خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍مارچ 2022ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ
٭… حضرت ابوبکرؓ نے مانعینِ زکوٰۃ کے بارے میں فرمایا کہ اگر یہ اونٹ باندھنے کی رسّی بھی نہ دیں گے تو مَیں ان سے جہاد کروں گا
٭… حضرت ابوبکرؓکی قیادت میں منکرین زکوٰة کا سدّباب ہوتے ہی اس قدر صدقات مدینہ میں موصول ہوئے جو مسلمانوں کی ضرورت سے بچ گئے
٭…حضرت مصلح موعود ؓنے فرمایا کہ احمدیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ زکوٰۃ کتنی ضروری ہے اور اس کا باقاعدہ اہتمام کرنا چاہیے
٭… حضور انور نے فرمایا: دنیا کے حالات کے لیے دعائیں کرتےرہیںان میں کمی نہ کریں ۔ خاص طور پر یہ دعا کریں کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے لگ جائے
٭…محترم مولانا مبارک نذیر صاحب سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ و مبلغ انچارج کینیڈا کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍مارچ 2022ء بمطابق 18؍امان 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مورخہ 18؍مارچ 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
حضرت ابوبکر صدیق ؓکے حالات زندگی کے ذکر میں مانعینِ زکوٰة کے بارے میں تاریخ طبری میں بیان ہوا ہےکہ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے طلیحہ بن خویلدکے ہاتھ پر اکٹھےہونے والے اسد ،غطفان اور طے قبائل جبکہ فزارہ، ثعلبہ بن سعد،مرہ ،عبس، بنو کنانہ، ذوالقصہ ،لیث، دیل اور مدلج قبائل کے وفودمدینہ آئے اورحضرت عباس ؓکے علاوہ دیگر عمائدین مدینہ کے ہاں فروکش ہوئے ۔پھر وہ ان کا ایک وفد بنا کرحضرت ابوبکرؓکی خدمت میں اس شرط پرلے کر گئے کہ وہ نماز پڑھتے رہیں گے مگر زکوٰة نہ دیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اگر یہ اونٹ باندھنے کی رسّی بھی نہ دیں گے تو میں ان سے جہاد کروں گا۔ ان وفود نے جب آپؓ کا عزم دیکھا تو مدینہ سے واپس ہوگئے۔
ایک سیرت نگار لکھتے ہیں کہ مدینہ سے جاتے وقت دو باتیں ان وفود کے ذہن میں تھیں۔ نمبر ایک یہ کہ منع زکوٰة کے سلسلہ میں خلیفہ کی اپنی رائے اور عزم سے پیچھے ہٹنے کی کوئی امید نہیں۔ نمبر دو ۔اُن کا زعم تھا کہ مسلمانوں کی کمزوری اور قلت تعداد کو غنیمت جانتے ہوئے مدینہ پر ایسا زور دار حملہ کیا جائے جس سے اسلامی حکومت گر جائے۔ حضرت ابوبکرؓ بھی غافل نہ تھے۔ انہوں نے مدینہ کے تمام ناکوں پر باقاعدہ پہرے متعین کر دیے۔ صرف تین راتیں گزری تھیں کہ منکرین زکوٰۃنے رات ہوتے ہی مدینہ پر حملہ کر دیا لیکن مسلمانوں نے دشمن کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ مدینہ سے چالیس میل کے فاصلے پر ذو القصہ مقام پر موجود حملہ آوروں کے ساتھی اُن کی مدد کو آئے۔اس دوران حضرت ابوبکرؓ بھی اپنی فوج کی تیاری میں مصروف رہے۔ رات کے پچھلے پہر شدید لڑائی ہوئی اور صبح ہونے سے پہلے ہی منکرین نے شکست کھا کر راہ ِفرار اختیار کی۔یہ پہلی فتح تھی جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دی۔ایک مصنف اس جنگ کو غزوہ بدر سے مشابہت دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس موقع پر ابوبکرؓنے ایمان و یقین اور عزم و ثبات کا جو مظاہرہ کیا اس سے مسلمانوں کے دل میں عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کی یاد تازہ ہو گئی۔ جس طرح جنگ بدر دُوررَس نتائج کی حامل تھی اسی طرح اس جنگ میں بھی مسلمانوں کی فتح نے اسلام کے مستقبل پر گہرا اثر ڈالا۔
بنو ذبیان، بنو عبس اور دیگر قبائل نے اس شکست کی وجہ سے غیض و غضب میں آ کر اپنے ہاں موجود مسلمانوں پر اچانک حملہ کر کے ان کو نہایت بے دردی سے طرح طرح کے عذاب دے کر شہید کر ڈالا۔ ان مظالم کی اطلاع پر حضرت ابوبکرؓنے قسم کھائی کہ ہر قبیلے میں سے مسلمانوں کے قاتلوں کو بدلہ میں قتل کریں گے۔ حضرت ابوبکرؓ کی قیادت میں منکرین زکوٰة کے حملوں کا سدّباب ہوتے ہی دیگر متذبذب قبائل یکے بعد دیگرے اپنی زکوٰة لے کر مدینہ کی طرف آنے لگے۔تاریخ طبری میں ہے کہ اس زمانے میں اس قدر صدقات مدینہ میں موصول ہوئے جو مسلمانوں کی ضرورت سے بچ گئے۔
حضرت مصلح موعود ؓنے تقویٰ کے مدارج بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ احمدیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ زکوٰۃ کتنی ضروری ہے اور اس کا باقاعدہ اہتمام کرنا چاہیے۔ خدا تعالیٰ نے نماز کے بعد اس کا حکم دیا ہے۔منصب خلافت کے ضمن میں ایک جگہ آپؓ نے فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓ پر جب زکوٰۃ کے متعلق اعتراض ہوا کہ یہ حکم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا تھا ۔جسے لینے کا حکم ہوا تھا وہ فوت ہوگیا ۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے مگر شریعت تو قائم ہے اور اب خلیفہ مخاطب ہے۔ پس اسی کا ہم آہنگ ہوکر میں کہتا ہوں کہ آج میں مخاطب ہوں اور یہی اصول ہمیشہ خلافت کے ساتھ رہے گا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک موقع پر یہ بھی فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تاریخوں میں آتا ہے کہ صرف تین جگہیں ایسی رہ گئی تھیں جہاں مسجدوں میں باجماعت نماز ہوتی تھی۔ملک کے اکثر لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد کسی کا کیا حق ہے کہ وہ ہم سے زکوٰۃمانگے۔زکوٰة کے مسئلہ کے اختلاف کی وجہ سے عرب کے ہزاروں لوگ مرتد ہو گئے۔حضرت ابوبکرؓ کو اطلاع پہنچی کہ مسیلمہ ایک لاکھ کی فوج لےکر حملہ آور ہو رہا ہے اُس وقت بعض صحابہ نے حضرت ابوبکرؓ کو مشورہ دیا کہ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ آپؓ زکوٰة کا مطالبہ نہ کریں اور ان لوگوں سے صلح کر لیں لیکن حضرت ابوبکرؓنے فرمایا جب تک میں ان لوگوں کو زکوٰة دینے کا قائل نہ کر لوں گا ان سے کبھی صلح نہ کروں گا۔ حضرت مصلح موعودؓفرماتے ہیں: پس حقیقی ایمان کی یہی علامت ہوا کرتی ہے اوریہی ایمان اگر ہم میں ہو گا تو ہم دنیا میں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچا سکیں گے اوران شاءاللہ کامیاب ہوں گے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ اصل حقیقت یہی ہے کہ جس طرح نماز روزہ کے احکام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک ختم نہیں ہو گئے اسی طرح قومی یا ملکی نظام سے تعلق رکھنے والے احکام بھی آپؐ کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہو گئے اور نماز باجماعت کی طرح اِن احکام کے متعلق بھی ضروری ہے کہ ہمیشہ مسلمانوں میں آپؐ کے نائبین کے ذریعہ ان پر عمل ہوتا رہے۔
پھر ایک موقع پر حضرت مصلح موعود ؓنے یہ بھی فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓکے زمانہ میں یکدم تمام عرب مرتد ہو گیا صرف مکہ، مدینہ اور ایک چھوٹا سا قصبہ رہ گئے۔ باقی تمام مقامات کے لوگوں نے زکوٰة دینے سے انکار کر دیا اور وہ لشکر لے کر مقابلہ کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ بعض جگہ تو ان کے پاس ایک ایک لاکھ کا بھی لشکر تھا۔ مگر اِدھر صرف دس ہزار کا ایک لشکر تھا جسے اپنی وفات کے قریب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت اُسامہ ؓ کی سربراہی میں رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لیے تیار کیا تھا۔ باقی لوگ جو رہ گئے تھے وہ کمزور،بڈھے اور گنتی کے چند نوجوان تھے۔ یہ حالات دیکھ کر اکابر صحابہ کے ایک وفدنے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ بغاوت فرو ہونے تک اس لشکر کو روک لیا جائے ۔ حضرت ابوبکرؓنے نہایت غصہ کی حالت میں فرمایا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوقحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اُسے روک لے۔ آپؓ نے کہا میں اِس لشکر کوضرور روانہ کروں گا ۔ اگر تم دشمن کی فوجوں سے ڈرتے ہو تو بے شک میرا ساتھ چھوڑ دو۔ میں اکیلا تمام دشمن کا مقابلہ کروں گا۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا کی صداقت کا بڑا ثبوت ہے۔یعنی وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔یعنی خلافت پہ قائم ہونے والے یا خلافت کے ساتھ رہنے والے۔ اور یہ وہ حالت ہے جو خلافت کے نظام کے ساتھ جاری ہے اور جاری رہے گی۔
حضرت مصلح موعودؓ نےحضرت ابوبکرؓکے فیصلہ کے زبردست نتائج پیدا ہونےکےبارے میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓنے صحابہ کی مرضی کے خلاف حضرت اُسامہ بن زیدؓ کے لشکرکو روانہ کر دیاجو چالیس دن بعد فاتحانہ شان سے مدینہ واپس آیا اور خدا کی نصرت اور فتح کو نازل ہوتے سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے جھوٹے مدعیان کے فتنہ کو کچل کر رکھ دیااور یہ فتنہ بالکل ملیا میٹ ہو گیا۔ بعد ازاں یہی حال مرتدین کا ہوا ۔پھر اختلاف کر نےوالے صحابہ کو جو کہتے تھے کہ توحید اور رسالت کا اقرار کرنے والے منکرین زکوٰةپر کس طرح سے تلوار اٹھائی جا سکتی ہے حضرت ابوبکرؓنے نہایت جرأت سے کام لیتے ہوئے فرمایا کہ اگر آج زکوٰة نہ دینے کی اجازت دے دی تو آہستہ آہستہ لوگ نماز روزے کو بھی چھوڑ بیٹھیں گے اور اسلام محض نام کا رہ جائے گا۔ الغرض ایسے حالات میں حضرت ابوبکرؓ نے منکرین زکوٰة کا مقابلہ کیا اور انجام یہی تھا کہ اس میدان میں بھی آپؓ کو فتح اور نصرت حاصل ہوئی اور اور تمام بگڑے ہوئے لوگ راہ ِحق کی طرف لوٹ آئے۔
حضور انور نے فرمایا کہ ابھی یہ سلسلہ چل رہا ہے ان شاءاللہ آئندہ ذکر کروں گا۔
حضور انور نے بعد ازاں ایک دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کل دنیا کے حالات کے لیے دعائیں کرتے رہیں ان میں کمی نہ کریں۔ خاص طور پر یہ دعا کریں کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے لگ جائے ۔یہی ایک حل ہے دنیا کو تباہی سے بچانے کا۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ہماری دعائیں بھی قبول فرمائے۔
حضور انور نے آخر میں مکرم و محترم مولانا مبارک نذیر صاحب سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ و مبلغ انچارج کینیڈا کی وفات پران کا ذکر ِخیر کرتےہوئے ان کی جماعتی خدمات کا بھی تفصیلی تذکرہ فرمایا اور بعد نماز جمعہ ان کا نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان بھی فرمایا۔