’’خلافت تسکینِ جاں‘‘ (قسط دوم)
(محترم منیر احمد جاویدصاحب پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی تقریر سے ماخوذ ایک ایمان افروز تحریر)
کاش وہ لوگ جو خلافت کی اس نعمت سے محروم ہیں وہ یہ سمجھ سکیں کہ ایسے مواقع پر جب انہیں سمجھانے والا، ان کے لیے دعائیں کرنے والا اور ان کو تسکین کے کلمات عطا کرنے والا کوئی نہیں ہوتا تو احمدیوں کے پاس ان کا خلیفہ ہوتا ہے جو ایک عظیم الشان نعمت کی طرح میسر ہے اور یہ خلافتِ حقہ اسلامیہ احمدیہ کی نعمت ہے اور یہی نعمت وجہ تسکین جان ہے۔
اسی طرح ترکی میں بیٹھی ہوئی ایک خاتون ہیں جن کو حضور نے ایک تحفہ بھجوایا تو اس نے اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ سے کیا کہ میری زبان آپ کے شکر سے عاجز ہے۔ آپ کی طرف سے عظیم القدر تحفہ موصول ہوا میں تو خلافت کی نعمت پر خوشی سے رونے لگی۔
خلیفہ وقت شفیق باپ بھی ہے اور مہربان ماں بھی۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہی کیسے شکریہ ادا کروں۔ صدر صاحبہ نے اطلاع کی تو بار بار الحمد للہ کے الفاظ زبان پر جاری ہوئے اور خوشی سے آنسو آ گئے۔ اس لیے نہیں کہ مال مل گیا تھا بلکہ اس لیے کہ ہمارے سروں پر خلافت کی نعمت ہے۔ ایسے لگا کہ آپ نے دست شفقت میرے سر پر رکھا ہے۔ صدر صاحبہ نے کہا کہ سجدہ شکر بجا لاؤ تومیں اسی وقت سجدہ میں گر گئی اور ساتھ ہی خیال آیا کہ آپ کو بھی تو شکریہ کا خط لکھنا چاہیے سو میں آپ کی خدمت میں یہ خط لکھ رہی ہوں۔ میری طرف سے دلی جذبات تشکر و امتنان قبول فرمائیں۔
پھر کچھ عرصہ پہلے جماعت کی تاریخ میں پہلی دفعہ کبابیر کی جماعت کے ساتھ حضور کی آن لائن ملاقات ہوئی اور آمنےسامنے بیٹھ کے انہوں نے حضور سے باتیں کیں تو اس کا ان لوگوں کے اوپر غیرمعمولی گہرا اثر پڑا اور انہوں نے اس بات کا برملا اظہار کیا۔ کچھ واقعات میں نے پہلے بھی شاید آپ کی مجلس میں بیان کیے تھے۔ ایک آدھ ابھی بھی بتاتا ہوں۔
ایک دوست کہتے ہیں کہ جب آپ نے ہمارے امیر صاحب کی درخواست قبول فرمائی تو اس خبر سے جو خوشی ہمیں ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ اس کی تیاری کے دوران ذہن پر بڑا خوف سوار رہا۔ جوں جوں ملاقات قریب آتی گئی خوف بھی اور شوق بھی بڑھتا گیا اور تسبیح اور تحمید اور استغفار اور درود پڑھنے میں ہم لوگ مصروف رہے۔
جب ملاقات شروع ہوئی اور آپ نے ’السلام علیکم‘ کہا تو ایسے لگا کہ چاند ہمارے درمیان اتر آیا اور وہ آیت قرآنی یاد آ گئی کہ وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّھَا
اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بنفس نفیس تشریف لانے کی بھی توفیق بخشے۔ اس پیاری ملاقات اور آپ کی عظیم محبت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ کرے کہ آپ نے ہماری طرف سے بھی ویسی ہی محبت محسوس کی ہو۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ میرا سوال سب سے آخر پہ تھا اور آپ کو مخاطب کرنے اور آپ سے سوال پوچھنے کا مجھے بڑا شوق اور جوش بھی تھا تا کہ میں جی بھر کے آپ کا اس وقت دیدار کر سکوں اور آپ کو سن سکوں۔ میں نے خیال کیا کہ وقت ختم ہو گیا ہے اور میرے سوال کی تو باری ہی نہیں آئے گی۔ بہت استغفار کیا اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس گھڑی سے محروم نہ رکھنا۔ پھر اچانک امیر صاحب نے میرا نام پکارا تو ایسے لگا کہ مجھے ایک نئی زندگی ملی ہے۔ میری نئی پیدائش ہوئی ہے۔ جسم پر کپکپی طاری ہوئی اور مجھے بات کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے تھے اور میں ایک اور ہی دنیا میں گم ہو گیا۔ آپ میرے سوال کا جواب دے رہے تھے اور میں آپ کی آواز کو سن رہا تھا لیکن مجھے ہال میں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ جواب ختم کرنے پر جب آپ نے مجھے دعائیں دیں تو ایسے لگا کہ سب کچھ مل گیا۔ مولیٰ کریم آپ کو بہترین جزا دے اور حفاظت فرمائے۔ یہ تسکینِ جاں ہے۔ جب انسان خلیفۃ المسیح کے ساتھ ایک تعلق اپنا قائم کرتا ہے، استوار کرتا ہے تو پھر حضور کی جو دعائیں ملتی ہیں، جو فیوض و برکات نصیب ہوتے ہیں، انسان کے اندر جو پاک روحانی تبدیلی آتی ہے وہ تسکینِ جان کا موجب بنتی ہے۔
ترکی سے ایک عرب احمدی خاتون لکھتی ہیں کہ ہمارا ایک وٹس ایپ گروپ ہے جسے کبابیر سے ایک بہن چلاتی ہیں اور اس میں اکثر جو بہنیں شامل ہیں وہ فلسطین سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے بھی اس وقت ملاقات کے حوالے سے اپنی خوشی کا اظہار کیا کہ وہ اس قدر خوش تھیں اور اس طرح تیاری کر رہی تھیں جیسے عید آ رہی ہے اور عید کی تیاری ہو رہی ہے۔ اور ترکی میں بیٹھی ہوئی خاتون کہتی ہیں یہ سن کر اشتیاق سے ہماری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے کہ کاش ہمیں بھی یہ موقع نصیب ہوتا۔ اس سے زیادہ پیاری بات ان کا اس ملاقات کے بعد خوشی سے باتیں کرنا ہے کہ یہ ملاقات کتنی خوش کن تھی اور حضور کی نظریں کتنی دلکش تھیں۔ آپ کی ایک تصویر اس موقع پر لی گئی جس میں آپ کی آنکھوں میں اپنی جماعت کے لیے اتنی محبت مترشح تھی جسے بیان کرنے کے لیے ہزاروں ہزار الفاظ چاہیے۔ کہتی ہیں مجھے بھی ملاقات کی تمنا ہے اور دعا کرتی ہوں کہ اے خدا تو نے خود فرمایا ہے کہ تو ایک دن لوگوں کو جمع کرنے والا ہے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں تو مجھے بھی وہ دن دکھا میری زندگی میں بھی وہ دن لا کہ میں بھی لوگوں کے ساتھ جمع ہو کے اپنے پیارے خلیفہ کا دیدار کر سکوں، ان سے مل سکوں۔
پھر یہ کہ بعض اوقات بعض احباب لکھتے ہیں، مرد بھی لکھتے ہیں، عورتیں بھی لکھتی ہیں، بچے بھی بعض اوقات لکھتے ہیں کہ ہمارے دل میں ایک سوال تھا اور ہم پوچھ نہیں سکے موقع نہیں ملا اور خط نہیں لکھ سکے۔ سوال ذہن میں تھا تو عجیب قدرت کا اظہار خدا کی طرف سے ہوا کہ اگلے جمعہ میں یا آئندہ کسی آنے والی تقریر میں مجھے میرے سارے سوالوں کا جواب مل گیا۔ یہ بھی خدا تعالیٰ نے ایک تعلق روحوں میں جو ہے وہ جوڑا ہوا ہے کہ جو دل بہ دل راہ دارد۔ کہتے ہیں یا یہ کہ خدا تعالیٰ حضور کو لوگوں کے دلوں میں اٹھنے والے سوالات کے جواب کے لیے خود تیاری کرواتا ہے اور وہ وہ باتیں ہی بیان فرماتے ہیں جو بہت سارے لوگوں کے ذہنوں میں اٹھ رہی ہوتی ہیں اور وہ اس کے بارے میں سوال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک کینیڈا سے ایک نوجوان نے لکھا کہ میں نے انتظامیہ کو ایسی ہی کسی اپنی ملاقات کے حوالے سے سوال بھیجا کہ اگر میں کسی چیز کے بارے میں کسی سے زیادہ علم رکھتا ہوں تو کبر کا دل میں عارضی احساس ہوتا ہے۔ میں اس احساس سے کیسے بچوں۔
خادم کہتے ہیں کہ میرا یہ سوال انتظامیہ نے ردّ کر دیا کہ یہ سوال حضرت صاحب کے سامنے کرنے والا نہیں تو مجھے یہ feeling ہوئی کہ شاید میں اتنا اچھا واقفِ نو نہیں ہوں جو انتظامیہ نے میرا سوال ردّ کر دیا ہے لیکن میں قربان جاؤں خدا کے اور خدا کے خلیفہ کے کہ حضور نے جلسہ سالانہ جرمنی پر جب گذشتہ دنوں تقریر کی تو کہتے ہیں کہ وہ خطاب تقویٰ کے متعلق تھا لیکن اس میں میرے سارے سوالوں کے جواب آ گئے اور مجھے بہت ہی تسلی ہوئی کہ
یہ خدا کا خلیفہ ہے۔ خدا کا بنایا ہوا ہے تبھی ان کی زبان سے وہی باتیں جاری ہوتی ہیں جو ان کی جماعت کے احباب اپنے دلوں میں سوچ رہے ہوتے ہیں اور اس کا جواب خدا تعالیٰ ان کو سمجھا دیتا ہے، خلیفۃ المسیح کی زبان سے سمجھا دیتا ہے۔
آسٹریلیا سے ایک عرب احمدی خاتون حضور کی خدمت میں خط لکھ کے اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہیں ۔وہ کہتی ہیں میں ایک چھوٹی سی بات عرض کرنا چاہتی ہوں۔ اگر آپ پڑھیں گے تو مجھے خوشی ہو گی اور بات یہ کرتی ہیں کہ میری منگنی 21؍ اگست 2021ء کو ہوئی جس کی تفصیل میں نے دو ماہ پہلے آپ کی خدمت میں عرض کی تھی اور دعا کے لیے عرض کیا تھا کہ مجھے کوئی سمجھ نہیں آ رہی۔ اس کے بعد کہتی ہیں کہ میں نے بہت سارے خط لکھے۔ مجھے ان سب خطوں کے جواب آئے لیکن میرا منگنی والا یا میرا رشتہ طے پانے والا جو خط تھا رشتہ سے متعلق خط تھا اس کا کوئی جواب نہیں ملا تو میں دل میں بڑی ڈری ہوئی اور پریشان تھی کہ کیوں جواب لیٹ ہو گیا ہے۔ پھر والد نے منگنی کی تقریب کا انعقاد کر دیا۔ ’ہاں ‘ ہو گئی۔ تصویریں بن گئیں، مجلس جولگنی تھی وہ انہوں نے لگالی تو اچانک اسی موقع پر آپ کا مبارک جواب موصول ہوا۔ میں اس وقت کی خوشی اور سعادت کو بیان نہیں کر سکتی۔ میں نے فوراً اپنے ابو اور اپنے منگیتر کو بتایا۔ بعد میں ان سب لوگوں کو بھی بتایا جو میری ایک مذہبی گھرانے میں منگنی کی وجہ سے تعجب کا اظہار کر رہے تھے۔
حضور آپ نے اس خط میں ایسی دعائیں دی تھیں جو میرے ان خوفوں کے بارہ میں تھیں جن کا میں نے ذکر کبھی نہ کیا تھا۔ گویا آپ نے میرے خیالات کو پڑھ لیا تھا اور اس کے مطابق مجھے جواب ارسال فرمایا۔
ایک دفعہ پھر دعا کی درخواست کرتی ہوں کہ نکاح کی تقریب بھی جلد ہو جائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں ایک دوسرے کے لیے لباس بنائے۔
جرمنی کے ایک دوست بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ان کی ہمشیرہ کی شادی تھی۔ کہتے ہیں کہ اس کے لیے کھانے کا انتظام ایک بڑی گراؤنڈ میں کیا گیا جو کہ سطح زمین سے کچھ نیچے تھی اور اگر بارش ہو تو اس گراؤنڈ کو استعمال میں نہیں لایا جا سکتا۔ کہتے ہیں شادی سے کچھ دن پہلے موسم خراب ہو گیا اور یہ قوی امکان تھا کہ بارش ہو گی اور اس وجہ سے یہ جگہ ہم نے جس کام کے لیے لی ہے وہاں تو انتظام نہیں ہو سکے گا۔ چنانچہ اس احتمال سے اور اس خدشہ کے پیش نظر ہال وغیرہ ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن کہیں ہال نہیں ملا تو میں نے فوراً سوچا کہ میں حضور کی خدمت میں دعا کے لیے خط لکھتا ہوں۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ یہ تو دل میں خیال آیا لیکن شادی کی تیاریوں میں ایسا مصروف ہوا کہ خط جو لکھ کے رکھا تھا مجھے فیکس کرنے کا موقع نہیں ملا اور دوسری طرف دل میں یہ بھی احساس تھا، سنا ہوا تھا کہ
حضور کی خدمت میں خط لکھتے ہی دعا شروع ہو جاتی ہے اور دعا کا فیض جاری ہو جاتا ہے
تو اس لیے دل میں کسی قدر اطمینان بھی تھا کہ اگرچہ میں نے خط لکھ کے فیکس نہیں کیا تو دعا تو ضرور پہنچ جائے گی چنانچہ کہتے ہیں کہ ایسا اللہ کا فضل ہوا کہ اس دن موسم غیر معمولی طور پر اچھا رہا، بارش کا کسی قسم کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ خوب دھوپ چمکی اور ہمارا سارا فنکشن جو تھا وہ نہایت عمدہ طور پر ہوا۔ یہ سب صرف حضور کی دعا کی برکت سے تھا جو ابھی حضور کی خدمت میں پیش بھی نہیں کی گئی۔
ایسے واقعات بھی بے شمار ہیں جن میں لوگ اپنی صرف نیت ہی باندھتے ہیں، خط لکھنے کا ارادہ ہی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعا کی قبولیت کا سلسلہ شروع بھی ہو جاتا ہے اور ان کو اس کا فیض پہنچنا شروع ہو جاتا ہے۔
جرمنی سے ایک طفل نے اس بات کا اظہار کیا ہے۔ کہتے ہیں میں نے اپنے پیارے حضور کی خدمت میں ایک دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ میرے خاندان کو ہر قسم کے مسائل سے نکالے اور کسی کو کسی قسم کی پریشانی نہ رہے۔ تو کہتے ہیں اس وقت میرے ایک انکل اکیلے پاکستان میں رہتے تھے، سارے رشتے دار باہر تھے اور بڑے مسائل میں گھرے ہوئے تھے۔ کوئی جاننے والا پاس نہ ہونے کی وجہ سے ہروقت پریشان بھی رہتے تھے تو میں نے اس وقت حضور کی خدمت میں ان کی خاطر ایک دعا کا خط لکھا تو حالات نے عجیب پلٹا کھایا۔ چند دنوں کے اندر اندر انکل کا ناروے سے رشتہ آیا۔ وہ رشتہ طے پایا اور وہ انکل اللہ کے فضل سے ناروے آئے اور اب وہاں اپنے بیوی بچوں اور فیملی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ خلافت کی برکتیں ہیں، یہ تسکینِ جان کے سامان ہیں۔
کینیڈا کی ڈرہم (Durham)جماعت سے ایک خاتون نے ایک مربی صاحب کو اپنا واقعہ سنایا۔ یہ واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ اس میں وہ کہتی ہیں کہ چند سال پہلے ہماری عائلی زندگی میں بہت اتار چڑھاؤ آئے اور آپس میں اس قدر شدید اختلافات پیدا ہو گئے کہ مَیں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ میں نے اس بندے کے ساتھ نہیں رہنا اور میں نے اب علیحدہ ہونا ہے۔ اسی دوران حضور کا کینیڈا کا دورہ آ گیا۔ حضور تشریف لائے۔ میں نے بھی ملاقات کی درخواست کی اور ملاقات میں حاضر ہوئے تو میں نے یہ ساری صورتحال، کیفیت بیان کی اور بچوں کے لیے دعا کی درخواست کی اور حضور کی خدمت میں فیصلہ بھی سنا دیا کہ میں نے تو علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حضور نے فرمایا تمہارا خاوند کیا کہتا ہے؟ تو خاتون کہتی ہیں میں نے کہا وہ تو صلح کی طرف مائل ہے لیکن میں نے بس اب آخری فیصلہ کر لیا ہے، کوئی صلح نہیں، کوئی واپسی نہیں۔ حضور نے اس وقت فرمایا اگر وہ صلح کی طرف مائل ہے تو صلح کر لو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ۔ کہتی ہیں کہ یہ عجیب ہے کہ میں نے عرض کیا کہ میں نے فیصلہ کر لیا ہے، سب کچھ ختم ہو گیا ہے اورحضور فرما رہے ہیں کہ نہیں صلح کر لو سب ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ۔ تو کہتی ہیں اب میرے سامنے سوائے سرِ تسلیم خم کرنے کے کوئی چارہ نہ تھا۔ میں نے ملاقات سے نکل کر خود ہی خاوند کو فون کیا اور اس سے صلح کر لی۔
اللہ تعالیٰ نے حضور کے ان الفاظ میں ایسی تسکین رکھی اور ان الفاظ کو ایسی برکت بخشی کہ اس صلح کے بعد ہماری زندگی ہی بدل گئی ہے۔
اب ہمارے درمیان ایک ایسے پیار اور محبت اور مودت سے معمور تعلق کی بنیاد پڑ گئی ہے کہ ایسے لگتا ہے جیسے ہر روز ہماری شادی ہو رہی ہے۔ کاش وہ لوگ جو خلافت کی اس نعمت سے محروم ہیں وہ یہ سمجھ سکیں کہ ایسے مواقع پر جب انہیں سمجھانے والا، ان کے لیے دعائیں کرنے والا اور ان کو تسکین کے کلمات عطا کرنے والا کوئی نہیں ہوتا تو احمدیوں کے پاس ان کا خلیفہ ہوتا ہے جو ایک عظیم الشان نعمت کی طرح میسر ہے اور یہ خلافتِ حقہ اسلامیہ احمدیہ کی نعمت ہے اور یہی نعمت وجہ تسکین جان ہے۔
آسٹریلیا سے گذشتہ دنوں معتمد خدام الاحمدیہ نے اپنا واقعہ لکھ کے بھیجا۔ کہتے ہیں کہ ہم اپنا ذاتی گھر لینا چاہتے تھے، حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی۔ بس آپ کو دعا کا خط لکھنے کی دیر تھی کہ وہ مکان جو آٹھ مہینوں سے ہم کوشش کر رہے تھے کہ ہمیں مل جائے لیکن ہمیں نہیں مل رہا تھا وہ آپ کو خط لکھنے کے ایک ہفتے کے اندر اندر ہمیں مل گیا۔ یہ یقیناً آپ کی دعاؤں اور خدا کا فضل ہی ہے جس کی بدولت یہ مکان مجھے نصیب ہوا۔ کہتے ہیں کہ مجھے اس کام کے لیے میری اہلیہ نے ہی توجہ دلائی تھی ورنہ میں صرف بس ظاہری کوششوں میں ہی لگا ہوا تھا، اگرچہ ساتھ صدقہ بھی دے رہا تھا، نماز میں دعائیں بھی کرتا تھا لیکن ظاہری کوشش زیادہ تھی اور اس طرف توجہ نہیں تھی کہ حضور کو خط لکھوں تو تبھی مسئلہ حل ہو گا۔ کہتے ہیں میری بیگم نے مجھے توجہ دلائی کہ حضور کو بھی خط لکھ دو اور جب لکھو گے تو اسی سے کام بھی ہو جائے گا، دل کو تسلی بھی مل جائے گی۔ چنانچہ جب اس نسخہ پہ عمل کیا تو ایک ہفتہ کے اندر اندر وہ گھر انہیں مل گیا اور اب وہ اسی گھر میں رہ رہے ہیں۔
کینیڈا سے ایک عرب احمدی دوست نے حضور کی خدمت میں خط لکھا کہ مکان خریدنے کے لیے آپ سے دعا کی درخواست کی تھی۔ آپ کا جو دعائیہ جواب آیا ہم اس کے الفاط بلکہ حروف کی برکتوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ خط میں لفظ لفظ پہ انہوں نے غور کر کے، اس کا analysis کر کے اور اپنے حالات کے اوپر اس کو منطبق کر کے باتیں لکھیں۔ کہتے ہیں ساری دعائیں حرف بہ حرف پوری ہوئی ہیں۔ واقعی یہ معجزہ ہے کیونکہ مکان خریدنے کے اوّل تو تمام راستے بند ہو چکے تھے اور بعض نے ہمیں الجھانے اور ہمارے حالات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی بھی کوششیں کی تھیں لیکن اللہ کے فضل سے ہمیں بہت آسانی سے اور بہت مناسب قیمت پر اور نہایت آسان شرائط پر اور مسجد اور بچوں کے سکول کے قریب جو ہماری خواہشیں تھی وہ ساری کی ساری اس میں اللہ نے پوری کر دیں اور وہ مکان مل گیاجو بڑا بھی ہے اس میں گارڈن بھی ہے اور اس میں میرے والدین جو سبزیاں وغیرہ اگانے کا شوق رکھتے ہیں وہ اپنا شوق بھی پورا کر سکیں گے تو اس سے بڑھ کے مجھے خدا تعالیٰ کے خلیفہ کی دعائیں ملنے کے بعد جو تسکین نصیب ہوئی وہ کوئی کہاں سے دے سکتا تھا۔
کینیڈا کی ایک بچی جو گھر سے شادی بیاہ کے اور دوسرے کپڑوں کا آن لائن کاروبار کرتی ہیں، اور کہتی ہیں کہ الحمد للہ خدا نے بہت عزت دی ہے اور کام بھی بہت اچھا چل رہا ہے۔ وہ پاکستان سے کپڑے بنواتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ گذشتہ دنوں اچانک ہی ایک بڑی پریشانی کاسامنا کرنا پڑااور وہ یہ تھی کہ کسی کی شادی کے لیے کپڑوں کا ایک بڑا پارسل پاکستان سے آرڈر کیا لیکن اس کے آنے میں تاخیر ہو گئی۔ شادی منگل کے دن تھی اور ہفتہ والے دن تک پارسل کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا اور کہتی ہیں میں جب بھی آن لائن اس کا سٹیٹس چیک کرتی تھی تو pending لکھا ہوا آتا تھا تو اس پر مجھے بہت فکر لاحق ہوئی۔ میں نے حضور کی خدمت میں فوری طور پر پریشانی کا ذکر کر کے دعا کی درخواست کی۔ مجھے بھی یاد ہے اس نے مجھے بھی میسج بھی لکھا اور فون کر کے بھی کہا کہ انکل یہ حضور کی خدمت میں پہنچا دیں میں بہت پریشان ہوں۔ تو کہتی ہیں کہ
حضور کی دعا کی برکت ہے، ہم حیران رہ گئے کہ خط لکھنے کے تھوڑی ہی دیر بعد وہ پارسل اپنی جگہ سے ہلنا شروع ہوا۔ پہلے اٹلی پہنچا، پھر فرانس پہنچا، پھر امریکہ پہنچا، آخر کینیڈا پہنچا اور کسٹم والوں نے بھی صرف ایک گھنٹے کے اندر اندر وہ پارسل کلیئر کر دیا
اور سوموار کی صبح نو بجے ان کو پارسل مل گیا اور انہوں نے آگے شادی والوں کے گھر پہنچا دیا۔ یعنی ہفتے کو انہوں نے حضورِ انور کی خدمت میں دعائیہ خط لکھا جس کے بعد کافی عرصے سے pending پڑا ہوا پارسل نہ صرف اپنی جگہ سے ہلا بلکہ سوموار کی صبح کینیڈا میں انہیں مل بھی گیا۔ اور شادی منگل کو تھی۔ وہ لکھتی ہیں کہ یہ محض حضور کی دعا اور حضور کو خط لکھنے کی برکت ہے کہ میری مشکل اور پریشانی دور ہوئی اور جو کام بظاہر ناممکن لگ رہا تھا اسے خدا تعالیٰ نے حضور کی دعا کے صدقے بڑی آسانی کے ساتھ ممکن بنا دیا۔ ہم خدا کی اس نعمت کا جتنا بھی شکر ادا کریں اس کا حق ادا نہیں کر سکتے۔
جرمنی سے ایک خادم کہتے ہیں کہ خاکسار گذشتہ سال نئی کمپنی بنانے کی کوشش کر رہا تھا جس کی پلاننگ کی اور نوٹری سے وقت لے کے کاغذات مہیا کیے اور مکمل کیے۔ دسمبر میں اس نوٹری پبلک والے نے فائل جمع کروا دی پھر بنک اور جس کے ساتھ کام کرنا تھا اس کے ساتھ مل کے کاغذی کارروائی مکمل کر لی اور پھر نوٹری سے کہا کہ اب تم یہ درخواست عدالت کو دے دو تا کہ کمپنی کا نمبر مجھے جلدی مل جائے اور کہتے ہیں فنانس کے ادارے کو بھی وہ کاغذات مہیا کرنے تھے۔ نوٹری نے فائل تو جمع کروا دی۔ عام طور پر اس میں چودہ دن کا ٹائم لگتا ہے لیکن موجودہ حالات کی وجہ سے اور پھر کرسمس کے آغاز کی وجہ سے کافی دیر ہوتی چلی گئی تو میں بہت پریشان ہو گیا۔ صرف تین دن رہ گئے تھے اور انہی تین دنوں میں متعلقہ دفاتر کو کمپنی کی اجازت اور نمبر مہیا کرنا ضروری تھا۔ اگر ایسا نہ کرتا تو بہت بڑا نقصان ہو جاناتھا۔ کہتے ہیں میں نے بار بار نوٹری سے درخواست کی لیکن انہوں نے آگے سے یہی جواب دیا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے اب بھول جاؤ، اب اگلے سال سہی۔ شاید جنوری میں فیصلہ آ جائے۔ کہتے ہیں میں نے کافی بڑی انویسٹمنٹ بھی کر دی ہوئی تھی اس وجہ سے کافی پریشان بھی تھا اور تین دنوں میں دفاتر کمپنی کو کاغذات ارسال کرنے لازمی تھے ورنہ سب کچھ ضائع ہو جانا تھا۔ کہتے ہیں مَیں نے حضور کی خدمت میں دعا کا خط لکھا اور سوچا کہ اگر ڈاک میں بھیجا تو یہ بھی جنوری میں ہی پہنچے گا لیکن تسلی تھی کہ حضور کو خط لکھا ہے ملے نہ ملے دعا تو ضرور ہو جائے گی، اللہ کا فضل ضرور نازل ہو جائے گا۔ چنانچہ میں نے وہ خط فیکس کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔ اگلے ہی دن صبح سویرے مجھے نوٹری کی ای میل آئی جس میں وہ نمبر بھی لکھا ہوا تھا جو مجھے چاہیے تھا اور میں سچ سے یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ یہ محض خلافت کی برکت سے فیض نصیب ہوا۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭