو تا کہ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے محفوظ رکھے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ پس اس زمانے کے شرور سے محفوظ رہنے کے لیےتوحید پر قائم رہنے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لیے دعاؤں کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اس کے بعد حضورِ انور نے بعض دعاؤں کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ
٭… سب سے پہلے تو دعا ہم درود سے شروع کرتے ہیں کہ
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ
٭… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کے لیے دعا کریں۔ پھر یہ کہ جو مسلمان ہیں وہ حقیقی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی آمد کے مقصد کو پہچاننے والے ہوں اور آپؑ کو قبول کرنے والے ہوں۔
٭… تمام احمدیوں کے لیے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو بھی ہر قسم کے شرور سے محفوظ رکھے۔
٭… عالم اسلام کے لیے عمومی دعائیں ہیں کہ خدا انہیں باہمی اتحاد اور ہمدردی عطا فرمائے۔ جیسا کہ میں نے ابھی کہا تھا کہ ان کی پھوٹ کی وجہ سے دشمن ہی فائدہ اٹھا رہا ہے لیکن اس بات کو یہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کا جو ان کے ساتھ سلوک ہے اس کو دیکھتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ خدا کرے کہ یہ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے توبہ کرتے ہوئے اس کی رحمت کے طالب ہوں۔
٭… نظام جماعت عالمگیر کے لیے اور تمام احباب و خواتین اور جماعت عالمگیر کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سب کو حفاظت میں رکھے۔ ہر شر سے بچائے۔ ثبات قدم عطا فرمائے۔ نظامِ خلافت سے ہر ایک کو وابستہ رکھے۔
٭… پھر اسی طرح نظام جماعت میں جو عہدیدار ہیں اور عام احمدی ہیں جن کے پاس کوئی جماعتی خدمت نہیں لیکن ایک احمدی کی حیثیت سے وہ عہدیدار کی عزت کرنے والے ہوں اور عہدیدار اپنے عہدے کو صرف عہدہ سمجھ کر نہ بیٹھ جائیں بلکہ حقیقت میں اس کا حق ادا کرنیو الے ہوں۔ اس سال نئے انتخابات بھی ہو رہے ہیں مختلف جگہوں پر نئے عہدیدار بن رہے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے عہدیدار جماعتوں کو مہیا فرمائے جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والے ہوں اور بے نفس ہو کر کام کرنے والے ہوں اور خدمت کے جذبے سے ہر احمدی کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں۔
٭… دجال کے فتنے کے شر سے بچنے کے لیے دعا کریں۔ خدا تعالیٰ ان کی چالوں اور خطرناک منصوبوں سے ہمیں بچا کے رکھے، ان کے برے ارادوں سے ہمیںبچائے۔
٭…جنگ کے خطرات بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے اور یہ بڑی طاقتیں صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے دنیا پر جنگ سہیڑنے کی کوشش کر رہی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو عقل سے اور جنگ کے نقصانات سے دنیا کو محفوظ رکھے۔
٭… اشاعت اسلام اور احمدیت کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں موقع دے کہ ہم حقیقت میں تکمیلِ اشاعتِ ہدایت کا حق ادا کرنے والے بنیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی بعثت کا مقصد تھا
٭… شہدائے احمدیت کے لیے اور ان کے پسماندگان کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خود حفاظت فرمائے اور ہر ایک پریشانی سے ان لوگوں کو بچائے۔
٭… اسیران راہ مولیٰ کی جلد آزادی کے لیے بھی دعا کریں۔ ان کے سائے سے عارضی طور پر محروم اہل و عیال کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو خوشیاں ان کو واپس لوٹائے۔
٭… پھر انفرادی طور پر جو لوگ مختلف مسائل میں گرفتار ہیں ان کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات کو دور فرمائے۔
٭… ہر قسم کے بیماروں کو شفا عطا فرمائے۔
٭… جن لوگوں پر ان کی بیوقوفیوں کی وجہ سے یا نااہلیوں کی وجہ سے قرضوںکے بوجھ بڑھ چکے ہیں اور مختلف چٹیاں بڑھ چکی ہیں اللہ تعالیٰ ان پر بھی رحم فرمائے۔ اس قسم کے خطوط روزانہ آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات دور کرے۔
٭…سب مصیبت زدگان کے لیے جو سیاسی ظلموں کا نشانہ بنائے جا رہے ہوں یا مذہبی ظلموں کا نشانہ بنائے جا رہے ہوں یا قومی تعصبات کا نشانہ بنائے جا رہے ہوں ان سب کے لیے دعا کریں۔ اب عرب قوم میں بھی اللہ کے فضل سے جس طرح احمدیت پھیل رہی ہے وہاں بھی ان کو مذہبی بنیاد پر ظلموں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور بعض قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کر رہے ہیں ان کے لیے دعا کریں اللہ تعالیٰ جلد رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔
٭…بلاامتیاز مذہب و ملت اقتصادی بدحالی کے شکار مظلوموں کے لیے دعا کریں۔
٭…پھر مختلف مردوں اور عورتوں کے ازدواجی اور خاندانی جھگڑوں سے نجات کے لیے دعا کریں۔ ان کی بھی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ مردوں اور عورتوں دونوں کو عقل سے کہ وہ اپنے گھروں کو بسانے والے ہوں۔
٭…بیوگان اور یتامیٰ کے لیے اور حقوق سے محروم لوگوں کے لیے بھی دعا کریں۔
٭…ایسی بچیوں کے لیے دعا کریں جن کے رشتوں میں تاخیر ہو رہی ہے اور بڑی پریشان ہیں وہ خود بھی اور ان کے والدین بھی۔
٭…بے اولاد لوگوںکے لیے ، طلباء کے لیے، آج کل امتحان بھی ہو رہے ہیں اور مختلف لوگوں کے خطوط آتے ہیں ۔
٭…بیروزگاروں کے لیے دعا کریں۔
٭…سب کاروباری لوگوں کے لیے، مزدوروں کے لیے دعا کریں اسی طرح مختلف کاروباروں میں لوگ ہیں، زمیندار ہیں ان کے لیے دعا کریں۔ مقدمات میں پھنسے ہوئے لوگ ہیں جو دعا کے لیے لکھتے رہتے ہیں ان کے لیے دعا کریں۔
٭…درویشان قادیان اور اہل ربوہ کے لیے دعا کریں اللہ تعالیٰ وہاں بھی آنے جانے کے راستے کھولے۔ لندن سے اسلام آباد ہجرت ہوئی ہے تومسجد فضل کے ارد گرد رہنے والے لوگوں نے شور مچا دیا ہے کہ ہم علیحدہ ہو گئے، بڑی افسردگی ہو گئی، خاموشی چھا گئی اور ہم اداس ہو گئے تو ان لوگوں کا خیال کیوں نہیں آتا جو ربوہ میں رہتے ہیں، جو پچھلے 35سال سے اس امید پر بیٹھے ہوئے ہیں کہ اب حالات اچھے ہوں اور اب حالات اچھے ہوں اور خلیفہ وقت کا وہاں واپس آنا ہو اس لیے ان کے لیے بہت دعا کریں۔
٭…اسلام کے نام پر ستائے جانے والوں کے لیے دعا کریں جن میں سے سب سے پہلے تو جماعت احمدیہ کے افراد ہی ہیں مگر اس کے علاوہ بہت سارے دوسرے خِطوں میں بھی لوگ ہیں ان کے لیے بھی دعا کریں۔
٭…عالم اسلام کے لیے تو میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ بہت زیادہ مسائل میں الجھ گئے ہیں اور دجال ان پر قبضہ کرتا چلا جا رہا ہے ان کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں وہ نور بخشے جو ان کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے جس کے بغیر ان کی راہ نجات نہیں۔
٭…پھر عمومی طور پر دکھوں سے چُور انسانیت کے لیے دعا کریں۔
٭…جماعت کے ابتلاؤں کے دور کے ختم ہونے کے لیے خصوصی دعا کریں۔
٭…پھر تحریکِ جدید اور وقفِ جدید اور دیگر مالی تحریکات میں قربانی کرنے والے مخلصین کے لیے دعا کریں۔ ان کی بھی فہرستیں آ رہی ہیں جنہوں نے کوشش کر کے اپنے چندوں کی ادائیگی کی ہے۔
٭…پھر تمام دنیا میں جماعت احمدیہ کے خدمت پر کارکنان اور کارکنات ہیں ان کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا عطا فرمائے۔
٭…یہاں بھی اور دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ایم۔ٹی۔اے کے کارکنان کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اجر دے، ان کو نیکیوں پر بھی قائم رکھے اور خدمت کی مزید توفیق دے۔
٭…پہلے تو صرف ایم۔ٹی۔اے تھری العربیہ تھا اب افریقہ میں بھی، گھانا میں سٹوڈیو بڑا اچھا کام کر رہا ہے اس کے علاوہ بورکینا فاسو میں اب شروع کیا ہے پھر امریکہ ،کینیڈا میں بھی تنظیم نَو ہوئی ہے۔ انڈونیشیا اور جرمنی میں بھی اب نئے سرے سے ایم۔ٹی۔اے نے کام کرنا شروع کیا ہے، اچھا کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق عطا فرمائے کہ اپنے اپنے ملکوں میں اور مختلف زبانوں میں یہ اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے والے ہوں اور جلد سے جلد تمام دنیا کو اسلام کی آغوش میں لانے والے بنیں۔ ان کی کوشش میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے۔
٭…مختلف حوادث میں گرفتار جو لوگ ہیں دنیا کے کسی خطے میں بھی ہوں ان کے لیے دعا کریں۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
حضورِ انور نے مزید دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ آجکل یہ دعا بھی بہت کریں:
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِم
کہ اے اللہ ہم تجھے ان کے سینوں میں رکھتے ہیں یعنی تیرا رعب ان کے سینوں میں بھر جائے اور ہم ان کے شر سے محفوظ رہیں۔
پھر یہ ایک دعا ہے کہ
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَرَبُّ الْاَرْضِ
وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْم
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ عظمتوں والا اور بڑا ہی بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہی عرش کا رب ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو کہ آسمان و زمین اور عرش کریم کا رب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں معبود حقیقی کی صحیح عبادت کرنے والا بنائے۔
پھر ایک یہ دعا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی:
اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ، وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ،
وَالعَمَلَ الَّذِيْ يُبَلِّغُنِيْ حُبَّكَ، اللّٰهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ
أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَّفْسِيْ، وَأَهْلِيْ، وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ
کہ اے میرے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور ان لوگوں کی محبت جو تجھ سے پیار کرتے ہیں اور اس کام کی محبت جو مجھے تیرے محبت تک پہنچا دے۔ اے میرے خدا ایسا کر کہ تیری محبت مجھے اپنی جان اپنے اہل و عیال اور ٹھنڈے شیریں پانی سے زیادہ پیاری اور اچھی لگے۔
پھر ایک یہ دعا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ
یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ
اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔
پھر ایک یہ دعا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ
اللّٰهُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ،
وَلا تُهْلِكْنَا بِعَذَابِكَ، وَعَافِنَا قَبْلَ ذَالِكَ
اے اللہ تو ہمیں اپنے غضب سے قتل نہ کرنا اپنے عذاب سے ہمیں ہلاک نہ کرنا اور اس سے پہلے ہمیں بچا لینا۔
پھر ایک یہ دعا ہے آپؐ کی کہ
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ
وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَفُجَاءَۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِیْعِ سَخَطِکَ
اے اللہ! میں تیری نعمت کے زائل ہو جانے تیری عافیت کے ہٹ جانے تیری اچانک سزا اور ان سب باتوں سے پناہ مانگتا ہوں جن سے تو ناراض ہو۔
اس کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض دعاؤں کا تذکرہ فرمایا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا کہ آجکل آدمؑ کی دعا پڑھنی چاہیے۔ یہ دعا اول ہی مقبول ہو چکی ہے یعنی یہ قبولیت کی دعا اللہ تعالیٰ نے سکھائی تھی کہ
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا
لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ
اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور گھاٹا پانے والوں میں ہوں گے۔
پھر ایک یہ دعا ہے، حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد رؤیا میں دیکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میری جماعت کو یہ دعا بہت زیادہ کرنی چاہیے اور یہ ان کو کہہ دو یہ دعا کریں کہ
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا
وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ
اے ہمارے رب! ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دینا بعد اس کے جو تو نے ہمیں ہدایت دی اور ہمیں اپنے حضور سے رحمت عطا کرنا یقینا تو بہت عطا کرنے والا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ خاص طور پر آج کل انسان دنیاوی فتونں میں پڑ پڑ سکتا ہے اس لیے خاص دعا کرنی چاہیے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہماری جماعت ہر نماز کے آخری رکعت میں بعد رکوع مندرجہ ذیل دعا بکثرت پڑھے کہ
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً
وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی کامیابی عطا کر اور آخرت میں بھی کامیابی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ پھر آپؑ کی بعض الہامی دعائیں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے جو آپؑ نے کہا پڑھنی چاہیے کہ
رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ
رَبَّنَا اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَ
اے ہمارے رب! ہم نے ایک منادی کی آواز سنی جو ایمان کی طرف بلاتا ہے اور اے رب! ہم اس پر ایمان لائے پس تو ہمیں بھی گواہوں میں لکھ لے۔
پھر ایک آپ کی ایک اور الہامی دعا ہے جس کا ترجمہ میں پڑھ دیتا ہوں کہ
اے میرے رب! مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر۔ اے میرے رب! مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو خیر الوارثین ہے۔ اے میرے رب! امت محمدیہ کی اصلاح کر۔ اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کر دے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔
پھر ایک اور آپؑ کی الہامی دعا ہے ،اس کا ترجمہ یہ ہے عربی بھی میں پڑھ دیتا ہوں کہ
یٰرَبِّ فَاسْمَعْ دُعَائِیْ وَمَزِّقْ اَعْدَائَکَ وَاَعْدَائِیْ
وَاَنْجِزْ وَعْدَکَ وَانْصُرْ عَبْدَکَ وَاَرِنَا اَیَّامَکَ
وَشَھِّرْ لَنَا حُسَامَکَ وَلَا تَذَرْ مِنَ الْکَافِرِیْنَ شَرِیْرًا
اے میرے رب العزت! میری دعا سن اور اپنے دشمنوں اور میرے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر اور اپنا وعدہ پورا کر اور اپنے بندے کی مدد کر اور ہم کو اپنے عذاب کے دن دکھا اور اپنی تلوار ہمارے لیے سونت کر دکھا اور نہ چھوڑ کافروں میںسے کوئی شریر۔
پھر آپؑ کی ایک دعا ہے کہ
اے رب العالمین! میں تیرے احسانوںکا شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔ تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے۔ تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اورمجھ سے ایسے عمل کروا جن سے تُو راضی ہو جائے۔ میں تیرے وجہ ِکریم کے ساتھ اس بات سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما!رحم فرما! رحم فرما! اور دنیا و آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کیونکہ ہر فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین
پھر ایک دعا ہے آپؑ کی کہ
اے میرے خدا! میری فریاد سن کہ میں اکیلا ہوں۔ اے میری پناہ! اے میری سِپر! میری طرف متوجہ ہو کہ میں چھوڑا گیا ہوں۔ اے میرے پیارے! اے میرے سب سے پیارے! مجھے اکیلا مت چھوڑ۔ میں تیرے ساتھ ہوں اور تیری درگاہ میں میری روح سجدہ میں ہے۔
اس کے بعد حضورِ انور نے ان الفاظ کے ساتھ دعا کروائی کہ آئیں اب مل کے دعا کر لیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے۔ دعا کر لیں۔ (دعا)
٭٭٭
اس بابرکت محفل کا اختتام ایک بج کر چھپن منٹ پر دعا کے ساتھ ہوا۔اس کے بعد حضورِ انور نے اعلان فرمایا کہ دس منٹ کے بعد نمازِ ظہر اد کی جائے گی اور حضورِ انور اپنی رہائش گاہ تشریف لے گئے۔ مختصر وقفے کے بعد نمازِ ظہر اداکی گئی۔
آج کی اس بابرکت مجلس میں ساڑھے پانچ سو کے قریب مردوحضرات جبکہ اڑھائی سو کے قریب خواتین کل ملا کر آٹھ سو کے قریب افرادشامل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ تمام شاملین اور دنیا بھر کے ناظرین کے حق میں حضورِ انور کی دعائیں قبول فرمائے اور ہم سب کو حضورِ انور کے ارشادات کے موافق اپنے اندر عملی تبدیلی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭