رعایتِ اسباب کی جاوے۔ اسباب کو خدا نہ بنایا جاوے
خدا تعالیٰ نے منع نہیں کیا کہ دنیوی ضرورتوں کے پورا کرنے کے لیے اسباب کو اختیار کیا جاوے۔ نوکری والا نوکری کرے۔ زمیندار اپنی زمینداری کے کاموں میں رہے۔ مزدور مزدوریاں کریں تا وہ اپنے عیال و اطفال اور دوسرے متعلّقین اور اپنے نفس کے حقوق کو ادا کر سکیں۔ پس ایک جائز حد تک یہ سب درست ہے اور اس کو منع نہیں کیا جاتا لیکن جب انسان حد سے تجاوز کرکے اسباب ہی پر پورابھروسہ کرے اور سارا دارو مدار اسباب پر ہی جا ٹھہرے تو یہ وہ شرک ہے جو انسان کو اس کے اصل مقصد سے دور پھینک دیتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں سبب نہ ہوتا تو مَیں بھوکا مر جاتا۔یا اگر یہ جائداد یا فلاں کام نہ ہوتا تو میرا بُراحال ہو جاتا۔ فلاں دوست نہ ہوتا تو تکلیف ہوتی۔ یہ امور اس قسم کے ہیں کہ خداتعالیٰ ان کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ جائداد یا اَور اَور اسباب واحباب پر اس قدر بھروسہ کیا جاوے کہ خداتعالیٰ سے بکلّی دُور جا پڑے۔ یہ خطرناک شرک ہے جو قرآن شریف کی تعلیم کے صریح خلاف ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَفِی السَّمَآءِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ(الذّٰریٰت:23)
اور فرمایا
وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ(الطلاق: 4)
اورفرمایا
مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِب (الطلاق: 3-4)
اور فرمایا
وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ(الاعراف: 197)
قرآن شریف اس قسم کی آیتوں سے بھرا پڑا ہے کہ وہ متقیوں کا متولّی اور متکفّل ہو تا ہے۔ تو پھر جب انسان اسباب پر تکیہ اور توکّل کرتا ہے تو گویا خداتعالیٰ کی ان صفات کا انکار کرنا ہے اور ان اسباب کو ان صفات سے حصہ دینا ہے اور ایک اَور خدا اپنے لیے ان اسباب کا تجویز کرتا ہے چونکہ وہ ایک پہلو کی طرف جھکتا ہے۔ اس سے شرک کی طرف گویا قدم اٹھاتا ہے ۔جو لوگ حکاّم کی طرف جھکے ہوئے ہیں اور ان سے انعام یا خطاب پاتے ہیں اُن کے دل میں اُن کی عظمت خدا کی سی عظمت داخل ہو جاتی ہے۔ وہ ان کے پرستار ہو جاتے ہیں اور یہی ایک امر ہے جو توحید کا استیصال کرتا ہے اور انسان کو اُس کے اصل مرکز سے ہٹا کر دُور پھینک دیتا ہے۔ پس انبیاء عَلَیْہمُ السَّلام یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اسباب اور توحید میںتناقض نہ ہونے پاوے بلکہ ہر ایک اپنے اپنے مقام پر رہے اورمآل کار توحید پر جا ٹھہرے۔ وہ انسان کو یہ سکھانا چاہتے ہیں کہ ساری عزتیں، سارے آرام اور حاجات براری کا متکفّل خدا ہی ہے۔ پس اگر اس کے مقابل میں کسی اور کو بھی قائم کیا جاوے تو صاف ظاہر ہے کہ دو ضدّوں کے تقابل سے ایک ہلاک ہو جاتی ہے۔ اس لیے مقدّم ہے کہ خداتعالیٰ کی توحید ہو۔ رعایت اسباب کی جاوے۔ اسباب کو خدا نہ بنایا جاوے۔ اسی توحید سے ایک محبت خداتعالیٰ سے پیدا ہوتی ہے جبکہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ نفع و نقصان اسی کے ہاتھ میں ہے۔ محسنِ حقیقی وہی ہے۔ ذرّہ ذرّہ اسی سے ہے۔ کوئی دوسرا درمیان نہیں آ تا۔ جب انسان اس پاک حالت کو حاصل کرلے تو وہ مُوحّد کہلاتا ہے۔ غرض ایک حالت توحید کی یہ ہے کہ انسان پتھروں یا انسانوں یا اور کسی چیز کو خدا نہ بنائے بلکہ ان کو خدا بنانے سے بیزاری اور نفرت ظاہرکرے اور دوسری حالت یہ ہے کہ رعایت اسباب سے نہ گزرے۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 58-57۔ایڈیشن 2003ءمطبوعہ ربوہ)
٭…٭…٭