آمین کی تقریب
حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نوراللہ مرقدھااپنی تصنیف ‘‘رسومات کے متعلق اسلامی تعلیمات’’ میں تحریر فرماتی ہیں‘‘احمدی گھرانوں میں ایک اَور تقریب منائی جاتی ہے جس کو آمین کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ بچہ کے قرآن مجید ختم کرنے کی خوشی میں کوئی تقریب بغرض دعا منعقد کی جائے تابچہ کو یہ احساس ہو کہ میرا پہلا فرض قرآن مجید ختم کرنا تھا ۔الحمد للہ کہ میں نے ختم کر لیا اور دوسرے بچے جو شامل ہوں ان کو تحریک ہو جائے کہ ہم بھی جلد ی جلدی پڑھیں۔ ہمارے لئے اصل جواز اس کام میں ہے جو حضرت مسیح موعودؑ آخر الزمان نے کیا اور جس کا نمونہ پیش فرمایا حضور نے اپنے بچوں کی آمین کی اس لئے ہمارے لئے بھی یہ فعل جائز ہے لیکن اس کو بھی رسم نہیں بنانا چاہیے کہ ضرور ہی کیا جائے اصل غرض دعا ہے اگر اس تقریب میں بھی اسراف سے کام لیا جائے تو یہ تقریب بھی ناپسندید ہ امر بن جائے گی ۔ہاں سادگی سے دعا کی غرض سے تقریب منعقد کی جائے تو اچھی اور پسندیدہ بات ہے۔
نومبر 1901ءمیں جب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ، حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی آمین ہوئی اس وقت جیسا کہ حضرت اقدس علیہ السلام کا معمول تھا کہ خدا تعالیٰ کے انعام وعطایا پر شکر یہ کے طور پر صدقات دیتے تھے آپ نے دعوت دی اس پر حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ نے ایک سوال کیا کہ حضور یہ جو آمین ہوئی ہے یہ کوئی رسم ہے یا کیا ہے؟
اس کے جواب میں حضور نے جو کچھ فرمایا وہ بہت سے شبہات کا ازلہ کرتا ہے اور ہر کام کرتے وقت ہماری راہ نمائی کرتا ہے ۔
حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا۔
‘‘جو امر یہاں پیدا ہوتا ہے اس پر غور کیا جاوے اور نیک نیتی اور تقویٰ کے پہلوؤں کو ملحوظ رکھ کر سوچا جاوے تو اس سے ایک علم پیدا ہوتا ہے میں اس کو آپ کی صفائی قلب اور نیک نیتی کا نشان سمجھتا ہوں کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے اس کو پوچھ لیتے ہیں۔’’
(ملفوظات جلد دوم صفحہ385)