والدین کی خدمت ایک بڑا بھاری عمل ہے
جوشخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں ان کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہد خدمت سے لاپروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 19)
وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا (الدھر: 9) اس آیت میں مسکین سے مراد والدین بھی ہیں کیونکہ وہ بوڑھے اور ضعیف ہو کر بے دست و پا ہو جاتے ہیں اور محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالنے کے قابل نہیں رہتے۔ اس وقت ان کی خدمت ایک مسکین کی خدمت کے رنگ میں ہوتی ہے اور اسی طرح اولاد جو کمزور ہوتی ہے اور کچھ نہیں کر سکتی اگر یہ اس کی تربیت اور پرورش کے سامان نہ کرے تو وہ گویا یتیم ہی ہے پس ان کی خبر گیری اور پرورش کا تہیہ اس اصول پر کرے تو ثواب ہو گا۔
(ملفوظات جلد 6صفحہ 381، ایڈیشن 1984ء)
والدین کی خدمت ایک بڑا بھاری عمل ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بد قسمت ہیں۔ ایک وہ جس نے رمضان پایااور رمضان گزر گیا پر اس کے گناہ نہ بخشے گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایااور والدین گزر گئے اور اس کے گناہ بخشے نہ گئے۔ والدین کے سایہ میں جب بچہ ہوتا ہے تو اس کے تمام ہم و غم والدین اٹھاتے ہیں۔ جب انسان خود دنیوی امور میں پڑتا ہے تب انسان کو والدین کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں والدہ کو مقدم رکھا ہے کیونکہ والدہ بچہ کے واسطے بہت دکھ اٹھاتی ہے۔ کیسی ہی متعدی بیماری بچہ کو ہو۔ چیچک ہو، ہیضہ ہو، طاعون ہو، ماں اس کو چھوڑنہیں سکتی۔
…ماں سب تکالیف میں بچہ کی شریک ہوتی ہے۔ یہ طبعی محبت ہے۔ جس کے ساتھ کوئی دوسری محبت مقابلہ نہیں کر سکتی۔ خداتعالیٰ نے اسی کی طرف قرآن شریف میں اشارہ کیا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی (النحل: 91 )۔
(ملفوظات جلد 7 صفحہ 375، ایڈیشن 1984ء)