معاشرہ کا کام ہے کہ شادی کے قابل بیواوٴں اور لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیاں کروانے کی طرف توجہ دیں
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍ دسمبر 2004ء)
آجکل شادی بیاہ کے بہت سے مسائل سامنے آتے ہیں۔ روزانہ خطوں میں ان کا ذکر ہوتا ہے۔ لڑکیوں کی طرف سے عورتوں کی طرف سے بچیوں کے رشتوں کے مسائل ہیں۔ جو کم مالی حیثیت رکھنے والے ہیں ان کے رشتوں کے مسائل ہیں لڑکا ہو یا لڑکی۔ بیواؤں کے رشتوں کے مسائل ہیں۔ ایسی بعض بیوائیں ہوتی ہیں جو شادی کی عمر کے قابل ہوتی ہیں یا بعض ایسی جو اپنے تحفظ کے لئے شادی کروانا چاہتی ہیں ان کے رشتوں کے مسائل ہیں۔ لیکن ایسی بیوائیں بعض دفعہ معاشرے کی نظروں کی وجہ سے ڈر جاتی ہیں اور باوجود یہ سمجھنے کے کہ ہمیں شادی کی ضرورت ہے، وہ شادی نہیں کرواتیں۔ تو بہرحال مختلف طبقوں کے اپنے اپنے مسائل ہیں ہمارے بعض مشرقی ممالک میں، بیواؤں کے ضمن میں بات کروں گا، اس بات کو بہت برا سمجھا جاتا ہے بلکہ گناہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت اگر بیوہ ہو جائے تو دوسری شادی کرے۔ اور بعض بیچاری عورتیں جو اپنے حالات کی وجہ سے شادی کرنا چاہتی ہیں ان کے بعض دفعہ رشتے بھی طے ہو جاتے ہیں لیکن ان کے عزیز رشتہ دار اس بات کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا۔ اور اس طرح ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں اور بیچاری عورت کو اتنا عاجز کردیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے ہی بیزار ہوجاتی ہے۔ اور حیرت اس بات کی ہے کہ یہاں یورپ میں آکر جہاں اور دوسرے معاملات میں روشن خیالی کا نام دے کر بہت سارے معاملات میں ملوث ہوجاتے ہیں جن میں سے بعض کی اسلام اجازت بھی نہیں دیتا لیکن یہ جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بیواؤں کی شادی کرو اس بارے میں بڑی غیرت دکھا رہے ہوتے ہیں …۔
اللہ تعالیٰ تو بڑا واضح طور پر کھل کر فرماتا ہے کہ معاشرے میں اگر نیکیوں کو فروغ دینا ہے تو معاشرے میں جو شادیوں کے قابل بیوائیں ہیں ان کی بھی شادیاں کرانے کی کوشش کرو بلکہ یہاں تک کہ اُس زمانے میں جو غلام تھے اور لونڈیاں تھیں ان میں سے بھی جو نیک فطرت ہیں ان کی بھی شادیاں کروا دو تا کہ برائی نہ پھیلے۔ یہ قوم بھی جو غریب لوگ ہیں یہ بھی مایوسی کا شکار نہ ہوں۔ تو یہ حکم شادی کی پابندی کا ہے۔ اس زمانے میں غلام تو نہیں ہیں لیکن بہت سے ممالک میں غربت ہے اور غربت کی وجہ سے شادی نہیں ہوتی تو جماعت ان لوگوں کی مدد بھی کرتی ہے۔ اس لئے انفرادی طور پر بعض لوگ مدد کرتے ہیں اور کرنی بھی چاہئے۔ تو فرمایا یہ نہ سمجھو کہ ان کی غربت ہے اس لئے شادی نہ کراؤ۔ اگر مرد کام نہیں کرتا یا ملازمت اس کے پاس نہیں ہے یا کوئی کمائی کا ایسا بڑا ذریعہ نہیں ہے تو ان کی شادیاں بھی کرواؤ اور پھر جماعت میں جو ایک نظام رائج ہے ایسے لوگوں کی ملازمت یا کاروبار کی کوشش بھی کی جاتی ہے اور کرنی بھی چاہئے۔ تو اِلّا ماشاء اللہ جب ایسی کوشش ہوتی ہے تو سوائے چند ایک کے شادی کے بعد احساس بھی پیدا ہوجاتا ہے کہ انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو سنبھالنا ہے اس لئے کوئی کام کریں، کوئی کاروبار کریں، کوئی نوکری کریں، کوئی ملازمت کریں۔ پھر اکثر بیوی بھی اپنے خاوند کے لئے کوئی کام کرنے کے لئے یا ملازمت حاصل کرنے کے لئے ترغیب دلانے کا باعث بن جاتی ہے۔ بیوی بھی اس پر دباؤ ڈالتی ہے تو اس سے بھی توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اور کئی مثالیں ایسی ہیں کہ شادی کے بعد ایسے غریبوں کے حالات بہتر ہو گئے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ وہ علم رکھتا ہے کہ کس کے کیا حالات ہونے ہیں۔ معاشرے کا یہ کام ہے کہ چاہے وہ بیوائیں ہوں، چاہے وہ غریب لوگ ہوں ان کی شادیاں کروانے کی کوشش کرو۔ اس طرح معاشرہ بہت سی قباحتوں سے پاک ہو جائے گا، محفوظ ہو جائے گا۔ بیواؤں میں سے بھی اکثر جو ایسی ہیں جیساکہ مَیں نے کہا تھا کہ شادی کرانے کی خواہش رکھتی ہوں، ضرورت مند ہوں اور ان میں سے ایسی بھی بہت ساری تعداد ہوتی ہے جو خاوند کی وفات کے بعد معاشی مسائل سے دوچار ہو جاتی ہے۔ معاشرے کے بعض مسائل ہیں جن سے دوچار ہوتی ہے تو ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کو کوئی ٹھکانہ ملے۔ ان کو تحفظ ملے بجائے اس کے کہ وہ مستقل تکلیف اٹھاتی رہے۔ اس لئے فرمایا کہ پاک معاشرہ کے لئے بھی اور ان کے ذاتی مسائل کے حل کے لئے بھی پوری کوشش کرو کہ ان کی شادیاں کروادو۔ تو یہ ہے حکم اللہ تعالیٰ کا جبکہ جیسا کہ مَیں نے کہا بعض معاشرے اس کو ناپسند کرتے ہیں۔ اسلامی اور احمدی معاشرہ کہلاتے ہوئے بعض لوگ ناپسند کرتے ہیں۔ تو ہر احمدی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مقابلے میں ہماری روایات یعنی وہ جھوٹی روایات جو دوسرے مذاہب یا غیر مسلموں کے بگڑے ہوئے مذہب کا حصہ بن کر ہمارے اندر جڑ پکڑ رہی ہیں، ہمارے اندرداخل ہو رہی ہیں ان کو نکالنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ تو بیوگان کو یہ اجازت دیتا ہے کہ بیوہ ہونے کے بعد اگر کسی کا خاوند فوت ہو جائے تو اس کے بعد جو عدت کا عرصہ ہے، چار مہینے دس دن کا، وہ پوراکرکے اگر تم اپنی مرضی سے کوئی رشتہ کرلو اور شادی کرلو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ کوئی ضرورت نہیں ہے کسی سے فیصلہ لینے کی یا کسی بڑے سے پوچھنے کی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ معروف کے مطابق رشتے طے کرو۔ معاشرے کو پتہ ہو کہ یہ شادی ہو رہی ہے تو پھر کوئی حرج نہیں۔ تو بیواؤں کو تو اپنے متعلق اپنے مستقبل کے متعلق فیصلہ کرنے کا خود اختیار دے دیا گیا ہے یا اجازت ہے اور لوگوں کو یہ کہا ہے کہ تم بلا وجہ اس میں روکیں ڈالنے کی کوشش نہ کرو اور اپنے رشتوں کا حوالہ دینے کی کوشش نہ کرو۔ اگر یہ بیواؤں کے رشتے جائز اور معروف طور پر ہورہے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی اجازت دیتا ہے۔ تم پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ تم اپنے آپ کو خاندان کا بڑا سمجھ کر یا بڑے رشتے کا حوالہ دے کر روک نہ ڈالو کہ یہ رشتہ ٹھیک نہیں ہے، نہیں ہونا چاہئے یا مناسب نہیں ہے۔ بیوہ کو خود فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ تم کسی بھی قسم کی ذمہ داری سے آزاد ہو۔ اللہ تمہارے دل کا بھی حال جانتا ہے۔ اگر تم کسی وجہ سے نیک نیتی سے یہ روک ڈالنے یا سمجھانے کی کوشش کررہے ہو کہ یہ رشتہ نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ جو تمہارے دل میں ہے ظاہر کردو اس کو بتا دو اور اس کے بعد پیچھے ہٹ جاؤ اور فیصلے کا اختیار اس بیوہ کے پاس رہنے دو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دل کا حال جانتا ہے اس کو تمہاری نیت کا پتہ ہے تمہارے سے بہر حال باز پرس نہیں ہوگی۔ اگر نیک نیت ہے تو نیک نیتی کا ثواب مل جائے گا۔
اس بارے میں فرماتا ہے وَالَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا یَّتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّعَشۡرًا ۚ فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا فَعَلۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ وَاللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ (البقرہ: 235) یعنی تم میں سے وہ لوگ جو وفات دیئے جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں چار مہینے اور دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں۔ پس جب وہ اپنی مقررہ مدت کو پہنچ جائیں تو پھر وہ عورتیں اپنے متعلق معروف کے مطابق جو بھی کریں اس بارے میں تم پر کوئی گناہ نہیں اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ’’بیوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکاح کا حکم ہے۔ چونکہ بعض قومیں بیوہ عورت کا نکاح خلاف عزت خیال کرتے ہیں اور یہ بدرسم بہت پھیلی ہوئی ہے۔ اس واسطے بیوہ کے نکاح کے واسطے حکم ہوا ہے۔ لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہر بیوہ کا نکاح کیا جائے۔ نکاح تو اسی کا ہوگا جو نکاح کے لائق ہے اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے۔ بعض عورتیں بوڑھی ہو کر بیوہ ہوتی ہیں۔ بعض کے متعلق دوسرے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نکاح کے لائق نہیں ہوتیں۔ مثلاً کسی کو ایسا مرض لاحق ہے کہ وہ قابل نکاح ہی نہیں یا ایک کافی اولاد اور تعلقات کی وجہ سے ایسی حالت میں ہے کہ اس کا دل پسند ہی نہیں کرسکتا کہ وہ اب دوسرا خاوند کرے۔ ایسی صورتوں میں مجبوری نہیں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑ کر خاوند کرایا جائے۔ ہاں اس بدرسم کو مٹا دینا چاہئے کہ بیوہ عورت کو ساری عمر بغیر خاوند کے جبراً رکھا جاتا ہے۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 320،بدر 10اکتوبر1907ء)