یادِ رفتگاں

محترم عبد القیوم صاحب مرحوم

(الحاج مولانا عبد الباسط شاہد، امیر جماعت انڈونیشیا)

مکرم و محترم عبد القیوم صاحب مرحوم 12 بہن بھائیوں میں سے دوسرے بیٹے تھے۔ آپ کے والد مولانا عبد الواحد صاحب سماٹری مرحوم غیر ہندوستانی پاکستانی پہلے مرکزی مبلغ تھے۔ ان کی والدہ حاجہ تسلیمہ صاحبہ تھی۔ موصوف 14؍جنوری 1939ء گاروت(GARUT) مغربی جاوا میں پیدا ہوئے اور 25؍اگست 2021ء بروز بدھ 82 برس کی عمر میں جکارتہ میں وفات پا گئے اور مقبرہ موصیان پارونگ بوگور(PARUNG, BOGOR) میں دفن ہوئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

تعلیم

مرحوم نے ابتدائی تعلیم گاروت(GARUT) اور یوگیاکارتہ(YOGYAKARTA) میں حاصل کی۔ 1964ء میں انڈونیشیا کے ایک مشہور ٹیکنیکل اسکول Bandung Institute of Technology سے کیمیکل انجینئرنگ میں بیچیلرزکی ڈگری حاصل کی۔ چند سال تک ڈائریکٹوریٹ آف آئل اینڈ گیس میں کام کرتے رہے۔ پھر سرکاری اسکالرشپ پر مزید اعلی تعلیم کے لیے 1966ء میں فرانس گئے اور1969ء میں Ecole Nationale Superleure du Petrole et Monteur, Rueil Malmasion, France سے Petroleum Economics میں ماسٹر کیا۔

فرانس سے واپسی کے بعد مرحوم Ministry of Energy and Mineral Resources کے ڈائریکٹوریٹ آف آئل اینڈ گیس میں ہی کام کرتے رہے۔ کام کرتے ہوئے اپنے علم کو بڑھانے میں پر جوش تھے۔ حکومت میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ جیسے سٹیٹ سیکرٹری کے دفتر میں Investment Board میں رہے۔ ایک وقت کے لیے energy and petroleum commission میں، پیپلز مشاورتی اسمبلی کے رکن رہے۔ energy and petroleum کے حوالے سے وائس پریذیڈینٹ کے مشیر رہے۔ نیزState Owned Gas Company کے CEO رہے۔ ریٹائرڈ ہونے کے باوجود The Special Task Force for Upstream Oil and Gas Business Activities )SKK Migas) میں ان سے ماہر کے طور پر کام لیا جاتا تھا۔ مرحوم کو کاموں میں مصروف ہونے کے باوجود University of Indonesia سے کیمیکل انجینئرنگ میں 73 سال کی عمر میں PHD کی ڈگری حاصل کرنے کی توفیق ملی۔

ملک کے لیے نمایاں کارنامے

موصوف نے ملک کے لیے بہت ہی نمایاں کارنامے کیے ہیں خاص طور پر پیٹرولیم اور گیس میں اور ملک سےMedals of Honor بھی ملے۔ ان میں سے درج ذیل ہیں:

٭…1973ء میں انہوں نے گورنمنٹ کو Liquefied Natural Gas کے بارے میں ایک فارمولا تجویز کیا۔ گورنمنٹ نے اس فارمولا کا استعمال کیا اوراس سے گورنمنٹ کو 26 سال میں یعنی سن 1974ء سے لے کر 2000ء تک اندازاً 110Billion USD کا منافع ہوا۔

٭…1992ءتا 2001ءبطور CEO of State Owned Gas Company۔اس دوران موصوف نے سماٹرا، جاوا، اور بورنیو/ کالیمانتان کی زمین کے اندر گیس کی pipeline کا کام شروع کیا جن کو ٹرانس سماٹرا، ٹرانس جاوا اور ٹرانس کالیمانتان کہتے ہیں۔ اس کام کا مقصد یہ تھا کہ electricity, house using, transportation, commercial وغیرہ کے لیے جو energy استعمال ہو رہی تھی جوکہ پہلےOil پر مبنی تھی اب Natural Gasسے بدل جائے جو زیادہ ماحول دوست اور سستی بھی ہے۔

Medals of Honor

٭…1998ءمیں موصوف کو Bintang Jasa Utama کا award ملا۔ یہ Civil Servant کے لیے سب سےاعلیٰ award ہے۔

٭…2005ءمیں موصوف کو Bintang Mahaputra Naraya کا award ملا۔ یہ second highest awardہے جو انڈونیشن گورنمنٹ نے ایسی شخصیت کو دیا ہے جس نے فوج سے باہر کسی شعبہ میں نمایاں کارنامہ سر انجام دیا ہواور اس award کے ملنے والے کو Heroes Cemetery(ملک کے ہیروز کے قبرستان)میں Military ceremony کے ساتھ دفن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ Military ceremony کا انعقاد عموماً Heroes Cemetery پر کیا جاتا ہے۔ تاہم مرحوم کے لیے یہ Military ceremony مقبرہ موصیان پارونگ(PARUNG) پر منعقد کیا گیا۔

٭…بطور CEO of State Owned Gas Company PGNموصوف کو 1998ء میں World Bank اور 2000ء میں Asian Development Bank سے انڈونیشیا میں Natural Gas Insfrastructure Development کے لیے Awards ملے۔

اپنے خاندان سے محبت

مرحوم بہت پیار کرنے والے تھےاور اپنے بہن بھائیوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ہمیشہ اپنے والد کی نصیحت پر عمل کرتے تھے کہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کرنا۔ ساری زندگی میں، مرحوم اسی پیغام پر عمل در آمد کرتے رہے۔ انہوں نے ہمیں کبھی مشکل میں نہیں پڑنے دیا۔ بہت مددگار تھے۔ اپنی بھانجیوں اور بھتیجوں کی تعلیم پر توجہ دیتے تھے، اور تعلیم مکمل ہونے تک ٹیوشن فیس میں مدد کرتے تھے۔ انہوں نے نہ صرف اپنے بھائیوں بلکہ اپنے تمام ڈرائیوروں کو بھی حج کے لیے بھیجا۔ اپنی تمام بہنوں کے لیے گھر بنوایا۔ سب تقریباً 2000 مربع میٹر کے ایک کمپلیکس میں جمع ہیں۔

مکرمہ نوری Nurmelati صاحبہ ان کی چھوٹی بھابھی لکھتی ہیں کہ ’’آپ کے والد صاحب نے جو عبد القیوم نام رکھا آپ نے خوب نبھایا ہے بلکہ آپ کی سخاوت یوں نمایاں ہے کہ نہ صرف خاندانوں میں اور احمدی احباب میں بلکہ غیر احمدی لوگ بھی اس کے قائل ہیں اور ذکر کرتے رہے۔ آپ مربیان اور واقفین زندگی سے عزت و احترام سے پیش آتے۔ میرا بیٹا جو جامعہ انڈونیشیا میں زیرِ تعلیم ہے کوانہوں نے کہا کہ جب مربی بنیں گے تو فکر نہ کریں میں آپ کی زندگی کوخود سنبھالوں گا۔ پھر باقی بچوں کے لیےآپ نہ صرف اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد کرتے تھے بلکہ ان کی شادی کے لیے بھی مدد کرتے۔ ‘‘

مکرمہ ریشہ سلیمہ صاحبہ ان کی بھتیجی لکھتی ہیں: ’’جکارتہ میں اپنے مصروف شیڈول کے درمیان، آپ نے بانڈونگ(BANDUNG) میں میری شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے وقت نکالا، حالانکہ اس وقت وہاں تک پہنچنے والی سڑک زیر تعمیر تھی، جس کی وجہ سے ٹریفک جام ہوتی تھی اور جکارتہ سے BANDUNG تک کے سفر کے لیے زیادہ وقت لگتاتھا۔ پھر بھی مرحوم تشریف لائے تھے۔ اسی طرح میرے بھائی کی شادی میں بھی تشریف لائے تھے۔ اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے رشتےداروں کی شادی کی دعوتوں میں ہمیشہ آنے کی کوشش کرتے تھے۔ اگرچہ دعوت نامے ایک سادہ گھرانے سے ہی کیوں نہ آتے ہوں۔

جب میں نے میڈیسن میں تعلیم مکمل کر لی، تو آپ بہت خوش تھے۔ ان کے مطابق ڈاکٹر بننا انسانیت اور معاشرے کے لیے بہت فائدہ مند ہوگا، انہوں نےمجھے ایک بھاری رقم بھی بطور تحفہ دی۔ ‘‘

ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک

ایک صاحب Kari Priatna نامی ہیں۔ نو سال کی عمر سے وہ مرحوم کے زیر کفالت رہے۔ اسکول کی فیس وغیرہ کے اخراجات مرحوم نے ہی بردشت کیے۔ جب سینئر ہائی اسکول میں پڑھتے تھے توحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے اورمرحوم کا ان سے حسن سلوک دیکھ کر بیعت کرلی تھی۔ بعد میں مرحوم کی مدد سے موصوف نےState Owned Gas Company میں کام کیا۔ موصوف لکھتے ہیں: ’’مرحوم کی مہربانی اور سخاوت بہت اعلیٰ درجہ کی تھی۔ مرحوم دوسروں کا خیال رکھتے۔ اسٹیٹس کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہ کرتے۔ ہمیشہ سب لوگوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتے۔ کبھی اپنے آپ پر فخر نہیں کیا اور نہ ہی اپنے عہدے پر فخر کیا۔ اپنی کمپنی کو آگے بڑھانے میں اور اس میں کام کرنے والے ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتے۔ گو آپ بڑے آدمی ہیں لیکن کبھی بھی ایسا محسوس نہیں ہونے دیتےتھے۔ ہر ایک سے ہمیشہ باپ کی طرح پیش آتے۔

State Owned Gas Company میں ان کی سابق کارکن Sri Budi Mayaningsihلکھتی ہیں:

’’1992ءتا 2001ء بطورCEO of State Gas Company قیوم صاحب company کے کاروبار کے ماحول کے لیے بہت ہی اچھی تبدیلیاں اور انقلاب لائے۔ موصوف بہت ہی ذہین، ثبت قدم، enthusiastic, innovativeاور محنتی تھے۔ قومی سطح پر موصوف بہت ہی معزز، مشہور اور بڑے افسر تھے لیکن اس کے باوجود وہ بہت ہی عاجز انسان تھے۔ اگر کوئی میٹنگ ہونی ہوتی تو موصوف اپنے سَب ڈویژ ن کے کمرے میں بلا جھجک چلے جاتے۔ صرف میٹنگ کے لیے ہی نہیںبلکہ کوئی بھی کام ہوتا تو موصوف خود ہی اپنے ماتحت کے دفتر میں آتے تھے۔ موصوف ایک ہمت والے اور بے خوف لیڈر تھے اور جہاں بھی جاتے ان کا احترام کیا جاتا۔ ‘‘

پھر انہوں نے لکھا کہ ’’اب تک میں نے اپنے افسر کے لیے تہجد میں کبھی بھی رو رو کے دعا نہیں کی لیکن اب میں قیوم صاحب کے لیے تہجد میں رو رو کے دعا کرتی ہوں کہ اے اللہ ! قیوم صاحب کی مغفرت فرما اور اپنے پاس بہترین جگہ دے۔ آمین‘‘

Rudi Kuswandi صاحب (سابق کارکن) لکھتے ہیں: ’’انڈونیشیا میں Good Governanceکی اصطلاح کے استعمال سے بہت پہلے، عبد القیوم صاحب اس اصطلاح کو اپنے قائدانہ انداز اور ماڈل میں عمل در آمد کرتے ہوئے مزید آگے بڑھ چکے تھے۔ ان کا قائدانہ انداز منظم لیکن محبت پر مبنی تھا۔ اگرچہ آپ نے اپنے ماتحتوں کو ڈانٹا بھی، لیکن کبھی بھی کوئی تکلیف محسوس نہ کرتا۔

دیگر کارکنان کو جو بات سب سے زیادہ یاد ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی کسی سے ناراض ہوتے توبعد میں ہمیشہ انہیں اپنی جیب سے کچھ رقم کی صورت میں تخفہ دیتے۔ خود میرے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے۔ ‘‘

Dedi Suryadinata صاحب (سابق کارکن) لکھتے ہیں: ’’وہ ایک visioner لیڈر تھے۔ انڈونیشیا میں تیل اور گیس کی صنعت کی تعمیر کے لیے اپنے vision کو پورا کرنے کے قابل تھے۔ یہ بہت واضح ہے کہ ان کی قیادت کی وجہ سے کمپنی، تیل اور گیس کی صنعت اور بالآخر انڈونیشیا کی معیشت میں بہتری آئی۔ اب تک اس کمپنی میں عبد القیوم صاحب جیسا لیڈر کوئی نہیں ہے۔ ‘‘

خلافت سے محبت اور جماعت کے لیے قربانی

موصوف خلافت اور جماعت سے نہایت محبت کرنے والے تھے۔ جب بھی جماعت کو قربانیوں کی ضرورت ہوتی یا مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا، وہ نہایت خلوص دل سے مدد کرتے تھے اور قربانیاں دیتے تھے۔

جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ انڈونیشیا تشریف لائے تو موصوف کو یہ شرف حاصل ہوا کہ حضورؒ کی ان کے گھر میں رہائش تھی۔

حضورؒ کے دورئہ انڈونیشیا کی کامیابی کے لیے موصوف نے بہت نمایاں خدمات سرانجام دیں۔

خلافت سے موصوف کا گہرا تعلق تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے حضرت مسیح موعودؑ کے کپڑے کا ٹکڑا تبرک کے طور پر آپ کو دیا اور اپنے خط میں لکھا کہ میں تصدیق کرتا ہوں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں کا تبرک ہے جو خاندانی طور پر ورثہ میں مجھے ملا۔

اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک الہام جوحضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ہوا وہ بھی اس خط میں درج ہے۔ یعنی بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔

سرکاری ملازم کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے مرحوم نے اپنا احمدی ہونا کبھی نہیں چھپایا۔ اپنے دوستوں کو تبلیغ کرنے میں مستعد تھے۔ اور احمدیت کا تشخص قائم تھا۔ بطور سرکاری افسر، مرحوم ڈیوٹی پر اکثر بیرون ملک جاتے تھے۔ خلافت سے محبت کی وجہ سے ہمیشہ لندن کے ذریعے سفر کرنے کی کوشش کرتے تاکہ حضرت خلیفۃ المسیح سے ملاقات کرسکیں۔

ایک دن مرحوم mining and energy کے وزیر گنانجر (Ginanjar) صاحب اور ریاستی بجلی کمپنی کے CEO کے ساتھ ٹینس کھیل رہے تھے۔ ریاستی بجلی کمپنی کے CEO نے وزیر صاحب کو بتایا کہ چیراتا (Cirata) ڈیم میں پانی کا حجم کم ہو گیا ہے۔ اگر کچھ دنوں میں پانی اور کم ہوتا چلا جائے تو پورے جاوا میں بجلی بند کرنی پڑےگی۔ وزیر صاحب نے کہا کہ قیوم سے مدد مانگو۔ اس پر اس نے مرحوم سے مدد مانگی۔ مرحوم نے جواب دیا کہ میرے ذریعے سے حضور (جماعت احمدیہ کے امام ) کو خط لکھو۔ اور ایک خط بھیجا گیا جس میں دعا کی درخواست تھی۔ خط بھیجے کچھ عرصہ ہی ہوا کہ چند دن بارش ہوئی اور ڈیم میں پانی کی سطح بلند ہو گئی۔ اور پاور پلانٹ کے لیے بجلی کی فراہمی محفوظ رہی۔ پھر مرحوم کے دوست نے کہا کہ قیوم صاحب کے خلیفہ کی دعا بہت مقبول ثابت ہوتی ہے۔

جماعت کے لیے خدمات اور قربانی

جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے مرکز کی تعمیر کا اور دیگر امور میں ان کا اہم کردار تھا۔

1986ءکا واقعہ ہے۔ جب پارونگ میں ہیڈ کوارٹر کمپلیکس کی تعمیر کو کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ فنڈز کی کمی کی وجہ سے مسجد نصر کی تعمیر کا م رک گیا۔ ایک دن، مکرم محمود احمد چیمہ صاحب مرحوم ( جواس وقت امیر اور مبلغ انچارج تھے) نے موصوف کو بلایا اور انہیں مسجد کی تعمیر میں حائل رکاوٹوں کے بارے بتایا۔ مرحوم نے جواب دیا کہ انشاءاللہ میں اسے اپنے طریقے سے حل کرنے کی کوشش کروں گا، بعد میں جب یہ مکمل ہو جائے گا تو میں اسے جماعت کے حوالے کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دو سالوں کے اندر اندر ایک بڑی مسجد کی تعمیر مکمل ہو گئی۔

نیز مرکز میں گیسٹ ہاؤس اور مبلغین کے کوارٹرز کی تعمیر کے زیادہ تر اخراجات مرحوم کی طرف سے تھے۔ جن میں سے 4عددکوارٹرز کے 100 فیصد تعمیراتی اخراجات مرحوم کی طرف سے اداکیےگئے۔

ایم ٹی اے انڈونیشیا کےابتدائی دنوں میں، تقریباً تمام اخراجات مرحوم اور ان کی اہلیہ نے برداشت کیے۔ کیمرے کی خریداری کے اخراجات، مرحوم کا ایک گھر جو Kemang، مغربی جکارتہ میں واقع تھا سٹوڈیو کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ crews کے الاؤنس کی ادائیگی کے اخراجات بھی مرحوم کی طرف سے تھے۔

ابتدا میں جماعت احمدیہ انڈونیشیا میں ہومیوپیتھی ادویات سے لے کر کلینک کی جگہ تک، تمام اخراجات مرحوم کی فیملی نے برداشت کیے۔ مرحوم کا ایک گھر جو مسجد Kebayoran جکارتہ کے قریب ہے برسوں تک ہومیوپیتھی کلینک کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

الواحدسینئر ہائی اسکول کے تعمیراتی اخراجات ابتدائی دنوں میں مرحوم کے خاندان کے عطیات سے آئے۔

قادیان میں انڈونیشین گیسٹ ہاؤس ’’سرائے ایوب‘‘ زیر تعمیر ہے اس کے لیے بھی انہوں نے نمایاں مالی قربانی کی۔

قادیان میں انہوں نے اپنا ذاتی گھر بھی بنایا ہے جس کا نام بیت الواحد ہے اور ہر سال جلسہ سالانہ قادیان کے مہمانوں کے لیے رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

مرکز کو مضبوط کرنے کے لیے مرحوم نے مرکز کے اردگرد کافی زمین خریدی، پھر رہائش کے لیے جماعت کو دے دی۔

وفات تک موصوف جماعت انڈونیشیا کی جوبلی کمیٹی کے مشیر تھے۔

مکرم زکی فردوس صاحب (نائب امیر شعبہ مال) لکھتے ہیں: ’’ان کی وفات سے تقریباً دو ہفتے قبل جکارتہ (JAKARTA)میں ان سے میری آخری ملاقات ہوئی۔ جس میں نیشنل سیکرٹری جائیداد اورنیشنل مجلس عاملہ کے دیگر چند ممبران کے ساتھ جماعت سے تعلق رکھنے والی زمین کے بارے میں بات ہوئی۔ میٹنگ میں مرحوم نے اپنی اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ مسجد اور پانچ منزلوں پر مشتمل جماعتی دفاتر جس کی یوگیاکارتہ (Yogyakarta)میں تعمیر ہو رہی ہے ان کی وفات سے قبل مکمل ہو سکے۔ اب تعمیر 90 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ تقریباً تمام تعمیراتی اخراجات مرحوم نے برداشت کیے۔ میں نے دیکھا کہ مرحوم کی جماعت کے لیے قربانی کا جذبہ بہت بلند تھا۔ اگرچہ مرحوم کی عمر 82 سال ہو چکی تھی لیکن جماعت کی ترقی کے لیے تکنیکی امور پر گفتگو کرنے میں پُر جوش تھے۔ جماعت انڈونیشیا کی ترقی میں مرحوم کا کردار اتنا بڑا ہے کہ ہر بات کا ذکر کرنا محال ہے۔ ‘‘

مکرم انیس احمد ایوب صاحب (سابق صدر مجلس انصار اللہ اور سابق نیشنل سیکرٹری تربیت) لکھتے ہیں: ’’جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی متعدد عمارات کی تعمیر کے لیے موصوف نے مالی قربانی کی۔

ایک مرتبہ جب مرحوم سیکرٹری آف اسٹیٹ کے دفتر میں کام کرتے تھے۔ میں اپنے بچے کی ٹیوشن فیس کی ادئیگی کےلیے ادھار لینے وہاں جا کر ان سے ملا۔ اس وقت مجھے اپنی ماہوار تنخواہ نہیں ملی تھی۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ تنخواہ ملتے ہی قرض کی ادائیگی کردوں گا۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ کو کتنی رقم کی ضرورت ہےاور فوراً وہ رقم دے دی۔ کچھ عرصے کے بعد جب مجھے تنخواہ ملی تو میں فوری طور پر قرض ادا کرنے کے لیے ان کے پاس گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ یہ قرض کی ادائیگی ہے۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں نے آپ کو کبھی قرض نہیں دیا۔ انہوں نے یہ کہہ کررقم واپس کردی کہ آپ مبلغ کے بیٹے ہیں، اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو ضرور بتائیں، تاکہ میں آپ کی مدد کر سکوں۔ ‘‘

مکرم معصوم احمد صاحب (پرنسپل جامعہ احمدیہ انڈونیشیا) لکھتے ہیں: ’’خاکسار نےکئی بار دیکھا ہے کہ نیشنل مجلس عاملہ کی میٹنگ میں جب بھی کسی معاملے پر کوئی اختلاف رائے پیدا ہوتا اور مکرم عبد القیوم صاحب مرحوم کی اپنی خواہش ہوتی کہ ابھی اس معاملے پر مزید بحث کی جا ئے مگر جب مکرم امیر صاحب (جو ان کے چھوٹے بھائی ہیں ) کہتے کہ اس معاملے کو چھوڑدیں، تومکرم عبد القیوم صاحب مرحوم بلاتوقف اطاعت اور فرمانبرداری کا نمونہ دکھاتے ہوئے خاموش ہو جاتے۔ یہ دراصل آپ کے والد مکرم ومحترم مولانا عبد الواحد صاحب مرحوم کی تربیت اولاد کا نمایاں نقشہ ہے کہ مکرم عبد القیوم صاحب مرحوم اطاعت کو مقدم رکھتے ہوئے اپنی ذاتی خواہش کو دبالیتے۔

مکرم عبد القیوم صاحب مرحوم نے خلافت سے کامل اطاعت کے ساتھ خلافت سے محبت کامظاہرہ اس رنگ میں کیا تھا کہ جب 2000ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ انڈونیشیا تشریف لائے تو ان کے گھر میں قیام فرمایا۔ اس موقع پر آپ نے حتی المقدور حضورؒ کی خدمت کی۔

2018ء میں خاکسار کو جلسہ سالانہ یوکے پر جانے کا موقعہ ملا تو ہماری ملاقات وفد کی صورت میںہوئی تھی۔ خاکسار نے اس موقع پر دیکھا کہ مکرم عبد القیوم صاحب مرحوم حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سامنے بڑے ادب، عاجزی اور انکساری کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔

مکرم لقمان بنجامین صاحب لکھتے ہیں: ’’آپ نہایت ہی نیک اور صالح انسان تھے۔ انڈونیشیا کے سب سے پہلے مبلغ کے بیٹے تھے۔ ہر قربانی کے موقع پر ہمیشہ سب سے آگے رہے۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کی خوبیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button