رمضان المبارک کی جاری وساری برکات (قسط دوم۔ آخری)
رمضان المبارک کا چھٹا پیغام
اس مبارک مہینے میں احباب نے حتیٰ الوسع کوشش کی کہ وہ غریب لوگوں کے دکھ بانٹیں، ان کی دلجوئی کریں، ان کے کام آئیں، ان کا خیال رکھیں، ان کی ضرورتوں کو پورا کریں، اور ان سے مواخات و مواسات کریں۔
غرباءکی ہمدردی اور اُن کا خیال رکھنا بہت بڑی نیکی اور عبادت بھی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دِن اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے بنی آدم میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ وہ کہے گا اے رب العالمین سب کچھ تیرا ہے اور کھانے پینے کی احتیاج سے تو بے نیاز ہے۔ میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ بھوکا تھا اس نے تجھ سے کھانا مانگا اگر تو نے اسے کھلایا ہوتا توگویا تو نے مجھے کھلایاہوتا۔ اسی طرح پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گاکہ مجھے فلا ں ضرورت تھی تو نے میری ضرورت پوری نہ کی۔ تو وہ جواب دے گا۔ رب العالمین تجھے تو اس کی ضرورت نہ تھی اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ میرے فلاں بندے کو اس کی ضرورت تھی اور تجھ سے اس نے مانگی مگر تو نے نہ دی اگر تو نے دی ہوتی تو گویا مجھے دی ہوتی۔
اس حدیث میں غرباء پروری اور غریبوں کا خیال رکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ آنحضرتﷺ کی رمضان میں سخاوت تیز آندھی کی طرح ہوتی تھی۔ لیکن رمضان کے علاوہ بھی آنحضرتﷺ غرباءکا بہت خیال رکھتے تھے۔ اس لیے رمضان گزرنے کے بعد بھی یہ عادت قائم رکھنی چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں بیوگان ہیں، یتیم بچے ہیں، بعض کو کھانااور کپڑے بھی میسر نہیں ہیں ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہمارا فرض ہے۔ بعض ایسے ہیں کہ مالی مشکلات کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے ان کی مدد کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ خصوصاً آج کل کے حالات میں خیال رکھنا ضروری ہے۔
ترمذی میں یہ حدیث درج ہے۔ حضرت ابو درداءؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، کمزوروں میں مجھے تلاش کرو۔ یعنی میں ان کے ساتھ ہوں اور ان کی مدد کر کے تم میری رضا حاصل کر سکتے ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ کمزوروں اور غریبوں کی مدد کی وجہ سے تم خدا کی مدد پاتے ہو اور اس کے حضور سے رزق کے مستحق بنتے ہو۔
(حدیقۃ الصالحین صفحہ 677)
حضرت سہل بن سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: میں اور یتیم کی دیکھ بھال میں لگا رہنے والا شخص جنت میں اس طرح ساتھ ہو ں گے۔ آپﷺ نے وضاحت کی غرض سے انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھ کر دکھایا کہ اس طرح۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا :مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے اور مسلمانوں کے گھروں میں سے بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہو۔
مسلم کتاب الجنائز باب الصلوٰۃ علی القبرمیں ایک واقعہ درج ہے۔ جسے حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا ہے۔ اور یہ واقعہ بیسیوں مرتبہ ہم نے پڑھا ہے۔ لیکن کیا غور کر کے اس کے مطابق اس کو اپنے عمل میں بھی ڈھالا ہے یا نہیں۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک سیاہ فام عورت مسجد میں صفائی اور اس کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ آنحضرتﷺ نے کئی دن تک اس کو نہ دیکھا تو آپﷺ نے اس کے متعلق دریافت فرمایا۔ صحابہؓ نے عرض کی یا رسول اللہﷺ اس کی تو وفات ہو گئی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا مجھے کیوں نہ اس کی اطلاع دی۔ دراصل صحابہؓ نے اس کو معمولی انسان سمجھ کر یہ خیال کیاتھا کہ اس کے متعلق حضورﷺ کو کیا تکلیف دینی ہے۔ چنانچہ حضورﷺ نے فرمایا مجھے اس کی قبر دکھاؤ۔ لوگوں نے قبر بتائی تو آپﷺ نے وہاں جا کر اس کی نمازِ جنازہ پڑھی۔
(مسلم کتاب الجنائز باب الصلوٰۃ علی القبر)
کیا ہم بھی غرباء کے جنازوں میں شریک ہوتے اور قبرستان جا کر ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ اصل انسانیت یہی ہے ورنہ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
اب تو فاتحہ کے لئے بھی لحد پہ کوئی نہیں آتا
جیتے جی سب سے ملاقات ہوا کرتی ہے
آنحضرتﷺ نے فرمایا: رحم کرنے والوں پر رحمان خدا رحم کرے گا۔ تم اہل زمین پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
(حدیقۃ الصالحین صفحہ 679)
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا :تین باتیں جس میں ہوں اللہ تعالیٰ اسے اپنی حفاظت اور رحمت میں رکھے گا اور اسے جنت میں داخل کرے گا۔ پہلی یہ کہ وہ کمزوروں پر رحم کرے، دوسری یہ کہ وہ ماں باپ سے محبت کرے، تیسری یہ کہ خادموں اور نوکروں سے اچھا سلوک کرے۔
ہمارے معاشرے میں ان تینوں باتوں کی طرف بہت کم دھیان دیا جاتا ہے۔ بالخصوص نوکروں، خادموں، ماتحتوں اور کمزوروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ بلکہ گھر کے بچے بھی نوکروں اور خادموں کے ساتھ بد خلقی سے پیش آتے اور ان کو کم تر انسان جانتے ہیں۔ دراصل ان کا قصور بھی نہیں۔ وہ ماں باپ اور ارد گرد کے ماحول سے یہی سیکھتے ہیں۔ اگر اولاد کی اچھی تربیت ہو، اور اخلاقِ حسنہ سکھائے جائیں تو ایسا نہ ہو۔ لیکن ہمارے معاشرے میں احساسِ کمتری اور احساسِ برتری پایا جاتا ہے۔ جس سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ انسانیت کے آداب کے خلاف ہے کہ کسی انسان کی تحقیر کی جائے اور اسے کم تر خیال کیا جائے۔ انسانیت سے محبت ہی اسلام ہے بلکہ عین اسلام ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک عالم دِن دہاڑے ہاتھ میں لالٹین لیے کچھ تلاش کر رہا تھا۔ کسی نے پوچھا بزرگ میاں ! یہ کیا؟ جب دن نکلا ہوا اور خوب روشن ہے اس لالٹین کے ذریعہ آپ کیا تلاش کر رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میرا مسئلہ ہی یہ ہے کہ میں ہمیشہ عنقا کی تلاش میں رہتا ہوں۔ اس وقت میں انسانیت کی تلاش میں ہوں۔ انسان تو ہر طرف نظر آتے ہیں لیکن انسانیت نہیں ! یہ ہمارے معاشرے کا بڑا المیہ ہے!
غریب لوگوں کو گھروں میں نوکر چاکر کے طور پر رکھا جاتا ہے۔ یا اپنے روزمرہ کے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے غربا ءسے کام لیتے ہیں۔ عموماًمزدور ہر جگہ مل جاتے ہیں۔ لیکن اُن کو مزدوری دیتے وقت بہت تکلیف محسوس کی جاتی ہے۔ کام پورا کروا لیتے ہیں لیکن مزدوری دیتے وقت تاخیر سے کام لیتے ہیں یاکم ادا کرتے ہیں جو کہ ایک ظلم ہے اور اللہ تعالیٰ کو ہر گز یہ باتیں پسند نہیں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ بداخلاقی بھی عام ہے کہ کام زیادہ لو اور پیسے کم دو !
آنحضرتﷺ نے تو فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو۔ اسی طرح آپﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص جس نے کسی مزدور کو رکھا اور پھر اس سے پورا پورا کام لیا لیکن اس کو طے شدہ مزدوری نہ دی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن میں اس سے سخت باز پرس کروں گا۔
پس رمضان سے ایک سبق ہمیں یہ لینا چاہیے کہ ہم نے جو ان گنتی کے ایام میں غرباء کا خیال رکھا، اُن سے ہمدردی کی، اُن کو کھانوں میں شریک کیا یا ان کا کوئی دکھ تکلیف دور کیا۔ تو اب یہ سلسلہ رمضان کے جانے سے ختم نہ ہو جائے بلکہ پہلے سے بڑھ کر اس پر عمل کریں۔
رمضان کا ساتواں پیغام
آنحضرتﷺ نے روزہ دار کے لیے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ ڈھال ہے۔ پس تم میں سے جب کسی کا روزہ ہو تو نہ وہ بے ہودہ باتیں کرے نہ شورو شر کرے۔ اگر اس سے کوئی گالی گلوچ یا لڑائی جھگڑا کرے تو وہ جواب میں کہے کہ میں نے تو روزہ رکھا ہوا ہے۔
اسی طرح ایک اور روایت ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے اجتناب نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کو اس کا بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
گویا رمضان میں ہم نے یہ سبق سیکھا ہے کہ نہ ہی گالی گلوچ کرنی ہے نہ ہی بے ہودہ باتیں۔ نہ کسی کا دل دکھانا ہے نہ ہی غیبت کرنی ہے وغیرہ۔
دنیا میں اس وقت جس قدر مسائل ہیں ان میں سے زیادہ تر زبان ہی کے پیدا کردہ ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے پیارے آقاحضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص تین باتوں کی ضمانت دے دے میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ اور ان تین میں سے ایک زبان ہے۔
بخاری اور مشکوٰۃ میں یہ روایت بھی درج ہے اور حضرت ابو ہریرہؓ اس کے راوی ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ بلا شبہ بندہ کبھی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا کوئی ایسا کلمہ منہ سے کہہ دیتا ہے کہ جس کی طرف اسے دھیا ن بھی نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند کر دیتا ہے(جنت میں)۔ اور بلا شبہ کبھی اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کا کوئی ایسا کلمہ کہہ گزرتا ہے کہ اس کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے پھر وہ دوزخ میں گرتا چلا جاتا ہے۔
اس حدیث میں زبان کی خوبی اور خرابی دونوں بتائی گئی ہیں کہ ایک ایک لفظ کتنا قیمتی یا ضرر رساں ہو سکتا ہے۔
انسانی جسم میں زبان کا عضو اگرچہ دیکھنے میں بہت چھوٹا ہے لیکن اس کے کرشمے بہت زیادہ ہیں اس کی خوبیاں اور خرابیاں دونوں بہت زیادہ ہیں۔
یہی زبان ہے جس سے انسان دوسروں کو نیکیوں کی طرف بلاتا ہے۔ دعوتِ الیٰ اللہ کرتا ہے۔ خدا کا پیغام پہنچاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف دیکھو تو کفرو شرک کی باتیں بھی اسی زبان سے ہوتی ہیں۔ جھوٹی قسم، جھوٹی گواہی بھی اسی سے ادا ہوتی ہے۔ غیبت، بہتان، چغلی اور اسی طرح دوسرے گناہ بھی اس سے سر زد ہوتے ہیں۔
ایک حکایت
حضرت لقمان حکیم سے اُن کے آقا نے کہا کہ ایک بکرا ذبح کرو اور اس کے گوشت کا وہ حصہ جو سب سے زیادہ اچھا ہوپکا کر لاؤ۔ لقمان حکیم نے دل اور زبان لیا اور پکا کر اپنے آقا کے حضور حاضر کر دیا۔ کچھ دنوں کے بعد پھر آقا نے کہا کہ بکرا ذبح کرو اور اس کے جو ناپسندیدہ اعضا ہیں پکا کر لاؤ۔ لقمان حکیم نے دوبارہ زبان اور دل پکا کر پیش کر دیے۔
آقا نے دریافت کیا۔ لقمان یہ کیا؟ اچھے اعضامیں بھی تم نے دل اور زبان اور خراب اعضامیں بھی تم نے دل اور زبان پیش کیے اس کی کیا وجہ ہے؟
لقمان نے عرض کی آقا زبان اور دل اچھے ہو جائیں تو سب کچھ اچھا ہو جاتا ہے۔ اور اگر یہ دونوں گندے ہو جائیں تو سب کچھ گندا ہو جاتا ہے۔
ایک صحابی کو آنحضرتﷺ نے نصیحت فرمائی اَمْسِکْ عَلَیْکَ لِسَانَکَ کہ اپنی زبان کو قابو میں رکھو تو تم عافیت میں رہو گے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں ارشاد فرمایا هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ یعنی حقیقی مومن لغو کاموں سے اور لغو باتوں سے پرہیز کرتاہے۔ ہمارے معاشرے میں گالی گلوچ کرنا بڑی عام بات ہے۔ بلکہ بعض لوگ اسے برا نہیں سمجھتے۔ حالانکہ یہ اخلاق اورتہذیب کے خلاف ہے کہ زبان کو گندا کیا جائے، گالی دی جائے، کسی کو برا بھلا کہا جائے۔ خاص طور پر گلی کوچوں میں بچے گندی زبان استعمال کرتے پھرتے ہیں۔ اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ہم مسلمانوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ گالی گلوچ کریں۔ اور کسی کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھیں۔
پس رمضان میں جو روزے سے یہ سبق لیا ہے کہ روزہ رکھ کر انسان اپنی زبان کو گالی گلوچ سے گندا نہ کرے، زبان درازی نہ کرےتو رمضان کے بعد اس کا اثر قائم رکھنا ضروری ہے۔
مسلم میں یہ حدیث درج ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ایک مرتبہ اصحابؓ سے دریافت فرمایا کہ تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہؓ نے عرض کی کہ ہم تو اسے مفلس سمجھتے ہیں کہ جس کے پاس درہم یا مال اور سامان وغیرہ نہ ہو۔ آپﷺ نے فرمایا: میری امت میں بلاشبہ مفلس وہ ہے جوقیامت کے دن اپنے اعمال نامے میں نماز روزے اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن ساتھ ہی اس حالت میں آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال کھایا ہو گا یا کسی کا خون بہایا ہو گا، کسی کو مارا ہو گا۔ لہٰذا اس کی نیکیاں ان میں تقسیم کر دی جائیں گی۔ کچھ اِس کو دے دی جائیں گی تو کچھ اُس کو۔ اگر اس کی نیکیاں لوگوں کے حقوق ادا کرنے سے پہلے ختم ہو جائیگی تو پھر اُن لوگوں کے گناہ اِس کے سر ڈال دیے جائیں گے اور پھر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔
حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا، طعنہ زنی کرنے والا، دوسرے پر لعنت کرنے والا، فحش کلامی کرنے والا، یاوا گواور زبان دراز مومن نہیں ہو سکتا۔
ایک ضروری بات
امتِ مسلمہ میں ایک اور بات جس کا دکھ اور تکلیف سے ذکر کرتا ہوں۔ وہ زبان کا غلط استعمال ہے۔ جس کی وجہ سے آپس میں جھگڑے اور خون خرابہ ہو رہا ہے۔ ایک دوسرے پر کفر کے فتویٰ ہیں جس کی وجہ سے فرقہ واریت نے امتِ مسلمہ کو پارہ پارہ کر کے رکھا ہوا ہےحالانکہ حدیثِ نبویﷺ میں ہےکہ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا
مَنْ قَالَ لِاَ خِیْہِ الْمُسْلِمِ یَا کَافِرُ
جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے یہ کفر ان میں سے کسی ایک پر ضرور آ پڑتا ہے۔ اگر تو وہ شخص جسے کافر کہا گیا ہے واقعہ میں کافر ہے تو خیر ورنہ کفر اس پر لوٹ آئے گا جس نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا۔
(مسلم کتاب الایمان باب حال ایمان)
ایمان تو انسان اور خدا کے درمیان ہے۔ جسے چاہے قبول کرے، جسے چاہے رد کرے۔ خدا کا کام اپنے ہاتھوں میں لینے کی کس نے اجازت دی ہے۔ ان حرکتوں کی وجہ سے امت کو کہا ں سے کہا ں پہنچ گئی ہے۔
امت مسلمہ کے علماء نے کہا تک اپنی ذمہ داری ادا کی ہے؟ اخلاق اور روحانیت کے معیار کو کہا ں تک بلندکیا ہے؟ معلمِ اخلاق اور معلمِ روحانیت آنحضرت محمد مصطفیٰﷺ کی سنت سے کس قدر لوگوں کو آگاہ کیا ہے؟ حالی نے مرثیہ کہا تھا:
رہا دین باقی نہ اسلام باقی
فقط رہ گیا اسلام کا نام باقی
ایک دوسرے پر کفر کے فتاویٰ نے آج امتِ مسلمہ کا خون کر دیا ہے۔ خون کی نہریں بہ رہی ہیں اور کسی کو دکھ نہیں ہے۔ کسی کی آنکھ سے آنسو نہیں ٹپکتا۔ اور اسی وجہ سے اسلام غیروں میں بھی بد نام ہورہا ہے۔ اب نہ رمضان کا تقدس باقی، نہ اسلام کا تقدس باقی اور نہ دلوں میں خوفِ خداباقی، نہ جانے کس اسلام کی تعلیم پر عمل ہو رہا ہے۔ خدا تعالیٰ اس غم سے قوم کو جلد نجات دے، آمین۔
رمضان المبارک کا آٹھواں پیغام
اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے مہینہ میں ہمیں ایک اور عظیم الشان نعمت سے نوازا اور وہ یہ کہ اس بابرکت مہینے میں ہمارے لیے اپنی رحمت اور مغفرت اور جنت کے سب دروازے کھول دیے۔ بلکہ اس کے علاوہ روزہ دار کے لیے ایک اضافی دروازہ ’’بَابُ الرَّیَّان‘‘بھی کھول دیا۔ جس سے صرف روزہ دار ہی گزرے گا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ جہنم کے سب دروازے بند کر دیے۔ اور شیطان کو بھی زنجیروں میں جکڑ دیا۔
بظاہر دیکھنے سے یہ بات اس طرح لگتی ہے کہ صرف رمضان میں ہی ایسا ہو گا کہ جنت کے دروازے کھل جائیں گے اور دوزخ کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ لیکن رمضان گزرنے کے ساتھ کیا جنت کے دروازے اللہ تعالیٰ بند کر دیتا ہے اور جہنم کے پھر کھول دیتا ہے؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خلاف ہے۔ گویا صرف ایک مہینے میں جنت کے دروازے کھولے اور بقیہ سال کے گیارہ مہینوں میں جنت کے دوازے بند۔ اور گیارہ مہینے جہنم کے دروازے کھول دیے گئے اور شیطان بھی آزاد ہو گیا۔
اس حدیث کا ایک مطلب یہ ہے کہ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص جوش میں ہوتی ہے اور ہر ایک خدا تعالیٰ کو خوش کرنے اور اس کے احکامات کی بجا آوری میں مصروف نظر آتا ہے اور یہی بات جنت کے دروازوں کو کھولنے کا باعث بنتی ہے۔ ورنہ دیکھنے میں آتا ہے کہ کئی لوگ ان جنت کے دروازوں کے کھلنے کے باوجود اپنے لیے جہنم کے دروازے ہی کھول رہے ہوتے ہیں۔ اُسی طرح بےحیائیوں، بے ایمانیوں اور قتل و غارت میں ملوث رہتے ہیں جیسا کہ سارا سال ملوث رہتے ہیں۔ ایسوں کے لیے تو جنت کے دروازے نہیں کھل رہے ہوتے!
پس رمضان کے بعد جس نے رمضان سے پورا پورا فائدہ اٹھاناہووہ کوشش کرے کہ جہنم کے دروازے ہمیشہ ہمیش کے لیے بند ہو جائیں اور جنت کے دروازے کھلے رہیں اور شیطان اگر جکڑ دیا ہے تو اس کو دوبارہ نہ کھولیں۔ گویا ان تمام نیکیوں کو جن کی رمضان میں کرنے کی توفیق ملی جاری رکھیں۔ اور ان تمام برائیوں کو جن سے رکنے کی توفیق ملی رکے رہیں تا شیطان کے ساتھ بالکل دوستی نہ ہو۔
رمضان المبارک کا نواں پیغام
قرآنِ کریم نے صِبْغَۃَ اللّٰہِکا فرمان جاری کیا ہے۔ جس کے معانی ہیں خدا کا رنگ اختیار کرو۔ خدا جیسا بننا تو ممکن ہی نہیں لیکن رمضان میں انسان کسی حد تک خدا تعالیٰ کی مماثلت اختیار کر لیتا ہے۔ مثلاً خدا تعالیٰ کھانے اور پینے کا محتاج نہیں انسان کھانے پینے سے بالکل پرہیز تو نہیں کر سکتا مگر رمضان میں کافی حد تک کھانے پینے سے الگ رہ کر اور اپنے مخصوص تعلقات سے پرہیز کر کے خدا کا رنگ اپنا تا ہے۔ اسی طرح خد ا سوتا نہیں۔ رمضان میں اس کا مومن بندہ اپنی نیند کم کر لیتا ہے، رات عبادت میں گزارتا ہے۔ عورتیں، بچے، بڑے بوڑھے سب سحری کے لیے جاگتے ہیں اس طرح وہ اپنی نیند کم کرتے ہیں اور جاگنے کی عادت ڈالتے ہیں۔ رمضان میں انسان ہر قسم کی برائی سے بچ کر اپنے حقوق چھوڑ کر سراسر خیر بن جاتا ہے اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی ایک حد تک مشابہت اختیار کر لیتا ہے۔
پس یہ صِبْغَۃَ اللّٰہِجو قرآن کا فرمان ہے۔ رمضان میں انسان کو خدا کا رنگ چڑھا نے کی ترغیب دیتا ہے جسے سال کے بقیہ دنوں میں بھی جاری وساری رکھنا چاہیے۔ پس اللہ تعالیٰ کی صفت رحمان اور صفت رحیمیت کو عام کریں اور اپنے اعمال سے یہ ثابت کریں کہ آپ میں صِبْغَۃَ اللّٰہِپیدا ہو گیا ہے وہی رنگ آپ پر بھی چڑھ گیا ہے۔
رمضان المبارک کا دسواں پیغام
دنیا کی اکثریت غرباء پر مشتمل ہے اور اسلام میں ایمان لانے والے ابتدائی لوگوں کی اکثریت بھی غرباء ہی کی تھی۔ غرباءبےچارے سارا سال تنگی اور فاقوں سے گزراوقات کرتے ہیں۔ ایسی حالت توثواب کا موجب نہیں ہوتی بلکہ ہمارے پیارے آقا سرورِ کائنات آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے:
کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَّکُوْنَ کُفْرًا
بعض دفعہ فقر اور محتاجی کفر پیدا کر دیتی ہے۔
یعنی وہ ناشکری کے کلمات منہ پر لانا شروع کر دیتے ہیں کہ خدا نے ہمیں کیا دیا کہ ہم نمازیں پڑھیں اور روزے رکھیں۔ پس اگر ایسے لوگ بے صبرے نہ بنیں۔ اور انہی تنگیوں اور تنگدستیوں میں نمازیں پڑھیں دعائیں کریں اور اپنے فاقوں کو روزوں میں بدل دیں تو فاقے ان کے لیے نیکیاں بن جائیں گے اور
اَلصَّوْمُ لِیْ وَ اَنَا اَجْزِیْ بِہٖ
کے مطابق ان کا عظیم الشان بدلہ خدا ئے بزرگ و برتر دے گا۔ آنحضرتﷺ سے بڑھ کر کس پر فاقے اور تنگیاں آئی ہوں گی۔ احادیث میں آتا ہے کہ جب گھر میں کچھ نہ ہو تا توآپﷺ نفلی روزہ رکھ لیا کرتے تھے۔ اور صحابہؓ کا بھی یہی حال تھا۔ کبھی بھی حرفِ شکایت منہ پر نہ لاتے جس کی وجہ سے انہوں نے وہ رتبہ اور مقام پایا کہ خود خدا آپ کے پاس آ گیا۔ اور جسے خدا مل جائے اُسے اور کیا چاہیے۔
ایک حکایت مشہور ہے کہ ایک بادشاہ نے کسی جگہ ایک نمائش کا اہتمام کیا جس میں ہر قسم کی قیمتی اشیاکو طریقے کے ساتھ سجا کر رکھ دیا گیا۔ چنانچہ بادشاہ نے اس کے بعد اعلان کیا کہ جو بھی نمائش دیکھنے آئے اوریہاں رکھی ہوئی چیزوں میں سے جس چیز کو بھی ہاتھ لگائے گا وہ اس کی ملکیت ہو جائے گی۔ بادشاہ کا اعلان سنتے ہی بہت سے لوگ نمائش دیکھنے پہنچ گئے اور ہر شخص اپنی اپنی پسند کی چیزوں کو ہاتھ لگاتا اور لے جاتا۔ اس دوران ایک نہایت غریب اور سادہ مگر عقلمند انسان بھی آیا اور اس نے وہاں رکھی ہوئی چیزوں کی بجائے بادشاہ کو ہاتھ لگا دیا۔ لوگوں نے پوچھا یہ کیا؟ اس نے جواب دیا کہ تم نے اُن چیزوں کو ہاتھ لگایا ہے جن کو بادشاہ نے یہاں رکھا ہے لیکن میں نے بادشاہ کو ہاتھ لگا دیا ہے جو ان سب اشیاءکو یہاں جمع کرنے والا ہے۔ پس میں نے یہ بات خوب سوچ سمجھ کر کی ہے۔ جب بادشاہ میرا ہو گیا تو پھر مجھے ان چیزوں کی ضرورت نہیں۔
دنیوی بادشاہ تو نہ ہر چیز پر قدرت رکھتے ہیں اورنہ ہر شخص کی تمام خواہشات پوری کر سکتے ہیں مگر وہ خدا جو زمین و آسمان کا مالک خدا ہے۔ جس کے قبضۂ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں جب وہ کسی کا ہو جائے تو اس کو اور کیا چاہیے۔ اس کو تو ساری کائنات مل گئی۔
یہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ جسے دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جب آنحضرتﷺ اور آپ کے صحابہؓ خد اکے ہو گئے اور خدا آپ کا ہو گیا تو پھر انہی فاقہ کرنے والوں کے قدموں میں تمام دنیا کی نعمتیں لا کر ڈھیر کر دی گئیں۔ یہاں تک کہ اس زمانے کی طاقتور ترین حکومتوں قیصر و کسریٰ کے محلات ان کے گھوڑوں کی ٹاپو ں سے لرزنے لگے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
اہل علم حضرات رمضان سے اور بھی بہت سے لطیف پیغامات لے سکتے ہیں۔ لیکن اس وقت اتنا ہی لکھنا کافی ہے۔ اس دعا کے ساتھ میں اپنی گزارشات کو آخری شکل دیتا ہوں۔
’’اے قادرخدا! اے اپنے بندوں کے راہنما ! جیسا تو نے اس زمانہ کو صنائع جدیدہ کے ظہور و بروز کا زمانہ ٹھہرایا ہے، ایسا ہی قرآنِ کریم کے حقائق معارف ان غافل قوموں پر ظاہر کر اور اب اس زمانہ کو اپنی طرف اور اپنی کتاب کی طرف اور اپنی توحید کی طرف کھینچ لے۔ کفر و شرک بہت بڑھ گیا ہے اور اسلام کم ہو گیا اب اے کریم ! مشرق و مغرب میں توحید کی ایک ہوا چلا اور آسمان پر جذب کاایک نشان ظاہر کر۔ اے رحیم! ترے رحم کے ہم سخت محتاج ہیں۔ اے ہادی! تیری ہدایتوں کی ہمیں شدید حاجت ہے، مبارک وہ دن جس میں ترے انوار ظاہر ہوں۔ کیا نیک ہے وہ گھڑی جس میں تیری فتح کا نقارہ بجے
تَوَ کَّلْنَا عَلَیْکَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ وَ اَنْتَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ213تا214حاشیہ در حاشیہ)
آمِیْن یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ