سیکھوانی برادران کی ہمشیرہ حضرت امیر بی بی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عرف ’’مائی کاکو‘‘
خاکسارکی والدہ محترمہ رمضان بی بی صاحبہ کی پھوپھی جان حضرت امیر بی بی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عرف‘‘مائی کاکو’’کے حالات زندگی اور مختصر تعارف تحریر ہے۔
تعارف :حضرت امیر بی بی صاحبہ عرف ‘‘مائی کاکو’’صحابیہ بنت حضرت میاں محمد صدیق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ قوم رائیں عرف کشمیری موضع سیکھواں۔ (اہلیہ رحیم بخش صاحب )۔ آپ کی تاریخ پیدائش 1868ء اور وصال1953ء میں 85سال سے زائد عمر میں ہوا۔ آپ کا وصیت نمبر 498تھا اور آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں احا طہ خاص کے جنوبی جانب محو خواب ہیں۔ آپ کا نام 313صحابیات میں لکھا ہوا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1889 ء میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب اعلان ماموریت فرمایا تو سیکھواں خاندان نے بلا تاخیر بیعت کر لی تھی۔اسی طرح خاندان کی مستورات نے بھی ابتدائی ایام میں ہی بیعت کر لی تھی۔آپ نے اس عہد کو اپنے آخری سانس تک نہایت ہمت و جوانمردی سے نبھایا ۔
آپ حضر ت میاں امام الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیکھوانی برادران کی ہمشیرہ تھیں ۔ سیکھوانی برادرا ن حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی صحابہ میں سے تھے اور نہایت درجہ مخلص انسان تھے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے حد درجہ محبت و عشق رکھتے تھے ۔اشتہار جلسہ الوداع میں سیکھوانی برادران کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا:‘‘حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب لے آئے ہیں اور دین کو آخرت پر مقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی۔’’
(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ167)
حضرت مائی کاکو صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی روایات‘‘سیرت المہدی’’میں درج ہیں۔آپ نے بیوگی کے بعد اپنی ساری زندگی حضرت امّ المؤمنین اماں جان صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااور بچگان کی خدمت میں گزاری۔ان کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیکھوانی خاندان کے بزرگان میں کس قدرا خلاص و وفا، عشق مسیح موعود علیہ السلام ، حق کی جستجو اور تحصیل علم کا شوق تھا اور سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے ان عشاق کے ساتھ کس قدر شفقت اور محبت فرماتے تھے ۔ یہ ہمارے خاندان کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ الحمد للہ۔
حضرت امّ المؤمنین امّاں جانؓ کی خادمہ:حضرت عرفانی صاحب ایڈیٹر الحکم لکھتے ہیں:اُن پرانی مستورات میں سے جنہوں نے حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو دلہن بنے ہوئے دیکھا اب کوئی موجود نہیں البتہ میرے محترم بھائی مولوی جلال الدین صاحب شمس کی پھوپھی جو مائی کاکو صاحبہ کے نام سے مشہور ہیں اور جوحضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی خادمہ ہیں ، اور ایک عشق و شوق سے خدمت کرتی ہیں نے مجھے سنایا کہ جب حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نئی نئی بیاہی ہوئی آئیں یعنی 1883ء کے نومبر یا دسمبر کے ابتدائی دنوں میں ہم بھی ایک دفعہ قادیان آئی ہوئی تھیں۔ تو ہم نے سنا کہ مرزا صاحب ‘‘ووہٹی ’’بیاہ کر لائے ہیں۔ اس لیے ہم دیکھنے چلی گئیں ۔ حضرت اُمّ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا 18یا 19سال کی لڑکی تھیں۔ بالکل پتلی دبلی اور نحیف سی تھیں۔سفید کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔پنجاب کے رواج کے بالکل خلاف رنگین یا سرخ جوڑانہ تھا ۔اس وقت کھلے پائینچے کا غرارہ پہنے ہوئے تھیں۔حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہاہم کو دیکھ کر کمرے سے باہر آگئیں اور ہم کو جب ایک دبلی سی کم عمرلڑکی سفید لباس میں نظر آئی تو ہم کو تعجب ہوا اور ہم نے کہا کہ‘‘ایہہ کس طرح دی ووہٹی اے۔’’اس کے بعد مائی کاکو صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ‘‘ہم نے پھر حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی جو شان دیکھی اسے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی۔’’
(حضرت سیدہ نصرت جہا ںبیگم مرتبہ شیخ محمود احمد عرفانی و شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ210)
حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہانے ایک ملاقات میں فرمایا‘‘ تم میری سہیلی بنو گی؟’’ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اس شفقت اور محبت بھری گفتگو نے ان سے بے تکلف ملنے کا راستہ کھول دیا اور دیار مسیح میں مائی کاکو صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کی بھاوج کا آنا جانا ہو گیا۔
( بحوالہ: روزنامہ الفضل 2تا5جولائی 2002ء)
محترمہ امتہ المنان قمر صاحبہ اہلیہ میر غلام احمد صاحب نسیم اپنی آپ بیتی میں صفحہ24 تا26میں لکھتی ہیں کہ :‘‘…جب میں 1991ء کے جلسہ سالانہ پر قادیان گئی تو محترمہ صاحبزادی امتہ النصیر صاحبہ مرحومہ بیگم پیر معین الدین صاحب مرحوم مجھے بازو سے پکڑ کر ‘‘دیار مسیح’’ کے ایک کمرے کی طرف لے گئیں کہ یہ وہ کمرہ ہے جہاں امیر بی بی صاحبہ ؓ( مائی کاکو) رہا کرتی تھیں۔ اس کے بعد امریکہ میں مجھے محترمہ صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ بیگم میاں عبد الرحیم احمد صاحب مرحوم نے مزید بتایا کہ یہ وہ کمرہ تھا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چھ ماہ کے روزے رکھے تھے اور نور کی مشکیں آب زلال کی صورت میں اس کمرے میں انڈیلی گئی تھیں اور آپ کو بتایا گیا تھا کہ یہ نور اس درود شریف کی وجہ سے انڈیلا گیاہے جوآپ ؑکثرت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجا کرتے تھے ۔
مائی کاکو صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاعنفوان شباب میں ہی بیوہ ہو گئی تھیں ۔بچے بھی صغر سنی میں ہی فوت ہو گئے ۔ ان کے سسرال والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت مخالف تھے اس لیے جب ان کے نازیبا الفاظ سننا برداشت میں نہ رہا تو آپؓ اپنے بھائیوں کے پاس آگئیں ۔(آپ کے بھائی میاں جمال الدین صاحبؓ، میاں امام الدین صاحبؓ ،میاں خیر الدین صاحبؓ سیکھوانی تھے)محترمہ صاحبزادی امتہ الرشید بیگم صاحبہ نے مجھے بتایا کہ ایک دن مولوی جلال الدین شمس صاحب کے والد میاں امام الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیکھوانی حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر آئے اور میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اب مائی کاکوصاحبہ آپ کے پاس ہی رہے گی مگر ایک شرط ہے کہ ‘‘ اس کا کھاناہمارے گھر سے آیا کرے گا۔ ’’ آپ بتاتی ہیں کہ دودھ اور رس ناشتے کے لیے اور کھانا آپ کوباقاعدہ گھر سے پہنچاتے رہے۔
‘‘مائی کاکو’’کا دیار مسیح میں رہنے کی برکت سے خدا تعالیٰ سے بہت تعلق تھا۔ بظاہر ان کا ذریعہ آمدکچھ نہیں تھا۔ میرے خیال میں ہر ایک کا کام کرکے خوشی محسوس کرتی تھیں اس لیے لوگ بھی ان کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔
صاحبزاد ی آصفہ مسعودہ بیگم صاحبہ اہلیہ صاحبزاد ہ ڈاکٹر مرزامبشر احمد صاحب مرحوم آف لاہور نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چندہ کی تحریک کی۔ مائی کاکو صاحبہ کے پاس کوئی رقم نہ تھی۔ آپ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر تنہائی میں پورے خشوع و خضوع کے ساتھ دعا میں مصروف ہو گئیں کہ اے اللہ ! تو مجھے پیسے دے تا کہ میں چندہ میں دے سکوں ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس درخت سے کپڑے کی ایک پوٹلی گری جس میں کچھ رقم تھی۔ آپ وہ رقم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لے گئیں کہ یہ چندہ میں لے لیں اور سارا واقعہ بھی سنایا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے لیے کافی اعلان کروائے کہ اگر کسی کی رقم ہو تو وہ آکر لے جائے مگر کوئی نہ آیا ۔ اور جب کافی عرصہ کے بعد یقین ہو گیا کہ اس کا مالک کوئی زمینی انسان نہیں تب وہ رقم چندہ کے لیے لے لی گئی۔مائی کاکو پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھیں ۔
صاحبزادی امتہ الشکور بیگم بنت حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سیرت حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہامیں بیان کرتی ہیں کہ ‘‘ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہماری قادیان والی کوٹھی ‘‘النصرت’’میں پیدل سیر کرتی ہوئی تقریباً روزانہ صبح صبح تشریف لاتیں ۔ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ اکثر مائی کاکو ہوتیں ۔ وہاں سے پھول اور پھل توڑ کر ہم ٹوکری میں ڈال کر ان کو دے دیتے۔’’
حضرت امیر بی بی صاحبہ ؓکی روایات :آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بیان کردہ روایات رجسٹر روایات صحابیہ میں درج ہیں۔ان روایات میں سے ایک روایت نمبر849کا ذکر کرنا چاہتا ہوں ۔ مائی امیر بی بی عرف مائی کاکو ہمشیرہ میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیشتر طور پر عورتوں کو یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ نماز باقاعدہ پڑھیں۔ قرآن شریف کا ترجمہ سیکھیں اور خاوندوں کے حقوق ادا کریں ۔ جب کبھی کوئی عورت بیعت کرتی توآپ عموماً یہ نصیحت فرماتے تھے کہ تم قرآن شریف پڑھنا سیکھو ۔ اور اگر صرف ناظرہ پڑھی ہوتی تو فرماتے کہ ترجمہ بھی سیکھو ۔ تاکہ قرآن شریف کے احکا م سے اطلاع ہو اور ان پر عمل کرنے کی توفیق ملے۔
جب میری والدہ صاحبہ اپنی ان بزرگ پھوپھی جان ‘‘مائی کاکو’’اور دیگر رشتہ داران کو ملنے کی غرض سے احمدنگر سے ربوہ آتیں تو مجھے بھی ساتھ لے لیتی تھیں ۔ اس وقت میں 7یا 8سا ل کا ہوں گا۔ایک دفعہ جب والدہ صاحبہ اپنی پھوپھی جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ملنے ربوہ آئیں تو وہ غالباًحضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے ہاںرہائش پذیر تھیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ ایک چارپائی پر جس پر خوبصورت پھولدار چادر بچھی ہوئی تھی، تشریف فرما تھیں اور بچوں میں ٹافیاں تقسیم کر رہی تھیں ۔ والدہ صاحبہ اپنی پھوپھی جان سے محو گفتگو تھیں اور میں والدہ صاحبہ کے بازو کے ساتھ لپٹا ہوا تھا۔انہوں نے مجھے اپنے پاس بلاکر پیار کیا اورٹافیاں دیں۔
بس مجھے اتنا ہی یادہے اور یہ میرے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔
صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منوراحمد صاحب نے فرمایا ‘‘مائی کاکو’’کا حضرت اماں جان صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے ساتھ بہت اعتماد کا رشتہ تھا۔حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا جہاں کہیں جاتی تھیں تو ‘‘مائی کاکو’’ ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتی تھیں ۔ ہمارے خاندان میں ان کا بہت ذکر تھا ۔ اس وجہ سے ہمارے خاندان کے افراد ‘‘اماں مائی کاکو’’کے نام سے پکارتے اور بہت عزت کرتے تھے ۔ نیز فرمایا کہ آپ بہت ہمدرد اور نیکی کے کام میں پیش پیش ہوتی تھیں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو بزرگوں کا احترام اور عزت کرنے کی توفیق دے اور ہمیں عشق و وفا کے اس تعلق کو ہمیشہ خلافت احمدیہ اور نظام جماعت کے ساتھ قائم رکھنے کی توفیق عطافرماتا رہے۔آمین ثم آمین
٭…٭…٭