وہ ایک شام
(سترہ جون 2019ء سینٹ جارجز ہسپتال لندن کی ایک شام۔ جب میری بیٹی مریم اپنے خالق حقیقی سے جاملی)
وہ ساعتیں تھیں مُضمَحِل وہ مَلگجی سی شام تھی
وہ کہہ رہی تھی الوِداع جو اِک مہِ تمام تھی
تھی گُفتگُو میں چاشنی اگرچہ وہ نِڈھال تھی
اُکھڑ چکی تھی سانس بھی مگر وہ با کمال تھی
بڑے ادب سے یوں کہا مِرے لیے دُعا کریں
یہ ہِجرتیں ہیں عارضی سو آپ خوش رہا کریں
کڑا یہ اِمتحان ہے نہ آپ دِل فِگار ہوں
خدا دکھائے نہ مجھے کہ آپ سوگوار ہوں
عزیز و اقربا جو ہیں انہیں مرا سلام دیں
سفر مِرا طویل ہے سو رُخصتِ دوام دیں
مجھے لگا کہ دل مرا فِضا میں ہے بکھر گیا
میں وہ ہوں جس کا تن بدن بھنور میں ہے اتر گیا
لرز رہا تھا اک دِیا دھڑک رہی تھیں ساعتیں
درونِ جسم و جاں مِرے بپا تھیں سو قیامتیں
میں اُسکا ہاتھ تھام کر لرز لرز کے رہ گیا
دعا کی حِدّتیں تھیں وہ مِرا وجود بہ گیا
میں معجزے کا منتظر کہیں کوئی دِیا جلے
مگر قضا تھی منتظر کہ اِس پری کو لے چلے
تھی جھیل خشک ہوچکی سو اڑ گئی وہ جَل پری
کہ اُس حسیں سے جا مِلے نہیں ہے جسکی ہَمسری
اُسے خدا سے پیار تھا اُسی کی پھر وہ ہو گئی
وہ ہاتھ میرا تھام کر بڑے سکوں سے سو گئی
گُلاب سی وہ آئی تھی گئی بھی تو گُلاب سی
دعا دعا سی بے ضرر وہ میری ماہ تاب سی
میں سوچتا ہی رہ گیا لطافتیں ہیں بیٹیاں
کوئی بھی حال ہو یہاں اَمانتیں ہیں بیٹیاں
وہ جس نے دی امانتاََ اسی نے ہے بلا لیا
کسی سے کیا گلہ کروں خدا کی تھی یہی رضا