الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔
…………………………
محترمہ سردار بیگم صاحبہ
ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ کے اگست و ستمبر، اکتوبر اور نومبر و دسمبر 2012ء کے شماروں میں تین اقساط میں مکرم عبدالہادی ناصر صاحب (سابق لیکچرار تعلیم الاسلام کالج ربوہ) نے اپنی والدہ محترمہ سردار بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم احمددین صاحب جمیل کا ذکرخیر کیا ہے جو 20؍جنوری 2011ء کو 96 سال کی عمر میں وفات پاگئی تھیں۔
محترمہ سردار بیگم صاحبہ کے والد مکرم احمددین صاحب قادیان میں تجارت کرتے تھے اور جلسہ سالانہ پر غلّہ بھی سپلائی کیا کرتے تھے۔ آپ ابھی کمسن تھیں کہ باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ پرورش اور تربیت کی ذمہ داری آپ کی والدہ مکرمہ صوباں بیگم صاحبہ نے نبھائی جو بہت صابرہ و شاکرہ تھیں اور یہی خوبیاں اُن سے اُن کی بیٹی میں بھی ودیعت ہوئیں۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میرے والد احمد دین جمیل صاحب کی تربیت اُن کے دادا حضرت میاں امام الدین صاحبؓ نے کی تھی۔ حضرت میاں صاحبؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفرِ جہلم کے دوران جہلم جاکر بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی تھی۔ وہ ایک مستجاب الدعوات بزرگ تھے اور لوگ کثیر تعداد میں اُن کے پاس دعا کروانے آیا کرتے تھے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کی منگنی کسی جگہ پہلے سے طے ہوچکی تھی اور یہ بھی طے پایا تھا کہ اُس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان میں نکاح کا اعلان ہوجائے گا۔ لیکن جب دونوں گھرانے قادیان میں باہم ملے تو کسی بات پر اتفاق نہ ہوسکا اور وہ رشتہ ختم ہوگیا۔ اس پر میرے دادا نے واپس جانے سے پہلے قادیان میں ہی میرے والد کا رشتہ طے کرنے کی خواہش کا اظہار کسی سے کیا۔ چنانچہ جب یہ لوگ پہلی بار میری والدہ کے ہاں گئے تو میرے والد کو لمبا عرصہ پہلے کی دیکھی ہوئی اپنی ایک خواب یاد آگئی جس میں اس گھر کا نقشہ دکھایا گیا تھا حتّٰی کہ گھر میں کنواں بھی اُسی طرح موجود تھا۔ چنانچہ شرح صدر کے ساتھ یہاں رشتہ طے ہوگیا۔
میری والدہ جب بیاہ کر اپنے سسرال آئیں تو حضرت میاں امام الدین صاحبؓکو بہت خوشی ہوئی۔ وہ آپ سے حضرت مسیح موعودؑ کی کتابیں اور درّثمین کی نظمیں سنتے اور دعائیں دیتے۔ میری والدہ نے نہ صرف اُن کی دعاؤں کو لفظ بہ لفظ پورے ہوتے دیکھا بلکہ خود بھی خداتعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کیا۔ آپ صوم و صلوٰۃ کی پابند اور تہجد گزار خاتون تھیں۔ سچے خواب دیکھتیں اور اکثر آمدہ حالات سے قبل از وقت آگاہ کردیتیں۔ چنانچہ آپ کو آپ کے خاوند کی وفات اور اُس کے بعد آنے والے مشکل حالات کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے اس طرح تیار کیا کہ سورۃالبقرۃ کی اُن آیات کو آپ کی زبان پر بشدّت جاری کردیا جن میں نقصانات کے ذریعے آزمائے جانے اور مصائب میں صبر کرنے والوں کے لئے خوشخبری کا ذکر کیا گیا ہے۔ آپ نے بھی اُسی وقت اپنے بچوں کو اکٹھا کرکے یہ آیات سنائیں اور ان کی تشریح کرکے آنے والے حالات کے لئے تیار کیا۔ جلد ہی خاوند کی علالت اور پھر وفات کے بعد آپ کو زندگی کا جب بہت بڑا امتحان درپیش ہوا تو اپنوں نے بھی کنارہ کرلیا لیکن آپ نے بچوں کی دنیاوی تعلیم و دینی تربیت نیز اُن کو ایک اچھا احمدی بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ کھانے پکاتے ہوئے اور رات کو بستر میں بچوں کے قریب بیٹھ کر سویٹر وغیرہ بنتے ہوئے کسی نہ کسی بچے کو پڑھائی میں مدد دیتیں یا پھر سب بچوں کو نصیحت آموز کہانیاں سناتیں۔ سلیقہ شعاری کے ساتھ کپڑوں وغیرہ کی صفائی کا ایسا خیال رکھتیں کہ محلّہ والے آپ کے گھریلو حالات کا کبھی اندازہ نہ لگاسکے۔
آپ کی بیوگی کا عرصہ 52 سال پر محیط تھا۔ جب بچے بڑے ہوگئے، اچھی تعلیم حاصل کرکے سب کی شادیاں ہوگئیں تو ایک روز پھر آپ اداس نظر آئیں۔ بہو کے پوچھنے پر بتایا کہ آج بھی میری زبان پر وہی آیات جاری ہوئی ہیں جو میرے خاوند کی وفات سے پہلے جاری ہوئی تھیں۔ بہو نے تسلّی تو دی لیکن چند دن گزرے تھے کہ آپ کے ایک داماد داغ مفارقت دے گئے اور اپنے آخری پیغام میں اپنے چھ کمسن بچوں کی پرورش کی ذمہ داری آپ کے سپرد کردی۔ چنانچہ آپ ایک بار پھر کمرِہمّت کس کر اپنے دو نواسوں اور چار نواسیوں کی تعلیم و تربیت میں لگ گئیں۔ سب کو پڑھایا، پھر شادیاں کیں۔ اور جس روز سب سے چھوٹے نواسے کی شادی تھی، اُسی دن آپ بھی اس جہان سے رخصت ہوگئیں گویا مشن کا آخری مرحلہ طے ہونے کا ہی انتظار کر رہی تھیں۔
محترمہ سردار بیگم صاحبہ غریب رشتہ داروں پر بہت شفقت کی نظر رکھتی تھیں۔ بہت سی بچیوں کو گھر میں رکھ کر دنیاوی تعلیم دلائی، دینی تربیت کی اور متعدّد کی شادیوں کا انتظام بھی خود کیا۔آپ اپنے محلّہ کی 26 سال تک صدر لجنہ رہیں۔ محلّہ کے نادار خاندانوں کا خاص خیال رکھتیں۔ جب 1979ء میں پہلی بار امریکہ گئیں تو اپنے بیٹے کو 23 لوگوں کی فہرست دے کر کہا کہ ہر ماہ اتنی اتنی رقم لفافوں میں ڈال کر ان لوگوں کو رازداری سے پہنچادیا کرو۔
پریشان حال لوگوں کی مدد آپ کی فطرت کا حصّہ تھی۔ قیامِ پاکستان سے قبل آپ پونا (ہندوستان) میں بھی مقیم رہیں۔ وہاں بالائی منزل پر مشہور شاعر عبدالحمید عدم اپنی عراقی بیوی کے ساتھ رہتے تھے جس کا نام ملکیہ تھا۔ ایک روز ملکیہ آپ کے پاس اردو میں لکھا ہوا ایک خط لائی اور پوچھا کہ اس میں کیا لکھا ہے؟ آپ نے پڑھ کر بتایا کہ عدمؔ کی پہلی بیوی کے بیٹے نے اپنے اس خط میں لکھا ہے کہ ہمارے گھر میں بھی فاقے ہیں اور ہم بھوکے ہی سکول جاتے ہیں۔ یہ سُن کر ملکیہ رونے لگی اور کہنے لگی کہ شاید ان حالات کی ذمہ دار وہی ہے۔ پھر آپ کے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ عدمؔ بہت اچھی ملازمت کرتے ہیں لیکن مَیں ہوٹل سے کھانا منگوانے کے لئے کچھ پیسے اپنے پاس رکھ کر باقی رقم عدمؔ کو ہی دے دیتی ہوں تاکہ وہ باقی ضروریات پوری کرسکیں لیکن دراصل وہ شراب اور سگریٹ کے اتنے رسیا ہیں کہ اسی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ آپ نے ملکیہ کو بتایا کہ اگر وہ ہوٹل کی بجائے گھر میں کھانا بنانا سیکھ لے تو اخراجات نصف سے بھی کم ہوجائیں گے اور اگر وہ سگریٹ پینا بھی ترک کردے تو یہ ساری بچت وہ اُس بچے کو بھجواسکتی ہے جس کے خط نے اُسے رُلادیا ہے۔ اُس کی آمادگی دیکھ کر آپ نے اُسے کھانا پکانا سکھایا۔ اُس نے سگریٹ بھی چھوڑ دئے اور آپ کے بیٹے (مضمون نگار) کے ذریعہ ہر ماہ کچھ نہ کچھ رقم عدمؔ کی پہلی بیوی کے نام منی آرڈر کرنی شروع کردی۔ پھر جب بھی اُن بچوں کے خط آتے اور وہ اپنے بہتر ہوتے ہوئے حالات لکھتے تو ملکیہ کو نہ صرف حوصلہ ملتا بلکہ حقیقی خوشی بھی اُس کے چہرے سے پھوٹنے لگتی۔
محترمہ سردار بیگم صاحبہ کا ایک مشغلہ بچوں کو قرآن کریم اور اس کا ترجمہ پڑھانا بھی تھا اور یہ سلسلہ نصف صدی تک جاری رہا۔ آپ رمضان المبارک میں قرآن کریم کے چھ سات دَور کیا کرتیں۔ بہت سا قرآن کریم زبانی یاد تھا۔ رمضان میں لجنہ میں درس بھی دیتیں۔
آپ کا نہ صرف مطالعہ بہت وسیع تھا بلکہ یادداشت بھی حیرت انگیز تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا ایسا مطالعہ تھا کہ کئی روح پرور اقتباسات زبانی یاد تھے۔ حوالہ نکالنے میں مہارت رکھتی تھیں۔کئی شعراء کا کلام بھی ترنّم سے سناتیں جو آپ کو زبانی یاد تھا۔ خداتعالیٰ سے محبت میں کئی اشعار یاد تھے جنہیں بڑے جذب اور وارفتگی کے عالَم میں پڑھا کرتیں۔ مستجاب الدعوات تھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی خواہشات کو اکثر پورا فرمادیتا۔ چنانچہ میرا بیٹا پیدا ہوا تو مَیں نے ان کی گود میں رکھتے ہوئے کہا کہ اس کا نام رکھ دیں۔ کہنے لگیں ڈاکٹر منور احمد۔ مَیں نے حیرت کا اظہار کیا تو کہا کہ مَیں نے اس کا نام خواب میں ڈاکٹر منور ہی رکھا تھا۔ چنانچہ وہ بچہ بڑا ہوکے ڈاکٹر بن گیا۔ آپ بتایا کرتی تھیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل کا ایسا ہی سلوک میرے پڑدادا کے ساتھ بھی تھا۔ انہوںنے میرے والد صاحب کو یہ دعا دی تھی کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کو عالم فاضل بنادے۔ یہ دعا نہایت شان سے اس طرح قبول ہوئی کہ ہم دو بھائیوں نے مولوی فاضل اور مولوی عالم کی ڈگریاں حاصل کیں۔ پھر عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد M.O.L. کی ڈگریاں بھی لیں۔ تیسرے بھائی نے ریاضی میں ماسٹرز کرنے کے بعد امریکہ سے Ph.D. کی۔ چوتھے بھائی نے اکنامکس میں ماسٹرز کرکے امریکہ سے M.B.A. کیا۔ پانچویں بھائی نے امریکہ سے کمپیوٹر سائنس میں MS کرکے M.B.A. کیا۔ ایک بہن نے B.A. تک پڑھا جبکہ دوسری بہن نے سپیشل ایجوکیشن ٹریننگ حاصل کی اور ایک سکول میں ہیڈمسٹریس بھی رہیں۔
محترمہ سردار بیگم صاحب کو آنحضورﷺ سے بہت محبت تھی۔ اکثر سیرت النبیﷺ کے واقعات سناتے ہوئے چشم پُر آب ہوجاتیں۔ آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کے لئے بھی بہت غیرت تھی۔ اگر کوئی حضرت اقدس علیہ السلام کی عزّت پر حملہ کرتا تو اُس پر واضح کردیتیں کہ اگر اُس نے توبہ نہ کی تو خدا اُسے ذلیل و خوار کردے گا۔ ایسے کئی واقعات اُن کی زندگی میں ہوئے۔ مثلاً ایک دفعہ آپ کسی کرنل کے ہاں گئی ہوئی تھیں۔ وہاں ایک میجر کی بیوی بھی آگئی جس نے یہ معلوم ہونے پر کہ آپ احمدی ہیں، حضور علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی۔ آپ نے اُسے تنبیہ کی کہ حضورؑ کا الہام ہے کہ ’’جو بھی تیری اہانت کرے گا اُس کو مَیں ذلیل و خوار کردوں گا‘‘۔ اُس نے بڑی تعلّی سے جواب دیا کہ مجھے اس کی کوئی پروا نہیں، جو تمہارے مرزا نے کرنا ہے کرلے۔ بعد میں کرنل کی بیوی نے آپ کو بتایا کہ اُس واقعہ کے چند دن بعد ہی میجر کسی الزام میں پکڑا گیا، کورٹ مارشل ہوکر سزا پائی اور اُس سے کوٹھی خالی کرالی گئی۔ پھر بولی کہ کاش وہ اُس وقت توبہ کرلیتی جب آپ نے اُسے کہا تھا۔
آپ کو اکثر حضورعلیہ السلام کی زیارت بھی ہوجاتی۔ ایک بار آپ نے اپنے ایک پوتے کی قرآن کریم پڑھتے ہوئے غلطیاں کرنے پر سرزنش کی۔ پھر خیال آیا کہ شاید زیادہ ہی سختی کردی ہے۔ اُسی روز خواب میں آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کو دیکھا جنہوں نے فرمایا کہ تم نے بالکل ٹھیک کیا ہے، قرآن کریم کو ہرگز غلط نہیں پڑھنا چاہئے۔
آپ بہت مہمان نواز تھیں۔ جلسہ سالانہ پر اکثر مہمان آپ کے گھر میں ہی ٹھہرنا پسند کرتے خواہ صحن میں لگے ہوئے خیموں میں جگہ ملے۔ ہمارے چچا کے خاندان کے ساتھ اُن کے ایک دوست بھی ایک بار ٹھہرے اور انہوں نے بتایا کہ اُن کی اہلیہ نے آپ کی تبلیغ اور حُسن سلوک کو دیکھ کر احمدیت قبول کی تھی۔ اسی طرح جب مَیں تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں لیکچرار تھا تو ایک روز شدید بارش ہوئی کہ پانی میں سائیکل چلانا مشکل ہوگیا۔ سارا سٹاف بارش رُکنے کا انتظار کر رہا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ میرا گھر باقی سٹاف کے گھروں کی نسبت نزدیک ہے چنانچہ جب ایک صحتمند مددگار کارکن نے حامی بھری تو مَیں نے چِٹ پر لکھ کر پیغام بھجوایا کہ پندرہ لوگ ناشتہ کے بعد یہاں پھنس گئے ہیں اگر کچھ بنا ہوا ہے تو بھجوادیں۔ آپ کو رقعہ ملا تو فوراً کام والی کو ساتھ ملاکر روٹیاں بنانا شروع کردیں اور پکے ہوئے کوفتوں کے ساتھ ہمیں بھجوادیں۔ میرے ساتھیوں کو یہ پُرلطف دعوت ہمیشہ یاد رہی۔
آپ کو اپنے بچوں سے بہت محبت تھی۔ آپ نے نہ صرف اپنے بچوں بلکہ اُن کے بچوں کے بچوں بلکہ اگلی نسل کے لئے بھی سویٹر اپنے ہاتھ سے بُن کر انہیں تحفۃً دئے جن کی کُل تعداد 56 بنتی ہے۔ آپ نے نہایت سادہ اور قانع زندگی گزاری۔
٭…٭…٭
ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ اگست و ستمبر 2012ء میںمحترمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ کی ایک خوبصورت نعت شامل اشاعت ہے۔ اس نعتیہ کلام میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
خدا کے پیار کی حسین داستان تیرے لئے
تیرے لئے ہے یہ زمین آسمان تیرے لئے
میری بساط کیا کہ آج ایک نعت کہہ سکوں!
تمہارے حسن و خلق کی مَیں ایک بات کہہ سکوں
بنایا اس جہان کو خدا نے تیرے واسطے
زمین و آسمان کو خدا نے تیرے واسطے
اگر مَیں عقل و خرد سے نہ کوئی کام لے سکوں
نہ تیرا کلمہ پڑھ سکوں نہ تیرا نام لے سکوں
زمانہ مجھ سے چھین لے اگر یہ حق تو کیا کروں؟
اگر کہے کہ جھوٹ ہے یہ میرا سچ تو کیا کروں؟
تو زندہ رہنا ہے محال زندگی فضول ہے!
اسے مَیں زندگی کہوں تو پھر یہ میری بھول ہے!
مَیں جانتی ہوں بس یہی کہ تُو مرا رسولؐ ہے
ترے لئے مَیں مر سکوں ، قبول ہے ، قبول ہے