کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
’’ہماری جماعت کو مناسب ہے کہ وہ اخلاقی ترقی کریں۔ کیونکہ اَلْاِسْتِقَامَتُ فَوْقَ الْکَرَامَتِ مشہور ہے۔وہ یاد رکھیں کہ اگر کوئی ان پر سختی کرے تو حتی الوسع اُس کا جواب نرمی اور ملاطفت سے دیں۔ تشدّد اور جبر کی ضرورت انتقامی طور پر بھی نہ پڑنے دیں۔ انسان میں نفس بھی ہے اور اُس کی تین قسم ہیں۔ امّارہ۔ لوّامہ۔ مطمئنّہ۔ امّارہ کی حالت میں انسان جذبات اور بے جا جوشوں کو سنبھال نہیں سکتا۔ اور اندازہ سے نکل جاتا اور اخلاقی حالت سے گِر جاتا ہے۔ مگر حالت لوّامہ میں سنبھال لیتا ہے۔ مجھے ایک حکایت یاد آئی جو سعدی نے بوستاں میں لکھی ہے کہ ایک بُزرگ کو کُتّے نے کاٹا۔ گھرآیا تو گھروالوں نے دیکھا کہ اُسے کتے نے کاٹ کھایا ہے۔ ایک بھولی بھالی چھوٹی لڑکی بھی تھی۔ وہ بولی آپ نے کیوں نہ کاٹ کھایا؟ اُس نے جواب دیا۔ بیٹی۔ اِنسان سے کُتپن نہیں ہوتا۔ اسی طرح انسان کو چاہئے کہ جب کوئی شریر گالی دے تو مومن کو لازم ہے کہ اعراض کرے۔نہیں تو وہی کُتپن کی مِثال صادق آئے گی۔ خدا کے مقرّبوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں۔ بہت بُری طرح ستایا گیا۔ مگر اُن کو اَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ (الاعراف200:) کا ہی خطاب ہوا۔ خود اُس انسان کامِل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو بہت بُری تکلیفیں دی گئیں۔ اور گالیاں، بَد زبانی اور شوخیاں کی گئیں۔ مگر اس خُلقِ مجسّم ذات نے اس کے مقابلہ میں کیا کِیا۔ اُن کے لئے دُعا کی۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا تو تیری عِزّت اور جان کو ہم صحیح سلامت رکھیں گے۔ اور یہ بازاری آدمی اُس پر حملہ نہ کر سکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ کہ حضُور کے مخالف آپ کی عزّت پر حَرف نہ لا سکے۔ اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں میں گرے یا سامنے تباہ ہوئے۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 102-103ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)