ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
وسیع عام ہدایت اور کامل قطعی و حتمی دلائل حضرت ایزدی کی جناب سے مسیح موعود کے زمانہ سے ہی مختص ہیں۔ اس زمانہ میں پوشیدہ حقائق منکشف ہوں گے اور حقیقت پر سے پردہ ہٹا دیا جائے گا۔ باطل ملّتیں اور جھوٹے مذاہب ہلاک ہو جائیں گے اور اسلام شرق و غرب پر غالب آجائے گا اور چند مجرموں کو چھوڑ کر حق ہر گھر میں داخل ہو جائے گا۔
’’ پس حاصل کلام یہ ہے کہ وسیع عام ہدایت اور کامل قطعی و حتمی دلائل حضرت ایزدی کی جناب سے مسیح موعود کے زمانہ سے ہی مختص ہیں۔ اس زمانہ میں پوشیدہ حقائق منکشف ہوں گے اور حقیقت پر سے پردہ ہٹا دیا جائے گا۔ باطل ملّتیں اور جھوٹے مذاہب ہلاک ہو جائیں گے اور اسلام شرق و غرب پر غالب آجائے گا اور چند مجرموں کو چھوڑ کر حق ہر گھر میں داخل ہو جائے گا۔ اور سارا کام مکمل ہو جائے گا۔ اور اللہ جنگوں کو موقوف کر دے گا۔ زمین پر امن قائم ہو گا اور دلوں کی گہرائیوں میں سکینت اور ُصلح کاری نازل ہو گی۔ درندے اپنے درندگی اور سانپ اپنی زہرناکی چھوڑ دیں گے۔ ہدایت واضح ہو جائے گی اور گمراہی تباہ ہو جائے گی۔ کفر اور شرک کا صرف معمولی سانشان رہ جائے گا اور صرف بیمار دل ہی فسق اور بداعمالی سے چمٹا رہ جائے گا۔ گمراہوں کو ہدایت دی جائے گی اور جو قبروں میں پڑے ہیں وہ اٹھائے جائیں گے۔ اللہ کے ارشاد إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ کا یہی معنی ہے۔یہ بعث وہ بعث ہے جسے نہ پہلوں نے دیکھا اور نہ ہی تمام سابقہ رسولوں اور نبیوں نے ۔ اور جو اللہ کا دین ہے اگرچہ اس کا امر آغاز سے ہی قوت اور استعداد کے اعتبار سے تمام ادیان پر غالب تھا لیکن قبل ازیں اس کے لئے یہ اتفاق نہ ہوا تھا کہ وہ حجت او ر اسناد کی رو سے تمام ادیان سے مقابلہ کرے اور انہیں کلیۃً ہزیمت دے دے اور ثابت کر دے کہ وہ سب فساد سے بھرے ہوئے ہیں اور یہ (سچا دین) استدلال کے اسلحہ سے لیس ہو کر پہلوانوں کی طرح نکلے یہاں تک کہ تمام شہروں اور ملکوں میں پھیل جائے۔ یہ خدائے ودود کی طرف سے مقدر تھا کیونکہ اس کی طرف سے پہلے سے ہی یہ فرمان صادر ہو چکا تھا کہ کامل غلبہ او ر وسیع ترین اور سب سے بڑی بھلائی مسیح موعود کے زمانہ سے ہی مختص ہے۔ اسی وجہ سے شیطان نے اس بابرکت زمانہ تک مہلت مانگی تھی۔ پس اللہ نے اسے مہلت دے دی تاوہ سب کچھ پورا ہو جائے جس کا اس نے سب جہانوں کے لئے ارادہ فرمایا ہے۔ پس شیطان نے اپنے تمام پیروکاروں کو گمراہ کر دیا۔ پس انہوں نے اپنے معاملہ کو اپنے درمیان ٹکڑے ٹکڑے کرکے بانٹ لیا اور سب گروہ اس پر جو ان کے پاس تھا اِترانے لگے اور صحیح راستہ پر صرف اللہ کے نیک بندے ہی رہ گئے۔
اس میں بھید یہ ہے کہ اس خدا کی طرف سے جس نے عالمَ کو چھ وقتوں میں پیدا کیا ہے، زمانہ کو چھ قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے جو یہ ہیں۔ آغاز کا زمانہ ، بڑھنے اور نشوونما پانے کا زمانہ ، کمال اور انتہا کا زمانہ، انحطاط اور اللہ سے تعلق میں کمی اور ربط میں کمی کا زمانہ ، قسما قسم کی گمراہیوں کی وجہ سے موت کا زمانہ اور موت کے بعد اٹھائے جانے کا زمانہ۔ یقینا اللہ کے نزدیک آدم کے وقت سے آخری زمانہ تک لوگوں کی مثال اُس کھیتی کی مانند ہے جو اپنی کونپل نکالے پھر اسے مضبوط کرے پھر وہ موٹی ہو جائے اور اپنے ڈنٹھل پر کھڑی ہو جائے۔ پھر زرد ہو جائے اور پھر اللہ کے حکم سے جھڑنے لگ جائے پھر فصل کاٹی جائے اور زمین خالی ہو جائے۔ پھر اللہ اُسے اُس کی موت کے بعد زندہ کرے تو وہ سرسبز و شاداب ہو جائے اور وہ اس میں لہلہاتی سرسبزروئیدگی اگائے اور کسانوں کی آنکھوںکو ٹھنڈا کر دے۔ اسی طرح اللہ نے سب عالموں کے لئے مثال بیان کی ہے۔ اس مقام سے ثابت ہوا کہ روحانی موت کا زمانہ ربّ العالمین کی طرف سے مقدر تھا اور یہ بھی مقدر تھا کہ تھوڑے سے نیک بندوں کے سوا باقی سب لوگ چھٹے ہزار میں گمراہ ہو جائیں گے۔ اسی لئے شیطان نے کہا تھا کہ میں ضرور ان سب کو گمراہ کروں گا۔ اگر یہ تقدیر نہ ہوتی تو وہ لعین یہ بات کرنے کی جرأت نہ کرتا اور چونکہ وہ جانتا تھا کہ اللہ نے ان زمانوں کے پیچھے بعث و ہدایت اورفہم و درایت کا زمانہ رکھا ہوا ہے اس لئے اس نے اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ کہا تھا۔ پس حاصل کلام یہ ہے کہ زمانوں میں سے آخری زمانہ بعث کا زمانہ ہے جیسا کہ اہل علم جانتے ہیں۔ گویا کہ اللہ نے چھ ہزار سالوں کو چھ زمانوںمیں تقسیم کیا تھا اور ساتویں (ہزار) کے ایک حصہ میں قیامت کو رکھ دیا۔ جب چھٹا ہزار آیا جو کہ خدائے کریم کی طرف سے بعث کا زمانہ ہے تو گمراہ کرنے کا کام مکمل ہو گیا اور کمینے شیطان کی وجہ سے لوگ کئی فرقوں میں بٹ گئے۔ سرکشی بڑھ گئی اور مختلف گروہ اس طرح ٹھاٹھیں مارنے لگے جیسے بھاری لہریں ٹھاٹھیں مارتی ہیں اور گمراہی پہاڑوں کی طرح بلند ہو گئی اور لوگ جہالت ، فسق، بے حیائیوں اور لاپرواہی کی موت مر گئے اور موت ہر قوم، علاقہ اور جہت میں عام طور پر پھیل گئی۔ تب اللہ نے دیکھا کہ بعث کا وقت آن پہنچا ہے اور موت کا وقت اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے تو اس نے اپنا رسول بھیجا تا مردوں کو زندہ کرے جیسا کہ قرون اولیٰ میں اس کی سنت جاری رہی ہے۔ اور یہ مخلوق کے رب کی طرف سے ایک پورا ہو کر رہنے والا وعدہ تھا۔ پس یہ مسیح ہی حضرت کبریا کی طرف سے خاتم الخلفاء اور وارث انبیاء اور امام منتظر ہے نیز وہ آدم بھی ہے جس سے اللہ نے زندگی بخشنے کا سلسلہ دوسری مرتبہ شروع کیا اور اللہ نے اس کا نام احمد رکھا کیونکہ اس کی وجہ سے ربّ جلیل کی زمین میں اسی طرح حمد کی جائے گی جیسا کہ آسمان میں اس کی حمد کی جارہی ہے۔نیز اللہ نے اس کا نام عیسیٰ بن مریم اس وجہ سے رکھا کہ اس کی روحانیت کو اللہ نے اپنی جناب سے پیدا کیا تھا اورزمین پر آباء کی طرح اُس کا کوئی روحانی استاد نہ تھا۔ حضرت کبریا کی طرف سے جو مسیح ہے اسے عیسیٰ کا لقب اس لئے دیا گیاکہ اس پر تمام اُمّتوں کے نبی خیرالاصفیاء ﷺکی خلافت ختم ہوئی جیسا کہ عیسیٰ ؑ پر موسیٰ ؑ کے سلسلہ کی خلافت ختم ہوئی اور اس لئے بھی اس کا نام مسیح ہے کہ مقدر تھا کہ اس کا نام زمین میں پھیل جائے گا اور ہر قوم میں عزت او ر بزرگی کے ساتھ اس کا ذکر کیا جائے گا۔ وہ ایک جہت میں برق کی مانند ظاہر ہو گا اور پھر دوسری جہات میں بھی چمکے گا اور آسمان کی تمام فضا کو روشن کرد ے گا اور اس لئے بھی کہ ازل سے یہ لکھ دیا گیا تھا کہ وہ حقائق پر سے پردہ ہٹانے سے آسمان کو چھوئے گا اور اس کے زمانہ میں کوئی نکتہ پردہ اخفاء میں نہیں رہے گا۔ پس وہ جو خاتم الخلفاء ہے اس کا نام مسیح رکھے جانے کی یہ تین وجوہ ہیں۔ اگر توُ اہل دانش میں سے ہے تو اس میں غور وفکر کر۔ اور یقینا ًوہ اپنے اس نبیؐ سے فیض یافتہ ہے جو کہ ان تینوں صفات کا پورے طور پر مالک ہے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 229تا235۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)