الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

سمر قند کا سفر نامہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 19؍جنوری 2013ء میں جناب جاوید چودھری کے قلم سے دلچسپ معلومات پر مشتمل سمرقند کا سفرنامہ (مطبوعہ اخبار ’’ایکسپریس‘‘) منقول ہے۔

کالم نگار رقمطراز ہیں کہ ازبکستان کے پاس اگر کچھ نہ ہوتا تو بھی اس کی شہرت، معیشت اور عزت کے لیے سمرقند کافی تھا۔ ازبک زبان میں سمر قند کا مطلب ملاقات کی جگہ ہے۔ 2750 سال پرانا یہ شہر ماضی میں سلک روٹ (silk route)کا بڑا جنکشن تھا اور تاریخ کے تمام بڑے فاتحین کی گزرگاہ تھا۔ سکندرِ اعظم نے سمر قند کو 329قبل مسیح میں فتح کیا اور وہ اس کی خوبصورتی اور جغرافیائی پوزیشن دیکھ کرحیران رہ گیا۔ سمر قند افغانستان اور اس کے بعد ہندوستان کا دروازہ تھا۔ دنیا کے تمام بڑے فاتحین سمر قند سے گزر کر افغانستان، ایران اور ہندوستان میں داخل ہوتے تھے۔

آنحضرتﷺ کی رحلت کے بعد حضرت قثم بن عباسؓ سمر قند تشریف لائے اورسینٹرل ایشیا میں اسلام کی اشاعت کا آغاز کیا۔ حضرت قثمؓ نبی اکرمؐ کے چچا حضرت عباسؓ کے صاحبزادے تھے۔ سمرقند کے گستاخوں کو حضرت قثمؓ کی تبلیغ پسند نہ آئی چنانچہ انہوں نے آپؓ کو عین نماز کے دوران شہید کر دیا۔ سمر قند میں حضرت قثمؓ کا مزار موجود ہے۔ یہ ایک طویل کمپائونڈ ہے جس میں امیر تیمور کے خاندان سمیت بے شمار نامور لوگوں کی قبریں ہیں اورہر قبر عظیم تعمیراتی شاہکار ہے۔ یہ چھوٹے بڑے درجنوں مقبروں کا مجموعہ ہے اور آپ جب اس کمپائونڈ میں داخل ہوتے ہیںتو ہر مقبرہ آپ کی توجہ کھینچ لیتا ہے اور آپ اس کے بنانے والے کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔

چنگیزخان نے1220ء میں سمرقند فتح کیا۔ سمرقند کانام اس وقت افراسیاب تھا۔ اُس نے افراسیاب میں قتل عام کیا، تمام عمارات اور مکانات تاراج کردیے اور اس کے بعد شہر کو آگ لگادی لیکن اسے حضرت قثم بن عباسؓ کے روضہ مبارک کی طرف آنکھ اُٹھانے کی جرأت نہ ہوئی۔ یہ سمر قند کی واحد عمارت تھی جو چنگیز خان کی بربریت سے محفوظ رہی۔

سمر قند کا اصل دور تیمور سے شروع ہوا۔ تیمور 1336ء میں کیش نام کے گائوں میں برلاس قبیلے میںپیدا ہوا۔ اس کا والد معمولی جاگیر دار تھالیکن اللہ تعالیٰ نے تیمور کو بے انتہا صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا۔ یہ دونوں ہاتھوں سے لڑ سکتا تھا اور بلند حوصلہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ علم اور عالموں کا بھی شیدائی تھا۔ اس نے اپنے گائوں کے اردگرد شہر سبز کے نام سے شاندار شہر تعمیر کروایا۔ یہ نابغہ روزگار شہر تھا او ر تیمور اپنی بائیو گرافی میںبار بار اس کی تعریف کرتا ہے تاہم اس نے اپنی ریاست کا دارالحکومت سمرقند ہی کو بنایا۔ سمر قند تیمور کے دور میں دنیا کا خوبصورت ترین شہر تھا۔ شہر کے چاروںاطراف چودہ بڑے بڑے باغ بنائے گئے۔ پورے شہر میں ہزاروں درخت لگائے گئے اور سڑکوں اور گھروں کو انگور کی بیلوں سے چھپا دیا گیا۔ تیمور اپنے سمرقند کو بہشت بر زمین کہتا تھا۔ تیمور کی سلطنت روس سے دہلی اور آذربائیجان سے لے کر بغداد، شام اور قاہرہ تک پھیلی تھی لیکن سمرقند اس کی جان تھا۔

تیمور ایک دن شطرنج کھیل رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں شاہ تھا۔ عین اس وقت اس کی لونڈی آئی اور اسے بیٹے کی ولادت کی خوشخبری سنائی۔ تیمور نے ہاتھ میں پکڑے شاہ کی طرف دیکھا اور اپنے اس بیٹے کانام شاہ رُخ رکھ دیا۔ یہ بیٹا اس کے انتقال کے بعد اس کی سلطنت کا وارث بنا۔ تیمور کا ایک بیٹا جوانی میں بلڈکینسر سے مر گیا، دوسرا بیٹا دہلی کی فتح کے دوران مارا گیا۔ تیسرابیٹا بھی بیماری کا شکار ہو گیا اور پیچھے رہ گیاشاہ رُخ۔ یہ درویش صفت انسان تھا۔ تیمور اپنی وسیع سلطنت اس کے حوالے نہیں کرنا چاہتا تھا چنانچہ اُس نے اپنے پوتے محمد سلطان کی تربیت شروع کردی۔ یہ پوتا اپنے دادا تیمور کی ہی کاپی تھا لیکن بد قسمتی سے یہ ولی عہد بھی تیمورکی زندگی میں وفات پا گیا۔ تیمور نے سمرقند میں اس کا خوبصورت مقبرہ بنوایا۔

تیمور 1405ء میں چین کی مہم کے دوران قزاقستان میں سردی لگنے کی وجہ سے بیمار ہوا اور راستے میں ہی فوت ہو گیا۔ اس کی لاش سمرقند لائی گئی اور اسے اس کے پوتے محمد سلطان کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔ تیمور کا پوتا الغ بیگ سمرقند کا حکمران بنا تو اس نے تیمور کا عالی شان مقبرہ تعمیر کروادیا۔ اس کے ساتھ شاہی خانقاہ بنوائی، شاہی مدرسہ بنوایا اور اپنے دادا کی قبر کو ہمیشہ ہمیش کے لیے زندگی بخش دی۔ یہ مقبرہ آج تک سمرقند میںموجود ہے اور ہر سال لاکھوں سیاح اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ سمرقند کے لوگ تیمور کے مقبرے کو ’’گور تیمور‘‘ کہتے ہیں۔ یہ عالی شان عمارت دیکھنے والے کو پہلی نظر میں کھینچ لیتی ہے۔ مقبرے کی دیواروں اور چھت پر سونے، سبز اور نیلے پتھروں سے قرآنی آیات لکھی ہیں۔ تیمور کی قبر کا پتھر آذربائیجان سے لایا گیا۔ یہ گہرے سبز رنگ کا پتھر ہے جو سورج کی روشنی کے ساتھ ساتھ رنگ بدلتا ہے۔ نادر شاہ درّانی نے جب سمرقند فتح کیا تووہ یہ پتھر اُکھاڑ کرساتھ لے گیا تھالیکن راستے میں اس کی بیٹی بیمار ہوگئی چنانچہ اس نے یہ پتھر واپس بھجوا دیا۔ تیمورکے محلات اور دربار ختم ہو گئے لیکن اس کی قبر ابھی تک موجود ہے اور دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔

تیمور کا پوتا اور شاہ رُخ کا بیٹا الغ بیگ فطرتاً سائنس دان تھا اور فلکیات میں خصوصی دلچسپی رکھتا تھا۔ اُس نے سمرقند میں شاندار مدرسہ تعمیر کروایا جو سینٹرل ایشیا میں ماڈرن سائنسز کا پہلا مدرسہ تھا۔ طالبِ علم اس میں کُل آٹھ سال پڑھتے تھے۔ چار سال دینی تعلیم اور چار سال دنیاوی علوم بالخصوص سائنس کی تعلیم دی جاتی۔ الغ بیگ نے فلکیات اور زمین پر شاندار ریسرچ کی۔ اس نے قدیم شہر افراسیاب کے کھنڈرات کے قریب عظیم رصدگاہ تعمیر کروائی۔ الغ بیگ اور دیگر سائنس دان اس رصدگاہ میںزمین کی ہیئت اور ستاروں پر تحقیق کرتے۔ اس نے زمین کے اندر چوتھائی چاند کی طرز کی خندق کھودی۔ پتھروں سے خندق کی تعمیر کروائی۔ اس کے کناروں پر ڈگریاں بنوائیں۔ چھت پر سوراخ کیا اور اس سوراخ سے ستاروں کی چال نوٹ کرتا رہا۔ اس نے سال کو 365دنوں میں تقسیم بھی کیا۔ آج کے کیلنڈر اور الغ بیگ کے کیلنڈر میں صرف 58 سیکنڈ کا فرق تھا۔ اس نے1018ستارے بھی دریافت کیے اور سورج، چاند اور زمین کا آپس میںتعلق بھی تلاش کر لیا۔ الغ بیگ حکمران کم اور سائنس دان زیادہ تھا۔ یہ اگر چند سال مزید زندہ رہتا تو یہ دنیا کے عظیم سائنس دانوں میں شمار ہوتا لیکن1449ء میں اس کے بیٹے نے اسے اس وقت قتل کروادیا جب یہ حج کے لیے مکہ جا رہا تھا۔ الغ بیگ کو بعد ازاں تیمور کے ساتھ دفن کردیا گیا۔

الغ بیگ کے بعد اس کی رصدگاہ تباہ کردی گئی۔ سائنس دانوں کو قتل کردیا گیا مگر اس کا ایک شاگرد علی اس کی کتاب لے کر ترکی بھاگ گیا۔ یہ کتاب دو سو سال بعد انگریزوں کے ہاتھ لگی اور وہ یہ کتاب دیکھ کر حیران رہ گئے۔ آکسفورڈ پریس نے1665ء میں یہ کتاب شائع کردی اور یوں الغ بیگ کی ریسرچ نے دنیا کو حیران کر دیا۔ 1900ء کے شروع میں روس کے ایک آرکیالوجسٹ نے اس کتاب کی روشنی میں الغ بیگ کی رصدگاہ کے مقام کا تعین کیا۔ کھدائی شروع کروائی اور اس نے مٹی میں دفن رصد گاہ تلاش کرلی۔ یہ رصد گاہ آج بھی موجود ہے اور دنیا اس کا نظارہ کر کے حیران رہ جاتی ہے۔

امام بخاریؒ سمرقند میں

حضرت امام بخاریؒ کے ذکر کے بغیرسمر قند کا تذکرہ مکمل نہیں ہوتا۔ حضرت امام بخاریؒ کا اصل نام محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بروزبہ البخاری تھا۔ آپؒ بخارا میں پیدا ہوئے اور صحیح بخاری مرتب کرنے کے بعد دوبارہ بخاراتشریف لے آئے مگر امیر بخارا کوآپؒ کی مقبولیت نہ بھائی چنانچہ آپؒ سمرقند کے مضافات میں اپنے ایک عزیز کے گھر منتقل ہوگئے اور 870ء میں60سال کی عمر میں وہیں انتقال فرماگئے۔ امام کو ان کے حجرے میںدفن کردیا گیا۔ تیمور آیا تو اس نے آپؒ کا مقبرہ تعمیر کروایا۔ تیمور کے بعد مقبرے کی نگہداشت بھی ختم ہو گئی۔ عمارت گری اور آہستہ آہستہ مقامی قبرستان میں گم ہوگئی۔ روس نے 1868ء میں سمرقند پر قبضہ کرلیا اور وہاں کی تمام عبادت گاہیں، روضے اور مزارات پابندی کاشکار ہوگئے اور یوں امام بخاریؒ کا مزار گمنامی کی مزید گرد میں گم ہوگیا۔

روس نے1961ء میں انڈونیشیاکے صدر سوئیکارنو کو دورے کی دعوت دی مگر سوئیکارنو نے شرط رکھ دی کہ وہ روسی صدر سے ملاقات سے قبل امام بخاریؒ کے مزار پر حاضری دیں گے۔ سوویت یونین کے لیے یہ دورہ انتہائی ضروری تھا مگر یہ اس وقت تک امام بخاریؒ کے نام سے واقف نہیں تھے چنانچہ ڈھونڈ مچی اور یہ ڈھونڈ روسی اہلکاروں کو سمر قند لے آئی۔ مزار اس وقت کسی سربراہ مملکت کے وزٹ کے لیے مناسب نہیں تھا۔ روسی حکومت نے بچنے کی کوشش کی لیکن سوئیکارنو کا اصرار قائم رہا۔ سوئیکارنو (جون1961ء میں) ماسکو پہنچا۔ حکومت نے اسے ٹرین پرسوارکردیا۔ یہ ٹرین چار دن بعد سمر قند پہنچی۔ روسی حکام اس دوران مزار کی حالت ٹھیک کرتے رہے لیکن اس کے باوجود سوئیکارنو جب وہاں پہنچا تو مزارکی حالت دیکھ کر رو پڑا اور اس نے روسی حکام سے کہا کہ تم اس عظیم انسان کی عظمت سے ذرہ برابر واقف نہیںہو۔ تم یہ مزار مجھے بیچ دو۔ میں مزار کی مٹی کے برابر سونا دینے کے لیے تیار ہوں۔ وہ مزار پر دس گھنٹے قرآن خوانی بھی کرتا رہا۔

روسی حکومت نے اس واقعے کے بعدمزار کی تعمیرنَو کروائی اور پھر امام بخاریؒ کے روضے کو زائرین کے لیے کھول دیا گیا۔ ازبکستان کی موجودہ حکومت نے مزار کی توسیع بھی کی اور اس کی تزئین وآرائش بھی۔ حضرت امام بخاریؒ کا اصل مزار عمارت کے تہ خانے میں ہے۔ تہ خانہ عموماً بند رہتا ہے۔ مجھے تہ خانے میں جانے کی سعادت ملی اور میں نے اصل روضے کی تصویر بھی بنا لی۔ حکومت نے بخارا میں امام بخاریؒ میوزیم بنا دیا ہے۔ اس میں امام بخاریؒ سے منسوب چند اشیاء اور اوراق بھی رکھے ہوئے ہیں لیکن صحیح بخاری کا اصل نسخہ وہاں بھی نہیں۔ صحیح بخاری کی ایک نقل تاشقند میں بھی موجودہے۔

تاشقند میں خست امام کمپلیکس میں قرآ ن میوزیم ہے۔ اس میوزیم میں حضرت عثمان غنیؓ کے زیراستعمال رہنے والے قرآن مجیدبھی شامل ہیں۔ ان میں وہ قرآن مجید بھی موجود ہے جس کی تلاوت کرتے ہوئے آپؓ کو شہید کردیا گیا تھا۔ قرآن مجید کے اس نسخے پر حضرت عثمانؓ کے لہو کے نشان بھی ہیں۔ قرآن مجید کا یہ نسخہ فتوحات کے دوران امیر تیمور کے ہاتھ لگ گیا تھااوریہ مختلف خاندانوں سے ہوتا ہوا ازبک حکومت کے پاس پہنچ گیا۔ اسی قسم کا ایک نسخہ استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں بھی موجود ہے۔ دونوں نسخوں میں اصل کون سا ہے، ہم سرِدست اس کا فیصلہ نہیں کرسکتے لیکن تاشقند کا قرآن مجید بظاہر زیادہ قدیم دکھائی دیتا ہے۔ میوزیم میں صحیح بخاری کا ایک نسخہ بھی موجود ہے لیکن یہ اصل کی کاپی محسوس ہوتا ہے۔ اصل صحیح بخاری کہاں ہے اورکیا دنیا میں کہیں موجود ہے، ہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن جہاں تک امام بخاریؒ کی محنت اور کاوش کا تعلق ہے یہ دنیا کی آنکھ سے کبھی اوجھل نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ دائمی ہے اور دنیا کاجو شخص اللہ کی ذات میں گم ہو جاتا ہے اس کا نام بھی دائمی ہو جاتا ہے۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button