احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد
ایک دیندار اور خداپرست انسان
آپ کی بزرگی اور آپ کاخداکے ساتھ جوایک تعلق تھا اس کو غیر بھی محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ یہاں ایک غیرجانبدارہندوکی شہادت درج کرنی بھی مناسب ہے۔ یہ ایک تاریخی خط ہے جو بہت کم سلسلہ کے لٹریچر میں سامنے آیاہے۔ مئی 2008ء میں سیرت المہدی حصہ پنجم کے ساتھ یہ شائع ہواہے۔ جسے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے 1945ء میں تاریخ احمدیت کے لیے محفوظ فرمایاتھا۔
لالہ بھیم سین صاحب ایک ہندووکیل تھے اورحضرت اقدس علیہ السلام کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات تھے۔ اورجوآخری وقت تک قائم رہے۔ لالہ بھیم سین کے بیٹے بیرسٹرلالہ کنورسین جو کہ پرنسپل لاء کالج لاہورتھے اور بعد میں ریاست ہائے کشمیرجودھ پورالوروغیرہ کے چیف جسٹس و جوڈیشل منسٹر کے عہدوں پر فائز رہے۔ وہ اپنے ایک انگریزی خط میں لکھتے ہیں:
“…My father used to have correspondence with him and I remember to have seen some of his letters. My father used to mention to me those incidents which are stated in this book.The one regarding the prophecy about his success in the pleadership examination bears repetition. Mirza sahib had written to ask my father to confirm this incident, which Mirza sahib wanted to publish in his book, ’Burahin-i-ahmadiya‘, my father used to tell me that in reply, he confirmed the incident but added that more than he Mirza Sahib‘s worthy father was in his (my father‘s) opinion a prophet,because, He (Mirza sahib‘s father)had foretold while Mirza Sahib was born and was yet a child that the new born child was to be a Waliہمارے گھر میں ولی پیداہواہے……”
ترجمہ: ’’ میرے والد صاحب آپ کے ساتھ خط وکتابت کرتے رہتے تھے اورمجھے یاد ہے کہ میں نے آپ کے بعض خطوط بھی دیکھے تھے۔ میرے والد صاحب ان واقعات کا تذکرہ کرتے رہتے تھے جن کا ذکر اس کتاب میں کیاگیاہے۔ ایک بات کو جومیرے والد کی وکالت(مختارکاری) کے امتحان میں کامیابی سے تعلق رکھتی ہے میں یہاں دوبارہ بیان کرناچاہوں گا۔ مرزا صاحب نے میرے والدکو لکھاتھا کہ وہ اس واقعہ کی تصدیق کریں۔ مرزاصاحب اسے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں شائع کرناچاہتے تھے۔ میرے والد مجھے بتاتے تھے کہ انہوں نے اس واقعہ کی تصدیق کردی تھی۔ لیکن میرے والدنے ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ ان کی رائے میں مرزاصاحب سے زیادہ ان کے یعنی مرزاصاحب کے معزز والد صاحب صحیح پیش خبریاں کرنے والے تھے کیونکہ مرزاصاحب کے والد صاحب نے مرزا صاحب کی پیدائش پر اورابھی جب آپ بچہ ہی تھے یہ پیشگوئی کی تھی کہ نومولود (یعنی مرزاصاحب) ایک ولی ہوں گے۔ انہوں نے کہاتھا’’ہمارے گھر میں ولی پیداہواہے۔ ‘‘
(بحوالہ سیرت المہدی جلد دوم تتمہ حصہ پنجم صفحہ 341-344)
رائے کنورسین صاحب کا خط بنام علی محمدصاحب مرقومہ 27؍دسمبر 1944ء کنورکنج، لکشمی ایونیو۔ ڈیرہ دون
ہرچند کہ لالہ بھیم سین کے ان ریمارکس سے تو کسی بھی طرح اتفاق نہیں کیاجاسکتا جس میں انہوں نے حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کو حضرت اقدس علیہ السلام سے زیادہ صحیح پیش خبری کرنے والابتایاہے۔ یہ ان کی ایک اپنی سوچ تھی جو کہ کسی بھی اعتبارسے درست نہ تھی۔ البتہ اس سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کی پیدائش کے بعد جبکہ ابھی آپ بچہ ہی تھے کہ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب نے فرمایا تھا کہ ’’ہمارے گھر میں ولی پیداہواہے‘‘اور یہ پیشگوئی بتاتی ہے کہ یہ بات کرنے والا آخر اپنےخداسے کوئی تعلق تو رکھتاتھا۔ اور وہ تعلق واقعی تھا جیساکہ اس باب کی آخری سطورسے عیاں ہوگا۔
أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِیْ
آپ کی زندگی کا ایک عظیم الشان کارنامہ
حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کا اپنے خداسے ایک خاص تعلق ہی تھا کہ جس کی بنا پر انہیں اپنے خداپرایک بھروسا تھا، ایک مَانْ تھا، ایک توکل تھا۔ کہ وہ خدابھی آپ کی لاج رکھتا تھا۔ آپ کی زندگی کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ’’آپ ایک دفعہ سخت بیمار ہوئے اوربیماری بہت طوالت پکڑگئی۔ اسی اثناء میں ان کے ہاں ایک ملاں آیا اوراس نے سمجھا کہ مرض کا بہت زورہے تووہ باہر نکل کر کواڑ کے پیچھے اس انتظار میں کھڑاہوگیا کہ کب دم نکلتاہے اور عورتیں رونا شروع کرتی ہیں۔ وہ دیر تک اسی حالت میں کھڑاتھا کہ اچانک آپ کی نظر اس پر پڑگئی۔ فرمانے لگے ملاں چلے جاؤابھی تومیرے بیس سال باقی ہیں تُو کب تک انتظار کرے گا۔ چنانچہ سچ مچ آپ اس کے بعد ایک عرصہ تک زندہ رہے۔ ‘‘
(تاریخ احمدیت جلداول صفحہ142)
اپنے خداپر حسن ظن کا یہ ایک اور واقعہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:
’’ایک مرتبہ ایک بغدادی مولوی صاحب قادیان تشریف لائے۔ حضرت مرزا صاحب (جو علماء کی قدر کرتے تھے ) نے ان کی بڑی عزت کی اور ہر طرح سے ان کی خاطر داری کی۔ بغدادی مولوی صاحب نے کہا مرزا صاحب آپ نماز نہیں پڑھتے۔ فرمایا قصور ہے۔ مگر مولوی صاحب کو اس پر زیادہ ضد اور اصرار ہوا۔ اور بار بار انہوں نے کہاکہ آپ نماز نہیں پڑھتے۔ وہ ہر مرتبہ کہہ دیتے کہ قصور ہے۔ آخر مولوی صاحب نے کہاکہ
’’آپ نماز پڑھتے نہیں خدا تعالیٰ آپ کو دوزخ میں ڈال دے گا۔ ‘‘
اس پر مرزا صاحب کو جوش آگیااورفرمایاکہ تم کو کیا معلوم ہےکہ وہ مجھے دوزخ میں ڈالے گا۔ یا کہاں؟ میں اللہ تعالیٰ پر ایسا بدظن نہیں۔ میری امید وسیع ہے۔ اس نے فرمایا ہے۔
لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰہِ (الزمر: 54)
تم مایوس ہوگے۔ میں نہیں۔ اتنی بے اعتقادی میں نہیں کرتا۔ میں خدا تعالیٰ کے رحم و کرم پر بھروسہ کرتا ہوں۔ یہ تمہاری اپنی بد اعتقادی ہے۔ تم کو خدا پر ایمان نہیں۔ ‘‘
(حیات احمدجلداول صفحہ64)
نہ جانے وہ کون سی گھڑی تھی اور اپنے خداپر
لَمْ اَکُنْ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا (مریم: 5)
والاوہ کون سامان تھا کہ خدا نے اس کو یوں پوراکیا کہ آپ کو ایک ایسا عظیم الشان کام کرنے کی توفیق بخشی کہ جو قیامت تک کے لیے آپؒ کا خداکے نزدیک ایک مقبول بندے ہونے اور ان کے نیک انجام ہونے اورخاتمہ بالخیر کی گواہی دیتا رہے گا۔ قارئین کرام !آپ کا یہ کارنامہ تھا مسجد اقصیٰ کی تعمیر!
ابھی بیان ہوچکاہے کہ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کو اپنی زندگی دنیاوی دھندوں میں ضائع کرنے کاازحد افسوس تھا۔ اور آخری عمر میں چشم گریاں اوردل بریاں کے ساتھ اس پرہم وغم کااظہار فرماتے رہتے تھے۔ خداکو آپ کے تاسف اور ندامت کے آنسو ایسے پسندآئے کہ ان کے دل میںقادیان کی بستی کے عین درمیان میں ایک جامع مسجد بنانے کا ارادہ پیداہوا۔ اس سے پہلے انہوں نے اس مسجد کے حصول کے لیے کوشش کی جس مسجدکو قادیان پر قبضہ کرنے کے بعد سکھوں نے دھرم سالہ میں تبدیل کردیاتھا۔ لیکن بعض ناعاقبت اندیش مسلمانوں نے ان کے خلاف شہادت دی جس کی وجہ سے یہ مسجد آپ کو نہ مل سکی۔ جس پر انہوں نے نئی زمین خریدکرمسجدبنانے کا ارادہ کیا۔ جہاں اس وقت مسجد اقصیٰ موجودہے۔ یہ سکھ کارداروں کی حویلی تھی۔ [کاردار: سکھ حکومت میں صوبے کا ناظم اعلیٰ کہلاتا تھا۔ اوراس کے ماتحت کاردارتھے جن کافرض تھا کہ زمینداروں سے لگان وصول کریں اورعدالت وانصاف کاقیام کریں۔ گویا کاردار ناظم صوبہ کے نائب ہواکرتے تھے۔ ایسےہی کسی سکھ حاکم کی یہ حویلی تھی۔ ] یہ جگہ جب نیلام ہونے لگی تو اہالیان قادیان کو چونکہ معلوم ہوچکاتھا کہ میرزاصاحب اس جگہ مسجد بنانے کا عزم کیے ہوئے ہیں اس لیے ان لوگوں نے حضرت مرزاصاحب کا خوب مقابلہ کیا۔ معمولی سی قیمت والی جگہ کی سینکڑوں روپے تک بولی پہنچ گئی۔ ایسی صورت حال کو دیکھ کر اس اولوالعزم دل نے عہد کیا کہ مجھے اگراپنی ساری جائداد بھی فروخت کرناپڑی تو میں وہ فروخت کردوں گا لیکن خداکے گھر کی تعمیرکرنے کے لیے یہ جگہ خرید کے رہوں گا۔
(ماخوذ از حیات احمد جلد اول صفحہ 66)
چنانچہ معمولی سی قیمت کا یہ قطعہ نیلامی میں سات سوروپے تک گیا جسے بالآخر حضرت مرزاصاحب نے خریدلیا۔
اس مسجدکی تعمیرکے متعلق مزیدیہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس جگہ کوجب انگریزحکومت نے نیلام کرناچاہاتو یہاں کے مقامی ہندوؤں نے اس جگہ ٹھاکردوارہ بنانے کامنصوبہ بنایا۔ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ کی غیرت دینی نے یہ گوارانہ کیااور میاں جان محمدصاحب جوکہ مسجداقصیٰ کے مؤذن اورامام وغیرہ بھی تھے ان کوحضرت مرزا صاحب نے فرمایاکہ تم بولی میں کھڑے ہوگے اوریادرکھناکہ آخری بولی ہماری ہی ہونی چاہیے۔
(ماخوذ از الحکم جلد 40 نمبر 10، 11، 12
مورخہ 7؍اپریل 1937ء صفحہ3کالم 1)
چنانچہ پھرایساہی ہوا بولی کاوقت آیاتومعمولی سی قیمت والی زمین کی بولی ایک سوسے دوسوسے تین سویہاں تک کہ سات سوروپے تک چلی گئی۔ لیکن دینی غیرت رکھنے والا یہ مردمومن اپنے عزم کاپکارہااور خانۂ خداکے لیے اس جگہ کوحاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
ایک طرف تو زمین خریدنے کی مخالفت کا یہ عالم تھا دوسری طرف اس مسجد کے جو کہ نسبتاً ایک بڑی مسجدیعنی جامع مسجد بنائے جانے پر تمسخراور طنز کرنے والے بھی تھے جو یہ کہنے لگے کہ اتنی بڑی مسجد کی کیا ضرورت تھی۔ یہاں نماز کس نے پڑھنی ہے۔ اس مسجد میں چمگادڑ ہی رہا کریں گے۔
(ماخوذ از حیات احمد جلد اول صفحہ 66)
(باقی آئندہ)