ادبیات

درّثمین اردوکی آٹھویں نظم: وید

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ساراکلام نظم و نثر آفاقی ہے۔ ہر زمانے اور خطّے کےلیے آپؑ کےفرمودات زندگی بخش پیغام لیے ہوئے ہیں۔ حضورؑ کے اردومنظوم کلام کا یہ مطالعہ،ان نظموں پر غور کرنے کی ایک کوشش ہے۔

درِّثمین میں شامل آٹھویں نظم ‘‘وید’’سیّدناحضرت اقدس مسیح موعودؑکی تصنیفِ لطیف‘سُرمہ چشم آریہ’مطبوعہ1886ء سے ماخوذ ہے۔سات اشعار کی اس مختصر نظم کی بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع ہے۔

ہوشیار پور میں 14مارچ 1886ء کو منعقد ہونے والے مباحثہ ثانیہ میں حضورؑ نے ڈرائنگ ماسٹر لالہ مُرلی دھر کے بودے اعتراضات کےجواب میں ،قرآنِ کریم کے اعجازی مضامین پر پُر معارف، مدلّل اظہارِ خیال فرمایا۔خدا تعالیٰ کی صفتِ خالقیت اورعلمِ روح پر قرآن کریم کے بیان فرمودہ جامع دلائل رقم فرمانے کے بعد آپؑ نے لالہ مُرلی دھر سمیت نامور آریہ صاحبان کو روح کے متعلق وید کا فلسفہ بیان کرنے کا چیلنج دیا۔ فرمایا:

‘‘جب یہ رسالہ ہماری طرف سے چھپ کر شائع ہوجائے تو اس وقت ماسٹر صاحب پرواجب و لازم ہوگا کہ اُس کے مقابل پر ویدؔ کی شُرتیوں کے ساتھ ایک رسالہ مرتّب کریں،جس میں رُوح کے بارے میں ویدؔ کی فلاسفی بیان کی گئی ہوکہ وہ کیونکر غیرمخلوق اور خُدا کی طرح قدیم اور خُدا سے الگ چلی آتی ہےاور اس کے خواص کیا کیا ہیں مگر ہم دونوں فریقوں پر لازم ہوگا کہ اپنی اپنی کتاب سے باہر نہ جائیں اور کوئی خودتراشیدہ خیال پیش نہ کریں…سو اگر اس شرط سے ماسٹرؔ صاحب مقابلہ کردکھائیں یا کوئی اور شخص جو آریوں کےممتازعلماء میں سےہوتو مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو…… سَو روپیہ انعام دوں گا۔

(سُرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2، صفحہ 178۔180)

حضورؑ نے آریہ حضرات کو خبردار کیا کہ یہ زمانہ وید کی غیر حقیقی،غیرمنطقی تعلیمات کا زمانہ نہیں۔ وید پر جلدتر وبال آنے والا ہے۔آریہ صاحبان کی آئندہ نسلیں ایسی خلافِ حقیقت تعلیم کو کبھی قبول نہیں کریں گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یاتو وہ اپنے باپ دادوں کے خیالات کا انکار کرکے دہریہ بن جائیں گی یا سعادت مندی کا ثبوت دیتے ہوئے ربّ العالمین پر ایمان لے آئیں گی۔
اب وہ تاریکی کا زمانہ نہیں کہ انسان وید کی تعلیم کے مطابق چاند اور سورج کی پوجا کرے۔ وید کے اس بیان پر ایمان رکھے کہ کوہِ ہمالیہ کے پرے اور کوئی ملک ہی نہیں۔

آریہ سماجیوں کے ساتھ حضورؑ نے باوا گرو نانک صاحب کے چیلوں کو بھی نصیحت فرمائی۔ باباگرونانک نے وید کی سخت مخالفت کی ہے۔ وہ دینِ اسلام کے عقائد کو پسند فرماتے تھے۔گرنتھ کے ایک واعظ نرائن سنگھ صاحب کے مطابق بابا گرونانک اسلامی تعلیمات کے مطابق عبادات بھی بجالاتے تھے۔ وہ تناسخ کے عقیدے سے بیزار اور روحوں کے مخلوق ہونے کے قائل تھے۔ اپنے گرنتھ میں انہوں نے اس امر کی کئی شہادتیں رقم فرمائی ہیں۔ حضورؑ نے گرنتھ سے اس بارے میں مختلف حوالے درج فرمائے۔بابا گرونانک صاحب سے عقیدت رکھنے والوں کو غوروفکر کی دعوت دینےکے بعد ،آپؑ نے وید کی حقیقت کھولتے یہ چند اشعار درج فرمائے۔
ان اشعار میں بھی آپؑ نے وید پر ایمان رکھنے والوں کو غوروفکر کی دعوت دی ہے۔ روح و مادہ کے ازلی ابدی ہونے کا عقیدہ گویا خدا یا پرمیشر کی قدرتوں کا انکار کرنا ہے۔ ایسے غیرحقیقی اور غیر منطقی عقیدے کا آخری نتیجہ مذہب سے دُوری اور دہریت کے رنگ میں ظاہر ہوتاہے۔

وید سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کےلغوی معنی علم الٰہی، آسمانی کلام یا گیان کےہیں۔ اصطلاح میں ہندوؤں کی مذہبی کتاب کانام وید ہے۔

پہلے شعر میں ‘سودا ہونا’محاورہ استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی جنون یا خبط ہونے کے ہیں۔ سودائی ، دیوانے،پاگل یا احمق کو کہا جاتا ہے۔ ‘فرہنگِ آصفیہ’نے ناسخ کا درج ذیل شعر نقل کیاہے:

سویدا کی جا سنگ اَسود کو چوما

ارے تجھ کو سودا ہوا چاہتاہے

‘سودا ہونا ’محاورے کے ایک معنی عشق ہونے اور دل لگی کے بھی ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں حضورؑ فرماتے ہیں، ‘‘اُن کا دل مبتلا ہے ویدوں کا’’مبتلا کا مطلب الجھا ہوا ہونا یا عاشق ہونا ہے۔ اسی طرح لفظ ‘دل’بھی استعمال فرمایا گیا ہے۔ یوں اس مصرعے میں محاورہ ‘سودا ہونا’کے معنی عشق ہونے کے بھی سمجھے جاسکتے ہیں۔

چھٹے شعر میں ‘ناستک مت’کی ترکیب ہے۔ عرفِ عام میں ناستک کا لفظ منکرِ خدا ، دہریے یا بےدین ،کافرو زندیق کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ ‘مت’ کے معنی مذہب یا دھرم کے ہیں۔

فرہنگِ آصفیہ’نے ‘ناستک مت’کے ذیل میں دل چسپ نکتہ بیان کیا ہے۔نستُوہ یا نستُو فارسی میں بداعمال جھگڑالو آدمی کو کہتے ہیں۔ اصل میں نون نفی کا ہے یعنی ہستُو اقراری اور نستُو منکر۔ کہتے ہیں چونکہ جھگڑالو آدمی بات کو نہیں مانتا ہر ایک دلیل کی نفی کرتا ہےاس لیے اسے نستُو یا نستُوہ کہتے ہوں گے پس ناستک اور نستُو ایک ہی قبیل سے ہوئے۔

‘فیروز اللغات’کے مصنّفین ‘ناستک’کے متعلق کہتے ہیں کہ‘‘وہ شخص جسے خدا کے وجود اور عدم وجود دونوں پر شک ہو۔ جو خدا کے وجود کا اقرار کرے نہ انکار۔ اِسے دہریہ کہنا غلط ہے کیونکہ دہریہ سِرےسے خدا کے وجود کا منکرہوتا ہے’’

ناستک مت کے حوالے سے،حضرت اقدس مسیح موعودؑ اپنی تصنیف ‘شحنۂ حق’ میں فرماتے ہیں:

‘‘ایسا ہی آریوں میں بعض ناستک مت والے بھی قدیم سے چلے آئے ہیں جن کے اب تک شاستر بھی موجود ہیں وہ بھی بالاتفاق یہی کہتے ہیںکہ موت کے ساتھ ہی رُوح معدوم ہوجاتی ہےاور کچھ نام و نشان باقی نہیں رہتا’’۔

(شحنۂ حق، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 432)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button