جرمنی کے شہر’’آخن‘‘میں قرآن کریم کے تراجم کی نمائش کا انعقاد
اپریل کے وسط میں جرمنی کے شہر آخن میں جماعت احمدیہ جرمنی کے زیر اہتمام ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا جو پانچ روز جاری رہی۔ نمائش شہر کے پُر ہجوم مرکز میں لگائی گئی اور پانچوں دن تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ اس کے زائرین کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے زائد رہی اور لوگوں کی دلچسپی میں روز افزوں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
آخن شہر جرمنی کے عین بارڈر پر واقع ہے اور بیلجیم اور ہالینڈ کی سرحدوں پر واقع ایک قدیم شہر ہے جو اپنی یونیورسٹیوں، قدیمی چرچ اور یورپ کے ایک بڑے ہسپتال اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ، آئی۔ ڈبلیو۔ پی۔آر۔ کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ اس کی آبادی ڈھائی لاکھ اور اس میں تعلیم کے لئے آنے والے طلباء کی تعداد پچاس ہزار بتائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ گھڑ سواری کی سالانہ کھیلوں کے انعقاد کے حوالے سے بھی یورپ بھر میں مشہور ہے۔
نمائش کا افتتاح IWPR، یونیورسٹی کے پروفیسر گنڈولف بروخ ہاس نے اپنے خیر مقدمی کلمات سے کیا۔
مرکز سے مربیان کا وفد، مقامی صدر جماعت اور ان کی ٹیم اور آخن کے مربی سلسلہ کے علاوہ شعبہ تبلیغ جرمنی کی ٹیم نے اس نمائش کے انتظام و انصرام میں بھر پور حصہ لیا۔
آنے والے زائرین کے لئے ہمہ وقت ڈیوٹی پر موجود خدام اور مربیان تھے جو تعارف کتب اور لٹریچر کے بارے میں معلومات بہم پہنچانے کے علاوہ مہمانوں کے سوالات کے جوابات بھی دیتے رہے۔ اسی طرح مہمانوں کے تاثرات کے لئے رجسٹر بھی موجود تھا جہاں مہمان خوش دلی سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔
مہمانوں کی تواضع، نمائش کے جملہ انتظامات، ضیافت اور دیگر خدمات کے لئے مقامی خدام گروپس کی صورت میں ڈیوٹی دیتے رہے۔
اس نمائش کے حسن انتظام کا مقامی پولیس کے ڈیوٹی افسران پر خاص طور پر اچھا اثر تھا اور ایک پولیس افسر نے اپنی ڈیوٹی کے علاوہ نمائش کا تفصیلی معائنہ اور لٹریچر سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد یہ کہا کہ:
اگرچہ دنیا بھر میں پائی جانے والی اسلامو فوبیا کی فضا کی وجہ سے ایسی نمائش کے لئے ماحول سازگار تو نہیں تھا لیکن آپ کے پیغام اور پُر امن طرز عمل سے اس غلط فہمی کے دور ہونے میں مدد ملے گی جو اس وقت عام طور پر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پائی جاتی ہے اور آپ کے پُر امن مکالمے اور محبت کی فضا سے ہمارے شہر میں بھی باہمی محبت اور ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہو گا۔
نمائش کے زائرین میں عیسائی، یہودی، لا مذہب اور مسلمانوں کے دیگر فرقوں کے لوگ بھی شامل تھے بلکہ مسلمان طلباء اپنے غیر مسلم ساتھیوں کو قرآن کریم کے اتنے زیادہ تراجم بڑے شوق اور فخر سے دکھاتے تھے۔
اپنے والدین کے ساتھ آئے ہوئے بچوں کے لئے بھی یہ جگہ دلچسپی کا باعث بنی رہی کیونکہ ان کی پوری توجہ کے ساتھ چاکلیٹ اور غباروں سے تواضع ہوتی رہی۔