متفرق مضامین

شاہِ حبشہ سے شاہِ برطانیہ تک۔ عیسائی تخت و تاج سے وفاداری کا مسئلہ

(آصف محمود باسط)

برطانیہ کے شاہی خاندان کا تذکرہ ہمیشہ سے ہی ذرائع ابلاغ کی زینت رہا ہے لیکن حال ہی میں ہونے والی ملکہ برطانیہ(Queen Elizabeth II) ایلزبتھ دوم کی وفات کے موقع پر اس خانوادے کے بارہ میں جس قدرکہا اور سنا جارہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح ٹی وی کی سکرین ہو،ریڈیو کے مذاکرے ہوں یا سوشل میڈیا پر بحثیں، قریباً ہر جگہ ہی اس شاہی خانوادے کی بابت ہونے والی گفتگواور مذاکروں میں شرکا مختلف آ را کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں ؛ کچھ تجزیہ کار تو شاہی خاندان کے متعلق  ’’صرف اچھا دیکھو، اچھا سنو،اچھا بولو ‘‘ کی تاکید پر ہی عمل پیرا نظر آتے ہیں جبکہ اس کے بالمقابل بعض آوازیں ایسی بھی ہیں جو اس چمن کے محض خوش رنگ پھولوں کے تذکرہ پر ہی اکتفانہیں کرتیں بلکہ چاہتی ہیں کہ اس سے وابستہ کچھ کانٹوں کا بھی ذکر چلے۔

میری اس تحریر کا محرک ’’بی بی سی ‘‘ پر نشر ہونے والی ایک گفتگو ہے جہاں بحث تھی کہ شاہ انگلستان چارلس (تلفظ: چارلز) سوم (King Charles III) کا عہد کس نام سے موسوم ہو گا؟ کیایہ (Carolean era) دورِ کیرولین کہلائے گا یا معاصرین و مورخین اس عہد حکومت کو (era of the House of Windsor) ونڈسر ( تلفظ : وِنزَر) گھرانے کا ہی شاہی دور سمجھا جائے گا۔ بظاہر دیکھا جائے تو دونوں صورتیں ہی بیک وقت ممکن ہیں، کیونکہ شاہ چارلس سوم ، ونڈسرمحل کے مکینوں کے چشم و چراغ ہیں جس کی روایات کو جاری رکھنے کا بادشاہ خود کئی مرتبہ کر چکا ہے۔ اس موضوع پر مزید بات کرنے سے قبل ونڈسر محل کا کچھ تعارف۔

ونڈسرمحل کا شاہی گھرانہ: ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر (the House of Hanover) ہینووَر گھرانے کے طویل دور شاہی کا اختتام ہوا، کیونکہ اس ملکہ کے بعد تخت شاہی کا وارث بننے والا اس کا بیٹاشہزادہ ایلبرٹ (Prince Albert of Saxe-Coburg & Gotha) کی اولاد تھا۔ یوں شاہِ انگلستان(Edward VII) ایڈورڈ ہفتم کا دور اسی خاندان سے موسوم ہے۔

ملکہ وکٹوریہ

1910ء میں ایڈورڈ ہفتم کی وفات کے بعد اس کا بیٹا تخت نشین ہوا تو اس کو شاہی خطاب کے طور پر شاہ جارج پنجم (King George V)کا نام دیا گیا۔ یوں ہر خاص و عام کی نگاہ میں یہ نیا قلمرو بھی پہلے بادشاہ کے دور کا ہی تسلسل بنا۔ تاہم شاہ انگلستان جارج پنجم کا دور حکومت براعظم یورپ کے سیاسی افق پر ہونے والی ہنگامہ خیزیوں کے باعث بطور خاص متاثر ہوا۔

ایک طرف شاہ جرمنی قیصر ولہیلئم ثانی (Kaiser Wilhelm II) اپنی ہی رعایا کے غیر معمولی احتجاج کے سامنے نہ ٹھہر سکا تو دوسری طرف شہنشاہ روس (Tsar Nicholas II)زار نکولس دوم کو بھی اس کی اپنی رعایانے تخت شاہی سے اٹھا کر حالت زار تک پہنچاڈالا تھا۔ یاد رہے کہ یہ دونوں صاحبِ ثروت بادشاہ شاہان یورپ میں ایک خاص مقام رکھتے تھے اور دونوں بادشاہ ملکہ وکٹوریہ کی اسی طرح اولاد میں سے تھے جس طرح شاہِ انگلستان جارج پنجم تھا۔

شاہ جرمن قیص ولہلئم ثانی

شاہ جارج پنجم نے اپنے دونوں قریبی عزیزوں کے عبرت ناک انجام کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ وہ جرمن خون او ر نسب سے نہ صرف خود کو الگ کرلے بلکہ برطانوی شاہی خاندان کا بھی نیا قبلہ بنادے۔ شاہِ برطانیہ کے لیے ان نئے اور اہم فیصلوں میں چنداں تاخیر نہ کرنے کا دوسرا بڑا سبب وہ مخالف و تندعوامی جذبات تھے جوجنگ عظیم اول کے تناظرمیں سلطنت برطانیہ کے اندر بڑی تیزی سے پنپ رہے تھے۔

یوں شاہ انگلستان جارج پنجم نے 1917ء کے موسم گرما میں درج ذیل شاہی فرمان جاری کیا:

 ’’جبکہ ہم نے، اپنے شاہی گھرانے اور خاندان کے نام اور خطابات کی بابت، یہ طے کیا ہے کہ اب سے ہمارے گھرانے اور خاندان کو ونڈسر کے گھر اور خاندان کے نام سے جانا جائے گا:

اور جب کہ ہم نے آئندہ اپنے لیے اور اپنی اولادوں کے لیے اور اپنی معزز دادی ملکہ وکٹوریہ کی دیگر تمام اولادوں کے لیے تمام جرمن خطابات اور مراتب و اعزازات کے استعمال کو ترک کرنے اور استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس لیے، اب، ہم، اپنی شاہی مرضی اور اختیار سے، یہ اعلان عام کرتے ہیں کہ اس شاہی اعلان کی تاریخ سے ہمارے گھرانے اور خاندان کو ونڈسر کے گھرانے اور خاندان کے نام سے جانا جائے گا، اور یہ کہ ہماری مذکورہ بالا دادی ملکہ وکٹوریہ کی نرینہ اولادیں جو اس شجرہ سے منسوب اور تابع ہیں،نیز ان خواتین کی اولاد وں کے علاوہ جو شادی کریں گی یا شادی کر چکی ہیں، ونڈسر کے نام سے موسوم کریں گے۔

اور اس شاہی اعلان کے ذریعے مزید فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ ہم اپنے لیے اور اپنی اولاد کی طرف سے اور اپنی مذکورہ بالا دادی ملکہ وکٹوریہ کی دیگر تمام اولادوں کی طرف سے جو اس شجرہ سے منسلک اور اس کے تابع ہیں وہ سب لوگ دیگر تمام سابقہ جرمن خطابات و اعزازات وغیرہ سے مکمل طور پر دستبردار ہو تے ہیں اور ان القابات کا استعمال ترک کرتے ہیں۔

(The London Gazette, 17 July 1917, Number 30186.)

شاہ برطانیہ چارلس سوم

آج سلطنتِ برطانیہ کے تخت شاہی پر شاہ چارلس سوم موجود ہیں جو ونڈسر گھرانے کے فرزند اورردائے شاہی سپرد ہونے پر اس کے امین ہیں۔ بادشاہ کے سپرد اس امانت پر آگے چل کر بات ہوگی، یہاں اس سوال کا جواب ضروری ہے جو آج کل کچھ زیادہ تیزو تند لہجے اور انداز میں اٹھایا جارہاہے۔

جماعت احمدیہ کی تاجِ برطانیہ سے وفا شعاری

ملکہ ایلزبتھ دوم کی وفات کے موقع پر دنیا بھر کے میڈیاچینلز نے اور بطور خاص برطانوی میڈیا جہاں اس کے لیے تعظیمی کلمات نشر کیے وہاں مخصوص حلقوں میں ملکہ برطانیہ کے استعماریت (colonialism) سے ناطوں اور سفید فام برتری(White supremacy) کے حوالہ سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

یوں اس پس منظر میں جماعت احمدیہ کی تاجِ برطانیہ سے وفاداری کی تاریخ پر بھی باتیں ہورہی ہیں جس حوالہ سے اصل حقیقت سامنے لانا ضروری ہے۔

جماعت احمدیہ کی تاج برطانیہ سے وفاداری کے سلسلوں کاآغاز بانی جماعت احمدیہ مسلمہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی تحریرات سے ہی شروع ہوتا ہے، جن کی ولادت برطانوی راج کے عہد میں ہوئی اور آپ کی ساری زندگی تاج برطانیہ کے زیرِحکومت ملک ہند وستان میں ایک شہری کےطور پر بسر ہوئی۔

دیکھا جائے تو مذکورہ بالا حقیقت ہی آپؑ کی وفاداری کے سبب کے طور پر کافی ہے، اور یہی امر آپؑ کی اس واضح تعلیم کی اساس ٹھہرتا ہے کہ ہندوستان میں حکومت وقت یعنی تاج برطانیہ کی اطاعت سب رعایا پر فرض ہے۔ کیونکہ یہی درست اسلامی تعلیم ہے کہ ہر شہری پر حکومت وقت کی اطاعت و وفاداری لازم ہے۔

یاد رہے کہ آپ نے بارہا یہ نکتہ اپنی تحریر و تقریر میں بیان فرمایا ہے کہ اہلِ ہندوستان پر برطانوی راج کی وفاداری اس وجہ سے لازم ہے کہ اس حکومت نے اپنے تمام شہریوں کو یکساں مذہبی آزادی مہیاکی ہےاور یہی وہ بنیادی حق ہے جس کی حفاظت کرنے میں سابق مقامی حکمران یکسر ناکام رہے تھے۔ برصغیر کے طول و عرض میں جہاں عیسائیوں کو مذہبی آزادی میسر تھی وہاں دیگر تمام مذاہب اور اقوام کے ماننےوالوں کی طرح مسلمان بھی اپنی عبادات اور اپنے ایمان و عقائد کی تبلیغ میں مکمل آزاد تھے۔

یاد رہے کہ یہ صرف حضرت مرزا صاحب کی ہی ذاتی روش اور آواز نہیں تھی جوبرصغیر کے مسلمانوں کو حکومت وقت کی وفاداری کی طرف بلارہی تھی بلکہ وسیع و عریض ملک ہندوستان میں جگہ جگہ مسلمان علماء اور مسلم انجمنوں کی بھی ایک بھاری تعداد بھی عوام کی مذہبی آزادی کو یقینی بنانے پر حکومت وقت کی وفاداری کا اقرار اور اعلان کررہی تھیں۔

برطانیہ اور برطانوی ہندوستان کے تاریخی ریکارڈ میں ہندوستان بھر سے فلاں انجمنِ اسلام اور فلاں مسلم جماعت کی طرف سے قیصرہ ہند ملکہ وکٹوریہ کی جانب بھیجے گئے وفاداری کے اقرار پر مبنی مراسلے اور ان کے جوابات آج بھی محفوظ ہیں۔

پس جب مذکورہ بالا سوال کا جماعت احمدیہ کی طرف سےتسلی بخش جواب دے دیا جاتا ہے تو اگلا سوال یہ ہوا کرتا ہے کہ جماعت احمدیہ کو کیوں وہ مظالم پیشِ نظر نہیں رہتے جوبرطانوی حکام نے نوآبادیات کےدور میں اپنی مفتوح اقوام پر ڈھائے تھے۔

اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں براعظم یورپ کی تاریخ کے اس دور پر نظر ڈالنا ضروری ہے جب سامراجیت نے اپنی طاقت اور قبضہ کو وسعت دینا شروع کی اور نوآبادیات کی مہمات نے مشرق و مغرب کا رخ کیا۔

یاد رہے کہ طاقت وَر بادشاہتوں کی طرف سے کمزور اقوام اورناتوان حکومتوں پر قبضہ کرکے ان کو اپنا دست نگر بنانے کی روش صدیوں پرانی ہے نہ کہ براعظم یورپ کی ایجاد۔کیونکہ مستحکم بادشاہوں اور عسکری طور پر مضبوط سلطنتوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ خِطوں اور قوموں کو زیر نگین کرلینے کی ہوس کسی ایک زمانے او رخطے تک محدود نہیں ہے۔ حتیٰ کہ سلطنت اسلامی پر بھی اس کے عروج کے زمانہ میں ہونے والی توسیع پر آج تک سوال اٹھائے جارہے ہیں۔

سلطنتِ عثمانیہ جو بانی اسلام حضرت محمدﷺ کی جانشینی کا بلند و بانگ دعویٰ بھی رکھتی تھی، اس کا دامن بھی زیادہ سے زیادہ خطوں کو زیرِ نگیں کرنے سے پاک نہیں ہے اور ان سلاطین کی طرف سے اپنی سلطنت کی سرحدوں کو دور دراز تک پھیلانے اور ہوس اقتدار میں ہر جائز و ناجائز طریق اور نہایت بےشرمی سے ہر ظلم وستم کو بھی روا سمجھا گیا۔

قابلِ غور بات ہے کہ جب ہندوستان میں قریہ قریہ تحریکِ خلافت کے نام پر برصغیر کے مسلمانوں سے مالی اور حالی خدمات طلب کی جارہی تھیں تب تک اس تحریک کے عمائدین کی یادداشتوں سے سلطنتِ عثمانیہ (یا نام نہاد خلافتِ اسلامیہ) کی طرف سے آرمینیا کے غیر مسلم باشندوں کے قتل عام جیسی وارداتیں محو تو نہ تھیں۔

کیونکہ تب مسلمانان ہند کی طرف سے سلطنت عثمانیہ کی مدد مذہبی جذبے کے ماتحت کی جارہی تھی اور برصغیر کی مسلم عوام عثمانی بادشاہ کے سیاسی عزائم اور جغرافیائی توسیع پسندی سے صرف نظر کررہی تھی۔ تب مسلمانانِ ہند کی نظر میں ترکی ؛جو عثمانی سلطنت کا مرکز تھا، ایک ایسا خطہ تھا جہاں مسلمان رعایا ایک مسلمان بادشاہ کے ماتحت امن و سکون سے زندگی گزار سکتے تھے۔

تحریکِ خلافت کی اسی علت غائی کو مرکزی خیال مان کر مسلمانان ہند نے عثمانی ملوکیت کی طرف سے اپنی سلطنت کو وسیع کرنے کی فوجی مہمات اور عسکری کارروائیوں سے صرفِ نظر کیا اور سلطنتِ عثمانیہ اور عثمانی بادشاہ کو بچانے کے لیے میدان میں اتر آئے۔

مسلمان ایک عیسائی بادشاہ کی سلطنت میں

یہ تو دور جدید کی ایک مثال ہوئی۔ اب کچھ تاریخ کا سفر کرتے ہیں۔ یہ بات ہے ابتدائی دور اسلام کی جب بانی اسلام حضرت محمدﷺ کو اعلانِ نبوت کیے ابھی پانچ ہی بر س گزرے تھے اور اہل مکہ کی دشمنی اور سفاکیوں سے مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن ہوچکی تھیں۔ آپﷺ نے اپنے متبعین کو دینِ اسلام کے مطابق آزادانہ عبادت کرنے اوربلاخوف و خطر زندگیاں گزارنےکے لیے سلطنت اکسوم (معروف بہ حبشہ)کے دارالحکومت کی طرف ہجرت کا حکم دیا۔ یوں مسلمانوں کا ایک گروہ اپنا گھر بار چھوڑ کر حبشہ میں زندگیاں گزارنے چلا گیا۔ یاد رہے کہ یہ سلطنت اکسوم ان چار بڑی بڑی بادشاہتوں میں سے ایک تھی جو زمانہ قبل از اسلام اور ظہورِ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جزیرہ نما عرب کے اردگرد قائم اور آباد تھیں۔

مسلم مورخین، خواہ ان کاتعلق ابتدائی دور سے ہو یا زمانہ حال سے، اس بات پر متفق ہیں کہ ’’یہ عین اسلامی تعلیم ہےکہ جس ملک میں ناانصافی کا راج ہوجائے، اور ظلم وزیادتی ہی مملکت کا آئین بن جائے، اس جگہ کو چھوڑ دینا اور کسی ایسے ملک کی طرف ہجرت کرجانا جہاں مسلمان اکٹھے اپنی قوت کو مجتمع کرسکیں تا اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کا انصرام کرسکیں۔ تاریخ اسلام میں اصلاحی اور تجدئدی تحریکوں کا ہر دور میں یہی طرز عمل رہا ہے ‘‘ ۔

 (Mohamed El Fasi and I Hrbek, The coming of Islam and the expansion of the Muslim Empire, in General History of Africa III: Africa from the Seventh to the Eleventh Century, Heinemann Educational Books, London, 1988)

یہی اسلامی تعلیم ابن اسحاق اور ابن ہشام جیسے ابتدائی مورخین نے بھی اپنی کتب میں درج کی ہے اور علمائے متقدمین میں سے علامہ طبری، ابن کثیراور ابن خلدون نے بھی اپنی تصنیفا ت میں اسی تعلیم کا اعادہ کیا ہےاور ہجرت کا اسلامی فلسفہ بیان کرتے ہوئے مسلم علماء میں سے ابن الجوزی، جلال الدین سیوطی اور محمد بن عبدالباقی البخاری المکی وغیرہ نے بھی یہی بیان کیا ہے۔ ماہرین علومِ اسلامیہ کی طرف سے ہجرت کے موضوع،اس کی شرائط، اس کے اجروثواب اور دیگر متعلقہ سوالات پر سینکڑوں نہیں تو ہزاروں کتب لکھی جاچکی ہیں، وہ سب مذکورہ بالا بیان کی ہی تائید کرتی نظر آتی ہیں۔

یوں محقق حسین احمد نے بالکل برحق لکھا ہے کہ ’’ہجرت حبشہ اپنی ذات میں 622عیسوی میں ہونے والی ہجرت مدینہ کے ہی ہم پلہ اور اسی کی طرح نتیجہ خیز رہی‘‘

(Hussein Ahmed, Aksum in Muslim Historical Traditions, in Journal of Ethiopian Studies, December 1996, Institute of Ethiopian Studies)

یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ مذکورہ بالا تمام مسلم علماء اور محققین نے ہجرت حبشہ کے ضمن میں کہیں اشارة ً بھی ذکر نہیں کیا کہ ملک حبشہ میں تو ایک عیسائی بادشاہ حکمران تھا جس کے پاس پناہ کی تلاش میں مسلمان جا پہنچے تھے۔ اور کیونکر صحابہ جیسے عالی قدر ایمان والے مسلمانوں نے ایک عیسائی سلطنت کی طرف ہجرت کی اور ایک عیسائی بادشاہ کے پاس پناہ گزین ہوئے۔ یقینا مسلم علماء کی یہ خاموشی ہی جواب ہے کیونکہ ہر دور کے ذی علم طبقہ کے نگاہ میں مسلمانوں کا یہ فعل سراسر جائز تھا۔

(Muhammad Husein Haykal, The Life of Muhammad, translation by Ismail Raji al-Faruqi, Islamic Book Trust, Kuala Lumpur, 2002)

ابتدائے اسلام میں اس نئے دین کو قبول کرنے والے ان مسلمانوں کے ایک عیسائی بادشاہ کے پاس پناہ گزین ہوجانے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے، کہ ان سب نے بانی اسلام حضرت محمدﷺ کے ہی ایما اور حکم پر ایک عیسائی سلطنت کا رخ کیا تھا۔ نہ صرف یہ کہ کوئی ہجرت حبشہ پر اعتراض نہیں کرتا ہے بلکہ اس عیسائی بادشاہ کے بیدار مغزاورانصاف پسند ہونے، اس کے اپنی سلطنت میں قائم کردہ عدل وانصاف کے اعلیٰ معیار اور دیگر خوبیاں پرہر دور کے سب مسلمان عوام و خواص رطب اللسان رہی ہیں۔

اور اس کی ایک سادہ سی وجہ، جس سے کسی مسلمان کو اختلا ف نہیں ہوسکتا، یہ ہے کہ اس عیسائی بادشاہ نے ایک مظلوم جماعت کو نہ صرف اپنی پناہ میں لے لیاتھا بلکہ انہیں اپنے عقیدے پر عمل کرنے اور سلطنت کی مقامی رعایا کے مساوی حقوق بھی دیے تھے۔

شاہِ حبشہ نجاشی کے کارِ خیر کے گن گانے والوں میں سے کسی کو اس بات سے سروکار نہیں کہ اکسوم کی بادشاہت کیسے وجود میں آئی، براعظم افریقہ کے ایک خاص کنارے پر واقع سلطنت کی بنیادوں میں کتنا خون بہایا گیا تھا اورکتنی ہی فوجی مہمات نے روایتی جبر و استبداد کا مظاہرہ کیا تھا، جس کے بعد اس عیسائی سلطنت کو استحکام نصیب ہوا۔

مسلمانوں کی ہجرت سے صدیوں پہلے کس طرح اکسوم کے سابقہ ​​بادشاہوں نےدورحاضر کے ملک سوڈان کی سرحد کے قریب واقع ’’ساسو‘‘ نامی علاقہ سے سونا حاصل کرنے کے لیے فوجی مہمات بھیجی تھیں،یہ بھی نجاشی کی مسلمانوں کے لیے دکھائی گئی رحم دلی کے آگے ہیچ ہے۔

(The Christian Topography, by a sixth-Century Christian monk Cosmas Indecopleustes, translation by JW McCrindle, Hakluyt Society, London, 1897; quoted by David W Phillipson, Foundations of an African Civilisation, James Currey, Suffolk, 2012)

کسی کوکچھ سروکار نہیں ہے کہ وہ تاریخ کو کھوج کر دیکھے کہ کس طرح اکسوم کے بادشاہ کلیب نے جو نجاشی اصحمہ بن ابجرکے پیش رو بادشاہوں میں سےتھا، عسکری طاقت کی بنا پر جنوبی عرب (موجودہ ملک یمن کا علاقہ) کی حمیرائی سلطنت پر فتح حاصل کی۔ اورنہ ہی کوئی ان تفصیلات کو اہم سمجھتا ہے کہ اس حملہ آور بادشاہ نے اس نئی سرزمین کو فتح کرکے حمیری بادشاہ کو زیر نگین کیا اور اس مفتوحہ ملک میں اپنے اکسومی وائسرائے کو انصرام سپردکیا تھا۔

(Procopius, History of the wars II, translation by HB Dewing, Harvard University Press, 1916)

سلطنتِ ایبی سینیا

اکسوم پر فوجی قبضے کے خلاف اہلِ حمیر کی بغاوت پر بازنطینی شہنشاہ جسٹن کاطرز عمل بھی سب کو بھول جاتا ہے، جس نے نہ صرف کلیب کوحمیریوں کی بغاوت کی سرکوبی کرنے کی ترغیب کی تھی بلکہ اس کی ہر طرح سے حمایت کرنے کا وعدہ بھی کیاتھا اور اس وعدہ کو عسکری قوتیں مہیا کر کے پورا بھی کیا تھا۔ اسی طرح اہل فارس کے خلاف کلیب کی دیگر فوجی مہمات کبھی موضوع بحث نہیں بنتیں جن میں کشور کشائی کے لیے بے حساب خون بہایاگیا تھا۔ (ایضاً)

یہ بات عام بیان نہیں ہوتی، مگر یہاں سیرت ابن ھشام کے حوالہ سے تحریر کی جاتی ہے کہ صحابی رسولؐ حضرت زبیر بن العوام ؓ نے نجاشی کی فوج کے ساتھ ایک مقامی بغاوت کو فرو کرنے میں بھی حصہ لیا تھا۔

سیرت ابن ھشام میں روایت ہے کہ ’’ایکاایکی ایک مقامی حبشی شاہ حبشہ نجاشی کی مخالفت پر اتر آیا اور اس کی حکومت سے کشمکش کرنے لگا۔ اللہ کی قسم! میں نے اپنے لوگوں یعنی صحابہ کو اس وقت سے زیادہ رنجیدہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس ڈر سے کہ کہیں اس شخص نے نجاشی پر غلبہ پالیا تو ایسا شخص آئے گا۔ جو ہمارے وہ حقوق نہ سمجھے گا جو نجاشی سمجھتا تھا۔ پھر نجاشی اس کے مقابلہ کے لیے چلا اوران دونوں کے درمیان دریائے نیل کاعرض تھا۔ رسول اللہﷺ کے اصحاب نے کہا کہ کون ایسا ہے جو باہر نکلے…زبیر بن العوام نے کہا کہ میں اس کام کو سرانجام دونگا۔ ان لوگوں نے کہا کہ تم یہ کام کروگے۔ حالانکہ وہ سب سے زیادہ کمسن تھے۔ سب نے ان کے لیے ایک مشک میں ہوا بھردی۔ حضرت زبیرؓ نے اس مشک کو اپنے سینے کے نیچے رکھا اور تیرتے چلے گئے یہاں تک کہ نیل کے کنارے میدان کارزار تک پہنچ گئے…

روایت کرنے والی بتاتی ہیں کہ ہم لوگ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ رہے تھے کہ نجاشی اپنے دشمن پر غلبہ پائے اور اپنے ممالک میں اس کو پوری قدرت حاصل رہے… اللہ کی قسم، ہم اسی حالت میں تھے کہ ایکا ایکی حضرت زبیر نکلے اور وہ دوڑتے چلے آرہے تھے اور اپنی چادر سے اشارہ کررہے تھے کہ خوش ہوجاؤ کہ نجاشی نے فتح پائی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے دشمن کو برباد کیا اور نجاشی کو اپنے ملکوں میں اقتدار حاصل ہوگیا ہے۔

حضرت ام سلمہ روایت کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ اللہ کی قسم! میں نے اپنے لوگوں کی اس وقت کی سی خوشی بھی کبھی نہیں دیکھی۔ اس کے بعد نجاشی ایسی حالت میں واپس ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے دشمن کو برباد کرڈالا تھا اوراس کو اس کے ملکوں میں پورا اقتدار حاصل ہوگیا اور حکومت حبشہ اس کے لیے مستحکم ہوگئی اور ہم اس کے پاس بڑی عزت سے رہے۔ ‘‘

(سیرت ابن ھشام، حصہ اول، اردو ترجمہ، صفحہ 344، باب: فرح المھاجرین بنصرة النجاشی علی عدوہ)

یوں مسلمان پناہ گزینوں نے شاہ حبشہ نجاشی کے نیک عمل کا بدلہ دیا اور اکسوم کی عیسائی سلطنت سے اپنی وفاداری اور اطاعت کا اظہار کیا۔ اس سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شخص بیک وقت کسی غیر مسلم حکمران کے ساتھ سیاسی وابستگی بھی رکھ سکتا ہے،اور کسی نبی یا خلیفہ کے ساتھ اپنی روحانی بیعت بھی کماحقہ نبھا سکتا ہے۔

یوں حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدمصلح موعود ؓ کے اس موقف کی بھی تائید ہوتی ہے جب تحریکِ خلافت کے دنوں میں آپؓ  نے سمجھایا تھا کہ جماعت احمدیہ کے افراد آپ سے خلیفہ کے طور پر بیعت کرتے ہیں، اور ہندوستان پر حکمران بادشاہ جارج پنجم کو زمینی حاکم کے طور پرمانتے ہیں اور اس لحاظ سے اس کے وفادار ہیں۔ حکومت وقت سے اطاعت اور وفاداری کا تعلق رکھنا ایک سراسر اسلامی فعل ہے اور اس کاہرگز یہ مطلب نہیں کہ کسی نے اپنے ایمان پرہی سمجھوتہ کرلیا ہے۔ اور نہ ہی حکومت وقت سے وفاداری کا یہ مطلب ہے کہ ایسا شخص بادشاہ کے حکم پر ہونے والی ملک کی تمام سیاسی سرگرمیوں کا حصہ ہے۔

(ترک موالات اور احکام اسلام۔انوارالعلوم۔جلد5 )

واپس حبشہ چلتے ہیں اور ملتا ہے کہ جزیرہ نما عرب کی جنوبی پٹی پر حمیر کے تخت پر ابرہہ کو شاہ اکسوم کی طرف سے وائسرائے مقرر کیا گیا تھا۔ جی ہاں ! وہی ابرہہ جس نے ہاتھیوں پر سوار ایک بھاری نفری کے ساتھ حمیر میں اپنے مرکز سے کعبۃ اللہ کی عمارت کو ڈھانے اور صنعاکے علاقہ میں قائم اپنے کلیسا کی بالادستی قائم کرنے کے ارادے سے مکہ مکرمہ کی طرف پیش قدمی کی تھی۔

(AJ Drewes, Inscriptions de l-Ethiopie Antique, Leiden, Brill, 1962, and quoted by DW Phillipson)

پس آج مسلمانوں کے لیے صرف ایک ہی بات اہمیت رکھتی ہے اورصرف یہی اہمیت دینے کے قابل بھی ہے، یعنی شاہِ حبشہ نجاشی کے زیر سایہ ابتدائے اسلام کے کمزور اور بے سہارا مسلمانوں کی پناہ گزینی۔ اور اس وقت صحابہ رسولؐ نے عیسائی بادشاہ نجاشی کے ساتھ اپنی وفاداری اور اطاعت کے عہد کو نہ صرف زبانی بلکہ یکساں طورپر عملی رنگ میں خوب نبھایا، یہ ایک ایسی لازوال مثال ہے کہ آج تک غیر مسلم حکمرانوں کے ما تحت رہنے والے مسلمانوں کے لیے ایک نمونہ ہے،تاوقتیکہ کہ یہ غیر مسلم حکومتیں آزادیٔ مذہب کے حق کو پامال نہ کرتی ہوں۔

ابرہہ کی خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کی مذموم کوشش کے بارے میں اس نوٹ کو ختم کرنے سے قبل میں مختصراً یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ اکسوم کے بادشاہ کلیب نے ابرہہ کی عرب کی دو مہمات پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا، جن میں سے ایک وہ ہے جو قرآن کریم کی سورۃ الفیل میں مذکور ہے۔ اکسوم میں تخت نشین شاہِ حبشہ نے ان ناواجب مظالم کی مذمت کرتے ہوئے ابرہہ سے سیاسی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھاجبکہ ابرہہ خود کوحمیر کی سلطنت کے بادشاہ کے طور پر مسلط کرچکا تھا۔ یوں شاہ حبشہ نے خود کو اپنے نام پر ہونے والی بربریت سے لاتعلق کر لیا تھا۔

یہاں اس دلچسپ اور اہم امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ بادشاہتیں تاریخ کے کسی موڑ پر ایک خطِ تقسیم کھینچ کر نئے سرے سےمعاملات کا آغازکیا کرتی ہیں۔ جرمن خطابات ترک کرکے برطانوی بادشاہت نے خود کو ونڈسر گھرانے کے طور پر متعارف کرنے کا جو شاہی فرمان جاری کیا تھا، اس کو ماضی و حال کے تناظر میں خوب سمجھا جاسکتا ہے۔

پس جس طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے معزز اصحاب نے سیاسی، نظریاتی اور مذہبی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کرشاہ حبشہ نجاشی کے شکر گزار رہے، ہم بحیثیت احمدی مسلمان آپﷺ کی مثال کی پیروی میں برطانوی بادشاہت کے لیے احسان مندی کے مخلص جذبات کے ساتھ شکرگزار ہیں۔ تاج برطانیہ نے جماعت احمدیہ مسلمہ کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے مظلوم و لاچار فرقوں کے لیے بھی وہی رحم اور شفقت کا دامن وسیع کیا ہوا ہے۔ حال ہی میں لندن کی ریجنٹ پارک مسجد میں مسلمان بچوں کا “God save our glorious king” ترانہ پڑھنا بتاتا ہے کہ اب برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کے بعض دیگر حلقے بھی اس حقیقت کے قائل ہوتے جاتے ہیں۔

ونڈسر گھرانے کے آغازپر دنیا کی حالت

شاہ جارج پنجم کے سوانح نگار (John Buchan) نے اس وقت کے معاشرے کا خوب نقشہ کھینچا ہے جب ونڈسر گھرانے کا دور شروع ہوا تھا:

 ’’عہد وکٹوریہ کے اعتقادات پر تیزی سے ترقی کرتے سائنسی علوم کا زبردست حملہ جاری تھا…

’’مشہور ومعروف عقائد اور روایتی عقائد سب عوامی رجحانات کے سامنے یکساں متزلزل تھے۔

 ’’معاشرے میں فکری بنیادوں کے کمزور ہونے کے ساتھ تہذیب وثقافت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی، جس کا براہ راست اثر معاشرے میں باہمی امن و امان کی صورت حال اور لوگوں کی عمومی بہبود پر بھی ہورہا تھا۔

 ’’معاشرے سے خدا خوفی کا مزاج ختم ہورہا تھا۔

 ’’تب لوگوں کی دنیاوی زندگی ایک مضبوط اورمشترک عقیدہ اور مقصد کے بغیرچل رہی تھی جو غلط فہمیوں اور طرح طرح کے نئے رحجانات سے بھرتی جارہی تھی۔۔

 ’’الغرض ایسی سخت مشکلات اوراختلاف آراء کے ماحول میں اس نئے دور کا آغاز ہوا۔

 (John Buchan, The People’s King: George V: A Narrative of Twenty-Five Years, Houghton Mifflin Company, Boston, USA, 1935)

بلاشبہ یہ مذہبی دیوالیہ پن کا آغاز تھا۔ ایمانیات کے اس نقصان اور خرابی کے نتیجے میں معاشرے میں اخلاقی تنزلی نے جنم لیاجوپہلے لوگوں کو باہمی تنازعات کی طرف لے جاتی رہی اور یہی امر جنگوں کا پیش خیمہ بنا۔ تب تک، انگلستان لوگوں کو مسیحی عقیدے کی طرف بلانے کے لیے اپنے لوگوں کو منّاد بنا کر ’’کفار’‘کے ملکوں کی طرف بھیجاکرتا تھا۔ لیکن جب پیچھے اپنے گھر میں ایمان کے انحطاط اور یقین کے زوال کا سفر جاری ہو، وہاں بھلا تبلیغی کوششیں کچھ معتبر ہو سکتی ہیں ؟

پہلی جنگ عظیم کے بعد نوآبادیات کے مقامی لوگوں میں قومی تشخص کا جذبہ بیدار ہوچکا تھا۔ اور وہ پہلے سے کہیں زیادہ سخت لہجے میں آزادی کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ اور لہجے کی یہ ترشی سامراجی آقاؤں کے لیے بالکل نئی تھی۔ یوں مذہبی اور سیاسی مشکلات کے اس امتزاج نے تاج برطانیہ کو ایک مفاہمت کا راستہ تلاش کرنے کی راہ دکھائی جہاں اس کی رعایا کے سیاسی نظریات اور مذہبی عقائد کا احترام کیا جائے۔

آزادی مذہب اور ونڈسر گھرانہ

یہ حقیقت واضح طور پر باور ہوچکی تھی کہ اب وقت آگیا ہے کہ نہ صرف سلطنت کے جغرافیائی اورسیاسی مقبوضات کو واپس کیا جائے بلکہ نوآبادیاتی ملکوں میں سرگرم مشنری سوسائٹیوں کے جال کو بھی واپس سمیٹ لیا جائے۔

شاہ جارج پنجم

وقت کا دھارا بدل چکا تھا، ایک بالکل نوزائدہ مسلم فرقہ اپنے کم وسائل کے باوجود اب اپنے مبلغین کو لندن بھیجنے والا تھا جو وسیع و عریض برطانوی سلطنت کا مرکز تھا۔

شاہ انگلستان جارج پنجم کے دور حکومت کے ابھی صرف دو ہی سال ہوئے تھے کہ سنہ 1912ء میں جماعت احمدیہ مسلمہ کا پہلا مبلغ ’’ووکنگ‘‘ میں اترا،اور پوری تیاری کے ساتھ برطانوی عوام کو دعوت اسلام دینے لگا۔ابھی ایک اور سال گزرا ہوگا کہ احمدیہ مشن،شہر لندن کے مرکز میں واقع Edgware Road سے متصل ایک گلی میں قائم ہوگیا۔ یہ مقام بکنگھم پیلس اور برطانوی پارلیمنٹ کے ایوانوں سےمحض چند گھڑیوں کی مسافت پر تھا۔یوں برطانوی سلطنت کے مرکز میں احمدیہ مشن نے تبلیغ اسلام کام شروع کردیا۔

پروفیسر Ron Geaves کی تحقیق میں درج ہے کہ ’’برطانیہ میں اسلام کی تبلیغ اور یہاں مشن کے قیام کے لیے ہندوستانی مسلمانوں کی پہلی منظم کوشش بیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اوائل میں احمدیہ مشنریوں کی آمد کے ساتھ ہوئی۔ ‘‘

(Ron Geaves, Islam and Britain: Muslim mission in an age of empire, p67, Bloomsbury, London, 2018)

شاہ برطانیہ جارج پنجم کے عہد میں ایک بالکل چھوٹے سے مسلمان فرقے کی یہ جرات مندانہ کوشش کہ وہ مالی وسائل کے لحاظ سے قریبا تہی دامن ہوتے ہوئے لندن میں مسلمانوں کا تبلیغی مرکز قائم کردیں یقینا ایک حیرت انگیز امر ہے۔

برطانوی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ احمدی مبلغین نے برطانیہ کے تقریباً ہر حصے میں اسلام کی تبلیغ میں مصروف کار ہوگئے۔ یہ مجاہد ایک دن، پلائی ماؤتھ میں لیکچر دیتے ملتے ہیں تو اگلے دن برائٹن میں مصروف کار ہوتے۔ ایک ہفتہ وہ پورٹ سمتھ میں وعظ کررہے تھے، جس کے بعد وہ لیورپول اور ملک کے دور دراز شمالی حصوں کے لوگوں سے خطاب کر تے پائے جاتے۔ اس انتھک کوشش کے نتائج بھی پوشیدہ نہیں تھے جیسا کہ برطانیہ میں اسلام کی تاریخ کے ماہرین نے مشاہدہ کیا ہےکہ

 ’’لندن میں اس نئے مذہب کو اختیار کرنے والے زیادہ تر متوسط ​​اور اعلیٰ طبقے کے مرد اور خواتین تھے جو عیسائیت کے متوازی متبادل مذہبی اور روحانی سفر کی تلاش میں تھے۔ ‘‘

(Ibid, p 68)

1920ء تک جماعت احمدیہ کے مبلغین لندن کے علاقہ ساؤتھ فیلڈز میں دو مکان خریدچکے تھے جن کے عقبی باغیچوں سے ملحق ایک وسیع باغ بھی تھا۔ سلطنت برطانیہ کی کرۂ ارض پر پھیلی اراضی میں سے اس ایک ایکڑ کے ٹکڑے کی خریداری کےدن سے یہ بالکل واضح تھا کہ یہ جگہ احمدیہ مسجد کی تعمیر کے لیے خریدی گئی ہے۔علاقہ کے مقامی حکام کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت سےبھی اس مقصد کی تصدیق ہوتی ہےنیز 7؍ فروری 1921ء کے مشہور اخبار دی ٹائمز کی رپورٹ اور باقی برطانوی ملکی اور مقامی اخبارات ورسائل میں جماعت احمدیہ کی تعمیر مسجد کے لیے خریدی گئی زمین کا ذکر ہوتا رہا۔

(Details: Asif Basit, London’s First Mosque: A study in history and mystery, Review of Religions, London, July 2012)

یہ قطعہ زمین اگرچہ بہت چھوٹا تھا،لیکن ایک ایسے شہنشاہ کی سرزمین میں واقع تھا جس نے حال ہی میں نہ صرف اپنی جرمن وابستگی کی باقیات اور خطابات کو ترک کر دیا تھا،بلکہ اپنے شاہی خانوادے کوونڈسر گھرانے کے طور پر ازسرِ نو متعارف کروایا تھا۔ یہ وہ شہنشاہ تھا جس کاایک لقب،علاوہ دیگر بہت سے القابات کے’’والیٔ دین‘‘ (Defender of Faith) بھی تھا، جہاں ’’دین‘‘ اس کے ’’چرچ آف انگلینڈ‘‘کے سربراہ ہونے کے ناطے عیسائیت تھا۔ وہ شہنشاہ معظم دوسرے ادیان کے ’’والیوں’‘کو بھی اپنے ملک میں ایک قطعہ زمین دینے پر رضامند تھا۔

بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کے آغاز پر ہی شاہ جارج پنجم نے 1924ء میں لندن میں British Empire Exhibitionکے منصوبے کی منظوری دی۔اور اس نمائش کا اولین اور بڑا مقصد تویہ تھا کہ برطانوی سلطنت کے جاہ و جلال کو عوام کے دلوں میں مستحکم کرنے کی کوشش کی جائے۔ مگر اس نمائش برطانوی سلطنت میں موجود مذاہب کو بھی نظر انداز نہ کیا گیا، کہ مذہبی آزادی کو ونڈسر گھرانہ اپنی کامیابی خیال کرتا تھا۔

شاہ جارج پنجم کی سرپرستی میں سلطنت کے مذاہب کی کانفرنس امپیریل انسٹی ٹیوٹ لندن میں منعقد ہوئی۔ برطانوی ہندوستان سے طویل سفر کرکےآنے والے ایک مقرر کو مدعو کیا گیا۔ یعنی جماعت احمدیہ مسلمہ کے دوسرےسربراہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ۔ آپؓ نے وسیع سلطنت کے دارالحکومت کے دانشور طبقے اور سلطنت کے مختلف حصوں سے سفر کرنے والے بہت سے دوسرے لوگوں کو دین اسلام کی تعلیم اور پیغام سے متعارف کروایا۔ آپ کی تشریف آوری اور کانفرنس میں شرکت نے برطانوی پریس کو بہت زیادہ متوجہ کیا، جس نے آپؓ کے دو ماہ کے قیام کے دوران آپ کی مصروفیات کی زبردست اور تفصیلی رپورٹنگ کی۔ یہاں تک کہ کانفرنس کے منتظم اعلیٰ Sir Denison Ross نے بھی یہ تسلیم کیا کہ اس عالمی کانفرنس کو حضرت مصلح موعود ؓ کی تشریف آوری سے کس قدر فائدہ ہوا:

 ’’ہمیں اس بات پر خاص خوشی ہے کہ احمدیہ تحریک کے سربراہ خلیفۃ المسیح نے فوری طور پر کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنے متعدد پیروکاروں کے ساتھ لندن آنے کا ارادہ ظاہر کیا۔آپ کی اس قابل قدر محنت و کاوش کی ذرائع ابلاغ میں زبردست تشہیر ہوئی اور یوں ہماری کانفرنس کے لیے لوگوں کی غیر معمولی دلچسپی کے سامان ہوگیا۔ ‘‘

(Denison Ross, in Religions of the Empire, Ed William Loftus Hare, p 5, Macmillan, London, 1925 (Capitalisation as in original and not the author’s))

اس کانفرنس کا یہ وسیع انتظام و اہتمام شاہ جارج پنجم کی اپنے ملک کے اندر دیگر مذاہب کے لیے رواداری کو ظاہر کرنے کے لیے کیا گیا تھاجب کہ سلطنت کے علاقوں میں دی گئی مذہبی آزادی کا احوال تو سب کے سامنے تھا۔

لیکن رعایا کو عقیدہ کی آزادی دینے کا ایک اور بڑا ثبوت تب واضح طور پر ظاہرہوا جب جماعت احمدیہ مسلمہ کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ نے لندن میں ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔

یہ تاریخی موقع 19؍ اکتوبر 1924ء کو آیا جب برطانوی ذرائع ابلاغ نے اس انوکھی تقریب کی دل کھول کر تشہیر کی۔ دی ٹائمز، ایوننگ سٹینڈرڈ، دی ٹیلی گراف، لندن ایلسٹریٹڈ نیوز، دی سی فیر سمیت سب مرکزی اخبارات نے صفحہ اول پر مسجد کے سنگ بنیاد کی شہ سرخی بنائی۔ کم و بیش سب اخبارات نے اپنی پیشائی ان الفاظ سے سجائی:

افتتاح مسجد فضل لندن

’’London’s First Mosque‘‘

(Details: Asif Basit, Islamic Caliphate: The missing chapters, Domum Historia, London, 2019)

چشمِ تصور سے دیکھیں تو بادشاہ جارج پنجم، خزاں کی ایک صبح میں بکنگھم پیلس کی ایک بڑی کھڑکی کے پاس بیٹھے لندن میں ایک مسجد کی تعمیر کی خبر پڑھ رہے ہوں اور زیرِ لب مسکرا رہے ہوں کہ وقت کیسے بدل جاتا ہے اور اس کے دھارے کوکوئی بھی نہیں روک سکتا۔

یہ تخیل محض افسانوی بھی نہیں ہے۔ کیونکہ سلطنت کے زندہ مذاہب کی کانفرنس کی رپورٹوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ بادشاہ نے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے ’’اپنی نیک خواہشات پر مبنی مبارکباد ‘‘ کا پیغام بھیجا تھا، جسے افتتاحی اجلاس میں پڑھ کر سنایا گیا تھا۔

(Thomas Howard, The Faith of Others, p 149, Yale University Press, 2021)

الغرض بادشاہ نہ صرف اس سب پیش رفت سے آگاہ تھا بلکہ اس نے اسے ایسا ہونے کی اجازت دے کر مسر ت اور اطمینان محسوس کرتا تھا۔ کیونکہ بادشاہ چاہتا تھا کہ مادیت کے تندو تیز طوفان کے ہاتھوں ایمان کی شمع بجھ ہی نہ جائے۔

اکتوبر 1926ء میں،لندن کی پہلی مسجد

مسجد فضل کی تعمیر مکمل ہونے پر اس کا افتتاح ہوا۔ یہ صرف ایک مسجد ہی نہیں تھی بلکہ ملک کے سماجی و سیاسی عمل میں برطانوی مسلمانوں کی شرکت کا مرکز تھی۔شاہِ برطانیہ جارج پنجم کی اجازت اور نگرانی میں ہونے والی گول میز کانفرنسوں کے ہندوستانی مندوبین مسجد فضل میں تشریف لاتے۔ امام مسجد فضل لندن، بطور نمائندہ جماعت احمدیہ باقاعدگی سے بادشاہ اور حکومت کے ساتھ اہم مسائل پر خط و کتابت اور ملاقات کیا کرتے اور انہیں امام جماعت احمدیہ، خلیفۃ المسیح کے پیغامات پہنچاتے۔ان مراسلوں کے جوابات بھی اسی توسط سے امام جماعت احمدیہ کو موصول ہوا کرتے۔

جماعت احمدیہ کا لندن مشن شاہ جارج پنجم کے دور حکومت میں مکمل فعال رہا، اور بعدازاں ان کے جانشین شاہ جارج ششم کے عہد میں بھی خدمت دین وانسانیت کا یہ سفر جاری رہا۔ ان دونوں شاہان معظم کے بعد نوجوان شہزادی الزبتھ دوم تخت نشین ہوئی اوراس کے عہدِ زرّیں میں جماعت احمدیہ تبلیغِ اسلام کاسفرجاری رہا، اس ملکہ معظمہ نے قریبا سات دہائیوں تک جہاں اپنے ملک پر حکمرانی کی وہاں اپنے اجداد کی مذہبی آزادی کی روایت کو بھی جاری رکھا۔

اسی ملکہ کے دور شاہی میں سال 1978ء کے موسم گرما میں جماعت احمدیہ مسلمہ نے لندن شہر میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس کا عنوان تھا:

“Deliverance of Jesus from the Cross”

اس کانفرنس کے دوران جماعت احمدیہ کے عقیدہ وفات مسیح پر تحقیقی مقالے سنائے گئے جن کا مرکزی خیال یہ تھا کہ جماعت احمدیہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے واقعہ صلیب میں وفات نہیں پائی تھی اور نہ ہی آپؑ جسمانی طور پر آسمان پر چلے گئے تھے، بلکہ آپؑ نے واقعہ صلیب کے بعد ارض مقدس سے ہجرت کی توفیق پائی اور ایک لمبی زندگی پائی، اپنے خداداد مشن میں مصروف رہے اور کشمیر میں وفات پاکر وہیں دفن ہوئے۔

اس کانفرنس کا مرکزی خطاب امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب، خلیفة المسیح الثالث ؒ نے فرمایاتھا۔

قدرتِ ثانیہ کے تیسرے مظہر حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ

ایک عقیدے کے محافظ کی طرف سے ایک ایسے موضوع پر کانفرنس منعقد کرنے کی اجازت دیناکہ جس کانفرنس میں اس کے لازمی عقیدہ کے بنیادی ترین اصول پر ہی سوال اٹھائے گئے، ہر لحاظ سے قابل تعریف اور شکر گزار ہونے کے لائق ہے۔ پھر اس کانفرنس میں ادیان سابقہ خصوصاً عیسائیت پر اسلام کی بالادستی کےموضوع پر اظہار خیال کیا جانا شاہ برطانیہ اور حکومت برطانیہ کی وسعتِ قلبی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

تاریخ کا سفر جاری رہا،جب پاکستان میں جماعت احمدیہ کے افراد پر ظلم و ستم سفاکی کی حدوں کو چھونے لگی اور جہاں ان پر ہونے والے ہر ظلم و زیادتی کو آئین پاکستان کے ذریعے قانونی اور جائز قرار دے دیاگیا، تو جماعت کے مرکز کو پاکستان سے باہر منتقل کرنے کا موقع آگیا، کیونکہ اس نئی صورت حال میں خلیفہ وقت کی آواز کو یکسر دبادینے کا انتظام مکمل ہو چکا تھا اور نظام جماعت کو مفلوج کردینے کے عزائم تھے۔

تب جماعت احمدیہ کے اس وقت کے سربراہ حضرت مرزا طاہر احمدخلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے،ہجرت حبشہ کی اتباع میں انگلستان کے صدر مقام لندن کا انتخاب فرمایا۔یوں جماعت کا عالمی مرکز بھی آپ کے وجود کے ساتھ برطانیہ منتقل ہوگیا اور اس طرح آپ رحمہ اللہ 1984ء سے لے کر 2003ء میں اپنی وفات تک نہ صرف مکمل آزادی کے ساتھ اس سرزمین پر مقیم رہے، بلکہ اپنی تمام مذہبی ذمہ داریوں کی بھی بسہولت بجاآوری کی توفیق پاتے رہے، یہاں تک کہ جب آپ کا انتقال ہوگیا تو آپ اسی برطانوی سرزمین میں دفن ہوئے۔ یہ سب حقائق ایک بار پھر ہاؤس آف ونڈسر سے اظہار تشکر کا مطالبہ کرتے ہیں۔

قدرتِ ثانیہ کے چوتھے مظہر حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ

جماعتِ احمدیہ کے موجودہ سربراہ حضرت مرزا مسرور احمد 2003ء میں اپنے پیش روحضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ کی وفات کے بعد انگلستان تشریف لائے اور مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے۔ یوں آپ تب سے جماعت احمدیہ عالمگیر کے افراد کی رہنمائی بھی کررہے ہیں اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کونے کونے تک پھیلارہیں مزیدبرآں آپ کی امن عالم کےلیے بےمثال کوششیں بھی مسلسل جاری ہیں، اور دینی ترقی و سماجی بہبود کی سب مہمات آپ بغیر کسی ظلم و ستم کے خوف کے اس سرزمین سے سرانجام دے رہے ہیں جہاں ونڈسر گھرانے کے دو معزز افراد کی حکومت ہے:پہلے ملکہ الزبتھ دوم اور اب حال ہی میں شاہ چارلس سوم تخت نشین ہوئے ہیں۔

جماعت احمدیہ میں قائم خلافت بنیادی طور پر پیغمبر اسلامﷺکے اسوۂ حسنہ کو ہی مسلمانوں کے لیے طرز عمل کا بہترین نمونہ مانتی ہے اور اس کی پیروی کرتی ہے۔ اور خلفائے احمدیت برطانوی بادشاہت کے اسی لیے ممنون ہیں کہ تاج برطانیہ نے نہ صرف دین اسلام پر عمل کرنے کی اجازت دے رکھی ہے بلکہ اسلام کے پیغام کوپھیلانے کےلیے بھی سازگار ماحول فراہم کیا ہوا ہے۔خلفائے احمدیت نے مذہبی اور سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ دیا ہوا ہے جیسا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرتِ حبشہ کے موقع پر کیا تھا۔ نیز جماعت احمدیہ کی بین الاقوامی مہمات و خدمات کے لیے قائم مرکز کو جگہ دینے اور حفاظت فراہم کرنے کے لیے دلی شکر گزاری کا اظہارکرتے ہیں۔ یاد رہے کہ سلطنت برطانیہ کا یہ وہ احسان اور اس کی کمال کشادہ دلی کا وہ استعارہ ہے کہ تاحال کوئی ایک بھی مسلمان سربراہ مملکت اپنے ہم مذہب مسلمان فرقے کے لیے ایسا ظرف اور حوصلہ نہیں دکھا سکا۔

مختصراً ایک اور سوال کا جواب دے کر اس مضمون کو ختم کرتے ہیں۔ جب تمام قوانین پارلیمنٹ بنائے تو بادشاہت کی تعریف کیوں؟

اس کا جواب بہت سادہ اور سیدھا ہے۔ جب تک بادشاہ ریاست کا سربراہ رہے گا، بادشاہ جماعت احمدیہ کے خصوصی شکریہ کا مستحق رہے گا۔کیونکہ اس جماعت کے افراد بادشاہ کےملک میں اور اس کی حکومت کے تحت بطور شہری رہتے ہیں اور ان کو اس سرزمین سے اسلام کے پیغام کو ساری دنیا میں پھیلانے کی اجازت ہے۔

احمدی ہونے کے ناطے، ہم برطانوی حکومت کے بھی اسی طرح شکر گزار ہیں، جس کا باضابطہ نام “His Majesty’s Government” ہے۔ اس حکومت کی قائم کردہ مذہبی رواداری پر شکرگزاری اور معاشرے میں ایسی فضا کو برقرار رکھنے کی کوششوں پر شکرگزاری کے جذبات جہاں ہر شہری کے لیے عقیدہ اور اظہار کی آزادی میسر ہے۔ اسی طرح ہم دنیا کے تمام دوسرے ممالک کی حکومتوں کے بھی شکر گزار ہیں جہاں جماعت احمدیہ مسلمہ کے افراد اور دیگر تمام مذاہب و ملل کے لوگ ظلم و ستم کے خوف کے بغیر زندگیاں گزار رہے ہیں۔

قدرتِ ثانیہ کے پانچویں مظہر حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

یاد رہے کہ مذہبی اور سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھنے سے مراد یہ نہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح اختلافِ رائے کا اظہار نہیں فرماتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے جب اور جہاں کسی بھی حکومت، خواہ وہ حکومتِ برطانیہ ہی کیوں نہ ہو، کی کوئی ایسی پالیسی دیکھی یا فعل مشاہدہ فرمایا جو انسانی حقوق، انصاف یا قیامِ امن کی راہ میں روک بنتا ہو، آپ نے عمائدین حکومت کے سامنے برملا اظہار فرمایا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں حضور کے خطابات کے مجموعے World Crisis and the Pathway to Peace میں پڑھی جاسکتی ہیں۔

٭…٭…٭

اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button