متفرق

کیا جنات کا وجود موجود ہے؟

اس سوال پر کہ جنّات کے متعلق اسلام کا کیا تصور ہے، قرآن میں یا حدیث میں سے اس کا کیا ثبوت ملتا ہے یا آنحضرتﷺ کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ ہوا ہے جس سے ثابت ہو کے جنّات کا بھی وجود ہے یا جس طرح آج کل کے لوگوں میں تصورات ہیں کہ جن چمٹ جاتے ہیں کیا یہ درست ہے؟ حضورؒ نے فرمایا:

’’میں تو جنّوں پہ بہت بول چکا ہوں۔ جنّ تو ایسی بلا ہے کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتی۔ جس مجلس میں جاؤ، جس ملک میں جاؤ جنّ ضرور آ جاتے ہیں۔ یعنی جنّ کا سوال آ جاتا ہے۔ بہت دفعہ بتا چکا ہوں، خدام الاحمدیہ کے اجتماعوں میں بھی جنّ آیا کرتا تھا۔ انصار اللہ میں بھی اس نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ ابھی بھی جہاں کراچی جاؤ وہاں سوال ہو جاتا ہے۔ پنڈی جاؤ وہاں سوال ہو جاتا ہے۔ انگلستان میں یورپ میں ہر جگہ پاکستانیوں کو جنّ کے ساتھ بڑی دلچسپی ہے۔

جنّ کا لفظ قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر مختلف رنگ میں آیا ہے۔ مختصراً جنّ سے مراد عربی زبان میں مخفی چیزیں ہیں۔ یعنی عربی میں جنّ لفظ ان چیزوں پر اطلاق پاتا ہے جوکسی پہلو سے بھی مخفی ہوں۔ اور سانپ کو بھی اسی لیے جنّ یا جانّکہا جاتا ہے اور عورتوں کو بھی جنّ کہا جاتا ہے جو پردہ دار ہوں۔ بڑے لوگ جو عوام الناس سے الگ رہیں، چھپ کے رہیں ان کو بھی جنّ کہا جاتا ہے۔ پہاڑی قومیں جو عموماً Plainمیں بسنے والے لوگوں سے، عام زمین پہ بسنے والے لوگوں سے بے تعلق رہتی ہیں، مخفی رہتی ہیں ان کو بھی جنّ کہا جاتا ہے۔ غاروں کے بسنے والے لوگوں کو بھی جنّ کہا جاتا ہے۔ Hardy، جفاکش اس کےلیے بھی جنّ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ Bacteriaکے لیےبھی جنّ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ رسول کریمﷺ نے ہڈی سے استنجاکرنے سے منع فرمایا کہ یہ جن کی خوراک ہے۔ اس زمانہ میں تو Bacteriaکا کوئی تصور نہیں تھا نہ یہ پتہ تھا کہ کسی چیز کی خوراک ہے۔ مگر بعد کے زمانوں میں تحقیق ہوئی تو پتہ چلا کہ واقعی ہڈی کے ساتھ Bacteriaچمٹے ہوتے ہیں اور وہ مضر ہیں اور اس سے استنجانہیں کرنا چاہیے۔ تو جنّ کا ایک معنی تو ہے مخفی۔ ان معنوں میں جنّ کے سارے معنی ہیں۔ ایک اور معنی ہے آگ سے پیدا ہوا ہوا۔ جس میں ناری صفات پائی جاتی ہوں، جس میں بغاوت کی روح پائی جاتی ہو۔ تو ہر وہ قوم جو آتشیں مزاج رکھتی ہو، جو Volatile ہو، غصہ جلدی آتا ہو اور لڑاکا اور فسادی، بغاوت کرنے والی ان سب کو جن کہا جاتا ہے۔ حضرت سلیمانؑ اور حضرت داؤدؑ کےجو غلام بنائے گئے تھے جنّ وہ ایسی قومیں تھیں جن پر فتح ہوئی اور ان میں جفاکشی بھی ساتھ تھی اور بغاوت کا مادہ بھی تھا۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے ان کو زنجیروں میں جکڑا گیا تھا اوران سے Forced Labour لی جاتی تھی۔ اگر وہ اس قسم کے جنّ ہوں جیسے مولویوں کے دماغ میں پیدا ہوتے ہیں وہ زنجیروں میں تو نہیں جکڑے جاسکتے۔ صاف پتہ چل گیا کہ وہ جنّ جو ہیں وہ کوئی مادی مخلوق ہے۔ چنانچہ بڑے لوگوں اور Capitalist Systemکےلیے بھی قرآن کریم نے جنّ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ چوٹی کے لوگ خواہ وہ Capitalistہوں خواہ وہ عوامی حکومتوں کے نمائندے ہوں، ان کو سورة الرحمٰن میں اللہ تعالیٰ مخاطب کرکے فرماتاہے

یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اِنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ اَنۡ تَنۡفُذُوۡا مِنۡ اَقۡطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ فَانۡفُذُوۡا ؕ لَا تَنۡفُذُوۡنَ اِلَّا بِسُلۡطٰنٍ (الرحمٰن: 34)

معشر الجن اے جنّوں میں سے چوٹی کے لوگو والانس اور اےعوام الناس میں سے چوٹی کے لوگو۔ یہ مراد ہے وہاں پہ۔ تو جنّ کا لفظ ان ساری جگہوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے، بڑا وسیع لفظ ہے۔ آنحضرتﷺ سے بھی پہاڑی علاقے کے کچھ لوگ، جفاکش قوموں کے نمائندے ملنے کےلیے آئے اور آپ نے ان کے ساتھ، وہ چاہتے تھے کہ علیحدہ گفتگو ہو۔ چنانچہ حضور اکرمﷺ نے باہر ان سے وقت مقرر کیا جہاں ڈیرا ڈالا تھا، وہاں ان سے ملنے گئے اور گفتگو ہوئی۔ قرآن کریم نے اس کا ذکر کیا ہے اور سورت جنّ میں اس کا ذکر آتا ہے۔ اور اس کے بعدوہ ایمان بھی لے آئے۔ اور ساتھ ہی احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ بعد میں جب صحابہ وہاں گئے تو دیکھا کہ وہاں ان کے چولہوں کے نشان تھے جہاں کھانا پکایا جاتا تھا۔ تو جنّوں کی خوراک اگر وہ جنّ تھے جو مولوی سمجھتے ہیں تو وہ تو آگ پہ کھانا نہیں پکایا کرتے ان کی تو خوراک ہی اور چیزیں ہیں وہ توآتشیں مادہ ہے یا ہوائی سا وجود ہے۔ تو صاف پتہ چلا کہ جو جنّ رسول اکرمﷺ سے ملنے آئے تھے وہ انسانوں میں سے تھے۔ پھر انبیاء کا تصور وہاں پایا جاتا ہے وہ کہتے ہیں ہم لوگ بڑے جاہل ہوتے تھے۔ ہم سمجھتے تھے کہ خدا اب کبھی کسی نبی کو نہیں بھیجے گا۔ لیکن دیکھ لو پھر نبی آگیا۔ تو انبیاء تو انسانوں کےلیے آتے ہیں۔ قرآن کریم میں رسول کریمﷺ کو ہمیشہ انسانوں کو مخاطب کرکے پیغام پہنچانے کےلیے فرمایا ہے، جنوں کو مخاطب کر کے کہیں نہیں فرمایا۔ تو اس لیے وہ جو ایمان لائے ذکر کرتے ہیں کہ ہم نبیوں کا انکار کر گئے تھے کہ آئندہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا، صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ انسانوں میں سے کچھ لوگ تھے۔ تو قرآن کریم نے ان معنوں میں، ان سے ملتے جلتے معنوں میں جو میں نے بیان کیے ہیں کئی جگہ جنوں کا ذکر کیا ہے۔ لیکن ایسے جنّ کا ذکر نہیں کیا جو مولوی صاحب کو لوگوں کے مرغے چرا کے لا کے دے۔ یا آپ کی خواہش ہو کہ فلاں آدمی کو پکڑ کے لے آئے تو جن رات و رات پکڑ کے لے آئے۔ ایسا کوئی ذکر قرآن کریم میں نہیں ملتا یا رسول کریمﷺ کی زندگی میں بھی نہیں ملتا۔

(مجلس سوال وجواب مورخہ29؍دسمبر 1984ء)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی جنّوں کے متعلق نہایت عمدہ مضامین تحریر فرمائے ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ آپؓ لکھتے ہیں:

’’جنّ کے لفظ سے بہت سی چیزیں مراد ہو سکتی ہیں لیکن بہر حال یہ بالکل درست نہیں کہ دنیا میں کوئی ایسے جنّ بھی پائے جاتے ہیں جو یا تو لوگوں کےلئے خود کھلونا بنتے ہیں یا لوگوں کو قابو میں لا کر انہیں اپنا کھلونا بناتے ہیں یا بعض انسانوں کے دوست بن کر انہیں اچھی اچھی چیزیں لا کر دیتے ہیں اور بعض کے دشمن بن کر تنگ کرتے ہیں یا بعض لوگوں کے سر پر سوار ہو کر جنون اور بیماری میں مبتلا کر دیتے ہیں اور بعض کے لئے صحت اور خوشحالی کا رستہ کھول دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کمزور دماغ لوگوں کے توہمات ہیں جن کی اسلام میں کوئی سند نہیں ملتی اور سچے مسلمانوں کو اس قسم کے توہمات سے پرہیز کرنا چاہیے۔

ہاں لغوی معنے کے لحاظ سے ( نہ کہ اصطلاحی طور پر) فرشتے بھی مخفی مخلوق ہونے کی وجہ سے جنّ کہلا سکتے ہیں اور یہ بات اسلامی تعلیم سے ثابت ہے کہ فرشتے مومنوں کے علم میں اضافہ کرنے اور ان کی قوتِ عملیہ کو ترقی دینے اور انہیں کافروں کے مقابلہ پر غالب کرنے میں بڑا ہاتھ رکھتے ہیں جیسا کہ بدر کے میدان میں ہوا۔ جب کہ تین سو تیرہ(313) بے سر و سامان مسلمانوں نے ایک ہزار سازو سامان سے آراستہ جنگجو کفار کو خدائی حکم کے ماتحت دیکھتے دیکھتے خا ک میں ملا دیاتھا۔ (صحیح بخاری) پس اگر سوال کرنے والے دوست کو مخفی روحوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا شوق ہے تو وہ کھلونا بننے والے یا کھلونا بنانے والے جنّوں کا خیال چھوڑ دیں اور فرشتوں کی دوستی کی طرف توجہ دیں جن کا تعلق خدا کے فضل سے انسان کی کایا پلٹ کر رکھ دیتا ہے۔ ‘‘

(مطبوعہ الفضل 13؍جون 1950ء)

اسی طرح حیات قدسی میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کےبارے میں بعض اس قسم کے واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں:

’’جہاں تک کسی کے آسیب زدہ ہونے کا سوال ہے، میرا نظریّہ یہ ہے کہ یہ ایک قسم کی ہسٹیریا کی بیماری ہے۔ جس میں بیمار شخص اپنے غیر شعوری یعنی سب کانشنس خیال کے تحت اپنے آپ کو بیمار یا کسی غیر مرئی روح سے متاثر خیال کرتا ہے اور اس تاثر میں اس شخص کی سابقہ زندگی کے حالات اور اس کی خواہشات اور اس کے خطرات غیر شعوری طور پر اثر انداز ہوتے ہیں یہ بھی ایک قسم کی بیماری ہے مگر یہ احساسِ بیماری ہے حقیقی بیماری نہیں۔ اسلام ملائکہ اور جنّات کے وجود کا تو قائل ہے اور قرآن کریم میں اس کا ذکر موجود ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت نظامِ عالم کو چلاتے اور لوگوں کے دلوں میں نیکی کی تحریک کرتے اور بدیوں کے خلاف احساس پیدا کرتے ہیں لیکن یہ درست نہیں اور نہ اس کا کوئی شرعی ثبوت ملتا ہے کہ جنّات لوگوں کو چمٹ کر اور ان کے دل و دماغ پر سوار ہو کر لوگوں سے مختلف قسم کی حرکات کرواتے ہیں۔ یہ نظریہ اسلام کی تعلیم اور انسان کی آزادیٔ ضمیر کے سراسر خلاف ہے۔ اس کے علاوہ اسلام نے جنّات کا مفہوم ایسا وسیع بیان کیا ہے کہ اس میں بعض خاص مخفی ارواح کے علاوہ نہ نظر آنے والے حشرات اور جراثیم بھی شامل ہیں۔ چنانچہ حدیث میں جو یہ آتا ہے کہ اپنے کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھو ورنہ ان میں جنات داخل ہو جائیں گے۔ اس سے یہی مراد ہے کہ بیماریوں کے جراثیم سے اپنی خور و نوش کی چیزوں کو محفوظ رکھو۔

بہرحال جنات کا وجود تو ثابت ہے اور خدا تعالیٰ کے نظام میں حقیقت تو ضرور ہے مگر کھیل نہیں۔ اس لئے میں اس بات کو نہیں مانتا خواہ اس کے خلاف بظاہر غلط فہمی پیدا کرنے والی اور دھوکا دینے والی باتیں موجود ہوں کہ کوئی جنّات ایسے بھی ہیں جو انسانوں کو اپنے کھیل تماشے کا نشانہ بناتے ہیں لہٰذا میرے نزدیک جو چیز آسیب کہلاتی ہے وہ ہسٹیریا کی بیماری ہے۔ اور جو چیز آسیب کے تعلق میں معمول کہلاتی ہے وہ خود نام نہاد آسیب زدہ شخص کا اپنے ہی وجودکا دوسرا پہلو ہے جو غیر شعوری طور پر آسیب زدہ شخص کی زبان سے بول رہا ہوتا ہے اور چونکہ آسیب زدہ شخص لازماً کمزور دل کا مالک ہوتا ہے۔ اس لئے جب کوئی زیادہ مضبوط دل کا انسان یا زیادہ روحانی اس پر اپنی توجہ ڈالتا ہے تو وہ اپنی قلبی اور دماغی یا روحانی طاقت کے ذریعہ آسیب کے طلسم کو توڑ دیتا ہے۔ مادی لوگ تو محض قلبی توجہ سے یہ تغیر پیدا کرتے ہیں لیکن روحانی لوگوں کے عمل میں روح کی توجہ اور دعا کا اثر بھی شامل ہوتا ہے اور توجہ کا علم بہرحال حق ہے۔

(حیات قدسی مصنفہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ صفحہ 617تا618)

باقی طارق میگزین میں شائع ہونے والے انٹرویو میں بیان باتیں ایک سنے ہوئے واقعہ پر مبنی ہیں، جس میں سننے والے کو بھی غلطی لگ سکتی ہے، کیونکہ جہاں تک مجھے یاد ہے حضورؒ نے یہ کہیں بیان نہیں فرمایا کہ آپ نے کسی جنّ کو بلیڈ لگاتے ہوئے دیکھا تھا بلکہ آپ نے فرمایا ہے کہ اگلی صبح دیکھا تو بلیڈ لگا کے رکھا ہوا تھا۔ پھر حضورؒ نے اس سلسلہ میں اس رات کا جو واقعہ بیان فرمایا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی کشفی نظارہ ہو۔ کیونکہ حضورؒ کا اپنی تحریرات اور دیگر مجالس عرفان میں جنّات کے بارے میں بیان موقف اس قسم کے جنّات کےوجود کے خلاف ہے۔

پس جن ّکے لفظ سے بہت سی چیزیں مراد ہو سکتی ہیں لیکن یہ درست نہیں کہ دنیا میں کوئی ایسے جنّ بھی پائے جاتے ہیں جو لوگوں کےلیے کھلونا بنتےہوں یا لوگوں کو قابو میں لا کر انہیں اپنا کھلونا بناتے ہوں۔ یا وہ کچھ لوگوں کے دوست بن کر انہیں میوے اور مٹھائیاں لا کر دیتے ہوں اور بعض کے دشمن بن کران کے سروں پر چڑھ کر اور انہیں چمٹ کر انہیں تنگ کرتے ہوں۔ اس قسم کے خیالات مولویوں کی ایجادات ہیں جو کمزور دماغ اور وہمی خیال لوگوں کو اپنے ہتھکنڈوں سے شکار کر کے ان سے فائدے اٹھاتے ہیں۔ اسلام میں اس قسم کے جنّات کی کوئی سند نہیں ملتی اور سچے مسلمانوں کو اس قسم کے توہمات سے پرہیز کرنا چاہیے۔

اگر ایسے کوئی جنّ ہوتے تو ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ وہ وجود باجود تھے جن کی ان جنّات کو لازماً مدد اور آپ کے دشمنوں کے سروں پر چڑ ھ کر انہیں تباہ و برباد کرنے کی سعی کرنی چاہیے تھی، خصوصاً جبکہ قرآن و حدیث میں آپﷺ پر ایک قسم کے جنوّں کے ایمان لانے کا ذکربھی موجود ہے۔ پس عملاً ایسا نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ ان تصوراتی جنّوں کا اس دنیا میں کوئی وجود نہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button