حدیث میں عید کےلیے جانے اور دعاء المسلمین میں شامل ہونے کو نیکی اور باعث برکت قراردیئے جانے سے خطبہ عید کی اہمیت کی وضاحت
سوال: ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ خطبہ عید کے حوالے سے دارقطنی میں مندرج ایک حدیث کہ حضورﷺ نے نماز عید کے بعد فرمایا کہ ہم خطبہ دیں گے، جو چاہے سننے کےلیے بیٹھا رہے اور جو جانا چاہے چلا جائے، تحریر کر کے دریافت کیا ہے کہ کیا یہ حدیث درست ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 20؍اکتوبر 2020ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات تحریر فرمائے:
جواب:جہاں تک خطبہ عید کے سننے سے رخصت پر مبنی حدیث کا تعلق ہے تویہ حدیث جسے آپ نے دارقطنی کے حوالے سے اپنے خط میں درج کیا ہے، سنن ابی داؤد میں بھی روایت ہوئی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ حضورﷺ نے خطبہ عید کے سننے کی اس طرح تاکید نہیں فرمائی جس طرح خطبہ جمعہ میں حاضر ہونے اور اسے مکمل خاموشی کے ساتھ سننے کی تاکید فرمائی ہے۔ اسی بنا پر علماء و فقہاء نے خطبہ عید کو سنت اور مستحب قرار دیا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ حضورﷺ نے عید کےلیے جانے اور دعاء المسلمین میں شامل ہونے کو نیکی اور باعث برکت قرار دیا ہے اور اس کی یہاں تک تاکید فرمائی کہ ایسی خاتون جس کے پاس اپنی اوڑھنی نہ ہو وہ بھی کسی بہن سے عاریۃً اوڑھنی لے کر عید کےلیے جائے۔ اور ایام حیض والی خواتین کو بھی عید پر جانے کی اس ہدایت کے ساتھ تاکید فرمائی کہ وہ نماز کی جگہ سے الگ رہ کر دعا میں شامل ہوں۔