سو سال قبل 19؍فروری1921ء کومغربی افریقہ کے ملک سیرالیون میں احمدیت کے پہلے صحابی مبلغ کی آمد (قسط دوم۔ آخری)
سیرالیون کی سالانہ احمدیہ کانفرنسوں کےلیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے خصوصی پیغامات
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے سیرالیون کی احمدیہ کانفرنسوں کے لیے اپنی زندگی میں تین پیغام بھجوائے جن سے اس ملک کے مبلغین اور دوسرے احمدیوں کی روحِ عمل میں بہت اضافہ ہوا۔ اور ان کی تبلیغی سرگرمیاں پہلے سے بھی بڑھ گئیں۔
پہلا پیغام
جماعت احمدیہ سیرالیون کی تیسری سالانہ کانفرنس 13؍ تا 16؍دسمبر1951ء کو منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کے لیے حضورؓ نے مندرجہ ذیل پیغام بذریعہ تار ارسال فرمایا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
برادران جماعت احمدیہ ملک سیرالیون
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
یہ پیغام میں آپ کے ۱۹۵۱ء/ ۱۳۳۰ ھش کے جلسہ سالانہ کے لئے بھجوارہا ہوں۔ آپ کے ملک میں مغربی افریقہ کے ممالک میں سب سے آخر میں تبلیغ شروع ہوئی ہے۔ لیکن آپ کا ملک چاروں طرف سے ایسے علاقوں سے گھرا ہوا ہےجو کہ احمدیت سے ناآشنا ہیں۔ پس آپ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ اور آپ کے لئے کام کے مواقع بھی بہت پیدا ہو جاتے ہیں۔ پس آپ لوگ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنی محنت اور اپنی کوشش کو بڑھائیں اور نہ صرف اپنے علاقہ میں احمدیت کو پھیلانے کی کوشش کریں۔ بلکہ لائبیریا اور فرنچ افریقن علاقوں میں بھی تبلیغ کا کام اپنے ذمہ لیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ لوگ اپنے فرائض کو ادا کریں گے تو آپ کیلئے آخرت میں بہت ثواب جمع ہو جائے گا۔ اور اس دنیا میں آپ شمالی افریقہ کے رہنما بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اسلام کی تعلیم پر سچے طور پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اخلاص اور قربانی اور اتحاد اور نظام کے احترام کا مادہ آپ میں پیدا کرے۔
خاکسار (دستخط) مرزا محمود احمد
خلیفة المسیح الثانی ۵۱۔ ۱۲۔ ۳
دوسرا پیغام
5، 6، 7؍دسمبر1953ء کو پانچویں سالانہ کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کے لیے حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے یہ مختصر مگر جامع پیغام بھیجا کہ
’’UNITE AND WORK GOD WITH YOU‘‘
یعنی متحد ہوکر کام کرو۔ خداتعالیٰ تمہارے ساتھ ہو۔
تیسرا پیغام
دسمبر 1958ء میں حضورؓ نے تیسرا روح پرور پیغام بھیجا جس کا متن حسب ذیل ہے۔
’’برادران جماعت احمدیہ سیرالیون
السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ
میں نے سنا ہے کہ آپ کی کانفرنس منعقد ہورہی ہے۔ احباب تو چاروں طرف سے آئیں گے ہی۔ مگر خالی احباب کا جمع ہونا مفید نہیں ہوتا۔ جب تک ان کے اندر للہیت اور اخلاص پیدا نہ ہو۔ پس آپ لوگ اس کا انتظام کریں کہ مبلغین اخلاص اور للہیت کے پیدا کرنے کی تلقین کریں۔ اور جماعت جس جوش کے ساتھ آئے اس سے سینکڑوں گنا زیادہ جوش کے ساتھ واپس جائے تاکہ ملک کے چپہ چپہ میں احمدیت پھیل جائے۔
آپ کا ملک بہت وسیع ہے۔ ابھی اس میں اشاعت حق کی بہت ضرورت ہے۔ جلدی اس طرف توجہ کریں اور ملک کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کریں تاکہ آپ لوگ اسلامی دنیا میں ایک مفید عنصر ثابت ہوسکیں۔ خالی سیرالیون اسلامی دنیا میں کوئی نقش نہیں چھوڑ سکتا جبکہ پہلے وہ ایک عقیدہ پر قائم نہ ہو۔ اور پھر باقی مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا کر اسلام کی خدمت کرے۔
پس اس مقصد کو آپ کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ اور اس کے لئے جدوجہد کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ آمین۔ والسلام
خاکسار۔ مرزا محمود احمد
خلیفة المسیح الثانی۔ یکم دسمبر 1958ء‘‘
جیسا کہ ان پیغامات سے بھی واضح ہے حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی توجہ سیرالیون کی طرف ہمیشہ خاص طور پر رہی اور آپ اس دن کو دیکھنے کے متمنی تھے جبکہ سیرالیون کے باشندوں کی اکثریت احمدیت کی آغوش میں آجائے گی چنانچہ حضورؓ نے مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری کی ایک چٹھی (مرقومہ 29؍مارچ 1953ء)پر ارشاد فرمایا۔
’’تبلیغ کو وسیع کریں بہت سست رفتار ہے۔ اب تک پانچ سات لاکھ آدمی وہاں ہو جانا چاہئے تھا۔ ان ملکوں کی حالت عرب کی طرح ہے پاکستان کی طرح نہیں۔ ‘‘
اسی طرح مولوی محمد صدیق صاحب کی ایک اور رپورٹ پر ارشاد فرمایا:
’’ہم تو خواہش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ جلد از جلد سارا سیرالیون احمدی ہو جائے۔ ‘‘
(خط 19؍مئی 1955ءبنام مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری)
اس ارشاد کے چند ماہ بعد مولوی صاحب موصوف کی ایک تبلیغی رپورٹ حضورؓ نے ملاحظہ فرمائی اور 14؍اکتوبر1955ء کو تحریر فرمایا:
’’تقریروں کی اطلاع تو آجاتی ہے۔ یہ کب اطلاع آئے گی کہ سیرالیون کے اکثر آدمی احمدی ہوگئے ہیں۔ ‘‘
ماہنامہ افریقن کریسنٹ کا اجرا اور نذیر مسلم پریس کا قیام
مئی اور جولائی 1955ء کے دو مہینے دارالتبلیغ سیرالیون کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ مئی 1955ء میں مشن کی طرف سے مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کی ادارت میں ماہنامہ ’دی افریقن کریسنٹ‘ جاری کیا گیا اور مغربی افریقہ کے مسلمانوں میں بیداری کا موثر ذریعہ ثابت ہوا۔ جولائی 1955ء کو حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی مبارک خواہش کی تعمیل اور مولوی نذیر احمد علی صاحبؓ کی یادگار میں بو کے مقام پر ’’نذیر مسلم پریس‘‘خریدا گیا۔ اور سیرالیون کے ایک مخلص اور مخیر دوست الحاج سید علی روجز صاحب نے اپنا ایک عالیشان مکان جو اس وقت ایک ہزار پونڈ سے بھی زیادہ مالیت کا تھا پریس کے لیے وقف کردیا۔ روجز صاحب قبل ازیں پریس کے لیے گیارہ سو پونڈ کا گرانقدر عطیہ بھی پیش کرچکے تھے۔
عیسائی پادریوں کو ایک اور چیلنج
فروری1959ء کے شروع میں انگلینڈ سے عیسائی پادریوں کا ایک وفد سیرالیون آیا۔ وفد نے فری ٹاؤن میں دعویٰ کیا کہ وہ لنگڑے لولے اور اندھے لوگوں کو یسوع مسیح کے طفیل تندرست کرسکتے ہیں۔ بعض لوگوں نے جو اندرونی طور پر ان سے ملے ہوئے تھے اعلان بھی کردیا کہ انہیں ان پادریوں کی دعاؤں کی وجہ سے معجزانہ طور پر شفا ملی ہے۔ احمدیہ مشن سیرالیون کی طرف سے ایک پمفلٹ میں وفد کے لیڈر پادری سکادرن کو چیلنج کیا گیا کہ اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ہم ان کے سامنے بیس لنگڑے لولے اور اندھے پیش کرتے ہیں۔ وہ ان کو تندرست کرکے دکھائیں مگر پادری صاحب جواب دینے کی بجائے پمفلٹ شائع ہونے کے اگلے روز ہی سیرالیون کو خیرباد کہہ گئے۔
سیرالیون کے جشن آزادی میں شیخ بشیر احمد صاحب (سابق جج ہائی کورٹ لاہور) کی بطور نمائندہ جماعت احمدیہ شمولیت
سیرالیون کا ملک قریباً 160سال تک برطانوی تاج کے ماتحت رہنے کے بعد 27؍اپریل 1961ء کو آزاد ہوا۔ اس تقریب پر حکومت سیرالیون نے جہاں دوسری مذہبی جماعتوں اور مشنوں کے نمائندوں کو مدعو کیا۔ وہاں جماعت احمدیہ کے مرکز ربوہ میں بھی ایک خاص نمائندہ بھجوانے کا دعوت نامہ ارسال کیا جس پر مرکز احمدیت کی طرف سے مکرم جناب شیخ بشیر احمد صاحب بی۔ اے ایل ایل بی (سابق جج ہائی کورٹ لاہور) بطور نمائندہ سیرالیون تشریف لے گئے اور تقریبات ِآزادی میں شامل ہوئے۔
شیخ صاحب موصوف 22؍اپریل 1961ء کو فری ٹاؤن پہنچے اور 23؍اپریل 1961ء کو آپ کی ملاقات سیرالیون مسلم کانگرس کے جنرل سیکرٹری الحاج جبرئیل سیسے سے ہوئی اور اسلام و احمدیت کے موضوع پر تبادلہ خیالات کیا۔ وہ آپ کی گفتگو سے بہت متاثر ہوئے۔ اسی روز آپ سیرالیون کےنائب وزیراعظم اور وزیر خزانہ آنریبل مصطفیٰ سنوسی سےملے۔ 24؍اپریل1961ء کو میئر آف فری ٹاؤن۔MR A F RAHMANوزیراعظم سیرالیون اور آنریبل کانڈبورے منسٹر آف ورکس اور آنریبل مسٹر وائی ڈی سیسے اور آنریبل پیرامونٹ چیف بو اور پارلیمنٹ کے دوسرے ممبروں سے ملاقات کا موقعہ ملا۔ ہر ایک نے احمدیہ جماعت اور احمدی مجاہدین کی انتھک کوششوں کی تعریف کی اور شیخ صاحب کی گفتگو سے بہت متاثر ہوئے۔ 25؍اپریل 1961ء کو سیرالیون کے چیف جسٹس،(JUSTICES NKACOKER) نے آپ کو ایک پارٹی میں مدعو کیا۔ اس پارٹی میں آپ نے سیرالیون کے ججوں اور بیرونی ممالک کے ججوں سے تبادلہ خیالات کیا۔ 27؍اپریل1961ء کو آپ نے حکومت سیرالیون کے تمام وزراء اور بیرونی نمائندوں (جن میں ایک روسی نمائندے بھی شامل تھے) سے ملاقات کی۔ شیخ صاحب نے نصف گھنٹہ تک اشتراکیت اور اسلامی اصولوں پر گفتگو کی۔ 28؍ اپریل 1961ء کو آپ نے مسلمانوں کے نام ایک پیغام ریکارڈ کرایا جو اسی شام نشر ہوا۔ اسی روز فری ٹاؤن مشن کی طرف سے آپ کے اعزاز میں ایک پارٹی دی گئی۔ جس میں مسلم کانگرس کے صدر الحاج بخاری اور بعض دوسرے معززین شریک ہوئے۔ محترم شیخ صاحب کافی دیر تک ان سے تبادلہ خیالات کرتے رہے اور سوالوں کے جوابات دیتے رہے۔
یکم مئی 1961ء کو آپ نے برٹش کونسل ہال میں تبلیغی لیکچر دیا۔ اس اہم لیکچر کی خبر ریڈیو سیرالیون پر نشر ہوئی اور اخبار ’’ڈیلی میل‘‘ میں بھی اس پر ایک نوٹ شائع ہوا۔ 3؍ مئی 1961ء کو آپ نے وزیراعظم سیرالیون سے ملاقات کی اور تعلیمی و مذہبی امور پر بات چیت کی۔ اس گفتگو کے بعد آپ کی ملاقات گورنر جنرل سیرالیون سے ہوئی۔ گورنر جنرل آپ کی باتوں سے بہت متاثر ہوئے۔
غرضیکہ شیخ بشیر احمد صاحب نے اپنے قیام سیرالیون کے دوران حکومت کے اعلیٰ طبقوں تک حق کی آواز پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ شیخ بشیر احمد صاحب دینی و تبلیغی خدمات بجالانے کے بعد 4؍مئی 1961ء کو سیرالیون سے بذریعہ ہوائی جہاز روانہ ہوئے۔ اور حج بیت اللہ کے بعد 31؍ مئی 1961ء کو لاہور تشریف لے آئے۔
سیرالیون کے بعض ابتدائی مخلصین
جماعت سیرالیون کے مخلص ترین احمدیوں کے نام درج ذیل ہیں۔
1۔ پاہ ساتنگی بکرے آف روکوپر ضلع کابیا۔ 2۔ السید حسن محمد ابراہیم 1939ء میں باؤموہوں میں احمدیت قبول کی۔ 3۔الحاج علی روجز آف بو۔ 4۔ پا سعید و بنگورا آف بو۔ 5۔السید امین خلیل سکیکی پیلی۔ سیرالیون مشن کی ابتدائی مشکلات اور تنگی کے وقت انہوں نے سلسلہ کی ہزاروں روپیہ کے ساتھ مدد کی۔ ہر وقت ان کو اسلام کی مدد کے لیے تیار پایا خداتعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے۔ آمین۔ 6۔ السید مصطفیٰ حدرج آف پیلی۔ 7۔ پا کالی سانکو آف مگبورکا۔ 8۔ مصطفیٰ آدم آف مگبورکا۔ 9۔ پیرامونٹ چیف الحاج المامی مسعوری آف مکالی۔ 10۔ پا سنفا آدم آف مگبورکا۔ 11۔ پیرامونٹ چیف ناصر الدین گامانگا آف بو اجے بو۔ 12۔ پا۔ ٹی۔ بی کولہکا آف باڈو۔ 13۔ چیف۔ وی۔ دی کالوں۔ یہ وہ چیف ہیں۔ جنہوں نے قرآن مجید کا مینڈے زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ 14۔ پاعلی مانسر آف فری لوؤن۔ 15۔ پا عمارا کانو فری ٹاؤن۔ 16۔ بائی ٹورے فری ٹاؤن۔ 17۔ امام عبداللہ کول۔ 18۔ مسٹر محمد بشیر آف فری ٹاؤن۔ 19۔ مسٹر ایم۔ ایس دین آف فری لوؤن۔ 20۔ الفا عمارا اوریس آف مہاجو۔ 21۔مسٹر عبدل گامانگا آف بو اجے بو۔ 22۔ الفا الحسینی فیکا امام آف سیرابو۔ 23۔ محمد عبداللہ امام باڈو۔ 24۔ حاجی سیسے آف پون بانا۔ 25۔الفایحییٰ کمارا آف ردکوپر۔ 26۔ پا وانڈی کروماپا صالحوکونے پاسنسی کمارا۔ میڈم ٹونگیار۔
اسلامک بکڈپو
مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نے 1963ء میں ایک بک شاپ ’’اسلامک بکڈپو‘‘کے نام سے جاری کی جس میں سٹیشنری اور سکول کی کتابوں کے علاوہ سلسلہ کی ضروری کتب موجود تھیں۔
فروغ احمدیت کے اسباب میں خدائی نشانات کا نمایاں حصہ
ملک سیرالیون میں احمدیت کی اشاعت و فروغ کے اسباب و محرکات میں مبلغین احمدیت کی مجاہدانہ جدوجہد احمدیان سیرالیون کی قربانیاں اور مصائب و مشکلات کا مردانہ وار اور مومنانہ روح سے مقابلہ، ان کا ذاتی کردار اور نمونہ اور جماعت کی تعلیمی درسگاہوں کو خدا کے فضل سے بہت عمل دخل ہے۔ مگر اس ملک میں احمدیت کی ترقی میں شروع ہی سے قبولیت دعا۔ رویاء و کشوف کا نمایاں حصہ رہا ہے۔ ان آسمانی نشانات کا سلسلہ حیرت انگیز طور پر وسیع ہے۔ اور اب تک جاری ہے بطور نمونہ چند ایمان افروز واقعات کا بیان کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا۔
پہلا واقعہ
مولوی نذیر احمد علی صاحب 1939ء کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’باؤماہوں سے 40میل کے فاصلہ پر پہاڑی علاقہ میں ایک ریاست واقع ہے۔ جسے گوراما کہتے ہیں۔ ریاست کے رئیس اعلیٰ یعنیPARAMOUNT CHIEF ٹونگے نامی گاؤں میں رہتے ہیں۔ اور اس لحاظ سے ٹونگے کو ریاست کا صدر مقام کہا جاتا ہے۔ ستمبر کے مہینہ میں خاکسار باؤماہوں سے چار مزدوروں کے ہمراہ جنہوں نے میرا سامان اٹھایا ہوا تھا۔ پیدل ٹونگے پہنچا۔ باؤماہوں کے چند مخلصین بھی میرے ہمراہ تھے۔ چیف کا نام بایو(BAYO) ہے۔ جو پہلے مشرک اور نیم عیسائی تھا اور دس سال کے عرصہ سے عیسائی مبلغین اس کے ہاں کام کررہے تھے۔ یہ چیف ایک نہایت پرانی اور خطرناک بیماری میں مبتلا تھا جس کے علاج پر وہ ہزاروں روپیہ برباد کرچکا تھا۔ میں نے یہاں آکر بہت سے لیکچر دیئے۔ لیکن چیف ہمیشہ اپنی بیماری کا قصہ چھیڑ دیتا اور اس ملک کے علماء کے طریق کے مطابق مجھ سے کسی موثر تعویذکا مطالبہ کرتا اور کہتا کہ جس قدر بھی خرچ ہو وہ ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ میں نے اسے احمدیت کی دعوت دی اور حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کو دعا کے لئے لکھنے کا وعدہ کیا چنانچہ اس نے نہایت اخلاص سے احمدیت قبول کی اور ابھی ہمارا خط حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پہنچا بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے غیر معمولی فضل سے نہایت معمولی سی دوا کے ذریعہ جو میرے پاس موجود تھی اسے شفاء عطاء کردی۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔ ‘‘
دوسرا واقعہ
مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری تحریر فرماتے ہیں:
’’1940ء میں سیرالیون مغربی افریقہ کے ایک عیسائی نوجوان K GAMANGA جو کہ اپنی ریاست کے شاہی خاندان کے فرد تھے۔ اسلام قبول کرکے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ 1942ء میں ان کی ریاست کے نواب یعنی اس نوجوان کے چچا کے فوت ہونے پر وہ خود اس عہدہ کے حصول کے لئے بطور امیدوار کھڑے ہوئے اور مجھ سے اپنی کامیابی کے لئے دعا کرنے کی درخواست کی۔ میں نے انہیں کہا کہ ہم اس شرط پر سیدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت عالیہ میں دعا کے لئے عرض کریں گے اور خود بھی دعا کریں گے کہ آپ پختہ عہد کریں کہ آپ گزشتہ نوابوں کے تتبع میں چار سے زیادہ ایک وقت میں بیویاں نہیں رکھیں گے۔ اور اپنے علاقہ کے عیسائیوں کا مقابلہ کرکے اسلام پھیلانے اور مضبوط کرنے میں ہماری مدد کریں گے اور اپنے قصبہ میں مسجد اور اسلامیہ سکول ریاست کے خرچ پر تعمیر کریں گے۔ چنانچہ ان کے یہ شرطیں قبول کرلینے پر خاکسار نے حضور پرنور کی خدمت میں مفصل طور پر عرض کیا کہ حضور ان کی کامیابی کے لئے دعا فرمائیں۔ نیز لوکل احباب میں بھی دعا کی تحریک کی۔ حضور کی طرف سے الیکشن کے ایک ہفتہ قبل جواب ملا کہ ’’ہم نے دعا کی ہے اللہ تعالیٰ انہیں کامیاب کرے گا انشاء اللہ تعالیٰ‘‘۔ میں نے گامانگا صاحب کو قبل از وقت اطلاع دےدی اور ان کی تسلی کے لئے حضور کی طرف سے آمدہ چٹھی بھی دکھا دی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے باوجود سخت مخالف حالات کے وہ سات امیدواروں کو شکست دیکر اپنی ریاست کے نواب یا چیف منتخب ہوگئے‘‘۔
تیسرا واقعہ
مگبورکا کے ایک احمدی دوست پاسانفا تولا پر عجیب رنگ میں رویاء کے ذریعہ احمدیت کی صداقت کا انکشاف ہوا۔ چنانچہ ان کا بیان ہے کہ
’’ایک موقعہ پر جبکہ میں باؤماں نامی گاؤں میں رہائش رکھتا تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں وہاں کی مالکیہ مسجد کے اردگرد سے گھاس اکھاڑ رہا ہوں اور کچھ دیر کے بعد کچھ تھکان محسوس کرنے پر میں مسجد کے قریب ہی ایک پام کے درخت تلے کچھ سستانے کے لئے کھڑا ہوگیا۔ اسی اثنا میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے کی جانب سے ایک سفید رنگ کے اجنبی دوست ہاتھ میں قرآن کریم اور بائیبل پکڑے میری طرف آرہے ہیں۔ میرے قریب پہنچ کر سب سے پہلے ہدیہ السلام علیکم پیش کیا اور پھر مجھ سے دریافت کیا کہ جس مسجد کے اردگرد سے میں گھاس صاف کررہا تھا اس کا امام کون ہے۔ میں اسے ملنا چاہتا ہوں۔ اس پر میں نے آپ سے چند منٹ کی رخصت لی اور امام کو بلانے کے لئے چلا گیا۔ جس کا نام الفا تھا۔ ہماری دونوں کی واپسی پر ہم یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوئے کہ مسجد کے باہر ایک سایہ دار کھڑکی تیار ہوچکی ہے اور وہ اجنبی شخص خود امام کی جگہ پر محراب میں کھڑا ہے۔ ہمیں دیکھتے ہی اس نے حکم دیا کہ ہم اس سایہ دار جگہ میں بیٹھ کر اسے قرآن کریم سنائیں۔ اس کے بعد ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ وہ اجنبی دوست مسجد سے نکل کر ہمارے پاس آئے اور امام سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں تمہیں صحیح طریق نماز سے آگاہ کرنے آیا ہوں۔ اس پر میری آنکھ کھل گئی اور صبح ہوتے ہی میں نے اس کا ذکر اپنے مسلمان دوستوں سے کردیا۔ (یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سیرالیون میں تمام مالکی مسلمان ہاتھ چھوڑ کر نماز ادا کرتے ہیں جیسے ہمارے ملک میں شیعہ صاحبان پڑھتے ہیں) اس خواب کے قریباً ایک ہفتہ بعد صبح کے وقت میں نے اپنا کدال لیا اور اپنی مالکیہ مسجد کا گردو نواح صاف کرنے لگا۔ قریباً نصف گھنٹہ کے کام کے بعد میں نے کچھ تھکان محسوس کی اور قریب ہی ایک پام کے درخت کے نیچے آرام کرنے کے لئے کھڑا ہوگیا۔ ابھی چند ہی منٹ گزرے تھے کہ کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے سے الحاج مولوی نذیر احمد صاحب علی مرحومؓ تشریف لارہے ہیں۔ آپ نے قریب آنے پر مجھے السلام علیکم کہی اور رہائش کے لئے جگہ وغیرہ دریافت کی۔ میرے لئے یہ ایک نہایت ہی تعجب انگیز بات تھی کہ جو خواب میں ابھی چند یوم پہلے دیکھ چکا تھا بعینہٖ آج پوری ہورہی تھی۔ یعنی الحاج مولوی نذیر احمد علی صاحب مرحومؓ ہی وہ دوست تھے جو مجھے خواب میں دکھائے گئے تھے۔ سو میرے لئے ایسے مہمان کی خدمت ایک خوش قسمتی تھی۔ لہٰذا میں نے آپ کو کسی اور کے پاس جانے کی اجازت نہ دی بلکہ اپنا گھر خالی کرکے رہائش کے لئے پیش کردیا۔ اس کے بعد میں اپنے مسلمان دوستوں کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ جو کچھ میں نے خواب میں دیکھا تھا وہ پورا ہوگیا۔ یعنی وہ دوست تشریف لے آئے ہیں اور میرے گھر میں تشریف رکھتے ہیں اس کے بعد میری اور الحاج مولوی نذیر احمد علی صاحب مرحوم کی تبلیغ پر اس گاؤں کے اکثر مسلمانوں کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور اس وقت سے بفضل تعالیٰ احمدی ہوں۔ ‘‘
دارالتبلیغ سیرالیون کی اسلامی خدمات دوسروں کی نظر میں
دارالتبلیغ سیرالیون کے قیام کی تاریخ نامکمل رہے گی اگر ہم بالآخر یہ نہ بتائیں کہ احمدیہ دارالتبلیغ سیرالیون کی شاندار دینی و ملی خدمات اور اس کے عظیم الشان مذہبی اور علمی انقلاب کی نسبت دوسروں کے تاثرات کیا ہیں؟ اس ضمن میں ضروری آراء بطور نمونہ درج کی جاتی ہیں۔
٭…سیسل نارتھ کاٹ ، Cicil North Cott کا ایک مقالہ اخبار ’’پاکستان ٹائمز‘‘(11؍ دسمبر 1960ء) میں شائع ہوا جس کا ترجمہ حسب ذیل ہے:
’’مغربی افریقہ کے ممالک کی آزادی نے ساحلی علاقوں میں اسلام کے حق میں ترقی کی ایک نئی روح پیدا کردی ہے۔ اسلام افریقن لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے کیونکہ افریقہ میں یہ اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ گویا یہ افریقہ کی کالی اقوام کا ہی مذہب ہے۔ عیسائیت کے برخلاف اسلام انسانی کمزوریوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ہر نئے آنے والے کو سہولت سے اپنے اندر سمولیتا ہے۔ کیونکہ اسلام کی سادہ تعلیم کے پیش نظر اس کو رسمی قباحتوں سے دوچار نہیں ہونا پڑتا۔ اس ضمن میں سیرالیون اور مغربی نائیجیریا دو اہم علاقے ہیں۔ سیرالیون بھی اگلے اپریل میں آزاد ملکوں کی برادری میں شامل ہو جائے گا۔ مغربی نائیجیریا تو وہ علاقہ ہے جہاں عیسائیت کا ماضی نہایت شاندار روایات کا حامل رہا ہے لیکن اب انہی دو علاقوں میں اسلام کو نمایاں ترقی حاصل ہورہی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ سیرالیون تو احمدی مسلمانوں کی منتخب سرزمین ہے۔ جہاں وہ پاکستان سے آئے ہوئے منظم مشنوں کے ماتحت نہایت مضبوط حیثیت میں سرگرم عمل ہیں۔ احمدیہ جماعت اس مقصد کو لے کر کھڑی ہوئی ہے کہ اسلام کو عیسائیت کے مقابلہ میں موجودہ دنیا کی رہ نمائی کے لیے پیش کرے اور یہ عیسائیت کے لیے ایک چیلنج ہے اور اب تو انہوں نے سیرالیون میں باقاعدہ ڈاکٹری مشن کھولنے کا بھی عزم کرلیا ہے اور وہاں احمدیہ سکولوں کی تعداد بھی بتدریج بڑھ رہی ہے۔ باوثوق ذرائع سے آمدہ اطلاعات کے مطابق مغربی افریقہ کے ساحلی علاقوں میں اسلام عیسائیت کے مقابلہ میں دس گنا زیادہ ترقی کررہا ہے۔ نائیجیریا کا وسیع شمالی علاقہ اسلام کا گڑھ بن چکا ہے جو باوجود عیسائی مشنوں کی سالہا سال کی کوششوں کے مذہبی اعتبار سے ناقابل تسخیر اسلامی ملک ثابت ہوا ہے بلکہ خود جنوب کے جنگلاتی علاقہ میں جہاں عیسائی مشنر نہایت مضبوط ہیں۔ وفود بھیج کر اسلامی اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے اور اب نائیجیریا کے آزاد ہو جانے پر ان دونوں بڑے مذاہب کے ایسے تصادم کا امکان ہے جو اب تک کہیں اور رونما نہیں ہوا ہے کیونکہ یہاں اسلام اور عیسائیت نہایت جوش و خروش کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابلہ میں کمربستہ ہیںتاکہ ان قبائل کو اپنے زیر اثر لائیں جو کسی مذہب سے وابستہ نہیں بلکہ توہماتی شرکت میں مبتلا ہیں۔ اس مقابلہ کے نتیجہ پر ہی افریقہ کے مستقبل کا انحصار ہے۔ ‘‘
٭…مسٹر عبداللہ بیٹ سیرالیون نے کہا
’’مجھے وہ وقت خوب یاد ہے کہ جب حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ مرحوم کا مبارک قدم سرزمین سیرالیون میں پڑا۔ اس وقت یہ اندازہ لگانا محال امر تھا کہ ایک دن احمدیت یہاں پر اتنی مضبوط ہو جائے گی انہوں نے بتایا کہ مولانا نیر صاحبؓ مرحوم کے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم ہوگئے مگر ان کا قیام بہت عارضی تھا۔ تاہم وہ احمدیت کا بیج لےکر آئے جن کے بعد مکرم فضل الرحمٰن صاحب حکیم مرحوم نے اس بیج کی آبیاری کی۔ مگر اس ملک میں مکرم الحاج نذیر احمد صاحب علی مرحوم کی یاد ہمیشہ زندہ رہے گی کیونکہ وہی پہلے مبلغ ہیں جنہوں نے یہاں پر مستقل قیام کیا۔ انہوں نے احمدیت کی خاطر بہت مصائب و مشکلات برداشت کیں۔ حتیٰ کہ اس کی خاطر اپنی جان بھی اس ملک میں قربان کرکے تبلیغ کے میدان میں شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔ ان احمدی مبلغین نے یہاں آکر عیسائیت کو للکارا اور انہیں دلائل کے میدان میں شکست فاش دی۔ اس سے قبل ہمارے دل میں کبھی وہم نہ گزر سکتا تھا کہ عیسائیت کے خلاف کوئی مسلمان بھی بولنے کی جرات رکھتا ہے۔ مسلمانوں میں سے اکثر عیسائیت کی طرف مائل ہوتے جارہے تھے۔ یہاں تک کہ احمدی مبلغین کی آمد سے حالات میں تبدیلی ہوئی اور عیسائیت کو شکست ہونے لگی اور اسلام ہر میدان میں کامیاب ہوتا چلا گیا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جماعت کو زیادہ سے زیادہ قوت اور طاقت عطا فرمائے تاکہ جلد از جلد اسلام کی برتری دوسرے ادیان پر ثابت ہو۔ ‘‘
نائب وزیراعظم سیرالیون کی ایک تقریر
’’جماعت احمدیہ کا وجود اس ملک میں اسلام کے لئے ایک بہت بڑی طاقت کا موجب ہے۔ اس جماعت نے اسلام کی جس طرح خدمت کی ہے۔ صدیوں سے کسی نے نہیں کی۔ جماعت کا لٹریچر اسلام کی صحیح تصویر پیش کرتا ہے اور ایک معمولی لکھا پڑھا آدمی اس سے بہت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس ملک میں اسلام صدیوں سے ہے۔ مگر اسلام کو ایسی شکل میں پیش کیا گیا جو ناقابل عمل نہیں تو کم از کم مشکل ضرور نظر آتا ہے۔ مگر جماعت احمدیہ نے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرکے ملک و ملت کی بہت خدمت کی ہے۔ … میں احمدیہ مشن کی اسلامی خدمات کا دل و جان سے معترف ہوں اور جہاں بھی مجھے جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے اس کا اعتراف کیا ہے اور جہاں بھی گیا ہوں احمدیہ مشن کو خدمت دین کرتے ہوئے پایا ہے۔ امریکہ، جرمنی، اٹلی، انگلینڈ، غانا، نائیجیریا وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ میں مشن کو یقین دلاتا ہوں کہ جو بھی امکانی مدد مجھ سے ہوسکی میں کروں گا۔ کیونکہ یہ مشن اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور حفاظت کے لیے لڑرہا ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے کام کرنے کا وسیع میدان ہے آپ کو چاہیے کہ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں۔ آپ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرکے مشن کی مدد کرنی چاہیے۔ تا اسلام کا بول بالا ہو۔ حضرت خدیجہؓ کا نمونہ عورتوں کے سامنے ہے۔ بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کرکے عورتیں بہت بڑا کام کرسکتی ہیں۔ میں اپنا نمونہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ میرا کرسچن سکولوں میں تعلیم پانے کے باوجود تہ دل سے مسلمان رہنا صرف اس وجہ سے ہے کہ میری والدہ نے میری صحیح رنگ میں اور دینی ماحول میں تربیت کی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ مسلمان بچے جب سیکنڈری سکولوں میں پہنچتے ہیں تو وہ اپنا مذہب تبدیل کر لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی بچپن میں صحیح رنگ میں تربیت نہیں ہوتی۔ …احمدیوں کی دیکھا دیکھی اب بعض دوسرے لوگ بھی مجالس منعقد کررہے ہیں اور سکول بھی کھولنے کی کوشش میں ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ احمدیہ مشن ان سب کا پیشرو ہے۔ ‘‘(ترجمہ)
(ماخوذازتاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ 385 تا 428)
٭…٭…٭