شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
حضرت مسیح موعودؑ کا عشقِ رسولﷺ
(گذشتہ سے پیوستہ)حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنی پاک باطنی و انشراح صدری و عصمت و حیا وصدق و صفا وتوکل و وفا اور عشق الٰہی کے تمام لوازم میں سب انبیا سے بڑھ کر اور سب سے افضل و اعلیٰ و اکمل و ارفع و اجلیٰ و اَصفا تھے اس لیے خدائے جل شانہٗ نے ان کو عطر کمالات خاصہ سے سب سے زیادہ معطر کیا اور وہ سینہ اور دل جو تمام اولین و آخرین کے سینہ و دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر و عاشق تر تھا وہ اسی لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اولین و آخرین کی وحیوں سے اقویٰ و اکمل و ارفع و اتم ہوکر صفات الٰہیہ کے دکھلانے کے لیے ایک نہایت صاف اور کشادہ اور وسیع آئینہ ہو۔‘‘
(سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد2صفحہ71حاشیہ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے، اپنی صفات سے، اپنے افعال سے، اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پُر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً و عملاً و صدقاً و ثباتاً دکھلایا اور انسان کامل کہلایا … وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مَرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبیین جناب محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔اے پیارے خدا اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تُو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔‘‘
(اتمام الحجہ روحانی خزائن جلد8صفحہ308)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’مَیں اُسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اُس نے ابراہیمؑ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا اور پھر اسحٰقؑ ؑسے اور اسمٰعیلؑ سے اور یعقوبؑ سے اور یوسفؑ سے اور موسٰیؑ سے اور مسیح ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہم کلام ہوا کہ آپؐ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی ایسا ہی اُس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا۔مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پَیروی سے حاصل ہوا۔اگر مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت نہ ہوتا اور آپؐ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی مَیں کبھی یہ شرف مکالمہ و مخاطبہ ہر گز نہ پاتا۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ روحانی خزائن جلد20صفحہ411-412)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پَیروی کرنا اور آپؐ سے محبت رکھنا انجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنادیتا ہے۔اس طرح پر کہ خود اُس کے دل میں محبت ِ الٰہی کی ایک سوزش پیدا کردیتا ہے۔تب ایسا شخص ہر ایک چیز سے دل برداشتہ ہوکر خدا کی طرف جھک جاتا ہے اور اس کا اُنس و شوق صرف خدا تعالیٰ سے باقی رہ جاتا ہے۔تب محبت الٰہی کی ایک خاص تجلّی اس پر پڑتی ہے اور اس کو ایک پورا رنگ عشق اور محبت کا دے کر قوی جذبہ کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔تب جذبات نفسانیہ پر وہ غالب آجاتا ہے۔اور اس کی تائید اور نصرت میں ہر ایک پہلو سے خدا تعالیٰ کے خارق عادت افعا ل نشانوں کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں ۔‘‘
(حقیقۃالوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ67،68)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہوگیا۔اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لیے آتے ہیں ۔اور ایک نے اُن میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد1صفحہ598)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں۔اور جیسا کوئی اپنے پیارے کے لیے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے۔ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے نبی کریم ؐ کے لیے برکت چاہیں اور بہت ہی تضرع سے چاہیں اور اس تضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو بلکہ چاہیے کہ حضرت نبی کریمؐ سے سچی دوستی اور محبت ہو اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت ﷺ کے لیے مانگی جائیں کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں…اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ کبھی ملول ہو۔اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو اور محض اسی غرض کے لیے پڑھے کہ آنحضرت ﷺ پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں ۔‘‘
(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 534-535مکتوب نمبر 18 بنام میر عباس علی شاہ صاحب)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’اگرچہ آنحضرت ﷺ کو کسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے۔جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لیے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ بباعث علاقہ ذاتی محبت کے اس شخص کے وجود کی ایک جز ہو جاتا ہے اور چونکہ آنحضرت ﷺ پر فیضان حضرت احدیت کے بے انتہا ہیں اس لیے درود بھیجنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت ﷺ کے لیے برکت چاہتے ہیں ۔بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے۔مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتا ہے۔‘‘
(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 535مکتوب نمبر 18 بنام میر عباس علی شاہ صاحب)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریم ؐکے مل نہیں سکتیں جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ (المائدۃ:36) تب ایک مُدّت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دو سَقے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور اُن کے کا ندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ھٰذَا بِمَا صَلَّیْتَ عَلٰی مُحَمَّدٍ۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 131حاشیہ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’ہمارے سیدو مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا ہی صدق و وفا دیکھئے۔ آپؐ نے ہرایک قسم کی بدتحریک کا مقابلہ کیا۔طرح طرح کے مصائب و تکالیف اٹھائے لیکن پروا نہ کی۔ یہی صدق و وفا تھا جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب : 57)
ترجمہ :اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے رسولؐ پر درود بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم درود و سلام بھیجو نبی ؐپر۔اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرمؐ کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالےٰ نے اُن کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لیے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا۔لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کیے یعنی آپؐ کے اعمالِ صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی۔اس قسم کی آیت کسی اَور نبی کی شان میں استعمال نہ کی۔آپؐ کی روح میں وہ صدق و وفا تھا اور آپؐ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے یہ حکم دیا کہ آیندہ لوگ شکرگزاری کے طور پر درود بھیجیں ۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ37،38)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’رسول اللہ ﷺ کی محبت کی ازدیاد اور تجدید کے لیے ہر نماز میں درود شریف کا پڑھنا ضروری ہو گیا۔تا کہ اس دعا کی قبولیت کے لیے استقامت کا ایک ذریعہ ہاتھ آئے…قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں ۔
اول : اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ دوم یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا تیسرا موہبت الٰہی‘‘۔
(ریویو آف ریلیجنز اردو جلد 3 نمبر 1، بابت ماہ جنوری 1904ء صفحہ 14-15)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ سَیِّدِ وُلْدِ اٰدَمَ وَ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ۔اور درود بھیج محمدؐ اور آل محمدؐ پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے صلی اللہ علیہ وسلم یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اور تفضّلات اور عنایات اسی کے طفیل سے ہیں اور اسی سے محبت کرنے کا یہ صلہ ہے۔سبحان اللہ اس سرورِ کائنات کے حضرت احدیّت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں اور کس قسم کا قرب ہے کہ اس کا محب خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اُس کا خادم ایک دنیا کا مخدوم بنایا جاتا ہے۔
… اس مقام میں مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہوگیا۔اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لیے آتے ہیں ۔اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں صلی اللہ علیہ وسلم۔اور ایسا ہی عجیب ایک اَور قصہ یاد آیا ہے کہ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں یعنے ارادۂ الٰہی احیاء دین کے لیے جوش میں ہے لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص مُحْیِی کے تعین ظاہر نہیں ہوئی اس لیے وہ اختلاف میں ہے۔اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحْیِی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں ۔اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا ھٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلَ اللہِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے۔اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے۔سو وہ اس شخص میں متحقق ہے۔اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی سِرّ ہے کہ افاضہ انوار الٰہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے۔اور جو شخص حضرت احدیّت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں طیّبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 597تا 598 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں :
’’مَیں پھرکہتاہوں کہ اس وقت بھی خدائے تعالیٰ نے دنیاکومحروم نہیں چھوڑا۔اورایک سلسلہ قائم کیاہے۔ہاں اپنے ہاتھ سے اس نے ایک بندہ کوکھڑاکیا اوروہ وہی ہے جوتم میں بیٹھاہوابول رہاہے۔اب خداتعالیٰ کے نزول رحمت کاوقت ہے۔دعائیں مانگو۔استقامت چاہو اور درود شریف جوحصولِ استقامت کاایک زبردست ذریعہ ہے بکثرت پڑھو۔مگرنہ رسم اورعادت کے طورپربلکہ رسول اللہ ﷺ کے حسن اوراحسان کومدنظررکھ کراورآپؐ کے مدارج اورمراتب کی ترقی کے لیے اورآپؐ کی کامیابیوں کے واسطے۔اس کانتیجہ یہ ہوگاکہ قبولیت دعاکاشیریں اورلذیذپھل تم کوملے گا۔‘‘
(ملفوظات جلد3صفحہ38جدید ایڈیشن)
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں :
’’یہ زمانہ کیسامبارک زمانہ ہے کہ خداتعالیٰ نے ان پُرآشوب دنوں میں محض اپنے فضل سے آنحضرت ﷺ کی عظمت کے اظہار کے لیے یہ مبارک ارادہ فرمایا کہ غیب سے اسلام کی نصرت کاانتظا م فرمایا اور ایک سلسلہ کوقائم کیا۔مَیں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو اپنے دل میں اسلام کے لیے ایک درد رکھتے ہیں اور اس کی عزت اور وقعت ان کے دلوں میں ہے۔وہ بتائیں کہ کیا کوئی زمانہ اس سے بڑھ کر اسلام پر گزرا ہے۔جس میں اس قدر سَبّ و شتم اور توہین آنحضرت ﷺ کی کی گئی ہو اور قرآن شریف کی ہتک ہوتی ہو؟
پھرمجھے مسلمانوں کی حالت پر سخت افسوس اور دلی رنج ہوتا ہے اور بعض وقت مَیں اس درد سے بےقرار ہو جاتا ہوں کہ ان میں اتنی حس بھی باقی نہ رہی کہ اس بے عزتی کو محسوس کرلیں ۔کیا آنحضرت ﷺ کی کچھ بھی عزت اللہ تعالیٰ کومنظورنہ تھی جو اس قدر سبّ و شتم پربھی وہ کوئی آسمانی سلسلہ قائم نہ کرتااوران مخالفین اسلام کے منہ بند کرکے آپ کی عظمت اور پاکیزگی کو دنیا میں پھیلاتا جبکہ خود اللہ تعالیٰ اوراس کے ملائکہ آنحضرت ﷺ پردرودبھیجتے ہیں ۔تو اس توہین کے وقت اس صلوٰۃ کااظہارکس قدرضروری ہے اور اس کاظہوراللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کی صورت میں کیاہے۔‘‘
(ملفوظات جلدپنجم صفحہ 13،14)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
’’بیان کیا ہم سے شیخ یعقوب علی صاحب تراب عرفانی نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ سفر میں تھے اور لاہور کے ایک سٹیشن کے پاس ایک مسجد میں وضو فر مارہے تھے۔اس وقت پنڈت لیکھرام حضورؑ سے ملنے کے لیے آیا اور آکر سلام کیا مگر حضرت صاحبؑ نے کچھ جواب نہیں دیا۔اُس نے اس خیال سے کہ شائد آپ نے سُنا نہیں دوسری طرف سے ہو کر پھر سلام کیا۔مگر آپؑ نے پھر بھی توجہ نہیں کی۔اس کے بعد حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ حضور ؑ پنڈت لیکھرام نے سلام کیا تھا۔آپؑ نے فرمایا۔’’ہمارے آقا کو گالیاں دیتا ہے۔اور ہمیں سلام کرتا ہے۔‘‘خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑکو آنحضرت ﷺ کے ساتھ وہ عشق تھا کہ جس کی مثال نظر نہیں آتی۔‘‘
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 281)
جون 1893ء میں عیسائیوں اورمسلمانوں کے مابین ایک معرکہ آراء مباحثہ ہوا۔پندرہ روز بحث کے بعد عیسائیوں کے منتظم اعلیٰ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کی جانب سے ایک چائے پارٹی کااہتمام کیا گیا اور ان لوگوں نے حضرت اقدس اور آپؑ کے ساتھیوں کو بھی دعوت دی۔لیکن آپؑ نے محض اس وجہ سے یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ لوگ نعوذباللہ آنحضرتﷺ کی تو بے حرمتی کرتے اورتوہین کرتے ہیں اورمجھے چائے کی دعوت دیتے ہیں ۔ہماری غیرت تقاضانہیں کرتی کہ ان کے ساتھ مل کربیٹھیں سوائے اس کے کہ ہم ان کے غلط عقائد کی تردید کریں ۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ جلددوم ص 272)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ ایک ثابت شدہ صداقت ہے۔کہ آپؑ میں غیرت دینی بے حد تھی۔خصوصاً آنحضرت ﷺ کے خلاف آپؑ کوئی کلمہ بے ادبی کا سن کر بے تاب ہوجاتے تھے۔ اور آپؑ برداشت ہی نہ کر سکتے تھے۔ اس کے بہت سے واقعات آپؑ کی زندگی میں پائے جاتے ہیں ۔
آپؑ نے اپنی چچی (جناب مرزا غلام حیدر صاحب مرحوم کی اہلیہ) بی بی صاحب جان کے ہاں آنا جانا ترک کر دیا۔اور ان کے گھر کا کھانا پینا چھوڑ دیا۔محض اس لیے کہ ایک مرتبہ ان کے منہ سے آنحضرت نبی کریم ﷺ کی شان میں کوئی بے ادبی کا کلمہ نکل گیا تھا۔باوجود اس احترام کے جو آپؑ بزرگوں کا کرتے تھے۔اس بات کاایسا اثر آپ کی طبیعت پر تھا کہ آپؑ کا چہرہ غصہ سے تمتما اٹھا۔اور آپؑ کا اپنا کھانا پینا بھی اس سے ترک ہو گیا۔‘‘
(حیاتِ احمد جلدا ول حصہ سوم صفحہ 344-345)
اسی طرح ایک اور واقعہ حضرت عرفانی صاحب ؓ نے بیان کیاہے جوایک روشن باب ہے کہ حضرت اقدسؑ آنحضرتﷺ کے خلاف کوئی بات برداشت کرہی نہ سکتے تھے۔وہ لکھتے ہیں کہ
’’1925ء کی دوسری ششماہی میں جب میں لنڈن گیا تو میں ڈاکٹر پادری وایٹ بریخٹ صاحب (جو آجکل وہاں ڈاکٹر سٹانٹن کہلاتے ہیں )سے ملا۔پادری صاحب بٹالہ میں مشنری رہے ہیں ۔اور حضرت صاحبؑ سے بھی ان کی بعض ملاقاتیں ہوئی ہیں ۔پادری فتح مسیح صاحب سے بٹالہ میں ایک مباحثہ الہام کے متعلق تھا۔اس میں بھی ان کا دخل تھا۔غرض سلسلہ کی تاریخ میں ان کا کچھ تعلق ہے۔اس سلسلہ میں ان سے مجھے ملنے کی خواہش تھی۔اور میں ان سے جا کر ملا۔اثنائے گفتگو میں میرے بعض سوالات کے جواب میں جو حضرت کی سیرت یا بعض واقعات کے متعلق تھے۔ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ:’’میں نے ایک بات مرزا صاحب میں یہ دیکھی جو مجھے پسند نہیں تھی۔کہ وہ جب ’’آنحضرت ‘‘ پر اعتراض کیا جاتا تو ناراض ہو جاتے تھے۔اور ان کا چہرہ متغیر ہو جاتا تھا۔‘‘ میں نے پادری صاحب کو کہاکہ جو بات آپ کو ناپسند ہے۔میں اسی پر قربان ہوں ۔کیونکہ اس سے حضرت مرزا صاحبؑ کی زندگی کے ایک پہلو پر ایسی روشنی پڑتی ہے کہ وہ آپؑ کی ایمانی غیرت اور آنحضرت ﷺ سے محبت ہی نہیں عشق اور فدائیت کو نمایاں کر دیتی ہے۔آپ کے نزدیک شاید یہ عیب ہو۔مگر میں تو اسے اعلیٰ درجہ کا اخلاق یقین کرتا ہوں ۔اور آپ کے منہ سے سن کر حضرت مرزا صاحبؑ کی محبت اور آپؑ کے ساتھ عقیدت میں بہت بڑی ترقی محسوس کرتا ہوں ۔غرض آپؑ کو آنحضرت ﷺ سے بے انتہا محبت اور عشق تھا۔آپؑ یہ کبھی برداشت ہی نہ کر سکتے تھے کہ کوئی شخص آپؐ کی بے ادبی کرے۔کوئی چیز آپؑ کو غصہ نہیں دلا سکتی تھی۔اور سچ تو یہ ہے۔کہ آپؑ کو غصہ آتا ہی نہ تھا۔بغیر اس کے کہ آنحضرت ﷺ یا شعائر الله کی کوئی بے ادبی کرے۔‘‘
(حیات احمدؑ جلد اول حصہ سوم ،صفحہ345-346)
(جاری ہے )