مراکز احمدیت کی ترقیات اور خدمتِ انسانیت
اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو وَسِّعْ مَکَانَکَ کے ذریعہ جہاں ظاہری طور پر وسعت اختیار کرنے کا حکم دیا وہیں اپنے کاموں ، اپنے ارادوں اورخدمت دین متین کے منصوبوں کو بھی وسیع کرنے کا حکم دیا بلکہ اس میں ایک بشارت یہ بھی ہے کہ وہ خود اپنے فرشتوں کے ذریعہ اس بارِ عظیم کو اٹھانے میں مدد فرمائے گا ۔ یہ الہام حضرت اقدس علیہ السلام کو تین مرتبہ ہوا۔
پس ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح روحانی، علمی، مادی اور ظاہری شان و شوکت میں اضافہ ہوا۔ غرض ہر لحاظ سے وسعت پیدا ہوتی گئی۔ اور یہ الہام ہر روز نئے رنگ میں پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ؎
گزرے ہوئے سو سال کی تاریخ گواہ ہے
سائے کی طرح سایہ فگن ہم پہ خدا ہے
کسی بھی زندہ جماعت کے لیے اس کا مرکز ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس قدر مرکز مضبوط ہوگا اسی قدر وہ جماعت ترقی کرسکے گی۔ دوسرے الفاظ میں مرکز کا وجود ایک ماں کے مترادف ہے جس کی طرف بچے لوٹ لوٹ کر آتے ہیں۔ پس جماعت احمدیہ کے مراکز کا جماعت کی ترقی میںبہت اہم کردار ہے۔ جماعت احمدیہ کے پہلے مرکز قادیان سے ربوہ، پھر ربوہ سے لندن اور پھر لندن سے اسلام آباد ، ہر مرکز خاص برکات کے نزول کا باعث بنتا چلا آتا ہے۔اور ہر مرکز احمدیت میں خلافت احمدیہ کے سایہ تلے احمدی ہمیشہ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (الحشر :10)کا پہلے سے بڑھ کر نمونہ دکھاتے ہوئے خدمتِ انسانیت کی توفیق پاتے ہیں۔
قارئین کی خدمت میں ان چار مراکز کی ترقیات کا مختصر جائزہ لیتے ہوئے ان کے ذریعہ سے ہونے والی خدمتِ انسانیت کا تذکرہ پیش کیا جارہا ہے۔ کیونکہ جماعت احمدیہ کو حاصل ہونے والی ہر ترقی احبابِ جماعت کے خدمتِ انسانیت کے جذبہ کو تقویت بخشتی ہے۔ ؎
ہے عرفانِ اسلام ہر سمت جاری
فلک گیر ہے اب صدائے خلافت
خدمتِ انسانیت شروع سے ہی جماعت احمدیہ کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے تو یہاں تک فرمایا کہ ؎
مرا مقصود و مطلوب و تمنا خدمت خلق است
ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم
یعنی میرا مقصود و مطلوب اور میری تمنا مخلوق کی خدمت کرنا ہے۔ یہی میرا کام ہے اور میری ذمہ داری بھی یہی ہے اور یہی میرا راہ رسم اور طور طریقہ بھی یہی ہے۔
اللہ تعالیٰ اور حضرت نبی اکرم ﷺ کی خلق خدا سے ہمدردی اور ان کی خدمت کے علَمکو بلند کرتے ہوئے اس زمانہ کے موعود نبی حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘در اصل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے اور خداتعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ وہ اس سے اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے ………خدا تعالیٰ کو بھی اس طرح پر اس بات کی چڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق سے سرد مہری برتے کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے ۔ پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے ۔ ’’
(ملفوظات جلد چہارم ص 215 ۔216شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
آپ علیہ السلام کا اپنا اعلیٰ نمونہ کچھ یوں ہے کہ قادیان کے اردگرد کے لوگ اور دیہات کی عورتیں اکثر آپ ؑ کے پاس دوائی لینے آتیں۔ایک بار مولوی عبد الکریم صاحب ؓنے عرض کی کہ حضرت یہ تو بڑی زحمت کاکام ہے اور اس طرح حضوؑر کا قیمتی وقت ضائع ہوجاتا ہے ۔ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا:
‘‘یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے ۔ یہ مسکین لوگ ہیں یہاں کوئی ہسپتال نہیں میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوا ئیں منگوا رکھا کرتا ہوں، جو وقت پر کام آجاتی ہیں۔ یہ بڑا ثواب کا کام ہے ، مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پرواہ نہیں ہونا چاہیے’’۔
(ملفوظات جلد 2صفحہ 3۔ایڈیشن 1984ء)
اسی علَم کو آپ علیہ السلام کے خلفاء نے بھی اٹھائے رکھا اور جماعت پر آنے والے ہر وقت اور مقام جس نے خلافت کے قدمِ مبارک چومے، پہلے سے بڑھ کر خدمتِ انسانیت کے لیے قربان ہوتے دیکھے گئے۔
حضرت مصلح موعود ؓ بغیر رنگ ونسل کے امتیاز کے خدمت خلق کے کام کی انجام دہی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘خدمت خلق کے کام میں جہاں تک ہوسکے وسعت اختیار کرنی چاہیے اور مذہب اورقوم کی حد بندی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہرمصیبت زدہ کی مصیبت کو دور کرنا چاہیے۔خواہ وہ ہندوہویاعیسائی ہو یا سکھ……میں ایسی بیسیوں مثالیں دے سکتا ہوں کہ جب ہندو میرے پاس آئے اور میں نے ان کی امداد کی اوران پر بڑے بڑے احسان کیے۔”
(مشعل راہ جلداول صفحہ56 )
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ بنی نوع سے ہمدردی کے حوالہ سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘میرے دل کی یہ خواہش ہے کہ ساری دنیا میں ہمدردی والوں میں سب سے زیادہ ہمدردی کا عملی اظہار جماعت احمدیہ کی طرف سے ہو۔ ……میرے دل میں خداتعالیٰ نے اس معاملہ میں بے انتہا جوش پیدا کیا ہے ۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ بنی نوع انسان کی ہمدردی میں ایسے عظیم الشان کام سرانجام دے جو اپنی وسعت کے ساتھ اپنی شدت میں بھی بڑھتے رہیں یہاں تک کہ جماعت احمدیہ ساری دنیا میں بنی نوع انسان کی سب سے زیادہ ہمدردی رکھنے والی اور ہمدردی میں عملی قدم اٹھانے والی جماعت بن جائے ۔’’
(خطبات طاہر جلد2 ص572۔573 اشاعت طبع اول فروری 2005ء)
ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خدمت خلق کو جماعت احمدیہ کا خاصہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘یہ جماعت احمدیہ کاہی خاصہ ہے کہ جس حد تک توفیق ہے خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ اورجو وسائل میسر ہیں ان کے اندررہ کرجتنی خدمت خلق اور خدمتِ انسانیت ہوسکتی ہے کرتے ہیں ۔انفرادی طورپر بھی اورجماعتی طور پر بھی ۔تو احبابِ جماعت کو جس حد تک توفیق ہے بھوک مٹانے کے لیے ،غریبوں کے علاج کے لیے ،تعلیمی امداد کے لیے ،غریبوں کی شادیوں کے لیے ،جماعتی نظام کے تحت مدد میں شامل ہوکر بھی عہد بیعت کو نبھاتے بھی ہیں،اورنبھانا چاہیے بھی’’۔
(مشعل راہ جلد 5حصہ اول صفحہ61)
پہلا مرکز۔ قادیان دارالامان
قادیان کا تعارف
قادیان تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو لاہور سے مشرق کی جانب تقریباً ستر میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس قصبہ کی بنیاد ایک مغل خاندان نے قریباً 1530ء میں رکھی تھی جب ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ بابر تخت پر متمکن تھے۔ اوراس کے بانی برلاس مغلوں کے ایک رئیس مرزا ہادی بیگ صاحب بیان کیے جاتے ہیں۔مغل دورِ حکومت میں قادیان ایک قلعہ کی حیثیت رکھتا تھا جس کی حفاظت کے لیے اس کے گرداگرد پانچ قلعے اَور تھے۔ لیکن سکھوں کے دور میں یہ اجاڑ شہروں میں شمار ہونے لگا اور اللہ تعالیٰ نے اِس شہر کی شہرت کو یکسر ختم کردیا کیونکہ اب تمام ترقیات حضرت اقدس علیہ السلام کی ذات بابرکات کے ساتھ وابستہ ہوچکی تھیں۔ لہذا دنیاوی شہرت اور پھر نسل دونوں باتیں یَنْقَطِعُ اٰبٓاءُکَ وَ یُبْدَءُ مِنْکَ کا مظہر بنیں۔
شروع میں اس قصبہ کا نام اسلام پور رکھا گیا جو بعد میں اسلام پور قاضی ماجھی میں تبدیل ہوگیا۔ (وجہ یہ تھی کہ اس خاندان کے لوگ اس علاقہ کے حاکم تھے اور قاضی کی حیثیت سے فیصلہ وغیرہ کیا کرتے تھےاس لیے اسلام پور کے ساتھ قاضی کا لفظ شامل ہوگیا اور ماجھی کا لفظ اس لیے شامل ہواکہ یہ ساٹھ کوس کا طولانی علاقہ ماجھہ کہلاتا تھا اور بھینسوں(جنہیں ماجھ کہتے ہیں) کی کثرت بھی بہت تھی)اور مرورِ زمانہ سے صرف قاضی ماجھی رہ گیا۔ آہستہ آہستہ صرف قاضی بچ گیا اور پھر قادی بنا اور آخر کار قادیاں لکھا اور پکارا جانے لگا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام
سے قبل قادیان کی حالت
حضرت اقدس علیہ السلام کی بعثت سے قبل یا دوسرے الفاظ میں قادیان کے مرکز احمدیت کی شکل اختیار کرنے سے قبل اس علاقہ کی جو حالت تھی اس پر نگاہ ڈالتے ہیں تا بعثت کے بعد کے قادیان سے اس کا موازنہ کیا جاسکے۔
قادیان میں روز مرہ کی ضروریات زندگی بھی میسر نہ تھیں۔ پکی سڑکیں، بجلی، ریل گاڑی، ڈاکخانہ ، ٹیلی فون او ردیگر بنیادی ضروریات سے عاری ہونے سے بھی بڑھ کر ایک گمنام بستی کی صورت میں ایک ویران اور بیابان علاقہ تھا۔ذیل میں تین بیانات ہدیہ قارئین کیے جارہے ہیں۔
حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب نے قادیان کو ایک ہزار کی تعداد کا ایک چھوٹا سا گاؤں بیان فرمایا ہے ، جس کے چار دروازے تھے۔ ننگلی،موری، پہروی اور بٹالوی۔ سارا علاقہ ویران اور بیابان تھا۔ موجودہ مسجد انوار کے شمال میں ایک جھیل تھی ۔ بارش کے موسم میں پانی ڈھاب میں اکٹھا ہوجاتا تھا اور ایک جھیل بن جاتی تھی جس میں کشتی چلائی جاسکتی تھی۔ نالیوں کا کوئی انتظام نہ تھا۔
حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ قادیان ریلوے سٹیشن (بٹالہ)اور ٹیلی گراف کے دفتر سے گیارہ میل کے فاصلہ پر ہے۔ راستہ قادیان تک بہت اونچا نیچا ہے جس میں کوئی بھی موجودہ سہولتیں نہیں۔ یہاں تک کہ پینے کا پانی بھی نہیں ملتا۔
اسی طرح حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانی ؓنے جو 1895ء میں قادیان تشریف لائے ، قادیان کے حالات کے بارے میں اپنی شہادت بیان کی ہے جو الحکم 14جنوری 1940ء میں شائع ہوئی۔ ان کی یہ تفصیلی شہادت قادیان کی خستہ حالی اور بیابانی کی مفصل داستان ہے۔
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قادیان کے ایک ہندو کی گواہی بھی درج کر دی جائے۔ موہن لال بیان کرتے ہیں کہ مرزا صاحب سے پہلے قادیان کی حالت بہت خراب تھی۔ دودھ والا جب سارا دن دودھ نہ بیچ سکتا تو رات کواس کا دہی بنا لیتا۔ جب دوسرے دن وہ دہی بھی نہ فروخت کر سکتا تو اس کی پکوڑیاں بنا لیتا۔
غرض نام کی چند ایک دکانیں تھیں اور ان کا سودا سلف بھی خریدنے والا نہ ہوتاتھا۔ حضرت اقدس علیہ السلام اس حالت کا تذکرہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں:؎
میں تھا غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر
کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر
غرض اگر کوئی شخص اس گمنام بستی جس کو لوگ “دور کہیں روس کی سرحد پر کوئی گاؤں” سمجھتے تھے، کو تلاش کرتے کرتے پہنچ بھی جاتا تو تین چوتھائی غیر آباد حصہ پر مشتمل ایک اداس بستی اس کو ملتی ۔ دو سنسان بازاروں کے گاؤں میں شاید ہی کوئی روزمرہ ضرورت کی چیز یا سامان میسر آسکتا تھا۔
قادیان بطور مرکز احمدیت
مرکز احمدیت کی ابتدا حضرت اقدس علیہ السلام سے ہوئی اور سب سے زیادہ خدمتِ انسانیت میں بڑھ کر آپ ہی کی ذات مبارک تھی۔ چنانچہ حضور اقدسؑ نے تو بہت سے ایسے لوگوں کی بھی مالی معاونت فرمائی جو ساری عمر صرف آپ ؑ کے خلاف مقدمہ بازی ہی کرتے رہے۔ جیسے نہال سنگھ جس نے کئی احمدیوں پر خطرناک جھوٹا فوجداری مقدمہ بھی دائر کروایا تھا۔ مقدمہ کے ایام میں اُس کی کسی عزیزہ کے لیے مشک کی ضرورت پڑی جو بہت قیمتی چیز تھی۔ اس حالت میں وہ حضورؑ کے دروازہ پر آکر سوالی ہوا تو حضورؑ اُس کا سوال سنتے ہی اندر تشریف لے گئے اور نصف تولہ کے قریب مشک لاکر اُس کے حوالہ کی۔
اب دیکھتے ہیں کہ حضرت اقدس علیہ السلام کی بعثت کی برکت سے اس گمنام بستی کو کس طرح اللہ تعالیٰ نے مرجع خلائق بنایا۔ ذیل میں ان سہولیات اور ترقیات کا ذکر کیا جارہا ہے جو آپ علیہ السلام کی برکت سے جماعت احمدیہ کےپہلے اور دائمی مرکز کو نصیب ہوئیں اور جن کی بدولت خدمتِ انسانیت کے فرائض کی انجام دہی ممکن ہوسکی۔
روحانی ترقیات و خدمات
قادیان ایک مذہبی مرکز ہونے کی بنا پر روحانی دولت سے اپنے باسیوں کو مالا مال کرتا ہے۔ روحانی ترقیات کا ایک اہم حصہ مساجد کا قیام ہے۔ خدا کے اس پیارے کی بستی کو خدا تعالیٰ نے ایک کے بعد ایک نئی مسجد عطا کی۔مسجد اقصیٰ حضرت اقدس علیہ السلام کے والد ماجداور مسجد مبارک خود حضرت بانی سلسلہ نے بنوائی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کے دورِ خلافت میں مسجد فضل واقع آرئیاں اور مسجد نور واقع محلہ دارالعلوم تعمیر ہوئیں۔ حضرت مصلح موعود ؓ کے دورِ خلافت میں درج ذیل مساجد تعمیر ہوئیں:
مسجد دارالرحمت، مسجد دارالبرکات، مسجد دارالفتوح، مسجد سٹارہوزری فیکٹری، مسجد دارالسعۃ، مسجد ناصر آباد، مسجد دارالانوار، مسجد دارالفضل۔
اسی طرح مسلمانوں کو قرآن کریم کی تعلیم سے آراستہ کرنا بھی مرکز احمدیت کی بڑی کامیابی ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح کا درس القرآن اور تراجم و تفاسیر قرآن کی اشاعت بھی بنی نوع انسان کی روحانی خدمت کا جزو ہیں۔
شدھی تحریک کا مقابلہ
شدھی تحریک کے ذریعہ 1923ء کے آس پاس آگرہ و راجستھان کے ماحول میں اور خاص ملکانہ علاقہ میں اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہوا ۔ بعض ہندو تنظیموں بالخصوص آریہ سماج نے یہ تحریک چلائی کہ یہاں جتنے مسلمان ہیں وہ سارے چونکہ پہلے ہندو تھے اس لیے ان کو اپنے مذہب میں واپس لے آنا چاہیے۔چنانچہ نہایت خاموشی کے ساتھ اندر ہی اندر یہ تحریک چلائی گئی اور ہزاروں مسلمان جن کے رسم و رواج عدم تعلیم و تربیت کی وجہ سے پہلے ہی ہندوانہ تھے اسلام کو خیر باد کہہ کرشدھ ہوگئے۔ اس سلسلہ میں جب اخبارات میں ذکر آیا تو 9 مارچ 1923ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے واقفین سے آگے آنے کا مطالبہ فرمایا جو اپنے خرچ پر اس علاقہ میں جاکر تبلیغ کریں۔اس آواز پر جماعت نے والہانہ لبیک کہتے ہوئے حیرت انگیز ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کیا۔ چنانچہ تحریک شدھی دم توڑ گئی۔
علمی ترقیات و خدمات
اللہ تعالیٰ نے بانی اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ پر پہلی وحی کے ذریعہ پڑھنے اور علم و قلم کا ذکر فرما کر تحصیل و ترویج علم کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی۔
مدرسہ تعلیم الاسلام
حضرت اقدس علیہ السلام کے دو ر میں دو سکول تھے ایک سرکاری جو لوئر پرائمری تک تھا اور دوسرا آریہ سکول جس کا ہیڈ ماسٹر ایک آریہ تھا مسلمان بچوں کو گمراہ کرنے کے لیے اکثر اسلام پر برملا حملے کیا کرتا تھا۔ حضرت صاحب ؑنے مسلمان طلبہ کی بہتر تعلیم کے لیے مدرسہ جاری کرنے کا ارادہ فرمایا اور 15ستمبر 1897ء کے اشتہار کے ذریعہ اور پھر جلسہ سالانہ پر چندہ کی تحریک فرمائی ۔ اس طرح یکم جنوری 1898ء سے مدرسہ تعلیم الاسلام کا اجرا ہوا۔ (البدر 5جون 1903ء)
تعلیم الاسلام کالج
مدرسہ تعلیم الاسلام پرائمری تک تھا ،فروری 1900ء میں ہائی سکول بنا اور تین سال بعد ترقی دے کر کالج بنا دیا گیا اورتعلیم الاسلام کالج کےنام سے موسوم ہوا۔ اس ابتدائی کالج کا افتتاح 28مئی 1903ء کو ہوا۔ لیکن بعض ملکی قوانین اس کے آڑے آئے جس کی وجہ سے کالج بند کرنا پڑا۔پھرباقاعدہ طور پر تعلیم الاسلام کالج کا افتتاح حضرت مصلح موعود ؓکے دور خلافت میں 14جون 1944ء کو ہوا۔
فضل عمر ہوسٹل
26مئی 1944ء کو فضل عمر ہوسٹل کا قیام دارالانوار گیسٹ ہاؤس میں ہوا۔ بعد ازاں اس کی باقاعدہ عمارت کا افتتاح 27اکتوبرکو حضرت مصلح موعود ؓنے فرمایا۔
تعلیم الاسلام ریسرچ سوسائٹی
18جنوری 1945ء کو تعلیم الاسلام ریسرچ سوسائٹی قائم کی گئی جس کا مقصد تحقیقاتی اور علمی مزاج پیدا کرنا تھا۔
فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ
تعلیم الاسلام کالج کے قیام کے دوسرے سال 19اپریل 1946ء کو فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح ہوا۔
علم طبیعیات کی لیبارٹری
تعلیم الاسلام کالج کی چھت پر مغربی جانب اپریل 1946ء میں شعبہ سائنس کی علم طبیعیات کی لیبارٹری کی بنیاد حضرت مصلح موعود ؓنے اپنے ہاتھ سے رکھی۔
بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول
بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی بنیاد 1910ء میں رکھی گئی۔
مدرسہ احمدیہ
دینی تعلیم کے لیے الگ سےمدرسہ احمدیہ کا باقاعدہ اجراء 1909ء میں ہوا اور اس کی عمارت کی بنیاد یکم مارچ 1909ء کو رکھی گئی۔ مدرسہ احمدیہ ترقی کرتے ہوئے 20مئی 1928ء کو عربی کالج کی شکل اختیار کر گیا۔ آج اس کی شاخیں جامعہ احمدیہ کی شکل میں کئی ممالک میں قائم ہیں۔
تقسیم ہند کے بعد قادیان میں مدرسہ احمدیہ کے نام سے ادارہ جاری رہا جس میں تدریس کا جدید دور 1954ء سے شروع ہوا۔ 1998ء میں اسے ترقی دے کر جامعہ احمدیہ بنا دیا گیا۔
(مجلہ جامعہ احمدیہ قادیان ص58,54)
نصرت گرلز سکول
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے اس کا قیام ہو چکاتھا مگر ترتیب بندی 1909ء میں ہوئی۔
لائبریریز (کتب خانے)
انجمن تشحیذ الاذہان کے تحت پہلی پبلک لائبریری وسط 1908ء میں قائم کی گئی۔ (تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ220)اس کے علاوہ صادق لائبریری، امۃ الحئی لائبریری بھی موجود تھیں۔تقسیم ملک کے بعد قادیان میں موجود کتب کو قصر خلافت میں جمع کر دیا گیا اور اس کانام مرکزی لائبریری رکھا گیا۔
پریس
1895ء میں ضیاء الاسلام پریس اور کتب خانے کا قیام کیا گیا۔ (تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 518)
1920ء میں قادیان میں چھ سات پریس قائم ہوچکے تھے بعد میں ان کی تعداد اور بھی زیادہ ہوگئی۔چند ایک کے نام درج ذیل ہیں۔
میگزین پریس، ضیاء الاسلام پریس ، انوار احمد پریس، فاروق پریس، اللہ بخش سٹیم پریس وغیرہ ۔ تاہم قادیان میں چلنے والاکوئی بھی پریس تقسیم ملک کے بعد قائم نہ رہا اور صدر انجمن احمدیہ قادیان نے 1975ء میں پریس خریدا۔
اخبارات ورسائل:
1۔الحکم(اخبار)
اجراء: 20فروری 1898ء
مدیر:حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ
2۔البدر(اخبار)
اجراء : اکتوبر 1902ء
مدیر : مولوی محمد افضل صاحب ؓ
1905ء
مدیر : حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ
3۔ریویو آف ریلیجنز اردو ۔انگریزی
اجراء: 1902ء
4۔ تشحیذ الاذہان (رسالہ)
اجراء: یکم مارچ 1906ء
مدیر : حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ
5۔ نور (اخبار)
اجراء: اکتوبر 1909ء
مدیر: حضرت شیخ محمد یوسف صاحب ؓ
6۔ اخبار الحق
اجراء : 7جنوری 1910ء
مدیر : حضرت میر قاسم علی صاحب
7۔ رسالہ احمدی
اجراء: جنوری 1911ء
مدیر : حضرت میر قاسم علی صاحب
8۔ احمدی خاتون (ماہنامہ)
اجراء: ستمبر 1912ء
مدیر: حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ
9۔ الفضل (اخبار)
اجراء: 18جون 1913ء
مدیر : حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ
مصالح العرب (عربی ضمیمہ اخبار)
اجراء: 1913
مدیر : سید عبد الحئی عرب صاحب
10۔ صادق (اخبار)
اجراء: جون 1918ء
11۔ رفیق حیات (ماہنامہ)
اجراء: 1918ء
مدیر : حکیم عطا محمد لاہوری صاحب
12۔ اتالیق (رسالہ)
اجراء: 1919ء
مدیر : ماسٹر احمد حسین صاحب
13۔ مصباح (ماہنامہ)
اجراء: 15دسمبر1925ء
مدیر : مولوی محمد یعقوب صاحب
14۔ تعلیم الاسلام
مدیر : قاضی محمد عبداللہ بھٹی صاحب
15۔ تعلیم الدین
اجراء: 1936ء
مدیر : مولانا ابو العطاء صاحب (نگران)
حکیم عبد اللطیف صاحب گجراتی (مدیر)
16۔ المبشر
مدیر : عبد الرحیم صاحب شبلی
17۔ ست بچن
مدیر : گیانی واحد حسین صاحب
18۔ جامعہ احمدیہ
اجراء: اپریل 1930ء
19۔ الفرقان
اجراء: 1942ء
مدیر : مولانا ابو العطاء صاحب
20۔ تفسیر القرآن
مدیر : سید سرور شاہ صاحب
21۔ جواب مباہلہ
طبی ترقیات و خدمات
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے طاعون کے زمانہ میں ہمدردیٔ خلائق کے لیے دومرکب دوائیں تیارفرمائیں ۔ ایک دوا پر دوہزار پانچ سوروپیہ خرچ آیا جس میں دوہزارروپیہ کے یاقوت رمانی حضرت خلیفۃ المسح الاول ؓ نے پیش کیے اس دواکانام حضرت اقدسؑ نے تریاق الٰہی رکھا۔ (حیات نورص238)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی ہمدری خلق اور خدمت خلق کا یہ عالم تھاکہ آپ سے بھیرہ کے ایک حکیم نے کہا کہ آپ کا کام چلنا مشکل ہے۔میں جو مانگ لیتا ہوں۔مجھے بھی اس شہر میں پانچ روپیہ سے زیادہ آمدنی نہیں ہوتی اورآپ کو تو مفت دوا دینے کی عادت ہے۔ (حیات نورصفحہ83 )
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے روزانہ اوسط مریضوں کی تعداد 20سے لیکر50تک رہی۔ چنانچہ ایک سال میں تقریباً20 ہزار مریض دوا کے حصول کی غرض سے آئے۔
(الحکم جنوری 1900۔حیات نورص252)
نور ہسپتال
حضرت میر ناصر نواب صاحب ؓ کی کوشش سے یکم رمضان 1335ھ بمطابق21جون 1917ء کو نور ہسپتال کی بنیاد رکھی گئی اور ستمبر 1917ء میں اس کی تکمیل ہوئی۔ 1930ء میں نور ہسپتال کو سیکنڈ گریڈ ہسپتال کی حیثیت حاصل ہوئی اور اس کے مستقل قواعد و ضوابط تجویز کیے گئے۔1947ء میں تقسیم ہند کے وقت فوج اور پولیس نے نور ہسپتال پر قبضہ کر لیا تھا جس کی وجہ سے مسلمان مریضوں اور زخمیوں کو علاج کے لیے بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس وجہ سے احمدیہ شفا خانہ کے نام سے ایک چھوٹی سی ڈسپنسری نے کام کرنا شروع کیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خصوصی شفقت کے نتیجہ میں ایک وسیع اور نئے احمدیہ ہسپتال کا سنگ بنیاد 8 نومبر 1998ء کو رکھا گیا جس کا افتتاح 2006ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا تھا۔یہ ہسپتال‘‘نور ہسپتال’’کے نام سے کام کر رہا ہے اور احمدی ڈاکٹرز اپنی خدمات بجا لا رہے ہیں۔
خدمتِ انسانیت کے دیگر ذرائع
مہمان خانہ اور لنگر خانہ
مہمان خانہ کی ابتداحضر ت اقدس علیہ السلام کے گھر سے ہوئی اور لنگر خانہ کا آغازگھر کے باورچی خانہ سے ہوا جس کی منتظمہ حضرت ام المومنینؓ تھیں۔ مہمان جس قسم کے کھانے کا عادی ہوتا آپ اس کے لیے اسی قسم کا کھانا تیار فرماتیں۔ یقیناً بہت ہی خوش قسمت اور قابل رشک وہ مہمان ہوں گے جن کا مہمان نواز حضرت اقدس علیہ السلام جیسی ذات بابرکات تھی۔
حضرت اقدس علیہ السلام کی زندگی میں لنگر خانہ کا انتظام براہ راست حضورؑ کے ہاتھ میں تھاپھر آپؑ کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے منشاء کے مطابق یہ انتظام صدر انجمن احمدیہ کی نگرانی میں دے دیا گیا۔
1922ء میں مہمانوں کی کثرت سے آمد کے نتیجہ میں حضرت مصلح موعود ؓنے مہمانوں کی سہولت اور بہتر انتظام کے لیے ایک علیحدہ شعبہ قائم فرما دیا۔ لنگر خانہ کے لیے الگ انتظام کے ساتھ ہی 6عدد کمرے مہمان خانہ کی غرض سے تعمیر کیے گئے۔
الدّار میں کنواں
حضرت اقدس علیہ السلام کے گھر میں 1895ء میں کنواں لگایا گیا ۔(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 226،227)
مختلف انجمنوں کا قیام
مجلس ضعفاء: حضرت میر ناصر نواب صاحب نے باہمی محبت و مواساۃ اور اسلامی اخوت پیدا کرنے کے لیے بنائی۔
(تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 212)
حضرت میر صاحبؓ نے غرباء کی رہائش کے لیے بہشتی مقبرہ کے ساتھ دارالضعفاء کا ایک حصہ بھی آباد کردیا جس کی بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے 1911ء میں رکھی۔ مسجد ناصر آباد کی تعمیر کے بعد یہ محلہ ناصر آباد کہلایا۔ (حیات ناصر صفحہ 25)
سادہ سنگت:سکھوں اور ہندوؤں میں تبلیغ اسلام کی غرض سے قادیان میں یہ انجمن بنائی۔
(تاریخ احمدیت جلد 3ص310)
دیانند مت کھنڈن سبھا دہلی: آریہ سماج کے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فتنہ کے دفاع کے لیے حضرت میر قاسم علی صاحبؓ نے ملازمت چھوڑ کر اپنی زندگی وقف کر دی اور دہلی میں دیانند مت کھنڈن سبھا کے نام سے ایک انجمن قائم کی۔ حضرت خلیفہ اول ؓنے اپنی جیب خاص سے ایک سو روپیہ اس انجمن کے لیے عطا فرمایا۔ (تاریخ احمدیت جلد3 ص 302)
انجمن ارشاد: 1909ء کے آخر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے انجمن ارشاد کا قیام کیا جس کا مقصد دشمنان اسلام کے اعتراضوں کا ردّ اور ابطال تھا۔
(تاریخ احمدیت جلد 3ص 303)
انجمن مسلمان راجپوتان ہند: راجپوتوں میں تبلیغ کے لیے 27مارچ 1910ء کو ایک انجمن کا قیام عمل میں آیاجس کا نام ‘‘انجمن راجپوتان ہند’’رکھا گیا۔انجمن کے پریذیڈنٹ چوہدری غلا م احمد صاحب کاٹھ گڑھی اور سیکرٹری چوہدری مولا بخش صاحب بھٹی سیالکوٹی تھے۔
(تاریخ احمدیت جلد3 ص317)
انجمن مبلغین: حضرت خلیفہ اولؓ کی تحریک پر 1912ء کے ابتداء میں قادیان کے بعض نوجوانوں نے ایک ‘‘انجمن مبلغین’’بنائی جس کا نام‘‘یادگار احمد’’بھی تھا۔ اس انجمن کی غرض اسلام کی تائید اور باقی مذاہب کے ابطال میں چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ شائع کرنا تھا۔اس انجمن نے اپنا پہلا ٹریکٹ‘‘کسر صلیب’’کے نام سے شائع کیا جو حضرت میر اسحاق صاحب ؓکے قلم سے نکلا۔اس انجمن کے دیکھا دیکھی لاہور میں بھی ایک انجمن ‘‘احمدیہ ینگ ایسوسی ایشن’’کے نام سے قائم ہوئی جس نے کئی پمفلٹ چھاپے۔(تاریخ احمدیت جلد 3 ص429)
انجمن انصاراللہ:فروری 1911ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محموداحمد صاحبؓ نے ایک خوا ب کی بناء پر حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکی اجازت سے ایک‘‘انجمن انصاراللہ’’کی بنیاد ڈالی جس کا مقصد احمدیوں کے دلوں میں ایمان پختہ کرنا اور فریضہ تبلیغ کو باحسن وجوہ ادا کرنا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے بیماری کے باوجو د الفضل میں اس مضمون کا شروع سے لے کے آخر تک مطالعہ فرمایا اور حضرت صاحبزادہ صاحب ؓسے فرمایا کہ میں بھی آپ کے انصار میں شامل ہوں۔16 اپریل 1911ء کو اس انجمن کا افتتاحی جلسہ قادیان میں ہوا۔
(تاریخ احمدیت جلد 3ص 365تا363)
بنی نوع انسان کی خدمت ہر رنگ سے کریں
خدمت انسانی کے مختلف دائروں اورمتنوع کاموں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں۔
‘‘ہرمحلہ میں جویتامیٰ،بیوگان اورمساکین ہوں ان سب کی خبرگیری کی جائے۔اگرانہیں طبی امداد کی ضرورت ہو تو طبی امدادبہم پہنچائی جائے یاان کا کوئی اور کام ہوتو وہ کیا جائے۔اسی طرح وہ لوگ جو فوج میں جاچکے ہیں اوران کے گھروں میں کوئی سوداسلف لاکر دینے والا نہیں،ان کا بھی خیال رکھا جائے اوراگر ان گھروں میں کوئی بیمار ہوتواسے دوائی لا کر دی جائے۔میں نے دیکھا ہے کہ بعض غریب عورتیں ایک دفعہ اپنا زیوربیچ کر معمولی سےگزارے کے لیے مکان توبنالیتی ہیں لیکن اس کے بعد انہیں طاقت نہیں ہوتی کہ مزدور لگاکر مکان کی لپائی کراسکیں اور ان کے گھر میں کوئی مرد بھی نہیں ہوتاجولپائی کا انتظام کرسکے…ایسے گھروں میں خدام جائیں،ان کی دیواروں اورچھتوں کی لپائی کریں۔یہ ایک ایسا کام ہے جو ہر دیکھنے والے کے دل پر اثر کرتا ہے۔ قومی کاموں میں جہاں ہزاروں انسان کام کررہے ہوں کوئی انسان بھی ہتک محسوس نہیں کرتا کیونکہ اس کے دوسرے ساتھی اس کے ساتھ کام کررہے ہوتے ہیں لیکن انفرادی کاموں کے کرنے میں انسان ہتک محسوس کرتا ہے۔
(مشعل راہ جلد اول صفحہ433 )
مذکورہ بالا اقتباس کے مطابق افراد جماعت احمدیہ کی خدمتِ انسانیت اور ایک مسلمان عورت کے لیے غیرت کا نمونہ پیش ہے کہ کس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے تربیت یافتہ گریجویٹس،بیرسٹرز،وکلا اور ڈاکٹرز نے اپنے ہاتھوںسے فصل کاٹ کر دی۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ
‘‘الوریا بھرت پور کی ریاست میں ایک عورت تھی جس کے سارے بیٹے آریہ ہوگئے مگر وہ اسلام پر قائم رہی۔مائی جمبا اس کا نام تھا…جب فصل کٹنے کا وقت آیا تو چونکہ سب گائوں جو بڑا بھاری تھا ۔آریہ ہوچکاتھااوراس کے اپنے بیٹے بھی اسلام چھوڑ چکے تھے اوروہ عورت اکیلی اسلام پر قائم تھی۔اس لیے کوئی شخص اس کی کھیتی کاٹنے کے لیے تیار نہیں تھا…جب یہ خط مجھے ملاتوجتنے گریجویٹ ، بیرسٹر ، وکیل اور ڈاکٹر وہاں تھے،میں نے ان سے کہاکہ وہ سب کے سب جمع ہوں اوراس عورت کی کھیتی اپنے ہاتھ سے جاکر کاٹیں۔چنانچہ درجن یا دودرجن کے قریب آدمی جمع ہوئے جن میں وکلاء بھی تھے ڈاکٹر بھی تھے گریجویٹس بھی تھے علماء بھی تھے اور انہوں نے کھیتی کاٹنی شروع کردی۔لوگ ان کو دیکھنے کے لیے جمع ہوگئے۔اور تمام علاقہ میں شور مچ گیاکہ یہ ڈاکٹر صاحب ہیں جو کھیتی کاٹ رہے ہیں۔یہ جج صاحب ہیں جو کھیتی کاٹ رہے ہیں۔یہ وکیل صاحب ہیں جو کھیتی کاٹ رہے ہیں…وہ اس وقت تک نہیں ہٹے جب تک اس کی تمام کھیتی انہوں نے نہ کاٹ لی۔یوپی کے اضلاع میں یہ بات خوب پھیلی اورکئی رئیس مجھے متواتر دلی میں ملے اور انہوں نے کہا کہ ہم تواس دن سے احمدیت کی قدر کرتے ہیں جب ہم نے یہ نظارہ دیکھا تھا کہ ایک مسلمان عورت کے لیے آپ کی جماعت نے یہ غیرت دکھائی۔ (مشعل راہ جلد اول صفحہ678 )
دا ر الصنا عۃ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیو ٹ
ضرورت مند افرادکو ہنر سکھا کر بیروز گاری کی شرح میں کمی کرنے کا عظیم الشان منصوبہ اس ادارہ کے تحت پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے۔ اس ادا رے کااِفتتا ح حضر ت خلیفۃ المسیح الثا نی ؓ نے 2مارچ1935ءکوفرما یا ۔
کارخانے
روحانی ، علمی اور طبی ترقیات کے ساتھ ساتھ قادیان کی مادی ترقیات میں بھی بہت اضافہ ہوا جس کا اندازہ درج ذیل کارخانوں کے قیام سے کیا جاسکتا ہے۔سٹار ہوزری ، میک ورکس ، اکبر علی سنز، احمد برادرز، پیپر ورکس مکینکل انڈسٹریز، آئرن اسٹیل میٹل وغیرہ۔ آٹے کی مشینیں، روئی دھننے کی مِلیں، عطریات کے لیے پرفیومری کا کارخانہ، شیشہ کا کارخانہ، سیمنٹ کی ایجنسیاں اور بہت سے دیگر شعبہ جات سے متعلقہ کارخانے بھی قادیان کی مادی ترقیات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
تحریکات خلفائے سلسلہ از قادیان
(بابت خدمت خلق)ابتداء تا تقسیم ملک
یتامیٰ،مساکین اورطلباء کے لیے ایک تحریک
21جنوری1909ءکو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے یتامیٰ،مساکین اور طلبہ کے لیے چندہ کی ایک تحریک جاری فرمائی۔ (حیات نور صفحہ426 )۔ ایک سو روپیہ خود حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اپنی طرف سے عطا فرمایا۔
(بدر 21جنوری 1909ء ص1 کالم نمبر2)
علی گڑھ یونیورسٹی کے لیے تحریک
سر سید کے بیٹے سید محمود نے 1873ء میں ایک ایسی اسلامی یونیورسٹی کا تخیل پیش کیا جو کیمبرج اور آکسفورڈ کی طرح حکومت وقت کے اختیارات سے آ زاد ہو۔محترم نواب فتح علی خاں صاحب نے لاہور سے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں بھی چندہ کی تحریک کی اور جماعت میں بھی تحریک کرنے کی درخواست کی۔ حضور نے بدر 9 مارچ 1911ء ص 6کالم نمبر3میں اس کا اعلان فرمایا اور اس اعلان کے ساتھ جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک ہزار روپیہ کا عطیہ بھی بھجوایا۔
(سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ 12’1911ء ص 81)
جنوری 1921ء میں عظیم الشان یونیورسٹی جو ایشیائی مسلمانوں کی بہت بڑی یونیورسٹی تھی۔ معرض وجود میں آ گئی۔
(موج کوثر ص 145)
انفلوئنزا کی عالمگیر وبا میں خدمت کی تحریک
1918ء میں جنگ عظیم کا ایک نتیجہ انفلوئنزا کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس وبا نے گویا ساری دنیا میں اس تباہی سے زیادہ تباہی پھیلادی۔ جو میدان جنگ میں پھیلائی تھی۔ ہندوستان پر بھی اس مرض کا سخت حملہ ہوا۔ اگرچہ شروع میں اموات کی شرح کم تھی۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں میں بہت بڑھ گئی اور ہر طرف ایک تہلکہ عظیم برپا ہوگیا۔ ان ایام میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ہدایت کے ماتحت جماعت احمدیہ نے شاندار خدمات انجام دیں اور مذہب و ملت کی تمیز کے بغیر ہر قوم اور ہر طبقہ کے لوگوں کی تیمارداری اور علاج معالجہ میں نمایاں حصہ لیا۔ احمدی ڈاکٹروں اور احمدی طبیبوں نے اپنی آنریری خدمات پیش کرکے نہ صرف قادیان میں مخلوق خدا کی خدمت کا حق ادا کیا بلکہ شہر شہر اور گاؤں گاؤں پھر کر طبی امداد بہم پہنچائی اور تمام رضاکاروں نے نرسنگ وغیرہ کی خدمت انجام دی اور غربا کی امداد کے لیے جماعت کی طرف سے روپیہ اور خورو نوش کا سامان بھی تقسیم کیا گیا ان ایام میں احمدی والینٹیئر (جن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بھی شامل تھے) صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرکے دن رات مریضوں کی خدمت میں مصروف تھے اور بعض صورتوں میں جب کام کرنے والے خود بھی بیمار ہوگئے اور نئے کام کرنے والے میسر نہیں آئے بیمار رضاکار ہی دوسرے بیماروں کی خدمت انجام دیتے رہے اور جب تک یہ رضاکار بالکل نڈھال ہو کر صاحب فراش نہ ہوگئے۔ انہوں نے اپنے آرام اور اپنے علاج پر دوسروں کے آرام اور دوسروں کے علاج کو مقدم کیا۔ یہ ایسا کام تھا کہ دوست دشمن سب نے جماعت احمدیہ کی بے لوث خدمت کا اقرار کیا اور تقریر و تحریر دونوں میں تسلیم کیا کہ اس موقع پر جماعت احمدیہ نے بڑی تندہی و جانفشانی سے کام کرکے بہت اچھا نمونہ قائم کردیا ہے۔
(سلسلہ احمدیہ ص358)
لاوارث عورتوں اور بچوں کی خبرگیری کے لیے تحریک
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جولائی 1927ء میں آریوں کے ایک خطرناک منصوبہ کا انکشاف کرتے ہوئے مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ شدھی کا زور جب سے شروع ہواہے ہندو صاحبان کی طرف سے مختلف سٹیشنوں پر آدمی مقرر ہیں جو عورتوں اور بچوں کو جو کسی بدقسمتی کی وجہ سے علیحدہ سفر کررہے ہوں بہکا کر لے جاتے ہیں اور انہیں شدھ کرلیتے ہیں اس سلسلہ میں حضور نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ ہر بڑے شہر میں لاوارث عورتوں اور بچوں کے لیے ایک جگہ مقرر ہونی چاہیے جہاں وہ رکھے جائیں ۔
(الفضل 19 جولائی 1927ء ص2,1)
انجمن محافظ اوقاف دہلی نے یہ اہم فرض اپنے ذمہ لیتے ہوئے پانچ معزز ارکان کی کمیٹی قائم کردی۔
مسلمانان الور کی امداد
1932ء میں ریاست الور کے بہت سے مسلمان ریاستی مظالم کی تاب نہ لا کر جے پور اجمیر شریف، بھرت پور اور ضلع گوڑ گاؤں اور دہلی وغیرہ مقامات میں آگئے تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو جب ان کے حالات کا علم ہوا تو مظلوموں کی اعانت کے لیے سید غلام بھیک صاحب نیرنگ ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور و جنرل سیکرٹری سنٹرل جماعت تبلیغ الاسلام کو دوسو روپے ارسال فرمائے۔
بوہرہ جماعت کے قومی مفاد کا تحفظ
1933ء میں بوہروں میں پیداہونے والی باہمی چپقلش کو ختم کرنے اور ان کی مرکزیت برقرار رکھنے کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے حکیمانہ اقدامات کیے۔
(تاریخ احمدیت جلد 6صفحہ 105)
تحریک جدید
1934ء کی عظیم الشان تحریک۔ جس کے 27مطالبات ہیں۔ بانی تحریک حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی میں ہی دنیا کے 40ممالک میں 136مشن قائم ہوئے۔ 311مساجد کی تعمیرہوئی۔ 122 اخبارات و رسائل جاری ہوئے۔
غرباء کےلیے غلہ کی تحریک
1942ءمیں ہندوستان میں خطرناک قحط پڑا۔ حضور انور نے 22مئی 1942ء کو احبابِ جماعت کواپنے غریب بھائیوں کے لیے غلہ کے انتظام کرنے کا فرمایا۔
(الفضل 24مئی 1942ء)
غرباء کے مکانوںکی تعمیر کی تحریک
حضور نے خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1942ء میں بارشوں کی کثرت کی وجہ سے قادیان میں گرنے والے بہت سے غربا کے مکانوں کی مرمت اور تعمیر کی تحریک فرمائی۔ اس طرح خداتعالیٰ کے فضل سے بہت ہی کم خرچ پر غربا کے مکانات کی مرمت ہو جائے گی۔ (الفضل 17 ستمبر 1942)
بھوکوں کو کھانا کھلانے کی تحریک
30 مئی 1944ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے جماعت احمدیہ کو عموماً اور اہل قادیان کو خصوصاً یہ اہم تحریک فرمائی۔
‘‘ہر شخص کو اپنے اپنے محلہ میں اپنے ہمسایوں کے متعلق اس امر کی نگرانی رکھنی چاہیے کہ کوئی شخص بھوکا تو نہیں اور اگر کسی ہمسایہ کے متعلق اسے معلوم ہو کہ وہ بھوکا ہے تو اس وقت تک اسے روٹی نہیں کھانی چاہیے جب تک وہ اس بھوکے کو کھانا نہ کھلالے’’۔
(الفضل 11 جون 1945ء ص3 کالم2)
احمدی مہاجرین کے لیے کمبلوں لحافوں اور
توشکوں کی خاص تحریک
قیام پاکستان کے بعد مشرقی پنجاب سے آنے والے صرف تن کے کپڑے ہی بچا کر نکل سکے تھے سردی سے بچانے کے لیے حضرت المصلح الموعودؓ نے مغربی پنجاب کے احمدیوں کے نام پیغام دیا کہ سردی کا موسم سرپر آپہنچا ہے انہیں اپنے مہاجر بھائیوں کے لیے بستروں ،کمبلوں اور توشکوں کا فوری انتظام کرنا چاہیے۔(الفضل 17؍اکتوبر 1947ء ص3)اس طرح حضرت مصلح موعود ؓکی بروقت توجہ سے ہزاروں قیمتی اور معصوم جانیں موسم سرما کی ہلاکت آفرینیوں سے بچ گئیں۔
زندگی وقف کرنے کی تحریکات
خدمتِ انسانیت کے لیے ایک فوج کی تیاری خلافت اور مرکز کی طرف سے خلق خدا کے لیے ایک بہترین تحفہ ہے۔ آپ نے اس حوالہ سے مختلف تحریکات فرمائیں۔ مثلاً پیشے سیکھ کر وقف دین کریں، مبلغین بننے کے لیے وقف کریں، خاندان حضرت مسیح موعود میں سے وقف کریں۔
واقفین کے بارے میں عبد الحمید خان صاحب شوق کہتے ہیں:
یہ واقفین زندگی بڑے ہی سخت جان ہیں
ہزار مشکلات میں بھی حوصلے کی کان ہیں
نہ پوچھ ان کے حوصلوں کی ہمتوں کی رفعتیں
کہ پست ان کے سامنے زمین و آسمان ہیں
مسلمانان کشمیر کے متعلق تحریکات
حضور خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خلافت سے قبل یکم جولائی تا 22 ؍اگست 1909ء پہلا سفر کشمیر اختیار فرمایا۔ آپؓ نے کشمیری طلباء کو قادیان میں تعلیم دلانے کی طرف خاص توجہ فرمائی اور خلیفہ بننے کے بعد ان کے لیے وظائف مقرر فرما دیے۔ حضور کے ارشادات کی روشنی میں ایک احمدی بزرگ حضرت حاجی عمر ڈار صاحب رفیق حضرت مسیح موعود نے کشمیر میں تعلیم بالغاں کی بنیاد رکھی اسی طرح ان کے بیٹے خواجہ عبدالرحمان صاحب نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ علاقہ جموں میں میاں فیض احمد صاحب نے تعلیمی جدوجہد میں نمایاں حصہ لیا۔
حضور کا دوسرا سفر کشمیر 25 جون تا 29 ستمبر1921ء حضور نے اہل کشمیر کو باہمی اتحاد قائم کرنے اور بدرسوم سے علیحدگی کی طرف خاص توجہ دلائی۔
حضور کا تیسرا سفر کشمیر 5 جون تا 30 ستمبر 1929ء۔حضور نے اہل کشمیر کو اخلاقی، ذہنی اور روحانی تغیر پیدا کرنے کی تلقین فرمائی۔حضور کے ارشادات سے متاثر ہو کر احمدی نوجوان خوا جہ غلام نبی گلکار انور نے اصلاحی تقاریر کا سلسلہ شروع کیا۔
1931ء میں ریاست کشمیر میں مذہبی مداخلت اور توہین قرآن کے ناگوار واقعات پیش آئے جس پر حضرت مصلح موعودؓ نے آزادی کشمیر سے متعلق 3 مضامین لکھے جو الفضل کے علاوہ اخبار انقلاب میں بھی شائع ہوئے۔
کشمیر کمیٹی کی صدارت: 25 جولائی 1931ء کو شملہ میں مسلم زعماء کی کانفرنس ہوئی جس میں 64 سرکردہ افراد شریک ہوئے۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم کی گئی۔ حضرت مصلح موعود ؓ صدر منتخب کیے گئے۔
اگست1931ء میں حضور نے پبلسٹی کمیٹی تجویز فرمائی جس کا کام مسلمانان کشمیر کے حقوق و مطالبات کی حمایت و اشاعت تھا۔ حضور نے خود کئی مضامین لکھے جو جماعت کے اخبار سن رائز میں ترجمہ کرکے بطور اداریہ شائع کیے جاتے رہے۔
تحریک کشمیر کی تائید کرنے کے جرم میں حکومت نے اخبار انقلاب پر مقدمہ چلانا اور بند کرنا چاہا تو حضور نے ایڈیٹر انقلاب عبدالمجید سالک صاحب کو پیغام بھجوایا کہ ہم ضمانت کی پوری رقم 5 ہزار داخل کرنے کو تیار ہیں اخبار بند نہیں ہونا چاہیے۔
کشمیر ریلیف فنڈ: حضور نے اہل کشمیر کی خدمت کے لیے کشمیر ریلیف فنڈ قائم کرکے ایک پائی فی روپیہ ہر احمدی کے لیے لازمی قرار دے دیا۔ چنانچہ کمیٹی کے اخراجات کا اکثر حصہ جماعت احمدیہ نے برداشت کیا۔
یوم کشمیر: 14؍اگست 1931ء : آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے فیصلہ کے مطابق پورے ہندوستان میں یوم کشمیر منایا گیا۔ قادیان میں بھی جلوس نکالا گیا اور جلسہ منعقد کیا گیا۔
13 ستمبرکو سیالکوٹ میں کشمیر کمیٹی کے اجلاس کے بعد جلسہ عام سے حضور نے خطاب فرمایا۔ اس جلسہ پر سنگباری بھی کی گئی لیکن حضور نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی۔21ستمبرکو شیخ محمد عبداللہ صاحب کو حکومت نے گرفتار کرلیا جو 5؍اکتوبرکو حضور کی کوششوں سے رہا ہوئے۔ مارشل لاء ختم کردیا اور مسلمانوں کے مطالبات پر ہمدردانہ غور کا وعدہ کیا۔
کشمیری لیڈروں نے حضور کے مشورہ سے مطالبات کا مسودہ تیار کیا جو 19؍اکتوبر کو مہارا جہ کو پیش کیا گیا۔فروری 1932ء میں قادیان میں گریجویٹ، مولوی فاضل اور کم تعلیم کے لوگوں کو آنریری خدمات کے لیے تحریک کی گئی۔ سینکڑوں احمدیوں نے اپنے آپ کو حاضر کر دیا۔
حکومت کشمیر نے 1210 افراد پرمقدمات بنائے تھے۔ حضور کی تحریک پر 18 کے قریب احمدی وکلاء نے بے لوث خدمات پیش کیں۔ جس کے نتیجہ میں 1070 کے قریب بری ہو گئے اور 140 کو بہت معمولی سزائیں ہوئیں۔
27 مئی 1932ءکو حضور نے اہل کشمیر کے نام ایک مطبوعہ خط میں کشمیری مسلمانوں کی انجمن بنانے کی تحریک فرمائی۔
17 مئی 1933ء کو بعض خفیہ سازشوں کی بناء پر حضور نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ مگر حضور نے اہل کشمیر کی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا۔
حضور کی خاص ہدایت پر مسلمانان کشمیر کے حقوق کی ترجمانی کے لیے سرینگر سے 4؍اگست 1934سے سہ روزہ اخبار اصلاح جاری کیا گیا جو 1947ء تک جاری رہا۔ اس نے مسائل حاضرہ میں بروقت راہنمائی کرکے اہم خدمات سرانجام دیں۔
1936ءمیں قادیان میں مجلس کشامرہ کی بنیاد ڈالی گئی جس کا مقصد کشمیر کے طلباء اور دیگر احباب کے لیے کام کرنا تھا۔
کشمیر فنڈ اور لیکچرز: 12 نومبر 1947ءکو حضور نے مجاہدین کشمیر کی اعانت کے لیے کشمیر فنڈ کی تحریک کی نیز حضور نے پاکستان کے مختلف شہروں میں لیکچر دیے اور مسئلہ کشمیر کی اہمیت اجاگر کی۔
1948ء میں حضور کی زیر ہدایت انجمن مہاجرین جموں و کشمیر مسلم کانفرنس قائم ہوئی جس کے جملہ اخراجات کے کفیل خود حضور تھے۔
فرقان بٹالین کا قیام: حکومت پاکستان کے بعض فوجی افسران کی درخواست پر حضور نے 50 احمدی جوان جموں کے محاذ پر بھجوائے۔ پھر جون 1948ء میں باقاعدہ رضاکار بٹالین فرقان بٹالین کے نام سے معرض وجود میں آئی۔ جس میں حضور کے بیٹے بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی نے دو سال تک شاندار مجاہدانہ کارنامے سرانجام دیے۔ 9 مجاہدین نے جام شہادت نوش کیا۔ 17 جون 1950ء کو اس کی سبکدوشی عمل میں آئی۔ حضرت مصلح موعود خود بھی محاذ پر تشریف لے گئے اور معائنہ فرمایا۔
(خلاصہ از کتاب “خلفاء احمدیت کی تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات” صفحہ 293تا 301)
ربوہ ۔ مرکزثانی
ربوہ کا تعارف
مذہبی مراکز کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کا مرکز بننے سے قبل بھی کسی نہ کسی شکل میں پہلے سے موجود تھے جیسے مکہ، مدینہ، یروشلم اور قادیان وغیرہ۔ مگر ربوہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ تعمیر ہی مرکز کے نام پر ہوا۔ لہٰذا اس کایہاں اس قدر تعارف دینا ہی کافی معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر کے بانی مبانی اور معمار حضرت مصلح موعود ؓکی ذات بابرکات ہے جنہوں نے منشا ئےالٰہی کے مطابق اس بنجر زمین میں جان ڈال دی۔ آپؓ نے نئے مرکز کاافتتاح 20ستمبر 1948ء بروز پیر کو فرمایا اور پھر حضوؓر 19ستمبر 1949ء کو مستقل سکونت کے لیے ربوہ تشریف لے آئے۔
وادئ ربوہ سے پھوٹا چشمئہ آبِ حیات
زندگی کے زمزموں سے گونج اٹھے ہیں شش جہات
غیر ذی زرعٍ جو صدیوں سے چلی آتی تھی شور
اُگ رہی ہے اس زمیں سے فضل کی شاخِ نبات
(مکرم روشن دین تنویرصاحب۔ الفضل 26 دسمبر 1954ء)
ربوہ کے افتتاح کے بعد ترقیات و خدمات
علمی ترقیات
جامعہ احمدیہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دسمبر 1905ء میں سلسلہ کی ضروریات کے لیے علماء کی تیاری کے پیش نظر دینی مدرسہ قائم فرمایا تھا۔جو ترقی کرتے کرتے 1925ء میں جامعہ احمدیہ کی شکل اختیار کرگیا۔1949ء کے آخر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جامعۃ المبشرین کا اجراء فرمایا۔ اس اجراء سے قبل جامعہ احمدیہ میں مبلغین تیار ہوتے تھے۔ پھر حضور کی تحریک پر جامعہ احمدیہ اور جامعۃ المبشرین کو ایک ہی ادارہ کی صورت میں مدغم کر دیا گیا۔ 29مارچ1960ء میں جامعہ احمدیہ کی ایک نئی اور خوبصورت عمارت کا سنگ بنیاد حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ نے قادیان کے مقاماتِ مقدسہ کی ایک اینٹ سے رکھا ۔
اس عمارت کا افتتاح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے نے3دسمبر1961ء کو فرمایا۔ کچھ عرصہ بعد اس عمارت کی جگہ ایک جدید طرزکی عمارت کی تعمیر شروع کرادی جو ان کی وفات کے بعد 25اپریل1973ء کو پایہ ٔتکمیل کو پہنچی۔
(تاریخ احمدیت جلد 17صفحہ نمبر 418۔419)
مورخہ 21نومبر 1974ء بروز جمعرات حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ناصر ہوسٹل جامعہ احمدیہ کاافتتاح فرمایا ۔
(روزنامہ الفضل 25نومبر 1974ء)
مدرسۃ الحفظ
چھوٹی عمر سے قرآن کریم حفظ کرنے کےلیے ایک ادارہ کا قیام کیا گیا۔ پہلے پہل حافظ کلاس مسجد مبارک میں لگتی تھی۔پھر جامعہ احمدیہ کی عمارت مکمل ہونے پر اس کلاس کو بھی جامعہ کی عمارت کے احاطہ ہی میں جگہ دینے کا فیصلہ ہوا۔ اس کے بعداس کلاس کو مدرسۃ الحفظ کے نام سے ایک مستقل اور خوبصورت عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔
تعلیم الاسلام کالج
حضرت مصلح موعودؓ نے 26 جون 1953ء کی شام کو اپنے دستِ مبارک سے کالج اور اس کےساتھ فضل عمر ہوسٹل کا سنگِ بنیاد رکھا اور کالج کی بنیاد میں دارالمسیح قادیان کی اینٹ نصب فرمائی اور دعا کی۔ اپریل 1954ء میں عمارت کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا۔ (تاریخ احمدیت جلد10ص107-108)
6 ستمبر 1954ء کو سیدنا المصلح الموعودؓ کے دستِ مبارک سے تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی نئی عمارت کا افتتاح ہوا۔ (الفضل 7-8 دسمبر1954ء) 7نومبر1954ء سے یہ کالج اپنی نئی اور شاندار عمارت میں منتقل ہوا۔ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے 6دسمبر1954ء کو اس کا باقاعدہ افتتاح فرمایا۔
تعلیم الاسلام ہائی سکول
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس سکول کی بنیاد 1897ءمیں اپنے ہاتھوں سے رکھی تھی۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد یہ سکول چند ماہ کے لیے لاہور رہ کر چنیوٹ میں جاری ہوا اور اپریل 1952ءکو ربوہ میں منتقل ہوگیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کی عمارت کی بنیاد 31مئی 1950ءکو رکھی۔ سکول کے ساتھ ہی بورڈنگ ہاؤس کی عمارت ہے۔ حضور نے اس کا نام حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے نام نامی پر مسجد نور رکھا ہے۔ (ربوہ کیپٹن خادم حسین صاحب ص87)
ربوہ میں نصرت گرلز ہائی سکول کا قیام
قادیان سے ہجرت کے بعد فوری طورپر رتن باغ لاہور میں نصرت گرلز سکول قائم ہوا۔ 25 اپریل 1949ء کو یہ اسکول ربوہ میں منتقل کر دیاگیا۔ (الفضل 16 مئی 1949ء)۔ 1955ء میں سکول اپنی مستقل عمارت میں منتقل ہوا۔
جامعہ نصرت کالج
نصرت گرلز ہائی سکول کے ساتھ ساتھ جامعہ نصرت قائم کیا گیا جس میں اردو، انگریزی کے علاوہ قرآن کریم ، احادیث، فقہ اسلامی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھانے کا انتظام تھا۔ تقسیم ملک کے بعد دینیات کلاسز کی جگہ ایک زنانہ کالج جاری کرنے کافیصلہ ہوا۔ چنانچہ 14؍جون 1951ء بروز جمعرات حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جامعہ نصرت کا افتتاح فرمایا۔ حضور نے اس کالج کی بنیاد کی وجوہات بھی بیان فرمائیں ۔
(مصباح جولائی 1951 ء ص5تا23)
عمارت نہ ہونے کی بناء پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے ازراہِ شفقت اپنی ایک کوٹھی میں کالج جاری کرنے کی اجازت مرحمت فرمادی جو چار کمروں پر مشتمل تھی ۔ 1952ء میں کالج کو دفتر لجنہ اماء اللہ کی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ 1953ء میں کالج کی عمارت جو صرف چارکمروںپر مشتمل تھی تیار ہوئی اور کالج اس میں منتقل ہو گیا۔
(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم صفحہ245)
جامعہ نصرت کالج کے ساتھ دارالاقامۃ کا بھی انتظام کیا گیا۔ (تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم صفحہ246)
کالج کے ساتھ ہی طالبات کے لیے ہوسٹل کا انتظام ہے۔ جامعہ نصرت کالج کے وسیع سائنس بلاک کا سنگِ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے 8 مارچ 1970ء کو اپنے دستِ مبارک سے رکھا اور 27مارچ 1972ء بعد از نمازِ عصر افتتاح فرمایا۔
(روزنامہ الفضل 31مارچ 1972ء)
لائبریریاں
خلافت لائبریری
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مشاورت 1952ء کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ آئندہ کے لیے صدر انجمن احمدیہ کی مرکزی لائبریری اور حضور کی لائبریریوں کو یکجا کیا جائے۔ چنانچہ مئی1952ء میں خلافت لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 18جنوری 1970ء کو لائبریری کاسنگِ بنیادرکھا۔(روزنامہ الفضل 20جنوری 1970ء)اور 3 اکتوبر 1971ءکو افتتاح فرمایا۔ (روزنامہ الفضل 9اکتوبر 1971ء)لائبریری میں نابینا اشخاص کے لیے علیحدہ سیکشن بھی قائم کیا گیا۔ (روزنامہ الفضل 9اکتوبر 1971ء)حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ نے1981ء میں طلباء وطالبات کے لیے بھی ایک سیکشن کا اجراء فرمایا۔
خدام الاحمدیہ لائبریری کا افتتاح: مورخہ 29اکتوبر 1969ء کوحضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ایوانِ محمود میں خدام الاحمدیہ کی مرکزی لائبریر ی کا افتتاح فرمایا۔
(الفضل 30 اکتوبر1969ء)
امۃ الحئی لائبریری: حضرت سیدہ امِ دائود کی طرف سے حضرت سیدہ امۃ الحئیؓ کی علم دوستی اور شوقِ مطالعہ کومحفوظ رکھنے کے لیے ان کی یاد گار کے طورپر لائبریری بنانے کی تجویز تھی۔ اس کے لیے کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے دیں۔ یہ لائبریری ربوہ میں لجنہ اماء اللہ کے زیر انتظام ہے۔
(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اول209۔210)
لائبریری تعلیم الاسلام سکول: تعلیم الاسلام سکول کے ساتھ ہی اس لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔ اس لائبریری سے اساتذہ اور طلباء حسبِ ضرورت استفادہ کرتے ہیں۔
(الفضل جشنِ تشکر نمبر صفحہ 85)
لائبریری تعلیم الاسلام کالج: کالج کے آغاز کے ساتھ ہی اس میں ایک عظیم الشان لائبریری قائم کی گئی جس میں مختلف مضامین کی کتب طلباء کے لیے مہیا کی گئیں۔
(تاریخ احمدیت جلد 10صفحہ 28)
دیگر لا ئبر یریاں: مذکورہ لائبریریوں کے علاوہ ربوہ میں درج ذیل لائبریریاں بھی موجود رہی ہیں:۔
لائبریری جامعہ احمدیہ، جامعہ نصرت لائبریری، نصرت گرلز سکول لائبریری ، لائبریری وکیل القانون تحریک جدید، دارلقضاء لائبریری، لائبریری دارلافتاء، مشیر قانونی لائبریری، فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ لائبریری۔
کتب خانے اور پریس
مرکزِ احمدیت میں دو اہم اشاعتی اداروں کا قیام : سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کے مشاورت 1952ء کے فیصلہ کے مطابق اس سال ‘‘الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ’’ اور ‘‘دی اورینٹل اینڈ ریلیجس پبلشنگ کارپوریشن لمیٹڈ’’ کے نام سے دو اہم اشاعتی اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ ‘‘الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ’’27؍فروری 1953ء کو قائم ہوئی۔
احمدیہ بک ڈپو:حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے خلافت لائبریری کے ساتھ والی جگہ پراحمدیہ بک ڈپو کی بنیاد رکھی تاکہ سلسلہ کی ہر کتاب اس بک ڈپو سے سستے داموں ہر وقت دستیاب ہو۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے جلسہ سالانہ دسمبر 1981ء سے کچھ روز قبل اس کا افتتاح فرمایا۔اس عمارت کا پورا نام ‘‘مخزن الکتب العلمیہ ’’رکھاگیا۔
1984ء سے ضیاء الحق کے جماعت احمدیہ پر پابندیاں لگانے کے باعث اس بک ڈپو کو بند کرنا پڑا۔ یہ عمارت اب M.T.A سٹوڈیو پاکستان کے طور پر استعمال میں لائی جا رہی ہے۔
جدید پریس : حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 18فروری 1973ء بروز اتوار دنیا میں قرآنِ عظیم کی ہمہ گیر اور غیر معمولی تبلیغ کے لیے جدید پریس کی عمارت کا سنگِ بنیاد پُرسوز دعائوں کے ساتھ رکھا۔
ربوہ سے شائع ہونے والے اخبارات و رسائل
روزنامہ الفضل : حضرت مصلح موعودؓ کی ادارت میں یہ اخبار13جون 1913ء کو قادیان سے جاری ہوا۔تقسیم ملک کے بعد پاکستان سے روزنامہ ‘‘ الفضل ’’ کا اجراء 15ستمبر1947ءکو جناب روشن دین صاحب تنویر کی ادارت میں ہوا۔ ربوہ سے اس کا پہلا پرچہ 31دسمبر1954ءکو شائع ہوا۔
ماہنامہ خالد : مجلس خدام الاحمدیہ کا ماہوار آرگن جس کا نام حضرت خالد بن ولید کے نام پر خالد رکھا گیا۔ ماہ اکتوبر 1952ءسے جاری ہوا۔
ماہنامہ مصباح :15دسمبر1925ءکوقادیان سے جاری ہونے والے اس رسالہ کا انتظام نئے مرکز میں تنظیم لجنہ اماء اللہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ یہ پہلا رسالہ تھا جو ربوہ سے شائع ہوا۔
ماہنامہ تشحیذ الاذہان : رسالہ تشحیذ الاذہان یکم مارچ 1906ءکو جاری ہوا تھا اور مارچ 1922ءمیں ریویو آف ریلیجنز میں مدغم کر دیا گیا۔ ربوہ سے یکم جون 1957ءسے دوبارہ جاری ہوا۔
ماہنامہ انصاراللہ : یہ ماہنامہ 1960ء سے جاری ہوا۔ یہ مجلس انصاراللہ کی نگرانی میں شائع ہوتا تھا۔
ربوہ سے رسالہ ‘‘البشریٰ’’کا اجراء :حضرت مولانا ابوالعطا صاحب جالندھری نے جنوری 1953ءمیں حیفا (فلسطین)سے ماہنامہ ‘‘البشریٰ ’’جاری فرمایا تھا۔ اس سال آپ نے اکتوبر 1957ءسے ربوہ میں بھی اسی نام سے ایک عربی رسالہ کا آغاز فرمایا۔ مئی 1959ء میں اس کا پہلا شمارہ نئے انتظام کے تحت منصہء شہود پر آیا۔ رسالہ ‘‘البشریٰ ’’ مرکز احمدیت کا واحد عربی رسالہ تھا۔
ماہنامہ الفرقان : یہ رسالہ فرقان کے نام سے جنوری 1942ءمیں قادیان سے شائع ہوا۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد اس کا نام “الفرقان” رکھ کر احمد نگر سے جنوری 1951ءمیں جاری کیا۔ بعد میں اسے ربوہ منتقل کر لیا گیا۔
ریویو آف ریلیجنز(انگریزی ): حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں یہ رسالہ 1902ء میں جاری ہوا۔ تقسیم ملک کے بعد 1953ءکو مکرم صوفی مطیع الرحمن صاحبؓ ایم۔ اے اس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔
التبلیغ: یہ رسالہ اگست 1951ء سے 1953ء تک شیخ عبدالقادر صاحب کی ادارت میں جاری رہا۔
(تاریخ احمدیت جلد 14صفحہ 357۔360)
طبی ترقیات
نور ہسپتال
ربوہ اور اس کے مضافات کی ضروریات کے پیش نظر 12 اپریل 1949ء کو ایک خیمہ میں ہسپتال کھولا گیا۔جہاں جگہ کی تنگی کے باعث معائنہ کا کمرہ اور ڈسپنسری وغیرہ اکٹھے ہی تھے۔
(روزنامہ الفضل 22 اکتوبر 1949ء )
فضل عمر فری ہومیو ڈسپنسری
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے وقف جدید کے تحت ربوہ میں فضل عمر فری ہومیو ڈسپنسری قائم فرمائی۔ جس میں حضورؒ خلافت کے منصب پر فائز ہونے تک خود مریضوں کو دیکھ کر ان کا علاج کرتے رہے اور یہ ڈسپنسری آج تک اللہ کے فضل سے جاری ہے۔
فضل عمر ہسپتال
فضل عمر ہسپتال ربوہ کی عمارت کا سنگ بنیاد حضرت مصلح موعود ؓنے 20 فروری 1956ءکو رکھا اور افتتاح حضور نے 21 مارچ 1958ءکوساڑھے پانچ بجے شام فرمایا۔اس جگہ کو یہ تاریخی اہمیت حاصل ہے کہ ربوہ آبادہونے سے قبل 20 ستمبر 1948 کو جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ یہاں تشریف لائے تو حضور نے عین اس جگہ پر پہلی نماز پڑھائی۔
(تاریخ احمدیت جلد20صفحہ 82)
آؤٹ ڈور بلاک فضل عمر ہسپتال میں نواب محمد دین بلاک کے نام سے موسوم ہے۔جس کا سنگ بنیاد 31جنوری 1988ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب (سابق ناظر اعلی وامیر مقامی) نے رکھا۔ جہاں اس وقت ICUہے وہاں پر لیبر وارڈ بنائی گئی جس کا افتتاح23 جولائی 1990ءکو ہوا۔فروری 1956ء میں فضل عمر ہسپتال کے قیام کے ساتھ ہی ایک کمرے میں لیبارٹری کاآغاز ہوا۔1991ء میں لیبارٹری کی توسیع کی گئی۔4 مارچ 1991ء میں فضل عمر ہسپتال میں ایک جدید لیبارٹری کا افتتاح صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی ربوہ نے فرمایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 20فروری 2003ء کو بحیثیت ناظر اعلیٰ زبیدہ بانی ونگ کا افتتاح فرمایا۔
فضل عمر ہسپتال میں بچوں کے کلینک کا اجراء: حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے 2فروری 1979ء کے ارشاد کے تحت فضل عمر ہسپتال میں بچوں کی صحت کے لیے ایک خصوصی کلینک کا اجراء کیا گیا۔ہر سوموار کے دن یہ کلینک بچوں کے امراض کے لیے ایک ماہر ڈاکٹر کے زیرِنگرانی کام کرتا رہا۔ (الفضل 5 فروری 1979ء)
فضل عمر ہسپتال کی خصوصی موقعوں پر خدمات: عام مواقع کے ساتھ ساتھ یہ ہسپتال ناگہانی آفات میں بھی خدمتِ انسانیت میں پیش پیش رہا۔
1992ءکاسیلاب،2001ءکی قحط سالی، 2005ء کا قیامت خیز زلزلہ،2010ء،2011ءاور 2014ءکے سیلاب، 4 ستمبر1996ء کو ربوہ کی بیت المہدی میں دھماکہ ، 28 مئی 2010ء کو لاہور میں جماعت احمدیہ کی مساجد پر حملہ کے بعد فضل عمر ہسپتال نے اپنی خدمات انجام دیں اور شہداء کی میتوں کو ربوہ لانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔اسی طرح 2014ء میں گوجرانوالہ میں مذہبی دشمنی کی وجہ سے احمدی گھروں کو آگ ، 2014ء میں ربوہ میں ٹرک اور آئل ٹینکر کا ایکسیڈنٹ ۔ یہ اوراس جیسے بہت سے واقعات ہیں جن میں فضل عمر ہسپتال نے رنگ و نسل کی تمیز کے بغیر تمام انسانیت کی دل کھول کر خدمت کی۔
خدمتِ انسانیت کے دیگر مواقع
تقسیم ملک کے موقع پر خدمات
تقسیم ہند کی وجہ سے مختلف مقا ما ت کی مردم شما ری اور نقشے تیا ر کیے گئے ۔اور اہم ڈیو ٹیاں سر انجا م دی جا تی رہیں ۔اس کے علا وہ مستورات کی حفا ظت اور اپنے شہر کی حفا ظت وغیرہ کے امور میں خدام نے ڈیوٹیاں سر انجا م دیں ۔
(ماہنا مہ رسا لہ خا لد ستمبر، اکتوبر 1957ءصفحہ 79)
بستیوں کی مرمت
اگست 1953ء میں کراچی میں شدید بارش کے باعث شاہراہیں اور مہاجرین کی بستیاں خراب ہو گئی تھیں، ان کی مرمت کی گئی نیز کپڑے وغیرہ تقسیم کیے گئے۔
(روزنامہ المصلح 16اگست 1953ء)
نلکے کی تنصیب
ربوہ کے بس سٹینڈ پر نلکے کی تنصیب کی گئی۔ 25 جون 1954ءکی صبح ساڑھے نو بجے بورنگ کا افتتاح دعا کے ساتھ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے فرمایا ۔ اس روز شام کو ساڑھے پانچ بجے حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف نے نلکا چلا کر اس کا افتتاح فرمایا ۔
(روزنا مہ الفضل 30جون 1954ءصفحہ 2)
حضرت سیدہ ام داؤد کی نگرانی میں
مجاہدین کشمیر کے لیے مستورات کی خدمات
1948ء میں جہاں فرقان فورس کے احمدی مجاہد آزادی کشمیر کی جنگ میں بہادرانہ کارنامے سرانجام دے رہے تھے۔وہیں لجنہ اماء اللہ کی ممبرات رتن باغ میں کم و بیش تین ماہ تک مسلسل حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ ؓکی زیرِ نگرانی ان مجاہدین فرقان فورس کی وردیوں (جو خدام الاحمدیہ مرکزیہ مہیا کرتی تھی) کی درستگی کا کام سر انجام دیتی رہیں۔یہ کام صبح سات آٹھ بجے شروع ہوکر شام کے چھ بجے تک کیا جاتا تھا ۔وردیوں کے بٹن لگائے جاتے، کاج درست کیے جاتے،حسبِ ضرورت پیوند درست کیے جاتے اور ہر قمیض پر دو بیج بھی لگائے جاتے تھے۔
سکیم خدمتِ خلق مجلس خدام الاحمدیہ
حضر ت مصلح مو عود ؓ نے ارشا د فرما یا کہ ‘‘تمہا را فرض ہے کہ تم زیا دہ سے زیا دہ جوش سے ملک اور قوم کی خدمت کرو اور اس خدمت کو ظاہر بھی کرو اور دنیا کو بتا دو کہ ہم ملک اور قوم کی خدمت کرنااپنا فرض سمجھتے ہیں’’۔
اس ارشا د کی تعمیل میں شعبہ خدمت ِ خلق نے ایک وسیع سکیم تیا ر کی جو کہ حضور انور ؓ نے منظور فرما ئی اور اس سکیم کے چند اہم نکات درج ذیل ہیں ۔
تر بیت گا ہیں :حکو مت کی طرف سے تیا ر کردہ تربیتی اداروں میں خدام کو تر بیت دلا نا ، فنڈز کی فرا ہمی ، ڈسپنسر یوں کا قیا م، مختلف موا قع پر منا ئے جا نے والے ایا م ،ہفتوں میں خدمات کی پیش کش ، پریس سے تعلق استوار کرنا، مریضو ں کی ہسپتالوں میں بیما ر پر سی کر نا ، پبلک کی مشکلا ت کو حکو مت کی نظر میں لا نا ، ‘‘دیہا ت سدھا ر سکیم ’’میں خدمات کی بجا آوری ، سٹیشنوں پر مسا فر وں کا سا ما ن اٹھا نا ۔
(تا ریخ مجلس خدام الا حمدیہ جلد دوم صفحہ 421۔422)
تحریک تعمیر مساجد بیرون
حضرت مصلح موعود ؓ نے مجلس شوریٰ 1952ء میں بیرون ممالک میں مساجد تعمیرکرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایاکہ ‘‘یورپین ممالک میں مسجد تبلیغ کا ایک ضروری حصہ ہیں’’۔ (رپورٹ مجلس شوریٰ 1952ء ص20)چنانچہ اس تحریک کے نتیجہ میں خلافت ثانیہ میں سرزمین یورپ میں 5 مساجد تعمیر ہوئیں۔
بھوکوں کو کھانا کھلانے کی تحریک
17دسمبر 1965ء
نصرت جہاں سکیم
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے اللہ تعالیٰ سے اشارہ پاکر 1970ءمیں اپنے دورہ مغربی افریقہ سے واپسی پر لندن میں مختصر قیام کے دوران اس تحریک کا اعلان فرمایا اور پھر پاکستان پہنچ کر 12 جولائی 1970ءکو ربوہ میں اپنے خطبہ جمعہ میں نصرت جہاں سکیم کا پس منظر اور لندن میں تحریک کا اعلان اور اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائیدو نصرت کا ذکر فرمایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دل میں مغربی افریقہ کے ممالک کی خدمت کے لیے خرچ کرنے کا جو القاء گیمبیا کے مقام پر ہوا اس کا نام حضور ؒ نے ‘‘نصرت جہاں آگے بڑھو منصوبہ’’رکھا۔
حضور کے دورہ کے 6ماہ کے اندر ستمبر1970ء میں غانا میں پہلا سکول اور نومبر1970ء میں غانا میں پہلا ہسپتال قائم ہوگیا۔ اور بانی تحریک حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی وفات سے قبل تک 6 افریقن ممالک میں 19ہسپتال اور 24 سکول قائم ہو چکے تھے۔
گیسٹ ہاؤسز کی تحریکات
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے 7دسمبر 1973ء کو خطبہ جمعہ میں گیسٹ ہاؤس تعمیر کرنے کی تحریک فرمائی۔ جس کی برکت سے درج ذیل گیسٹ ہاؤسز کا قیام عمل میں آیا۔
سرائے محبت نمبر2،1(گیسٹ ہاؤس صدر انجمن احمدیہ)، سرائے فضل عمر (گیسٹ ہاؤس تحریک جدید )، سرائے خدمت (گیسٹ ہاؤس خدام الاحمدیہ)، سرائے ناصر(گیسٹ ہاؤس انصار اللہ)، گیسٹ ہاؤس لجنہ ، وقف جدید ، قصر خلافت سے ملحق گیسٹ ہائوس۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی دیگر تحریکات بابت خدمت خلق
نصرت جہاں سکیم کا اعلان، وقف بعد از ریٹائر منٹ کی تحریک،اطعموا الجائع یعنی مساکین کو کھانے کھلانے کی تحریک، وقف عارضی کی تحریک، اتحادبین المسلمین کی تحریک، درخت لگانے اور شجر کاری کی تحریک، ربوہ کو سر سبز و شادا ب بنانے کی تحریک، آنحضرت ﷺ کی سنت کی پیروی میں مسکراتے رہنے کی تحریک، ادائیگی حقوق طلباء۔ طلباء،ڈاکٹروں،اور انجینئروں کو ایسوسی ایشنیں بنانے کی تحریک، طلباء کو سویا بین کھانے کی تحریک، مہمان خانے بنانے کی تحریک(وَسِّعْ مَکَانَکَ)، افریقی ممالک کے لیے ڈاکٹروں اور اسا تذہ کو وقف کرنے کی تحریک۔ (حیات ناصر جلد اول۔ص606تا610)
بیوت الحمد تحریک
بے شمار خاندانوں کو باعزت چھت فراہم کرنے کی شاندار خدمت اس تحریک کے ذریعے ممکن ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے 29اکتوبر 1982ء کو مسجد اقصیٰ ربوہ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے بیوت الحمد سکیم کا اعلان فرمایا۔ مورخہ 11 نومبر 1987ء کو بیوت الحمد منصوبہ کے تحت بیوت الحمد کالونی کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور آج الحمد للہ بیوت الحمد کالونی ربوہ میں سینکڑوں لوگ سکونت پذیر ہیں اور کالونی میں 100 کوارٹرز کے علاوہ ایک مسجد، سکول اور خوبصورت پارک بھی موجود ہے۔ اس سکیم کے تحت سینکڑوں افراد کو تعمیر مکان کے لیے لاکھوں روپے کی امداد دی جاچکی ہے۔ اسی طرح قادیان میں بھی غربا کے لیے کوارٹرز بنائے گئے ہیں۔
قدرتی آفات میں خدمتِ انسانیت
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘خدا تعالیٰ جب اپنے بندوں سے ملنے کے لیے آتا ہے تو وہ کبھی سیلابوں کی صورت میں آتا ہے کبھی زلزلوں کی صورت میں آتا ہے اور کبھی بیماریوں کی صورت میں آتا ہے جو لوگ خدمت خلق کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اسکا وصال حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرکے اس کے قرب کو پالیتے اور اسکی رضا کو حاصل کر لیتے ہیں۔’’
(کشتی نوح روحانی خزائن جلد19 صفحہ300 )
ہمارے پیارے امام احبابِ جماعت انہی خوش نصیبوں کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں کہ
اگر زلزلہ زدگان کی مدد کی ضرورت ہے تو احمدی آگے ہے۔ سیلاب زدگان کی مدد کی ضرورت ہے تو احمدی آگے ہے۔ بعض دفعہ “تو ایسے مواقع بھی آئے کہ پانی کی تند و تیز دھاروں میں بہ کر احمدی نوجوانوں نے اپنی جانوں کو توقربان کردیا لیکن ڈوبتے ہوؤں کو کنارے پر پہنچا دیا۔”
(خطبہ جمعہ 17؍ اکتوبر 2003ء)
مرکز احمدیت کی رہنمائی میں سیلا بوں کے موقع پر جماعتی خدمات
ستمبر 1950ء : پنجا ب میں شد ید سیلا ب آیا جس میں پنجاب کے بیشتر علا قے اس سیلا ب سے متا ثر ہو ئے ۔ربو ہ اونچی جگہ پر ہو نے کی وجہ سے اس سیلا ب سے محفو ظ رہا لیکن ربوہ کے قرب و جوار کے تما م دیہا ت متا ثر ہوئے ۔اس نا زک موقع پر ربوہ اور احمد نگر کے خدام نے متا ثر ین سیلاب کی بے لو ث خدمت کی اور جا نوں کی پرو اہ کیے بغیر خدمت ِخلق کر تے رہے ۔
اس موقع پر شیخوپورہ، لاہور، سید والااور ننکانہ صاحب کی طرف ریلیف پارٹیاں بھیجیں۔ جنہوں نے سیلاب زدگان کی بے لوث خدمت کی۔
(تا ریخ مجلس خدام الا حمدیہ جلد دوم صفحہ 106تا 111)
1954ءکا سیلا ب: مشر قی پاکستان اور پنجاب میں ۔ ڈھاکہ پر یس نے اسے ‘‘طو فانِ نو ح ’’قرا ر دیا ۔ اس سیلا ب کے مو قع پر خدام الا حمدیہ ڈھاکہ ،نا رائن گنج اور تیج گا ؤں میں ریلیف کا کام کیا گیا اور حضر ت خلیفۃالمسیح الثا نی ؓ کی طر ف سے ایک ہزار روپے متا ثرین سیلا ب کے لیے وصو ل ہوا اور حضورؓ نے اَور رقم بھجوا نے کا بھی وعدہ کیا ۔ مشر قی پا کستا ن میں سیلاب کی تبا ہی کو ابھی تھو ڑے ہی دن ہو ئے تھے کہ پنجا ب میں شدیدبارشوں کی وجہ سے دریا ؤں میں شدید طغیا نی آگئی جس نے لاہور،گوجرانوا لہ ،سیا لکو ٹ ،گجرا ت ،جھنگ اور ملتا ن کے اضلاع میں زبر دست تبا ہی مچا دی ۔
حضر ت خلیفۃ المسیح الثا نی ؓکے ارشاد پر سو سے زائد خدام نے لاہور میں گرجانے والے 75مکانات تعمیر کیے۔
(تاریخ احمدیت جلد17 صفحہ 336)
1955ءکا سیلا ب: 8 اکتوبر 1955ء کو ربوہ سے 40 افراد پرمشتمل ایک وفد شیخوپورہ روانہ کیا گیا ۔ دو الگ الگ کیمپس کھولے گئے ۔چک حیدر آباد میں ریلیف سینٹر قائم کیا گیا۔16اکتوبر کو ربوہ سے27 مزید خدام شیخوپورہ روانہ ہوئے۔ نارنگ نیا ریلیف ، شاہ مسکین ریلیف کیمپ، مانگٹانوالہ ریلیف کیمپ اور خانیوال ریلیف کیمپ بنائے گئے۔ ان کے علاوہ لاہور، شیخوپورہ، سیالکوٹ، بدوملہی، لائلپور، ساہیوال، اوکاڑہ، ملتان، خانیوال،ڈیرہ غازی خان وغیرہ میں امدادی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔
1973ءکا سیلا ب: پنجاب اور سندھ کا بہت بڑا علاقہ اس سے متاثر ہوا ۔کھڑکن اورربوہ کے دوسرے نواحی دیہات میں ٹرکوں پر دس کشتیاں بھجوائی گئیں جن کے ذریعہ خدام نے اپنی جانیں خطرہ میں ڈال کر سیلاب کی تیز وتند لہروں کا مقابلہ کرتے ہوئے سینکڑوں افراد کی جانیں بچائیں ۔10 اگست کی رات کو پانی کا ریلا کوٹ امیر شاہ اور دوسرے دیہات کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہوا اور سرگودھا روڈ اور ریلوے لائن کو توڑ تا ہوا محلہ دارالفضل ، محلہ دارالصدر شمالی اور دارالصدر غربی میں بڑی سرعت سے داخل ہونے لگا ۔ خدام نے فیکٹری ایریا کی آبادی اور ان کے سامان کے انخلاء اور حفاظتی بند مضبوط کرنے جیسے امور سرانجام دیے۔ اسی طرح 10اور 11 اگست کی درمیانی شب رات بھر خدام کی پارٹیاں محلہ دارالیمن میں لوگوں اور ان کے سامان کو نکالتے رہے ۔ربوہ میں خدام نے آٹا گوندھنے،پیڑے بنا نے رو ٹی پکا نے وغیرہ کے تما م مرا حل میں دن را ت مصر وف رہ کر روزانہ کم و بیش چودہ ہزار افراد کے لیے کھانا تیار کیا ۔ اور مصیبت زدگان تک روٹی پہنچا ئی۔چھ امدادی کیمپ قائم کیے گئے ۔ایلو پیتھک ادویات کے ساتھ ساتھ ہومیو پیتھک ادویات بھی وسیع پیمانہ پر تقسیم کی گئیں ۔
اس کے علاوہ ضلع سرگودھا، ضلع سیالکوٹ ، ضلع شیخوپورہ، ضلع گوجرانوالہ، ضلع گجرات، ضلع منڈی بہاؤالدین، ضلع ملتان، ضلع لائلپور،ضلع بہاولپور، ضلع ساہیوال، ضلع حیدر آباد، ضلع نواب شاہ، ضلع کراچی، ضلع تھرپارکر، لاہور، راولپنڈی، جھنگ وغیرہ کے خدام نے بھی اس کار خیر میں حصہ لیا۔ امدادی کارروائیاں کی گئیں اور ضروری سامان کا انتظام ہر ممکن ذریعہ سے کیا گیا۔
1996ءکا سیلاب : مختلف اضلاع میں امدادی کیمپ لگائے گئے۔ جس میں سامان خور و نوش اور ضروری اشیاء پہنچائی جاتی رہیں۔ دریائے چناب کے سیلابی ریلے سے دارالیمن کے بند کو خطرہ لاحق ہو گیا ۔ 200 خدام نے دن رات وقار عمل کر کے بند کے شگافوں کو پر کیا۔ بند کو اونچا کیا اور بوریوں میں مٹی بھر کر بندکے پشتوں کو مضبوط اور اونچا کیا ۔ احمد نگر میں شام کو کشتی بھجوائی جو احمد نگر کے قریبی دیہاتوں سے متاثر ہ افراد کو نکالنے کا کام کرتی رہی ۔کوٹ وساوا سے کشتی کے ذریعے خدام کمال کے گاؤں گئے اور پانی میں گھرے ہوئے افراد کو نکالا گیا ۔نیز ربوہ کے تمام متاثرہ علاقوں میں کشتیاں اور دیگر امدادی سامان خدام لے کر جاتے رہے اور تمام متاثرہ افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا اسی طرح بہت سی فیملیزکے لیے دارالضیافت میں رہائش کا انتظام کیا گیا۔
(ماہنا مہ رسا لہ خا لد نومبر 1996ءصفحہ 29تا 32)
2010ءکا سیلاب :سیلاب کے نتیجہ میں نوشہرہ، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازیخان اور راجن پور، نوشہر و فیروز، لاڑکانہ اور ٹھٹھہ کے متعدد احمدی گھرانوں کے 2000 سے زائد افراد بھی متاثر ہوئے۔متاثرین سیلاب کے لیے کی جانے والی امدادعطیات، راشن،ادویات وغیرہ کی صورت میں اندازاً 30لاکھ روپے مالیت کی ہوئی۔سیلاب زدگان کی امدادراشن پیک،کپڑے،متفرق اشیاء اور نقدرقم کی شکل میں کی گئی۔ اس سلسلہ میں لاہور، کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی، سیالکوٹ، فیصل آباد ،سرگودھا، شیخوپورہ ،گوجرانوالہ ،جہلم ،بدین،چکوال اور ملتان کے اضلاع کو خصوصی مساعی کی توفیق ملی۔
٫2011کا سیلاب : اس سا ل با رشو ں او ر سیلا ب سے عمرکوٹ ،مٹھی ،بدین ،سا نگھڑ ، نوا ب شا ہ ، میر پو ر خاص،حیدرآباد اور ٹھٹھہ کے اضلا ع میں شدید نقصا ن ہو ا۔ایک اندا زے کے مطابق ا ن علا قوں میں 12لا کھ مکا نات متا ثر ہوئے ۔جبکہ 4لاکھ مکانا ت مکمل تبا ہ ہوئے ۔ اور سیلاب کی و جہ سے 45لا کھ ایکڑاراضی پر پھیلی فصلیں مکمل طور پر تبا ہ ہو گئیں۔خدا م نے دن رات محنت کر کے کشتیو ں کے ذریعے تقر یبا ً 700احمدی اور 3500غیر از جما عت ا حبا ب کو محفو ظ مقا م تک پہنچایا۔اور ٹریکٹر ٹرا لی اوردیگر ذرا ئع کے ذریعے 1660افرا د کو نکا لا ۔
2012ءکا سیلاب : بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں ملک بھر میں جوعلاقے متاثر ہوئے ان میں ضلع راجن پوراور ڈیرہ غازیخان سرفہرست ہے۔ ان اضلاع میں بیسیوں دیہات زیرِ آب آگئے اور ہزاروں مکان منہدم ہو گئے۔لاتعداد لوگ بے گھر ہوئے اور طبی سہولتیں میسر نہ آنے کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوگئے۔
19 ستمبر 2012ءکو بروز بدھ ایک وفد دفتر خدام الاحمدیہ سے ڈیرہ غازیخان شہر گیا۔ پہلا میڈیکل کیمپ بمقام چاہ اسماعیل والااور دوسرامیڈیکل کیمپ بمقام چاہ مسوری والالگایا گیا۔ دونوں میڈیکل کیمپس میں مفت ادویات تقسیم کی گئیں۔
(سالا نہ رپورٹ مجلس خدا م الا حمدیہ 12۔2011ء)
2014ءکا سیلاب
سیلاب سے ربوہ میں 12حلقہ جات متاثر ہوئے ۔ ریت کے تھیلے اور بوریاں رکھی گئیں اور دیگر امدادی کارروائیاں عمل میں لائی گئیں۔ شعبہ ریسکیو کے تحت کل 520 افراد کو کشتیوں کے ذریعہ محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا اور ٹریکٹر ٹرالی کے ذریعہ کل 670 افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا ۔ اسی طرح ریسکیو کے دوران کشتیوں اور ٹریکٹرٹرالیوں کے ذریعہ 10 مقامات پر 3900 افراد کو کھانا ریسکیو ٹیم کے ذریعہ بھجوایا گیا ۔ اسی طرح خدام نے محلہ جات سے کل 1492 افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچایا ۔ مجلس خدام الاحمدیہ کے تحت 2ریلیف کیمپ لگائے گئے۔ اس کے علاوہ دیگر اضلاع میں بھی جہاں سیلاب کے اثرات تھے امدادی کارروائیاں کی گئیں۔
(ما ہنا مہ رسا لہ خا لد نو مبر 2014ءصفحہ 21تا 26)
زلازل
1955ء میں کوئٹہ کا زلزلہ: 12فر وری اور 19فروری کے پہ در پہ زلزلہ کے جھٹکو ں سے کو ئٹہ اور اسکے نوا حی دیہا ت میں ہولنا ک ہیجا ن پید اہو گیا ۔شہر میں تو نقصا ن معمو لی تھا مگر دیہاتوں میں کچھ تو دیہا ت زمین بو س ہو گئے اور کچھ شدید نقصان کی لپیٹ میں آگئے ۔مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے 300رو پے کی رقم بھیجی ۔
6ما رچ تا 17اپریل تک خدام نے خدمت کی توفیق پائی۔ 288خدام نے سا ڑھے بیا لیس گھنٹے کا م کیا ۔14کمر ے تعمیر کیے ٹنوں ملبہ اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا اورامدادی اشیاء میں ادویا ت ،چنے ،رو ٹی ،تیل مٹی ،آٹا ،چا ول، خالی بوریاں، کڑے کیل اور پا رچا ت شا مل تھے۔اور 75مر یضو ں کو طبی امداد دی گئی۔
(تا ریخ مجلس خدام الا حمدیہ صفحہ 404تا 410)
2005ءکا زلزلہ پا کستان : مورخہ 8 اکتو بر 2005ءکی صبح پا کستان میں آ نے وا لے زلزلے میں صوبہ سرحد کے بعض علاقے، آ زا د کشمیر اور وا دئ نیلم شدید متا ثر ہوئے ۔
زلزلے کے فوراً بعد ہی جما عت احمدیہ کی طرف سے خدام الا حمدیہ کی امدادی ٹیمیں متا ثرہ علا قوں میں پہنچ گئیں ۔اور متاثرین میں کھا نا تقسیم کیا ۔ یہ خدما ت 31ما رچ 2006ءتک جاری رہیں ۔جن میں را شن ،کمبل ،اور دیگر ضروری سامان مختلف علا قوں میں پہنچا یا گیا، خیمہ جات پہنچا ئے گئے ۔احمدی ڈاکٹرز اور خدام کے کئی وفود کئی کلو میٹر پہا ڑوں کا پیدل سفر کرکے 45 آبادیوں تک پہنچے۔ آرمی کے ہیلی کا پٹرز کے ذریعے ڈا کٹرز کو مختلف علا قوں میں پہنچا یا گیا ۔زلزلہ کے متاثرہ علا قوں میں 20اکتوبر سے لنگر کا انتظام کیا گیا۔ اس کےعلا وہ مستقل طور پر مظفر آبا د اور با غ میں جما عت کے کیمپس لگا کر متاثرین کی مددکی جا تی رہی ۔طبی امداد کے لیے ڈاکٹرز نے با قا عدہ طور پر ہسپتال بنا کر اور موبا ئل ڈسپنسریز قا ئم کرکے متا ثرین کی مدد کی ۔خدمتِ خلق کے یہ کام مظفرآبا د اور اس کی نوا حی بستیاں، با غ اور ا س کے سا تھ کے علا قے ما نسہرہ ،شنکیا ری ،الپوری،بٹل وغیرہ میں سر انجام دیے جا تے رہے ۔
(ما ہنا مہ رسالہ خا لد دسمبر 2005ءصفحہ 19۔20)
جماعتی ادارہ جات
لنگر خانہ: دسمبر 1948ء میں نئے مرکز ربوہ میں جوپہلی عارضی عمارت تعمیر ہوئی اس کے سات کمروں میں سے ایک کمرے میں لنگرخانے کے لیے گندم کا اسٹاک رکھا گیا۔
(تاریخ احمدیت جلد 13صفحہ49۔50)
مختلف محلہ جات میں مستقل لنگر خانے تعمیر کیے گئے تا کہ ہر ایک محلہ کے مقیم مہمانوں کو کھانا بر وقت پہنچایا جاسکے۔ 1980ء تک چھ لنگر خانے کام کرتے رہے جو درج ذیل ہیں۔ جامعہ نصرت کے احاطہ میں ، دارالرحمت غربی میں ، تعلیم الاسلام کالج اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے درمیان ، دارالیمن، مسجد اقصیٰ کے قریب پہاڑی کے عقب میں، دارالنصر کی پہاڑی کے عقب میں موجود مسجد کے پاس ۔
1982ء میں مزید تین لنگر خانوں کا اضافہ ہو اجن میں سے دو یہ ہیں۔ جدید لنگر خانہ دارالیمن ، جدید لنگر خانہ دارالنصر غربی ۔
نصرت انڈسٹریل سکول کا قیام: حضرت مصلح موعودؓ کی زیر ہدایت ربوہ میں نصرت انڈسٹریل سکول مئی 1956ء میں قائم ہوا۔1957ءکے اجتماع پر پہلی بار سکول کی طرف سے صنعتی نمائش لگائی گئی۔ 1958ء میں سرکاری طور پر سکول منظور ہوا اور پہلی مرتبہ 1960ء میں 9طالبات نے ڈپلومہ کا امتحان دیا جو سب کامیاب رہیں۔
خدام الاحمدیہ مرکزی ہال: حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد کی تعمیل میں 1962ء میں اس ہال کی بنیاد رکھی گئی حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے 20اکتوبر 1962ء کو اپنے دستِ مبارک سے اس ہال کا سنگِ بنیاد نصب فرمایا اس کے بعد کچھ رکاوٹوں کے سبب تعمیر کا کام رک گیا پھر ڈھائی سال بعد مورخہ18اپریل 1965ء کواس ہال کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ۔
فضل عمر فاؤنڈیشن کا قیام : حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے حضرت مصلح موعودؓ کے بے مثال کارناموں اوران گنت احسانوں کی یاد گار کے طور پر یہ تحریک کی۔ جس کا مقصد حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات و تقاریر کو محفوظ کرنا ہے۔
(ربوہ دارالہجرت از عبدالرشید صاحب صفحہ 332)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؓ نے مورخہ 16اگست1966ء کو چھ بجے دفاتر صدر انجمن احمدیہ میں تشریف لا کر فضل عمر فائونڈیشن کے لیے نئی تعمیر ہونے والی عمارت کا سنگِ بنیاد اپنے دستِ مبارک سے رکھا۔
دفتر پرائیویٹ سیکرٹری : 25اپریل 1981ء کو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے بعد نماز عصر پُر سوز اجتماعی دعا کروائی۔ اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی نئی دو منزلہ عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا ۔ (الفضل2مئی 1981ء)
بیت الاظہار: اس دفتر کی خوبصورت دو منزلہ عمارت کا سنگِ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 23مارچ 1982ء کو رکھا۔
دفتر صدسالہ احمدیہ جوبلی :مورخہ 27مارچ1982ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے قدرتِ ثانیہ کے دور کی بابرکت تحریک صدسالہ احمدیہ جوبلی کے دفترکی دو منزلہ عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا۔
دفتر دارالقضاء: قضاء کا دفتر پہلے صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر میں ہی تھا اور اس کی کوئی الگ عمارت نہ تھی۔ 21اگست 1983ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے دستِ مبارک سے اس عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا۔اس کے پہلے ناظم مولوی مکرم تاج دین صاحب تھے۔
(الفضل 24اگست1983ء)
بیت الکرامہ: بیت الکرامہ میں ایسے ضعیف و ناتواں بزرگوں کو مستقل ٹھہرایا گیا ہے جن کا کوئی وسیلہ نہیں اور نہ وہ خود اپنا گزارہ چلانے کی ہمت رکھتے ہیں۔
بہشتی مقبرہ ربوہ کا قیام : ربوہ کے نقشہ میں شمالی جانب پہاڑیوں کے دامن میں مستطیل شکل میں بہشتی مقبرہ کے لیے جگہ مختص کی گئی۔ بہشتی مقبرہ کا رقبہ 75کنال پر مشتمل ہے۔ تاہم 1989ءمیں اس میں توسیع کی گئی اورمزید24کنال اس میں شامل کیے گئے ۔ یوں بہشتی مقبرہ ربوہ 99کنال رقبہ پر مشتمل ہے۔ اس میں کل 30قطعات ہیں۔
کفالت یک صد یتامیٰ: جنوری 1995ء سے ایک شعبہ کفالت یتامیٰ کا بھی دارالضیافت کے تحت چلایا جا رہا ہے۔
حکومتی ادارہ جات
ڈاک خانہ و تار گھر: پہلے سب پوسٹ آفس ایک کچی عمارت میں(جو صدرانجمن احمدیہ کی ملکیت تھی) 14جنوری 1949ءکو کھولا گیا۔بعد ازاں 29جنوری 1951ءکو اس کے ساتھ تار گھر بھی کھول دیا گیا۔ اس کے بعد یہ ڈاکخانہ گول بازار میں دودکانوں میں منتقل ہو گیا۔ اس کے بعد ڈاکخانہ 1986ء تک گول بازار کی دو دکانوں میں چلتا رہا۔پھر 1985ء میں دو منزلہ عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا گیاجو دسمبر 1986ء میں مکمل ہوگئی اور ڈاکخانہ جنوری 1987ء میں یہاں منتقل ہوگیا۔
ریلوے اسٹیشن : 31 مارچ 1949ءکی شام کو ربوہ کا عارضی اسٹیشن مکمل کیا گیا۔ یکم اپریل 1949ء ہمارے نئے مرکز ربوہ کے لیے گاڑیوں کی آمد و رفت شروع ہوئی۔ مارچ 1950ء میں نارتھ ویسٹرن ریلوے کے ایک خاص گزٹ کے ذریعہ ربوہ کو باقاعدہ اسٹیشن بنا دیا گیا اور دوسرے اسٹیشنوں کی طرح اپریل 1959ء سے مال و اسباب کی بکنگ بھی ہونے لگی۔ریلوے اسٹیشن کی پختہ عمارت15 اکتوبر 1962ء میں مکمل ہوئی اور24ستمبر 1962ء کو اس کا افتتاح ہوا۔ سٹاف کوارٹرزبھی بنائے گئے۔
انتظام لوکل باڈی:ربوہ میں نوٹیفائڈ ایریا کمیٹی کا اعلان بذریعہ گزٹ صوبہ پنجاب مورخہ 26مئی1949ء کو ہوا۔مورخہ 3دسمبر 1954ء کو نوٹیفائڈ ایریا کو میونسپل کمیٹی میں تبدیل کر دیا گیا۔ (ربوہ ازکپٹن خادم حسین صاحب صفحہ 112)
بجلی کی رو: ربوہ میں بجلی کی رو کا افتتاح9جون 1954ء کوہوا۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بجلی کا سوئچ آن کر کے برقی رو کا افتتاح فرمایا۔
پولیس چوکی: 22جون 1958ء کو ربوہ میں پولیس چوکی قائم ہوئی۔ شروع میں انہوں نے ایک مکان فضل عمر ہسپتال کرایہ پر لیا تھا۔ لیکن اب ربوہ کا اپنا تھانہ ہے جو ایک نئی بلڈنگ میں مین روڈ پر چنیوٹ کی طرف واقع ہے۔ نیز ایک چوکی جدید پریس کے ساتھ جانب جنوب بھی بنائی گئی۔
ربوہ میں ٹیلی فون ایکسچینج کا قیام: 21مئی 1951ء کو ایک ٹیلی فون کنکشن قائم ہوا۔ ربوہ کال آفس ڈاک خانہ میں نصب کیا گیا۔ 22دسمبر 1956ءکو ربوہ ٹیلیفون ایکسچینج کا قیام عمل میں آیا۔
میونسپل کمیٹی ربوہ : ربوہ میں میونسپل کمیٹی کی بنیاد یکم جون 1960ء کو رکھی گئی۔ مکرم جناب میاں عزیز احمد صاحب کمیٹی کے پہلے چیئر مین بنے۔
عدالت: ربوہ میں 16 ستمبر 1974ء میں عدالت قائم کی گئی۔شروع میں ٹائون کمیٹی میں عدالت لگتی تھی بعد میں 1983ء میں یہ عدالت نئی عمارت میں منتقل ہوگئی۔
…………………………………(باقی آئندہ)
(تصویر: Mastermaak [CC BY-SA 4.0 (https://creativecommons.org/licenses/by-sa/4.0)])
٭…٭…٭