کیا نبی کتاب نہیں لکھ سکتا؟
مخالفین احمدیت ایک اعتراض یہ کرتے ہیں کہ ’’(حضرت) مرزا صاحب نے درجنوں کتابیں تصنیف کیں، حالانکہ نبی کوئی کتاب نہیں لکھتا!‘‘یہ اعتراض یہاں ریڈیو احمدیہ پر براہ راست تین چار مرتبہ ہو چکا ہے، جب محترم ملک عبدالرحمٰن خادم صاحب کی پاکٹ بک دیکھی تو اس میں بھی مخالفین کی یہ بات دیکھنے کو ملی۔ بہرحال ایسے اعتراضات پر ہمارا ہمیشہ یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ صداقت کا یہ معیار قرآن و حدیث میں بیان ہوا ہے یا آپ کا اپنا تراشیدہ ہے؟ اور معترضین کا کوئی حوالہ نہ پیش کرنا بتاتا ہے کہ یہ اعتراض بھی خود ساختہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ قرآن کریم نے مخالفین رسول کا یہ اعتراض بھی بیان فرمایا ہے کہ
وَ قَالُوۡا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوۡلِ یَاۡکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمۡشِیۡ فِی الۡاَسۡوَاقِ…۔ (الفرقان:8)
یعنی اس رسول کو کیا ہوگیا ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے…۔
اور پھر فرمایا:
اُنۡظُرۡ کَیۡفَ ضَرَبُوۡا لَکَ الۡاَمۡثَالَ فَضَلُّوۡا فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ سَبِیۡلًا۔ (الفرقان:10)
یعنی دیکھ تیرے بارے میں وہ کیسی مثالیں بیان کرتے ہیں۔ پس وہ گمراہ ہو چکے ہیں اور کسی راہ کی استطاعت نہیں رکھتے۔
سوال کی نامعقولیت
خود تراشیدہ ہونے کے علاوہ یہ اعتراض اپنی ذات میں بھی نہایت نا معقول ہے۔ یہ اعتراض معقول ہوتا اگر گذشتہ انبیاء کے زمانے کی دیگر کتب پیش کی جاتیں کہ پچھلے زمانوں کی دیگر کتب تو موجود ہیں لیکن کسی نبی کی کوئی کتاب دیکھنے کو نہیں ملتی۔ جب پچھلے زمانوں میں مشین اور پریس وغیرہ کا ہی وجود نہیں تھا تو کتابیں کہاں سے شائع ہونی تھیں ! دوسری بات یہ کہ کیا آپ کے پاس ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام کی تاریخ کا مکمل ریکارڈ موجود ہے جس سے ثابت ہوسکے کہ کبھی کسی نبی نے کتاب نہیں لکھی؟ ظاہر ہے کہ ایسا ریکارڈ صفحہ ہستی پر کسی کے پاس بھی موجود نہیں لہٰذا یہ کہنا کہ کبھی کسی نبی نے کتاب نہیں لکھی ایک بے بنیاد اور کھوکھلا دعویٰ ہے جس کا ثبوت کوئی بھی نہیں دے سکتا اور نہ ہی کسی مدعی نبوت کی عدم صداقت کی دلیل کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ کیا کتاب لکھنا معیوب بات ہے؟ اگر کتاب لکھنا معیوب اور بری بات ہوتی تو پھر قرآن و حدیث میں بھی اس ضروری بات کا ذکر ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی سورت آل عمران آیت 162، الانفال آیت 68 اور توبہ آیت 114 میں مَا كَانَ لِنَبِيٍّ کہہ کر مختلف باتوں کا ذکر کیا ہے کہ نبی کے لیے ایسے کام جائز نہیں۔ اگر کتاب لکھنا بھی ناجائز یا غیر ضروری امر ہوتا تو اس کا بھی قرآن میں یا پھر حدیث میں ذکر ہوتا۔
قرآن کریم میں قلم کی عظمت کا بیان
قلم اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے، اتنی بڑی نعمت کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نےاس ’’قلم‘‘ نام سے پوری ایک سورت نازل فرمائی ہے اور اس کا آغاز بھی ’’وَ الْقَلَمِ‘‘ یعنی قلم کی قسم کے ساتھ کیا ہے۔ پھر فرمایا:
اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ۔ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ۔ (العلق:4تا5)
پڑھ، اور تیرا ربّ سب سے زیادہ معزّز ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا۔
علامہ القرطبی (المتوفّیٰ 671ھ) اس آیت کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں:
’’{الَّذِى عَلَّمَ بِالْقَلَمِ} يعني الخط والكتابة؛ أي علم الإنسان الخط بالقلم. ورَوى سعيد عن قتادة قال: القلم نعمة من اللّٰه تعالى عظيمة، لولا ذالك لم يقم دِين، ولم يصلُح عيش. فدل على كمال كرمه سبحانه، بأنه عَلَّم عباده ما لم يعلموا، ونقلهم من ظلمة الجهل إلى نور العلم، ونَبَّه على فضل علم الكتابة، لما فيه من المنافع العظيمة، التي لا يحيط بها إلا هو. وما دُوِّنت العلوم، ولا قُيِّدت الحِكم، ولا ضبطت أخبار الأوّلِين ومقالاتهم، ولا كتبُ اللّٰه المُنْزَلة إلا بالكتابة؛ ولولا هي ما استقامت أمور الدين والدنيا ……. والكتابة عين من العيون، بها يبصر الشاهد الغائب، والخط هو آثار يده. وفي ذالك تعبير عن الضمير بما لا ينطلق به اللسان، فهو أبلغ من اللسان.‘‘
(تفسير الجامع لاحكام القرآن/ القرطبي۔ تفسیر سورۃ العلق زیر آیت اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ۔ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ۔ )
ترجمہ: قتادہ کہتے ہیں کہ قلم اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، اگر یہ نہ ہوتی تو دین قائم نہ ہوتا اور نہ زندگی ٹھیک ہوتی ….. پس اللہ تعالیٰ نے کتابت یعنی لکھائی کی فضیلت سے آگاہ فرمایا ہے بسبب اُن عظیم فوائد کے جو اِس میں ہیں اور جس کا احاطہ صرف وہ (اللہ) ہی کر سکتا ہے۔ اگر کتابت نہ ہوتی تو نہ علوم کی تدوین ہوتی، نہ فیصلے محفوظ ہوتے، نہ پہلوں کی خبریں اور باتیں قلمبند ہوتیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابیں ضبط تحریر میں آتیں اور اگر یہ ساری چیزیں نہ ہوتیں تو پھر دین و دنیا کے معاملات بھی قائم نہ ہوتے ….. اور کتابت آنکھوں میں سے ایک آنکھ ہے جس کے ذریعے ایک حاضر شخص ایک غائب شخص کو دکھا سکتا ہےاور لکھائی ہاتھ کی باتیں ہیں اور اس (لکھائی یا خط) سے ما فی الضمیر کی وہ باتیں بیان ہو جاتی ہیں جن کو زبان ادا نہیں کر سکتی پس یہ (کتابت یا خط) زبان سے زیادہ بلیغ ہے۔
علامہ فخر الدین الرازیؒ (المتوفّیٰ 606ھ) اسی آیت کی تفسیر میں قلم اور کتابت کی فضیلت و اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’{عَلَّمَ بِالْقَلَمِ } …… إذ المراد التنبيه على فضيلة الكتابة، …… فالقلم صياد يصيد العلوم يبكي ويضحك، بركوعه تسجد الأنام، وبحركته تبقى العلوم على مر الليالي والأيام، نظيره قول زكريا: { إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ نِدَاء خَفِيًّا} [مريم: 3] أخفى وأسمع فكذا القلم لا ينطق ثم يسمع الشرق والغرب، فسبحانه من قادر بسوادها جعل الدين منورًا، كما أنه جعلك بالسواد مبصرًا، …… ولا تقل القلم نائب اللسان، فإن القلم ينوب عن اللسان واللسان لا ينوب عن القلم، التراب طھور، ولو إلى عشر حجج، والقلم بدل عن اللسان ولو بعث إلى المشرق والمغرب۔ ‘‘
(تفسير مفاتيح الغيب، التفسير الكبير/ الرازي (ت606ه) تفسیرسورت العلق زیر آیت اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ۔ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ)
’’….اس میں کتابت کی فضیلت کی نصیحت کرنا مراد ہے ….پس قلم ایک شکاری ہے جو علوم کا شکار کرتا ہے اور رلاتا بھی ہے اور ہنساتا بھی ہے۔ اس (قلم) کے جھکنےسے مخلوق سجدہ کرتی ہے اور اس کی حرکت سے دن اور رات گزرنے کے باوجود علوم باقی رہتے ہیں۔ اس کی مثال حضرت زکریاؑ کا قول ہے کہ جب انہوں نے اپنے ربّ کو دھیمی آواز میں پکارا یعنی دھیمی آواز سے پکارا پھر بھی اپنی بات اللہ تعالیٰ کو سنادی۔ اسی طرح قلم ہے جو بولتا تو کچھ نہیں لیکن مشرق و مغرب کو اپنی بات سنا دیتا ہے۔ پس پاک ہے وہ ذات جس نے اس (قلم) کی سیاہی پر قدرت بخش کر دین کو منور کیا جیسا کہ اُس نے تیری آنکھ کی سیاہی کے ذریعے تجھے روشنی بخشی…. اور تم یہ نہ کہو کہ قلم زبان کا قائم مقام ہے کیونکہ قلم تو زبان کی قائم مقامی کرتا ہے لیکن زبان قلم کی قائم مقامی نہیں کرتی۔ مٹی پاک ہی رہتی ہے خواہ وہ دس سال تک پڑی رہے اور قلم زبان کی ترجمانی کرتا ہے خواہ اس کو مشرق و مغرب میں بھیجا جائے۔ ‘‘
علامہ ابن جزی الغرناطی (المتوفّیٰ 741ھ) فرماتے ہیں:
’’{الَّذِى عَلَّمَ بِالْقَلَمِ}هذا تفسير للأكرم فدل على أن نعمة التعليم أكبر نعمة، وخص من التعليمات الكتابة بالقلم لما فيھا من تخليد العلوم ومصالح الدين والدنيا۔ ‘‘
(تفسير التسھيل لعلوم التنزيل / ابن جزي الغرناطي۔ زیر تفسیر سورت العلق آیت الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ۔ )
یعنی اللہ تعالیٰ کا اپنی صفت الاکرم کا ذکر کرنا دلالت کرتا ہے کہ تعلیم بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے اور تعلیم میں سے بھی قلم کے ساتھ کتابت کو مخصوص کیا ہے کیونکہ اس میں علوم کی ہمیشگی اور دین و دنیا کی اچھائی کا سامان ہے۔
علامہ ابن کثیر (المتوفّیٰ 774ھ) آیتالَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں:
’’وفي الأثر قيدوا العلم بالكتابة، ‘‘
یعنی آثار میں یہ بیان ہوا ہے کہ علم کو کتابت کے ذریعہ محفوظ کر لو۔
روایات میں بیان ہوا ہے کہ
’’ وعن عبد اللّٰه بن عمر قال: يا رسول اللّٰه، أأكتب ما أسمع منك من الحديث؟ قال: نعم فاكتب، فإن اللّٰه عَلَّم بالقلم ….‘‘
(تفسير الجامع لاحكام القرآن/ القرطبی۔ زیر تفسیر سورت العلق آیت الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ۔ )
یعنی حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے آنحضرتﷺ سے عرض کی حضورؐ ! جو احادیث میں آپؐ سے سنتا ہوں کیا اُن کو لکھ لیا کروں؟ حضورؐ نے جواباً فرمایا ہاں ! بے شک لکھ لیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بھی قلم کے ذریعہ ہی سکھایا ہے۔
پس جب خود اللہ تعالیٰ کےقلم کے ساتھ سکھانے اور تعلیم دینے میں عیب نہیں تو انبیاء کے بذریعہ کتاب و قلم تعلیم دینے میں کیوں قباحت تسلیم کی جارہی ہے۔ علامہ احمد ابو اسحاق الثعلبی (المتوفّیٰ 427ھ) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’وقيل: الأقلام مطايا الفطن ورسل الكرام‘‘
(تفسير الكشف والبيان / الثعلبي۔ زیر تفسیر سورت القلم آیت نٓ وَ الۡقَلَمِ وَ مَا یَسۡطُرُوۡنَ۔ )
یعنی کہا گیا ہے کہ قلم ذہین و فطین لوگوں کی سواریاں ہیں اور معزّز لوگوں کے پیامبر ہیں۔
حیرت ہے کہ مخالفین نبی کے تلوار اٹھانے پر زور دیتے ہیں لیکن تلوار سے زیادہ فضیلت والی چیز یعنی قلم کے استعمال کرنے پر نبی کو نشانہ اعتراض بناتے ہیں۔
قلم کا پہلا استعمال نبی نے کیا
یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ دنیا میں قلم کا سب سے پہلا استعمال نبی نے ہی کیا تھا۔ سورۃ مریم کی آیت 57
وَاذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ اِدۡرِیۡسَ ۫ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا
کی تفسیر میں علامہ البقاعی (المتوفّیٰ 885ھ) آنحضرتﷺ کی یہ حدیث بیان کرتے ہیں: ’’أول من خط بالقلم إدريس عليه السلام‘‘ یعنی پہلا انسان جس نے قلم کے ذریعہ کتابت کی وہ حضرت ادریس علیہ السلام تھے۔ اسی آیت کی تفسیر میں مزید لکھتے ہیں:
’’وإدريس عليه السلام أول من أعرب الخطاب بالكتاب‘‘
( تفسير نظم الدرر في تناسب الآيات والسور/ البقاعي۔ زیر تفسیر سورت مریم وَاذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ اِدۡرِیۡسَ ۫ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا)
یعنی حضرت ادریس علیہ السلام پہلے بندے تھے جنہوں نے کتابت کے ذریعے مخاطب کیا۔
بعض جگہوں پر حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر بھی ملتا ہے بہرحال دونوں میں سے جو بھی ہوں دونوں ہی نبی تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے کہ آپؑ کاغذی صفحات پر لکھنے والے پہلے تھے۔ چنانچہ علامہ القرطبی لکھتے ہیں:
’’وفي التفسير: إني حاسب كاتب وأنه أوّل من كتب في القراطيس۔ ‘‘
(تفسير الجامع لاحكام القرآن/ القرطبي۔ زیر تفسیر سورت یوسف آیت قَالَ اجۡعَلۡنِیۡ عَلٰی خَزَآئِنِ الۡاَرۡضِ ۚ اِنِّیۡ حَفِیۡظٌ عَلِیۡمٌ)
انبیاء میں سے صرف آنحضرتﷺ کا ’’اُمّی‘‘ہونا بیان ہوا ہے یعنی آپؐ پڑھے لکھے نہیں تھے، باقی سب انبیاء پڑھے لکھے تھے، علامہ البیضاوی(المتوفّیٰ 685ھ) آیت
كَذَالِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ
کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’….. لأن حاله يخالف حال موسى وداود وعيسى حيث كان عليه الصلاة والسلام أميًا وكانوا يكتبون‘‘
(تفسير انوار التنزيل واسرار التأويل/ البيضاوي۔ سورت الفرقان آیت كَذَالِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ)
یعنی آنحضرتﷺ کا حال حضرت موسیٰؑ، حضرت داؤدؑ اور حضرت عیسیٰؑ سے مختلف ہے کیونکہ آپؐ اُمی تھے جبکہ یہ انبیاء کتابت کیا کرتے تھے۔
گوکہ آنحضرتﷺ لکھنا نہیں جانتے تھے پھر بھی کاتبوں سے پیغامِ رسالت لکھوا کر مکتوب کی شکل میں غیر مذاہب کے اکابرین کو بھجوایاہے۔ علامہ ابو حیان (المتوفّیٰ 754ھ) حضرت سلیمان علیہ السلام کے ملکہ سبا کو لکھے گئے تبلیغی خط کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’{اذهب بكتابي هذا فألقه إليھم} دليل على إرسال الكتب إلى المشركين من الإمام، يبلغهم الدعوة ويدعوهم إلى الإسلام. وقد كتب رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إلى كسرى وقيصر وغيرهما ملوك العرب‘‘
(تفسير البحر المحيط/ ابو حيان۔ زیر تفسیر سورت النمل: اِذۡہَبۡ بِّکِتٰبِیۡ ہٰذَا فَاَلۡقِہۡ اِلَیۡہِمۡ…)
یعنی (حضرت سلیمانؑ کا مکتوب لکھنا) امام وقت کا مشرکین کی طرف مکتوبات بھیجنے پر دلیل ہے جن میں وہ اُن کو تبلیغ کرتا ہے اور انہیں اسلام کی طرف بلاتا ہے چنانچہ آنحضرتﷺ نے بھی قیصر و کسریٰ وغیرھما بادشاہوں کی طرف مکتوبات لکھے۔
انبیاء کوتبلیغ کا حکم
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ کتاب دنیا کو پیغام پہنچانے کے لیے ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے مرسلین کو الٰہی پیغام لوگوں تک پہنچانے کی تلقین فرمائی ہے جیسا کہ فرمایا:
فَہَلۡ عَلَی الرُّسُلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ (النحل:36)
رسولوں پر (خدا کا پیغام) پہنچا دینے کے سوا اور کیا ذمہ داری ہے۔
قرآن کریم میں اس مضمون کی اور بھی آیات موجود ہیں اور کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے قید نہیں لگائی کہ تبلیغ میں اور ذرائع تو بے شک استعمال کرو لیکن کبھی بھی کتاب لکھ کر تبلیغ نہ کرنا۔ پس مرسلین پر کھلا کھلا پیغام پہنچانے کی ذمہ داری ہے خواہ وہ تقریر کے ذریعہ ہو یا تحریر کے ذریعہ۔ ابو الحسن علی ندوی اپنی کتاب ’’دعوت و تبلیغ کا معجزانہ اسلوب‘‘میں بیان کرتے ہیں:
’’….. دعوت و تبلیغ کا انداز ماحول اور گرد و پیش کے حالات، مخاطبین کے طبائع اور دین کے مصالح کے مطابق متعین ہوتا ہے۔ چونکہ دعوت کو ’’صورت حال‘‘ کا سامنا کرنا ہوتا ہے اور ’’صورت حال‘‘ہمیشہ بدلتی رہتی ہے ….. اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مبلغ کو یہ بات کرنی چاہیے یہ نہیں کرنی چاہیے اور کام کرنا چاہیے اور یہ نہیں کرنا چاہیے…..کیونکہ ہر بدلتے ہوئے معاشرے اور تبدیل شدہ صورت حال سے اس کو نمٹنا ہوتا ہے۔ …..
’’اُدْعُ(بلاؤ) کا لفظ بھی کس درجہ وسیع معانی پر حاوی ہے، اس میں نہ اس کی قید ہے کہ وعظ و تقریر کے ذریعے بلاؤ، نہ یہ کہ تحریر کے ذریعے دعوت دو، نہ یہ کہ وعظ و تلقین ہی کا ذریعہ اختیار کرو، یہ لفظ ’’اُدْعُ‘‘تمام معانی اپنے جلو میں رکھتا ہے اور حسب موقع داعیٔ دعوت کا فرض کبھی پند و نصائح سے، کبھی وعظ و تقریر سے اور کبھی تحریر اور دوسرے ذرائع ابلاغ سے ادا کر سکتا ہے اور بلانے کا ہر وہ وسیلہ اختیار کر سکتا ہے جو مشروع ہو، مؤثر ہو اور نافع ہو۔ ‘‘
(دعوت و تبلیغ کا معجزانہ اسلوب صفحہ 19 تا 23 از مولانا سید ابوالحسن علی ندوی۔ مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنؤ (دار العلوم ندوۃ العلماء) بار اول 1981ء)
علماء ورثۃ الانبیاء کا عملی نمونہ
بزرگان سلف نے علمی و قلمی لحاظ سے عظیم الشان خدمات سرانجام دی ہیں اور علم تفسیر القرآن، علم حدیث، علم الکلام، علم الفقہ وغیرہ میں ہزاروں کتب کا ذخیرہ چھوڑا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخ میں جتنی کتابیں مسلمان اولیاء و اسلاف کی ملتی ہیں اور کسی مذہب کے ماننے والوں کی نہیں ملتیں۔ اگر کتاب کا لکھنا انبیاء کی شان کے خلاف ہوتا تو دین اسلام کے یہ بزرگانِ سلف منہاج نبوت پر چلتے ہوئے اس کام سے باز رہتے خصوصاً جبکہ حدیث میں آیا ہے:
’’وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ ….‘‘
ترجمہ: یقیناًعلماء انبیاء کے وارث ہیں یعنی علمی و دینی لحاظ سے انبیاء کے جانشین ہیں۔
(سنن ابی داؤد کتاب العلم باب الْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ)
امام بخاریؒ نے بھی اس فرمان کو کتاب العلم میں درج فرمایا ہے، امام ابن حجر العسقلانیؒ (المتوفّیٰ 852ھ)
وَأَنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ
کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’…أن الوارث قائم مقام الموروث، فلہٗ حُکمہ فیما قام مقامہ فیہ۔ ‘‘
(فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب العلم باب الْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ)
یعنی وارث اپنے موروث کا قائم مقام ہوتا ہے پس اُس(وارث) کے لیے بھی وہی حکم ہے جو اُس (موروث) کے لیے ہے جس کی جگہ پر وہ (وارث) کھڑا ہوا ہے۔
اگر نبی کے لیے کتاب لکھنا جائز نہیں تو پھر علماء کو بھی تالیف و تصنیف سے مجتنب رہنا چاہیے تھا لیکن نہ ایسی کوئی ممانعت نبی کے لیے ہے اور نہ ہی علماء نے سنت انبیاء کے خلاف کوئی کام کیا ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ آغاز اسلام میں تحریر و کتابت کا رواج کم تھا اور تعلیم و تدریس کی بنا حافظہ پر زیادہ تھی لیکن جیسے جیسے کتابت کا رواج ہوا انصارِ دین علماء نے اس کو اپنانے میں دیر نہیں کی، امام ابن حجر العسقلانیؒ حافظہ سے کتابت تک کے اس سفر کے متعلق لکھتے ہیں:
’’…. کرہ جماعۃ من الصحابۃ و التابعین کتابۃ الحدیث و استحبوا أن یؤخذَ عنْھُم حفظًا کما أخذوا حفظًا، لٰکن لمّا قصرت الھمم و خَشی الأئِمّۃُ ضیاعَ الْعلم دَوّنوہُ۔ و أوّلُ مَن دّوّن الحدیثَ ابن شھاب الزھری علی رأس المائۃ بأَمْرِ عمر بن عبدالعزیز، ثمّ کَثُرَ التدْوِین ثم التصنیف، و حصل بذالک خیرٌ کثیرٌ، فللّٰہ الحمد۔ ‘‘
(فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب العلم باب کتابۃ العلم)
یعنی صحابہ اور تابعین حدیث کی کتابت کو پسند نہیں کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ ان سے بھی (روایات) حفظ کر کے اخذ کی جائیں جیسا کہ انہوں نے کیں لیکن جب ہمتیں کمزور پڑ گئیں اور اماموں کو علم کے ضائع ہونے کا خدشہ ہوا تو انہوں نے اس (علم حدیث) کو مُدوّن کرنا شروع کیا اور پہلا شخص جس نے حدیث کی تدوین کی وہ ابن شہاب الزہری تھے جنہوں نے پہلی صدی کے آغاز میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی ہدایت پر تدوین کا کام کیا۔ اس کے بعد تدوین کے کام میں کثرت آگئی اور پھر تصنیف میں کثرت ہوئی اور اس (تدوین و تصنیف) کے ذریعے خیر کثیر حاصل ہوا۔ پس (ان تمام کاموں پربھی) اللہ تعالیٰ کی حمد ہے۔
اگر علماء و فضلاء کے تصنیفی کام سے خیر کثیر حاصل ہوا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے مرسل کی تصنیف کے کام سے خیر کثیر کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
امام مہدی کا کتاب لکھنا خود آنحضرتﷺ کی پیشگوئی ہے
شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی اپنی کتاب میں ’’جواہر الاسرار‘‘(قلمی نسخہ) جو840ھ میں تالیف ہوئی تھی، درج ذیل روایت درج کرتے ہیں:
’’قال النبیﷺ یخرج المھدی مِن قریۃ یقال لھا کدعۃ و یُصدّقُہُ اللّٰہُ تعالیٰ و یجمع اللّٰہُ تعالیٰ اصحابَہٗ مِن اَقْصَی الْبِلادِ علیٰ عِدّۃ أھل بدرٍ بثلاث مائۃ و ثلاثۃ عشر رجلًا و معہٗ صحیفۃ مختومۃ (ای مطبوعۃ) فیھا عدد اصحابہٖ بأسمائِھم و بِلادِھِم و خلالِھِم۔ ‘‘
(قلمی نسخہ جواہر الاسرار صفحہ 43۔ لائبریری گنج بخش مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان بحوالہ 313 اصحاب صدق و صفا)
یعنی حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ مہدی اس گاؤں سے نکلے گا جس کا نام کدعہ ہے (یہ نام دراصل قادیان کے نام کو معرب کیا ہوا ہے) اور پھر فرمایا کہ خدا اس مہدی کی تصدیق کرے گا اور دور دور سے اس کے دوست جمع کرے گا جن کا شمار اہل بدر کے شمار کے برابر ہوگا یعنی تین سو تیرہ (313) ہوں گے اور مہدی کے پاس ایک چھپی ہوئی کتاب ہوگی جس میں اس کے اصحاب کے نام بقید مسکن و خصلت درج ہوں گے۔
حضرت اقدسؑ کو کتابیں شائع کرنے کا الہامی حکم اور اس کے عظیم الشان اثرات
یہ زمانہ نشر و اشاعت کا زمانہ ہے، مسیحی اقوام نے اپنی تمدّنی ترقی کے ذریعے جہاں اور فائدے اٹھائے ہیں وہاں تالیف و تصنیف کے ذریعے بھی مسیحیت کی پرچار میں بھرپور حصہ لیا ہے بلکہ اس تالیف و تصنیف کا ایک بڑا حصہ دین اسلام کے خلاف وقف رکھا اور خود مسلمانوں میں رائج حیات مسیح وغیرہ عقیدہ کو استعمال کر کے حضرت عیسیٰؑ کی آنحضرتﷺ پر اور مسیحیت کی اسلام پر فوقیت ہونے کا پروپیگنڈا کیا۔ مسیحیت کے اسلام مخالف لٹریچر کے جواب میں مسلمانوں کی خاموشی نے کئی مسلمان گھرانوں کے چراغ مسیحیت کے دامن سے وابستہ کر دیے۔ آریہ لٹریچر کی روداد اس کے علاوہ ہے۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح موعود و امام مہدیؑ کے طور پر مبعوث فرمایا جن کے متعلق آنحضرتﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ فَیَکْسِرُ الصَّلِیْبَ یعنی وہ صلیب کو توڑے گا جس کی تشریح میں امام ابن حجر العسقلانیؒ فرماتے ہیں: ’’أی یُبطل دین النصرانیۃ‘‘یعنی اس سے مراد نصاریٰ کے دین کا جھوٹا ہونا ثابت کرنا ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب الأنبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم علیھ السلام) ظاہری بات ہے نصاریٰ کے دین کا جھوٹ ثابت کرنا دلائل و براہین کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے اور اس کے لیے مسیحیت کے اسلام مخالف لٹریچر کے جوابات اور آنحضرتﷺ اور دین اسلام کے بلند مرتبہ کے حق میں لٹریچر کی ضرورت تھی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیحیت کے استعمال کردہ حربہ کا جواب اُسی شکل میں دے کر ساری دنیا کے مسلمانوں کو گھر بیٹھے دفاع ناموس رسالت اور دین محمدی کی افضلیت ثابت کرنے کے سامان مہیا کیے۔ در اصل اس زمانہ میں کتابوں کی اشاعت ہی تبلیغ دین کا بہترین ذریعہ تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے الہامًا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس ذریعۂ تبلیغ کا حکم دیا، آپؑ کا الہام ہے: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ۔ فَاکْتُبْ وَ لْیُطْبَعْ وَ لِیُرْسَلْ فِی اْلأَرْضِ۔ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 267 حاشیہ در حاشیہ) ترجمہ اللہ کے سوائے کوئی معبود نہیں۔ پس تو لکھ اور وہ طبع کیا جائے اور چاہیے کہ ساری زمین میں بھیجا جائے۔
اس حکم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو وفات مسیح ناصریؑ جیسے عظیم الشان ہتھیار کے ساتھ فضائل اسلام کے حق میں کثیر حقائق و معارف سکھائے۔ چنانچہ آپؑ نے اس الہامی حکم کی پیروی میں دعاؤں اور انتھک محنت کے ساتھ قادیان کے محدود(بلکہ نہ ہونے کے برابر) وسائل جیسی بستی سے دنیا میں حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی صداقت کا نقّارہ بجایا جس نے ایک طرف تو عالم اسلام میں خوشی کے سامان کیے اور دوسری طرف مسیحیت کے کیمپ میں کھلبلی مچادی۔ فورمین کالج لاہور کے ایک عیسائی پروفیسر Sirajud Din, B.A نے اپنے ایک مضمون بعنوانMirza Ghulam Ahmadمیں لکھا:
’’All his writings resound with the one note that Christ died like all other mortals and is no longer living…. But he is determined to make him smaller than Mohammed at any cost.‘‘
(The Missionary Review of the World, Vol: XX No: 10 page 751 October 1907 printed in the United States of America)
یعنی ان (حضرت مسیح موعودؑ ) کی ساری تحریرات میں ایک ہی بات کی گونج ہے کہ مسیح ناصری باقی انسانوں کی طرح وفات پاگئے ہیں اور (آسمان پر) زندہ نہیں ہیں …. بلکہ انہوں نے ٹھان لی ہے کہ ہر قیمت پر یسوع مسیح کو (حضرت) محمدؐ سے چھوٹا ثابت کر کے دکھائیں گے۔
نائیجیریا میں 35سال سے زائد مشنری کام کرنے والےWalter Richard Samuel Miller (1872-1952) اپنی ایک کتاب میں صاف اقرار کرتے ہیں کہ احمدیت کا لٹریچر (ملاؤں کے مزعومہ) جہاد اور کسی ریاست کی فوج سے زیادہ بڑا ہتھیار ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
“In the greatly increased and widely read literary output of the Ahmadiyya sect,…are there not stronger weapons than those of the Jihad and armies of empire.‘‘
(Yesterday and Tomorrow in Northern Nigeria by Walter Miller page 105,106 Student Christian Movement Press 58, Bloomsbury Street, London, Printed in Great Britian by William Clowes and Sons, Limited, London, December 1938)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ان علمی خدمات کی بازگشت ایک سو سال گذرنے کے بعد بھی ایک مخالف احمدیت کی زبان سے سنائی دی۔ چنانچہ پاکستان کی مشہور شخصیت ڈاکٹر اسرار احمد صاحب (بانی انجمن خدام القرآن) نے پاکستانی ٹی وی چینل ARY کے ایک پروگرام میں درج ذیل بیان دیا:
’’اصل میں ایک خاص دور تھا کہ جب اسلام کے خلاف عیسائی تھے …. اُس (مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ ناقل) نے اُن عیسائی مشنریز کے ساتھ مناظرے کیے اور غلام احمد نے انہیں شکستیں دیں۔ اور ایک زبردست جو violent تحریک اُٹھ گئی تھی …. آریہ سماج۔ تو آریہ سماج کے لوگوں سے بھی اُس نے مناظرے کیے اور انہیں شکستیں دیں …. ان چیزوں کی وجہ سے علماء کی آنکھ کا تارا بن گئے۔ ‘‘
(ماہنامہ ’’السلام‘‘ مارچ 2005ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 10؍مارچ 2006ء صفحہ 14 کالم 1)
خلاصہ کلام یہ کہ نبی کو
’’بَلِّغْ‘‘
کا حکم ہے پس وہ اس الٰہی حکم کی تعمیل میں اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتوں اور قابلیتوں کو استعمال کر کے جہاں تک ہوسکے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا تک پہنچاتا ہے۔ پچھلے زمانوں میں طباعت و اشاعت کے یہ سامان میسر نہیں تھے جو آج ہمیں میسر ہیں، پس گذشتہ زمانے میں ان چیزوں کے عدم وجود سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ کام ہی ممنوع ہے کسی طور سے درست نہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
(ترجمہ از عربی) ’’….. یہ اسی کی رحیمیت ہے کہ ہمارے لیے ممکن ہوگیا ہے کہ چند دنوں میں اپنے مذہب کی اس قدر کتابیں طبع کر دیں جو ہمارے اسلاف سالوں میں بھی لکھنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ آج ہم زمین کے دور دراز علاقوں کی خبریں چند گھڑیوں میں معلوم کر سکتے ہیں جو پہلے لوگ اپنی جانوں کو مشقت میں ڈال کر اور سالہا سال کی محنت کر کے حاصل کرتے تھے۔ اس نے ہر بھلائی کے لیے ہر پر ربوبیت، رحمانیت اور رحیمیت کے دروازے کھول دیے ہیں اور اُن کی اتنی کثیر راہیں ہیں کہ جن کا شمار انسانی طاقت سے باہر ہے اور یہ سہولتیں پہلے دعوت و تبلیغ کرنے والوں کو کہاں میسر تھیں ….. پہلوں نے ایسی نعمتیں نہیں دیکھی تھیں جو ہم نے دیکھیں، ہر قدم پر ایک نعمت ہے اور یہ نعماء حدّ و شمار سے باہر ہیں۔ ‘‘
(اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 161 تا 163)
٭…٭…٭