پادری جان الیگزنڈر ڈووی: دعویٰ بے باک، انجام حسرت ناک
حضرت مرزا غلام احمدقادیانی علیہ السلام اور (John Alexander Dowie) جان الیگزینڈر ڈووی کے درمیان ہونے والے مباہلہ کے موضوع پر جماعت احمدیہ کے لٹریچر کے علاوہ دیگر تحقیقی و تاریخی کتب و رسائل میں اس قدر تفصیل سے لکھا جا چکا ہےکہ ثابت شدہ حقائق اور مشہور و معروف واقعات کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔
تاہم اس مضمون میں ایک ایسے سوال پر بات کرتے ہیں جو کئی ذہنوں میں اٹھتا ہوگا۔ یعنی یہ کہ جب دنیا میں مسیحؑ کی آمد ثانی کے سینکڑوں دعویدار موجود تھے تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بطور خاص صرف دو مدعیین کو ہی کیوں مقابلے کے لیےمنتخب فرمایا۔ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں اس دور کا جائزہ لینا ضروری ہے جب حضرت مرزاغلام احمد قادیانی علیہ السلام نے مثیل مسیح ہونے کا دعوی اور اعلان فرمایا۔
گزشتہ ہزاریے کے اختتام کی آخری صدیوں تک دنیا بھر میں ایک انتظارِ مسیح کے لیے ایک خاص جوش اور ماحول پیدا ہوچکا تھا۔ صحف سابقہ کی روشنی میں دنیا کے اس آخری سنہری دور کے لیے ایک منجی اور حتمی حکم و عدل کی آمد کا نظریہ اور انتظار شرق و غرب میں یکساں طور پر موجود تھا۔
اسی انتظارِ مسیح کے موسم میں تقریباً تمام مذاہب کے اندر اصلاحی تحریکوں کاخاص عروج پایا جاتا تھا، لوگ دیکھ رہے تھے کہ قربِ قیامت کی نشانیاں پوری ہوتی جارہی ہیں اور مختلف مذاہب وعقائد کے ماننے والے اپنے اپنے نظام اور سلسلہ کے موعوددور کو قریب تر آتا دیکھ رہے تھے۔ ابراہیمی مذاہب کے پیروکاروں کی نگاہیں تو ایک ہستی کی منتظر تھیں اور وہ موعودمسیح آخر الزمان کا وجود تھا۔ کچھ مکاتبِ فکر کے نزدیک یہ مسیح کا پہلا اور آخری ظہور تھا، جبکہ اسلام اور عیسائیت کے مطابق موعود مسیح کی یہ دوسری اور حتمی بعثت کا زمانہ تھا۔
الغرض حضرت مرزا غلام احمدقادیانی علیہ السلام نے جب مسیح موعود ہونے کے دعویٰ فرمایا تب لوگوں میں اس موعودوجود سے وابستہ امیدیں انتہاکو چھو رہی تھیں۔یاد رہے کہ انیسویں صدی کی آخری دہائی اور بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں بہت سی دیگر شخصیات نے مثیلِ مسیح ہونے کا یہی دعویٰ کر بھی رکھا تھا۔
چونکہ جان ہیو سمتھ پگٹ کے ساتھ معاملے پر سیر حال بحث اور تحقیق قبل ازیں جماعتی رسائل [ Rev. John Hugh Smyth Pigott, His Claim, Prophecy and End] میں پیش کی جاچکی ہے، لہذا فی الحال ڈووی کے متعلق نشان کے اس پہلوکا تجزیہ کرتے ہیں کہ امریکہ میں رہنے والے اس شخص کےدعویٰ کی طرف حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی اس قدر توجہ مبذول کرانے والے کونسے امور تھے کہ آپؑ نے اولاًاسے خبردار کیا، پھر ڈووی کے عقائد و نظریات کا خوب تعاقب کرتے ہوئے اسے مباہلہ کی دعوت دی اور بالآخر آسمانی تائید و نصرت کی اس جنگ میں اپنی فتحِ عظیم کا بہت اہتمام سے اعلانِ عام بھی فرمایا۔ اس تحقیق میں آگے بڑھنے کے لیے ہمیں دونوں مدعیان مسیحیت کے عقائد و دعاوی پر نظر ڈالنا ہوگی۔
حضرت مرزا غلام احمدقادیانی ؑ کے دعاوی
حضرت مرزا غلام احمدقادیانی علیہ السلام کے تمام دعاوی کا خلاصہ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ ’’موعودِ اقوامِ عالم‘‘ تھے۔ابراہیمی مذاہب کے لیے آپ وہ موعود مصلح تھے جس کا مسیح آخر الزمان کے طور پر انتظار ہورہا تھا۔ جبکہ امت مسلمہ کے واسطے آپ وہ مہدی بھی تھے جس نے آخری زمانے میں امت کے اندر اصلاح و تجدید کااہم کام کرنا تھا۔جبکہ دیگر تمام اقوام اور مذاہب کے ماننے والوں کے لیے آپ خدا کے وہ موعودمرسل تھے جس کا آخری زمانہ میں بڑی شدت سےانتظار کیا جارہا تھا۔ الغرض آپ کا اس آسمانی مصلح کے طور پر ظہور ہوا جس کی آمد کی راہ پر دنیا کے ہر مذہب کےماننے والے منتظر بیٹھےتھے۔
چونکہ مذاہب عالم میں سے ایک اسلام ہی ہے جو دین فطرت ہونے کے ناطے تمام مذاہب کی اساسی تعلیمات کا جامع اور تمام بنیادی سچائیوں کا حامل ہے، اس لیے آپؑ نے اعلان عام فرمایا کہ اب دنیا کے تمام مذاہب کو دین اسلام کی طرف ہی آنا ہوگا اور ہر اختلاف کو چھوڑ کر اور بجائے فرد فرد رہنے کے اتحاد اور مشترکہ قوت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس قدر بلند اور غیر معمولی دعویٰ کے ثبوت کے طور پر آپ نے دنیا کے سامنے ثابت کیا کہ صرف اسلام کاپیش کردہ خدا ہی ہمیشہ ہمیش کے لیے زندہ، قائم بالذات اور لائق عبادت ہستی ہے، جس نے اسلام کے ذریعے بنی نوع انسان کو ایک مکمل ضابطۂ حیات عطا فرمایا ہےاور اب اسی دین فطرت کے پاس زندگی گزارنے کے لیے اعلیٰ ترین روحانی، سماجی، سیاسی، اخلاقی اور معاشی اصول و ضوابط موجود ہیں۔
ہندومت اور عیسائیت کے ردّ پر اس قدر زور کیوں؟
یہ اہم سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ ایک مصلح جس کے ذمہ تمام عقائدوتعلیمات کی درستگی اور اصلاح کا بیڑہ تھا، اس نے اپنی تمام ترتوجہ اور کوششیں ہندومت اور عیسائیت کے لیے کیونکر وقف رکھیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے طریقے اور انداز سے اس کا جواب دے سکتا ہے، لیکن اس معاملہ کو دیکھنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان مذکورہ بالا دونوں عقیدوں کی بنیاد شرک پر ہے اورجس کا لازمی نتیجہ یہی نکلا کہ خدائے واحد کو چھوڑ کر مخلوق پرستی کی نئی سے نئی راہیں اختیار کی جانے لگیں۔ جہاں ہندو مت میں بے شمار دیویوں اور دیوتاؤں کو معبود سمجھا گیا، تو عیسائیوں نے ایک ناتواں انسان کو خدائی میں شریک بنا کر شرک کی ایک لامتناہی راہ کھول دی۔
الغرض آپؑ نے خدا ئے بزرگ و برتر کی وحدانیت کو قائم کرنے کے لیے ایک خاص جوش دکھایا اور ان دونوں مذاہب کی علمی و عقلی تردید میں مصروفِ کار رہے، کیونکہ اگر شرک کی برائی کوہی آغاز میں جڑ سے اکھاڑ دیا جائے تو مخلوق پرستی سمیت بہت سی دیگر برائیوں کے تمام راستے خود بخود مسدود ہوتے جاتے ہیں۔
حضرت مرز اصاحب کی سیرت و سوانح کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ فتح نصیب جرنیل دنیا سے باطل معبودوں کی ہر طرح کی پرستش روکنے کے لیے ہر ممکن حد تک گیا۔اس مقصد کے لیے آپ نے اپنی تحریر و تقریر کو وقف رکھا۔ مذاہب کے ان سرکردہ لیڈروں کو للکاراجو جھوٹ اور ملمع سازی کے سہارے عوام کالانعام کو تاریک راہوں پر لے جانے والے تھے۔ الغرض سادہ لوح مخلوق خدا کو شرک کی گمراہیوں سے بچانے کے لیے آپؑ ہر حد تک گئے اور مذکورہ بالا دونوں مذاہب میں مخلوق پرستی کا قلع قمع کرنے کے لیے آپ نے مباہلہ کا بھی اعلان فرمایا۔یاد رہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے کے لیے مباہلہ ایک آخری اور انتہائی صورت ہوا کرتی ہے جس میں مقابل آنے والوں میں سے سچے فریق کی ترقی اور بالمقابل جھوٹے فرد یا گروہ کی تباہی، ناکامی اور ہلاکت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جاتی ہے۔
ہندومت کے معاملے میں آپؑ نے مشہور آریہ سماجی پنڈت لیکھرام [پنڈت لیکھرام کی ہلاکت] کو باہمی مذہبی اختلاف کےفیصلہ کن طریق کی طرف بلایا تووہ خداتعالیٰ کے قہری تجلی کا شکاربن کر بہتوں کے لیے موجب عبرت ٹھہرا، جبکہ عیسائیت پر اتمام حجت کے لیے آپؑ نے جان الیگزینڈر ڈووی کو منتخب فرمایا۔ یاد رہے کہ یہاں John Hugh Smyth Pigott کواس فہرست میں درج نہیں کیا گیا کیونکہ حضرت مرزا صاحب ؑ نے اس شخص کو خدائی کے دعویدار ہونے کے باعث کسی بھی مذہب کا پیروکار تسلیم نہ فرمایا تھا۔
جان الیگزینڈر ڈووی کے دعاوی
ایک عیسائی مناد کی حیثیت سے سفر شروع کرنے والا یہ شخص آگے چل کر بیماروں کو اپنی روحانی قوت سے شفایاب کرنے کا دعویٰ کرنے لگا۔ پھر خود کو ایلیا کے طو رپر پیش کیا جو تجدید کے واسطے بھیجا گیا ہے۔ اپنے دعاویٰ میں بڑھتے بڑھتے ڈووی نے اعلان کیا کہ وہ خد اکی طرف سے رسول اور خدا کی بادشاہی کو دنیا میں دوبارہ قائم کرنے والا ہے۔ نیز اس کے مفوضہ کاموں میں عیسائیت کے غلبہ کی خاطر دیگر ہر دوسرے عقیدے کو صفحہ ہستی سے مٹانا بھی ہے۔ ڈووی نے ’’کرسچن کیتھولک چرچ‘‘نامی نئے فرقہ کی بنیاد رکھتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اس نئے سلسلہ کا پہلا رسول ہے۔
ڈووی نےامریکہ کی ریاست Illinois کے شمالی حصہ میں وسیع و عریض زرعی رقبہ کی خریدکی جہاں اس نے 10 مربع میل زمین کامالک بن کر ایک شہر بسایا اور اس کا نام Zion رکھا۔ اس نے یہاں اپنا چرچ بناتے ہوئے اپنی حکمرانی قائم کی،اور ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی ڈگر پر ملکی آئین و قانون سے بالاتر رہ کر اس شہر کے لیے اپنے قوانین و ضوابط وضع کرنے شروع کردیئے۔
اس نئے شہرکا قیام اس کے لیے اس قدر جرات آموز تھا کہ ڈووی نے اسی طرز کے مزید شہربسانے کا ارادہ ظاہر کیا جہاں اس کا دعویٰ تھا کہ صرف اور صرف ڈووی کی تعلیمات اور قوانین کا نفاذ ہوگااوریوں پوری دنیا میں عیسائیت کی حکمرانی قائم ہوگی۔
صیہون (Zion کا اردو میں نام) شہر کے بارے میں ڈووی کے افکارکا اندازہ ڈووی کے اس وعظ سے کیا جاسکتا ہے، جو اس نے اپنے زیر نگین اور ہم خیال لوگوں کے سامنے کیا کرتا تھا:
’’تم سب باہر نکلو اور خوبصورت جھیل کے پہلو میں بسائے گئے خدا کے اس شہر میں آن بسو۔ اور جب یہ شہر مکمل بھر جائے گا تو ہم ایک اور، اور ایک اور اور پھر ایک اور تعمیر کریں گے یہاں تک کہ ہر قوم کے لیے اپنا صیہون ہوگا۔‘‘
Leaves of Healing, 28 February 1903
ڈووی کی شدید اسلام دشمنی
ڈووی مذاہب عالم میں دین اسلام کو حقیرترین خیال کرتا تھا۔ اس نفرت وبےزاری کی اصل وجہ تو ڈووی شاید خود ہی بتاتا مگر اس کی ہلاکت کے ساتھ ہی یہ راز بھی دفن ہوگیا۔ لیکن ہم تک جو کچھ ڈووی کے اپنے الفاظ جمع ہوکر پہنچے ہیں،ان سے مترشح ہوتا ہے کہ ڈووی دین اسلام کو اپنا زبردست حریف سمجھتا تھا کیونکہ اس کی آفاقی تعلیم اور عطاکردہ نظام کے مقابل پر اس کے پاس اناجیل تھیں جو اس قدر مکمل ضابطہ حیات مہیا نہ کرتی تھیں۔اور غالبا یہی مایوسی اور ناکامی وقت کے ساتھ ساتھ ڈووی کی اسلام سے بےزاری اور دشمنی میں بدل گئی تھی۔
معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کو معدوم کرنے کا یہ عزم صیہون شہر کی تعمیر کے وقت اس کی بنیادوں میں بھرا جارہا تھا، جیسا کہ ڈووی نے کہاتھا :
’’یہ روحانی اور جسمانی طور پر صیہون کی تعمیر نو ہے۔۔۔
’’پوری دنیا میں حکومتی انتظامیہ کی تنظیم نو یروشلم میں صیہون کی مقدس پہاڑی سے پروان چڑھے گی۔
’’ہر دوسرا شہرِ صیہون اس کے ماتحت ہوگا او ریہاں سے یسوع مسیح جو ساری زمین اور تمام اقوام کا بادشاہ ہے حکومت کرے گا۔
’’اس پرانے شہر کو دوبارہ تعمیر کرنے کا،اور نسل در نسل پیدا ہونے والی آلائشوں کو صاف کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔۔۔
’’کوئی بھی شخص جو جانتا ہے کہ محمدیت کیا ہے، ایک لمحے کے لیے بھی کیسے تصور کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ یا انسان ہمیشہ کے لیے اس نفرت کو برداشت کر سکتے ہیں؟
’’ مشرقی کہاوت ہے کہ ’جہاں کسی مسلمان کا پاؤں پہنچ جائے وہاں تو گھاس کی ایک پتی نہیں اگتی‘۔ جہاں کہیں بھی محمّدیت کی لعنتی تعلیم آئی ہے وہاں سب کی سب حقیقی ترقی جاتی رہی۔ جہاں آدھے لوگوں سے بے روح درندوں جیسا سلوک کیا جائے، وہاں کیاخاک ترقی ہوگی؟
’’ایسی قوم کو سیاسی وجود رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے جو حیوانیت کا مذہب بناتی ہے، اور انسان سے درندگی پر مبنی جنت کا وعدہ کرتی ہے جہاں انسان کو انعام اور بدلے کے طور پر متعدد حوریں دوستی و صحبت کے لیے ملیں گی۔
’’محمدیت کا نظریہ یہ ہے کہ کسی عورت میں روح نہیں ہے۔مسلمانوں کی جنت ایک ایسا محل ہے جہاں انسان کےاندرونی گندگیوں اور اس کے مکروہ جذبات کی تسکین کے سامان ہیں،اور یہ اہل اسلام کو اجر و ثواب کے طور پر لامتناہی عرصہ کے لیے ملتا ہے۔
’’اب وقت آگیا ہے کہ اس طرح کی منظم مکروہ حرکات کو یکسرمٹا دیا جائے۔‘‘
( Leaves of Healing, 14 February 1903)
الغرض ڈووی اسلام کے نام سے ہی کبیدہ خاطر ہوجاتا تھا اوراسلام کے خلاف جھوٹ اورنفرت کے پرچار میں حواس باختہ ہوکر کر اپنے پیروکاروں میں اسلام کے خلاف اشتعال انگیزی سے بھی نہیں چوکتا تھا جیسا کہ اس نے ایک موقع پر اس حوالہ سے کہا:
’’حضرت مسیح کے حواریوں کی وفات تک دنیا کے بڑے حصے پر عیسائی مذہب پھیل چکا تھا اور عیسائیت کی پہلی تین صدیوں میں جن علاقوں پر یسوع کی حکمرانی تھی، آج وہاں رذیل کفار اور محمدی لوگ قابض ہوچکے ہیں۔ براعظم افریقہ کے شمالی ساحلوں پر، جہاں کبھی عظیم الشان عیسائی گرجےقائم ہوئے، اب وہاں مسلمانوں کی حکومت ہے۔ وہ خطے جہاں کبھی ابتدائی کلیسیا کے عظیم ترین منادوں نے جا بجا عالی شان گرجے بنانےکے لیےجفاکشی سے کام کیا،طرح طرح کے مصائب برداشت کیے حتی کہ اپنی جانیں قربان کردیں،آج وہاں کچھ بھی باقی نہیں رہا۔
’’بس، بہت بگاڑ ہوچکا!‘‘
(Leaves of Healing, 30 November 1902)
1902 کے موسم گرما تک، ڈووی اپنے اس وہم میں پختہ ہوچکا تھا کہ وہ ایلیا ہے۔اور وہ یروشلم کو مرکز بنا کر تمام مذاہب پر حکمرانی کے خواب دیکھنے لگا تھا۔ اس کا پیغام، عزائم کی جارحیت اور بے باکی کھل کر سامنے آنے لگی تھی۔مثلا اس نے اپنے پیروکاروں کو مخاطب ہوکر اعلان کیا کہ
’’انہیں خبرکردو کہ ایلیاہ نے اپنے مشن پر کام شروع کردیا ہے۔اگر وہ تسلی سے چلتا رہا تو وہ ابھی کافی دیر اپنے کام میں مصروف رہے گا۔ ایلیا کو ابھی کچھ دیر آرام بھی کرنا ہوگا۔ مگر لوگاپنی حماقت میں ایلیا کو غافل جان کر خود قدم اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔ وہ اس سے برتری نہیں لے سکتے۔۔‘‘
(Leaves of Healing, 23 August 1902)
ڈووی کے سوانح نگاروں کاماننا ہے کہ ’’اس کی زندگی کی تلخیوں اور اس کے لاحق ہونے والے المیوں میں سے ایک یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری حصے میں مغرور اور خودسرہوچکا تھا‘‘
Gary Bourgeault, John alexander Dowie: The Flawed Dreamer and the Servant of God, www.owlcation.com/humanities
سوانح نگار Gary Bourgeaultبتاتا ہے کہ ڈووی کی خودنمائی اور خود سری انتہا کو چھونے لگی تھی، اس حد تک کہ ڈووی ’’خود اپنی ذات اور خدا کی بادشاہت میں اپنے مزعومہ مقام کے حوالے سے انتہائی حد تک تباہ کن نتیجے پر تب پہنچا، جب اس نے اپنے بارہ میں اعلان عام کیا کہ وہ ایلیاہ کا تیسرا اور آخری مظہر ہے۔۔۔‘‘
ڈووی کی زندگی کے اس حیران کن المیے پر تبصرہ کرتے ہوئے،قریبا ًسب سوانح نگار ہی Bourgeault سے اتفاق کرتے ہیں، گو ہر کسی نے اپنےاپنے رنگ میں استدلال کیا ہے کہ ’’ ڈووی جیسا ذہین انسان اس طرح کا نرالا اعلان کرکے اپنی عمر بھر کی محبت اور حاصل کردہ مقام و مرتبہ کو ہی خطرے میں کیونکر ڈال گیا، یہ واقعی حیرت انگیز ہے۔‘‘ (ایضاً)
آئیے ڈووی کے سوانح نگاروں کے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
ڈووی کو دعوتِ مباہلہ
ہم دیکھ چکے ہیں کہ سنہ 1902ء کے موسمِ گرما میں ڈووی اپنے خطابات میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کافی چراغ پا ہورہا تھا،اور وہ ان کو یکسر فنا کرنے کے منصوبوں پر کام کررہا تھا۔
ڈووی کے یہ خطبات برطانوی ہندوستان میں قادیان کی بستی تک پہنچے اور حضرت مرزا مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ڈووی کے ان اسلام دشمن افکار پر اطلاع پائی۔اب اگر ڈوئی کے اسلام کے متعلق ان بےباکانہ دعووں کی اطلاع قادیان تک پہنچ سکتی ہے جو ڈاک اوررسل و رسائل کی دیگر سہولیات کے حامل شہروں کے مقابل پر محض ایک دوردراز گاؤں تھا تو دوسرے مسلمان اور ان کے عمائدین کس طرح ڈووی کے عزائم سے بے خبر رہ گئے ہوں گے۔
لیکن چونکہ دینِ اسلام کے دفاع اور اس کی تجدید کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی بعثت ہوئی تھی، اس لیے اس دشنِ اسلام کے ناپاک عزائم کی اطلاع ملتے ہی آپ ؑمردِ میدان بن کر فوری کارروائی کے لیے مستعد اور چوکس کھڑے تھے۔آپؑ نے فوراً ڈووی کو ایک مکتوب روانہ فرمایا( جو جماعتِ احمدیہ کے رسالہ ریویو آف ریلیجنز اور ایشیا، یورپ امریکہ کے اخبارات میں بکثرت شائع ہونے کے باعث ایک کھلے خط کی شکل اختیار کر گیا)۔ اس مراسلہ میں آپؑ نے ڈووی کو متنبہ فرمایا کہ تم تو ایک ایسے شخص کے رسول بن کر آئے ہو جسے یہود نے سولی پر چڑھا دیا تھا۔ اس لیے روئے زمین سے تمام مسلمانوں کو ختم کردینے کے دعویٰ سے باز رہو تو اچھا ہے۔ نیز فرمایا:
’’سوہم ڈاکٹر ڈووی کی خدمت میں بادب عرض کرتے ہیں کہ اس مقدمہ میں کروڑوں مسلمانوں کے مارنے کی کیا حاجت ہے؟ ایک سہل طریق ہے جس سے اس بات کا فیصلہ ہوجائے گا کہ آیا ڈووی کا خدا سچا ہے یا ہماراخدا۔ اور وہ یہ کہ ڈووی تمام مسلمانوں کو باربار موت کی پیش گوئی نہ سناویں بلکہ ان میں سے صرف مجھے اپنے ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کردیں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرجائے۔۔۔‘‘
دعوتِ مباہلہ کا چرچا عالمی سطح پر
آپؑ کی اس دعوتِ مباہلہ پر پوری دنیا کی متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ امریکہ کے اخبارات نے اس مباہلہ کی خبر کو خوب جگہ دی۔ تب ملک کا شائد ہی کوئی ایسا اخبارہوگا جو اس اہم ترین خبر سے لاتعلق رہا ہو۔ برطانیہ کے صحافتی حلقوں میں از حد دلچسپی دیکھی گئی اور اسی طرح آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے اخبارات و رسائل بھی احمدِ ہندیؑ کی عیسائیت کے علمبردار،امریکہ کے ڈووی کو للکار سے خوب دلچسپی لینے لگے۔
اب مشرق و مغرب میں بسنے والے مثیلِ مسیح ہونے کے دو دعویدار ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھے اور ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ کی نظریں اس معاملہ پر تھیں، یوں اس عالمگیر توجہ نے ڈووی کے لیے کوئی راہِ فرار نہ چھوڑی اور وہ اس دعوتِ مباہلہ کا جواب دینے پر مجبورہوگیا۔چنانچہ بدقسمت ڈووی نےاپنے اخبار Leaves of Healing کے 27؍دسمبر1902ء کے شمارے میں چند سطریں انگریری میں شائع کیں۔ جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
’’ہندوستان میں ایک احمق محمدی مسیح ہے جو مجھے بار بار لکھتا ہے کہ مسیح یسوع کی قبر کشمیر میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تُو اس کا جواب کیوں نہیں دیتا اور کہ تُو کیوں اس شخص کا جواب نہیں دیتا مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کو جواب دوں گا جن پر اپنا پاؤں رکھوں تو انہیں کچل کر مار ڈالوں۔ میں انہیں مہلت دیتا ہوں کہ یہ کچھ اور جی لیں۔‘‘
یقینا اس حقارت آمیز ردعمل پر اس خود ساختہ ایلیاکو اپنے گرجے میں پیروکاروں کی طرف سے تالیوں کی گونج بھی سنائی دی ہوگی اور ان خوشامدی حواریوں نے دنیاداری کی ترنگ میں فتح مندی کی غوغے بھی بلند کیے ہونگے لیکن عالمی پریس کی نگاہ میں نہ تو ہندوستانی مسیح ’’احمق‘‘تھا اور نہ ہی اس کا کلام اور دعویٰ محض مچھروں اور مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسا تھا۔ براعظم امریکہ کے مغربی ساحلوں سے لے کر نیوزی لینڈ کے دُور دراز شہروں تک تمام معروف اخبارات و رسائل میں احمدہندیؑ کی طرف سے ڈووی کے لیے انذار اور دعوتِ مباہلہ کی بہت زیادہ تشہیر ہوچکی تھی۔
ڈووی جیسے خود پسند اور خود سر شخص کے لیے جو اپنی طاقت اور مال و دولت کے نشے میں چُور تھا، ہندوستان میں مبعوث ہونے والے مسیح موعودؑ، جسے ڈووی’’احمق‘‘ گردانتا تھا،کا دنیا بھر کےاخبارات میں اس قدر غیر معمولی تذکرہ سوہان روح بنتا جاتا تھا۔ ہر اخبار کی پیشانی پر سجا مرزا غلام احمد کا ذکر ڈووی کے لیے اذیت سے کم نہ تھا۔ اس نام نہاد ’’ایلیا‘‘اور ’’پیغمبر‘‘کی انا کولگنے والے گھاؤ گہرے ہوتے چلے گئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ ڈووی کی طرف سے اپنی ساکھ کی بحالی اور اپنے مریدوں کے سامنے اپنی حیثیت و منصب کو برقرار رکھنے کی بودی کوششوں کے سوا کچھ نہ تھا۔
ڈووی کے سوانح نگاروں نے اس غیر متوقع صورت کو محض ’’حیران کن‘‘ کہہ کر چھوڑ دیاہے۔ کیونکہ کوئی ایسا شخص جو ایسے دلیرانہ اور تابناک دعوے کرے اوربام عروج پر پہنچے اور اس شخص کو بتایا جائے کہ اس کا زوال مقدر ہوچکا اور وہ قصہ پارینہ بننے والا ہے۔ یقیناً ایسی پیش خبری اس کے وجود کودہلادینے کے لیے کافی ہے۔
کیسے تعجب کی بات ہے کہ یہی انذار ڈووی خود کسی زمانے میں جھوٹے مدعیین کو جاری کیا کرتا تھا۔ اب اسی انذار کی بازگشت اس کے اپنے کانوں سے صبح و شام ٹکرانے لگی تھی۔
1889ء کے موسم گرما کا دلچسپ احوال
حضرت مرزا غلام احمدکا مسیح موعود اور مرسل من اللہ ہونے کا دعویٰ توموجود تھا لیکن آپؑ نے مئی 1889ء تک اپنے محبوں اور مخلص ارادت مندوں سے بیعت لینا شروع نہیں کی تھی۔ اور دوسری طرف اسی سال ڈووی بھی آسٹریلیا سے ہجرت کرکے امریکہ میں وارد ہوچکا تھا۔ یہاں پہنچ کر اس کی علم میں آیا کہ ایک شخص نے مثیلِ مسیح ہونے کا دعویٰ کیاہے۔ یاد رہے کہ یہ حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کا ذکر نہیں بلکہ امریکہ میں ہی ریاست (Illinois)کے ایک شخص کا ذکر ہے جس کا نا م جارج جیکب شوائنفرتھ(George Jacob Schweinfurth)تھا۔
یہ شخص امریکہ میں Illinois کے علاقہ میں، شکاگو سے کچھ فاصلہ پر Rockford نامی ایک مقام پر ایک وسیع و عریض اراضی کا مالک تھا جسے Mount Zion کہا جاتا تھا،اوراس نے وہاں The Church Triumphant کے نام سے اپنا فرقہ قائم کر رکھا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اپنا چرچ اور فرقہ بنانے کا خیال ڈووی نے یہیں سے مستعار لیا ہو۔
ملتا ہے کہ شکاگو میں ایک جگہ، ڈووی نے 29؍ جولائی 1889 ءکو اس مسیحیت کے دعویدار سے ملاقات کی۔ جس میں ڈووی نے اس سے پوچھا:
’’کیا تم یہ اعلان کرتے ہو کہ تم وہی مسیح ہو جو زمین پر آیا تھا، اور جس سے میں بات کر رہا ہوں وہ وہی ہے؟‘‘
کہا جاتا ہے کہ جارج نے پر سکون انداز میں جواب دیا: ’’میں وہی ہوں۔‘‘
یہ باہمی گفتگومسلسل اڑھائی گھنٹے تک جاری رہی، جس کے آخر پر ڈووی نے اعلان کیا:
’’مجھے خوشی ہے کہ میں یہاں آیا، تمہیں دیکھا اور تمہارے ساتھ اڑھائی گھنٹے تک بات کی۔۔۔
’’میں خداوند کے نام پر پیشن گوئی کرتا ہوں کہ تم نیست و نابود ہو جاؤ گے۔۔۔
’’میں تمہیں توجہ دلاتا ہوں کہ تم اپنے گناہ عظیم سے توبہ کرلو۔‘‘
کیسی مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ وہ ڈووی جو مثیل مسیح ہونے کے جھوٹے دعویداروں کو اس گناہ عظیم پر توبہ کرنے کا کہا کرتا تھا، جب اس نے مسیح ہونے کا خود جھوٹا دعویٰ کیا ہوگا تو یقینا دل ہی دل میں شرمندہ اور حیران تو ضرور ہواہوگا۔ نیز اس طرح کے دعاوی کے بعد جو کچھ ڈووی نے کیا اور کہا، اس پر ڈووی کے سوانح نگاروں کو اور بھی حیرت ہے۔ اور پھر اسی تسلسل میں جب وہی انتباہ کہ تم ”نیست و ونابود ہوجاؤگے‘‘ڈووی کو ہندوستان کے ایک گاؤں میں رہنے والے مسیح موعود کی طرف سے پہنچا ہوگا تو اُس پر کیا قیامت ٹوٹی ہوگی۔
ڈووی نے جارج جیکب شوائنفرتھ کی طرح مسیحیت کے جھوٹے دعوے کے بعددین کے نام پر اپنی کاروباری سلطنت کو فروغ دینے کے لیے جیکب کی راہوں کی ہی پیروی کی، یعنی زرعی اراضی خریدی، اپنا شہر بسایا، اپنے قانون وضع کئے، اور اس شہر کو زائن کا نام دیا۔
تعجب ہے کہ ڈووی نے ہر عمل میں تو جیکب کی ہی نقل کی لیکن یکسر بھول گیا کہ اس کا اپناانجام کس طرح جیکب سے مختلف ہوسکے گا۔
ڈووی کا زوال
ڈووی کے حد سے بڑھے بلند و بانگ دعاوی آج کے دور میں اس کے سوانح نگاروں اور تبصرہ نگاروں کو پریشان کر تے ہیں، لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ڈووی کے پیروکار، جنہوں نے ذاتی طور پر ڈووی کے خطبات اور مجالس میں شرکت کی تھی، ان سب کا تجربہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔
گورڈن لنڈسے(Gordon Lindsay) ڈووی کے مستند ترین سوانح نگاروں میں سے ایک ہے۔ یہ شخص زائن میں ڈووی کی زندگی میں ایسے والدین کے ہاں پیدا ہوا تھا جو ڈووی کے پُرجوش پیروکار تھے۔ اس مورخ کا بچپن زائن کے گلی کوچوں میں گزرا تھا نیز اسے ڈووی کے ایسےبہت سےپیروکاروں سے بات چیت کرنے کا موقع بھی ملا تھاجو ڈوو ی کے زوال کے بعدبھی زندہ رہے۔ مزید برآں گورڈن کے پاس ایسے خاص مواد کے بھاری مجموعوں تک رسائی تھی جو عام آدمی کے لیے نایاب تھے۔
گورڈن لنڈسے نے ڈووی کے زوال کے دنوں کا مشاہدہ کرنے والوں کی دی ہوئی معلومات کی بنا پر لکھا ہے کہ
’’ایسے تمام لوگ جو ڈاکٹر ڈووی کو جب وہ شکاگو میں پادری ہوا کرتا تھا ان ابتدائی برسوں سے جانتے تھے، اورڈووی کے ساتھ انتہائی قریبی تعلق رکھتے تھے، ان سب کو آہستہ آہستہ محسوس ہورہا تھا کہ ان کے قائد کے ساتھ کچھ عجیب معاملہ چل رہا ہے۔لیکن یہ تبدیلی اتنے خاموش اور لطیف انداز میں اپنا کام دکھارہی تھی کہ عام انسانی عقل سے اس کا ادراک مشکل تھا۔نیز ڈووی کے ساتھ ہونے والے ان خاص معاملات کا الزام کسی ظاہری فرد یا کسی خاص واقعہ پر بھی نہیں دھرا جاسکتا تھا۔ جو بھی ہو، لیکن ایک بات طے تھی اور لوگ دیکھ رہے تھے کہ اب یہ وہ جان الیگزنڈر ڈووی نہیں رہا جو کبھی اپنے بامِ عروج پر ہوا کرتا تھا۔
’’ایسا لگتا تھا کہ ڈووی کے اندر ہی اندر، اس کی طبیعت و فطرت کی کوئی بنیادی کَل ہی بدل دی گئی تھی۔ جان الیگزینڈر ڈووی کی صلاحیتوں اور عادات و اطوار ایک خاصا بڑا اور عجیب و غریب گھاؤ لگ چکا تھا جس سے وہ خود بھی بے خبر تھا، اور اس نامعلوم کاری زخم نے ڈووی کے نقطہ نظر اور فیصلے سازی کی قوتوں کو ہی واضح طور پر سلب کر لیا ہوا تھا۔
Gordon Lindsay, John Alexander Dowie: A life story of trials, tragedies and triumphs, pg 67, Christ for the Nations Inc, Dallas, 1980
یہ 1903ء کے آس پاس کی بات ہے۔وہ وقت جب ڈووی کو احمد ہندیؑ کی طرف سے انذار پہنچ چکا تھا، کہ اگر ڈووی اپنے جھوٹے دعووں سے باز نہیں آیا تو ذلت و ناکامی اس کا مقدر ہے۔ اور ڈووی کے قریباً تمام سوانح نگار اس امر پر متفق ہیں کہ یہی ڈووی کے اختتام کا نقطہ آغاز تھا۔ ایسے زوال کا آغاز جوایک عمودی ڈھلوان پر نیچے آنےسے مشابہہ تھا۔اس کی جسمانی صحت کی خرابی سے لے کر دماغی صلاحیتوں میں خلل واقع ہونے تک، اور زائن شہر کے معاشی نظام کے درہم برہم ہونے سے لے کر، ڈووی کے معتمدترین ساتھیوں کے ہاتھوں برطرفی تک۔
الغرض ڈووی کو معزول کر دیا گیا اوراسے انتہائی دکھ او رکرب ناک حالت میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ زوال و بدحالی کی انتہایہ تھی کہ ڈووی کو اپنی ہی ملکیتی جائیداد (Shiloh Tabernacle) کے ایک کمرے میں کرایہ دار کے طور پر رہنے کی اجازت دی گئی اور وہ وہاں کس مپرسی کی حالت میں مر گیا۔
شکاگو کے ایک اخبار کے نامہ نگار نے ڈووی سے ان دنوں ملاقات کا احوال اخبار میں یوں درج کیا :
’’پردہ گرا چاہتا ہے۔ مرکزی کردار منظر نامہ سے جاچکا ہے۔ ہدایت کار نے اپنی کتاب بند کر دی ہے۔ سٹیج پر منظر بدلنے والے پردوں میں ہلچل ہیں۔ اورکہانی کے اختتام کا اعلان ہونے میں بس ساعتیں ہی باقی ہیں۔
’’یہ ایک ایسا شہر ہے جو یکسر دیوالیہ ہو چکا ہے،اورچھ ملین ڈالر کےبھاری قرض تلے ڈوب چکا ہے، مایوسی کا یہ عالم ہے کہ زائن شہر کے در و دیوارتو ریت سے بنے گھروندوں سے بھی کم دیرپا نکلے ہیں۔ ڈووی کا زائن کا مثالی شہر بسانے کااعلان ایک دیوانے کی بَڑ ثابت ہوا اور اس کا یہ خواب بہت ہی بُری طرح چکنا چور ہوچکا ہے۔ الغرض اس کہانی کواب ختم ہی سمجھو۔
’’خود فریبی میں مبتلا،ڈووی لاچار اور بیمار ہوکر ابھی تک شیلو ہاؤس میں بیٹھا ہے۔۔۔ڈووی کی آنکھیں دھنس چکی ہیں اور اس کی آواز مایوسی کے آسیب سے کانپ رہی ہے۔‘‘
سوانح نگار گورڈن لنڈسے نے مسٹر سیموئیل شاڈ (Samuel Shadd)کا انٹرویو کیاتھا، جس کی عمر تب چھیاسی برس تھی اور وہ ڈووی کے آخری دنوں کا گواہ تھا۔سوانح نگار اس عینی شاہد کی یادداشتوں کو اپنے الفاظ میں یوں درج کرتا ہے:
’’ہم نے جو سوالات پوچھے ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ کیا ڈاکٹر ڈودی نے اپنی زندگی کے ان آخری مہینوں میں کبھی اپنے اس دعویٰ کا ذکر کیا تھا جس میں ڈووی نے خود کو ایلیاقراردیا تھا۔ جواب ملا کہ جہاں تک مجھے یاد ہے، ڈاکٹر ڈووی نے نہ تو کبھی اپنے اس دعویٰ کا ذکر کیا اور نہ ہی کبھی دورانِ گفتگو اپنے غیر معمولی دعویٰ کے بارہ میں کوئی اشارہ کیا…
’’مسٹر شاڈ بار بار یہی دہراتے رہے کہ…جیسے جیسے دن گزرتے گئے، اور ڈووی کو کوئی وہم وشبہ باقی نہ رہا کہ اب اس کے جانے کا وقت قریب ہے۔وہ بہت نرم مزاج ہوتا گیا،اور خود کو مکمل طو رپر بے دست و پاکرتسلیم کرلیا۔
’’اس ساری صورت حال میں حقیقت یہ تھی کہ ڈووی اس قدر خرابی و بربادی کے باوجودخود کو ذمہ دار ماننے کو تیار ہی نہ تھا۔البتہ اسے اتنا ادراک ضرور تھا کہ کچھ بہت ہی خوفناک اور بھیانک واقعہ رونما ہوگیا ہے۔۔۔
’’اس لاچاری کی حالت میں ایک مرتبہ جب ڈووی کی دیکھ بھال کرنے والے اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کررہے تھے تو وہ لوگ اپنی گرفت کھو بیٹھے اور ڈووی کا جسم دھڑام سے فرش پر آگراتھا۔۔۔‘‘
’’یہ محض جان الیگزینڈر ڈووی کا خاکی جسم ہی زمین بوس نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے دعووں پر سے بھی پردہ اٹھ چکا تھا۔‘‘
آخر ڈووی کو اہمیت کیوں دی گئی
اب ہم اس سوال کی طرف لوٹتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد نے ڈووی کو اپنی اتنی توجہ کا اہل کیوں دیکھا؟ اور پھردنیا بھر کے پریس نے اتنی دلچسپی کیوں دکھائی؟
اول: اگرچہ ڈووی دیگر ملمع کاروں جیسا ایک جھوٹا مدعی ہی تھالیکن اس کے ساتھ وہ دین اسلام کا سخت دشمن تھا، اور اسلام کے متعلق حضرت مرزا صاحب کا کامل ایمان تھا کہ اب انسانیت، ایمانیات اور اخلاقیات کے بحالی کا ضامن اور راہ نجات صرف اسلام ہے۔ آپؑ نے بعد میں ایک موقع پر فرمایا:
’’ہر گزرتے دن کے ساتھ، ڈووی کی شہرت، دولت اور پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس نے بادشاہ کی طرح رہنا شروع کیا، جبکہ پہلے وہ بھکاریوں جیسا تھا۔ اگر کوئی مسلمان جو ایمان میں کمزور ہو،وہ ڈووی کو اس کے جھوٹ اور من گھڑت باتوں کے باوجود اس شان اور بلند مقام پر ترقی کرتے دیکھ لیتا تو وہ گمراہ ہو جاتا اور خسارے میں رہتا۔ اوراگر ایساشخص مسلمان عالم دین بھی ہوتا تب بھی وہ اپنے آپ کو گمراہی سے نہیں بچا سکتا تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈووی دشمنان اسلام میں سے تھا جس نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی تھی، پھر بھی شہرت اور دولت کی چوٹی تک پہنچا۔‘‘
(ضمیمہ حقیقة الوحی، الاستفتاء،روحانی خزائن جلد 22،صفحہ : 686(عربی سے اردو ترجمہ))
دوم: دعوتِ مباہلہ کی اس قدر تشہیر کیونکر ہوئی؟ حضرت مرزا صاحب کو اس سوال کی توقع تھی اس لیے آپ علیہ السلام خود اس ضمن میں فرماتے ہیں:
’’۔۔۔مباہلہ کامعاملہ کچھ بھی پوشیدہ نہیں تھا۔ بلکہ، یہ ایک ایسا معاملہ تھا جس کی مشرق اور مغرب میں، شمال اور جنوب میں۔الغرض پوری دنیا میں اچھی طرح تشہیر کی گئی تھی۔
’’اس طرح مشتہر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ڈووی شہرت میں بڑے بادشاہوں کی طرح تھا۔ امریکہ اور یورپ میں معاشرے کے اونچے اور نچلے طبقے میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں تھا جو اسے اچھی طرح نہ جانتا ہو۔ درحقیقت، ان ممالک کے لوگ ڈووی کی بڑی عزت کرتے تھے اور ایک بادشاہ کے طور پر اس کی تعظیم کرتے تھے۔ اس کے علاوہ، اس نے بڑے پیمانے پر سفر کیا اور لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے مسحور کن تقریریں کیا کرتا تھا، جیسے کوئی شکاری اپنے شکار کو پھنسا لیتا ہے۔
’’یہی وجہ ہے کہ کسی اخبار کے ایڈیٹر نے مباہلہ کے حوالے سے انہیں بھیجے گئے مواد کو شائع کرنے سے کبھی انکار نہیں کیا۔ اس کے بجائے، وہ اس باہمی مقابلے کاانجام دیکھنے کے لیے ایک صریح تجسس کی وجہ سے اسے شائع کرنے کے لیے بے چین تھے۔‘‘
(ضمیمہ حقیقة الوحی، الاستفتاء،روحانی خزائن جلد 22،صفحہ : 690-691(عربی سے اردو ترجمہ))
سوم:یاد رہے کہ اُس زمانہ میں کوئی بھی دوسرا جھوٹا دعویدار اپنے دعویٰ کی تشہیر میں اتنا پرجوش اور سرگرم نہیں تھا جتنا ڈووی تھا اور اس لیے ڈووی کی سرکوبی از حد ضروری تھی، جیسا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’حضرت عیسیٰ کو خدا جانتا تھا اور تثلیث کو تمام دنیا میں پھیلانے کے لیے اتنا جوش رکھتا تھا کہ میں نے باوجود اس کے کہ صدہا کتابیں پادریوں کی دیکھیں مگر ایسا جوش کسی میں نہ پایا۔‘‘
(حقیقة الوحی، روحانی خزائن، جلد 22 صفحہ: 505)
چہارم:حضرت محمد ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ اسلام کا پوری دنیا پر غلبہ ہو گا اور سورج کا مغرب سے طلوع ہوگا،اس لیے ضروری تھا کہ ایک جعلسازبھی ایسا ہو جو مغرب سے اٹھے اور اس کے جھوٹے دعوے کی تشہیر مغربی دنیا میں اس قدر بڑے پیمانے پر ہوتا وہ ایک دھوکے باز کے طور پرساری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔اس حوالہ سے حضرت حکیم مولوی نورالدینؓ کے نام ایک مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ
’’مسٹر ڈوئی اگر میری درخواستِ مباہلہ قبول کرے گا اور صراحتاً یا اشارةً میرے مقابلہ پر کھڑا ہوگا تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے گا۔ یہ دو نشان ہیں جو یورپ اور امریکہ کے لیے خاص کیےگئے ہیں۔ کاش! وہ ان پر غور کریں اوران سے فائدہ اٹھائیں۔‘‘
(مکتوبات احمد، جلد اول۔ صفحہ 269)
پنجم: یاد رہے کہ ڈووی نہ صرف اسلام کا دشمن تھا بلکہ وہ تمام مذاہب کوہی روئے زمین پر سے مٹانے کے لیے نکلا تھا۔ وہ مسلمانوں، یہودیوں اور زرتشتیوں، حتی کہ عیسائیوں کو بھی اپنے قدموں پر گرتے یا فنا ہوتے دیکھنا چاہتا تھا۔ (Leaves of Healing, 1902)
جبکہ اس کے بالمقابل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تمام مذاہب اوران کے پیروکاروں کا احترام کرنے والے وجود تھے اور سب پاک روحوں کو پرامن طریقے سے اسلام کے جھنڈے تلے لانا چاہتے تھے۔ کیونکہ آپؑ کا نہ صرف ایمان تھا بلکہ اسی امر کی آپؑ نے دنیا میں تبلیغ بھی کی کہ مسیح کی آمد ثانی جمالی رنگ میں ہے اور اس مثیل مسیح کا اصل میدان دنیا کو تیر و تفنگ سے نہیں بلکہ دلیل اور محبت سے فتح کرنا ہے۔
ششم:ڈووی نے اپنے خطبات میں اپنے پیروکاروں کو ملکی قانون کی خلاف ورزی پر اکسایااور امریکہ کا رہائشی ہوتے ہوئے حکومت وقت کے خلاف ایک بغاوت کا ماحول پیداکردیا۔ ڈووی کی یہ خام خیالی زیادہ خوفناک تھی کہ امریکہ کا انصرام حکومت چلانے کے لیے ’’تھیوکریسی ہی واحد راستہ ہے‘‘۔ الغرض ایک ایسی شریعت اور مذہبی تعلیم جس کی کوئی بنیاد ہی نہ ہو، اس کے ذریعہ ملک کا انتظام چلانے کا تجربہ یقینا ًہرلحاظ سے خطرناک تھا۔
ملتا ہے کہ ڈووی نے نیویارک شہر کابہت زیادہ اہتمام کے ساتھ ایک بڑا دورہ بھی کیاتھا اگرچہ اس کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلاتھا، لیکن یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس سے صاف عیاں تھا کہ ڈووی اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرکے ملک میں اپنی دنیاوی طاقت کو قائم کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتا تھا۔
ڈووی نے نیویارک جانے کے لیے آٹھ ریل گاڑیاں کرایہ پر حاصل کیں اور ان میں اپنے پیروکاروں کو سوار کیا تاوہ نیویارک کے ہر شہری تک پہنچیں اور اس کو قائل کریں کہ اب جہانبانی کا صرف ایک ہی طریق قابل عمل رہ گیا ہے کہ ملک کی باگ مذہبی اشرافیہ کے سپرد کردی جائے۔ نیز اس سفر کا دوسرا بڑا مقصد ڈووی کے ماننے والے نیویارک کے شہریوں کو زائن کی بالادستی کو قبول کرنے کی ترغیب دینا بھی تھا۔ قصہ مختصر، پریس میں بہت زیادہ تشہیر کے باوجود اس تمام تر منصوبے کو صریح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، لیکن حکومت وقت پر نظریں جمائے اس شخص کی تیاری اور کوششوں کی شدت کسی سے پوشیدہ نہ رہی۔
جبکہ اس کے برعکس حضرت مرزاغلام احمدعلیہ السلام اپنے ساتھ ایک بالکل جدید سیاسی فلسفہ لے کر آئے تھے جہاں حاکمِ وقت کی اطاعت دینی فرض اور اس کے خلاف بغاوت ایک غیر اسلامی فعل تھا، جب تک کہ ایسے حکمران آزادئ مذہب کو یقینی بنائیں۔ کیونکہ آپؑ مذہب کے استحکام اور پھیلاؤ کے لیے حکومتِ وقت اور ریاستی افسرشاہی پر انحصار کے قائل نہ تھے۔آپؑ ایمانیات اور امورسیاست کو دو الگ دائروں کے طور پر سمجھتے تھے جس طرح ایک سکےکی دونوں اطراف یکجا ہوتے ہوئے بھی جدا جدا ہوا کرتی ہیں۔
ہفتم: ڈووی نے اپنے زیرِ انتظام زائن شہرمیں دوا فروش دوکانوں سمیت ہر قسم کی طبی سہولیات پر پابندی لگارکھی تھی۔ اس کا ماننا تھا کہ بحالی صحت کے لیے کسی بھی قسم کا علاج معالجہ کرنا ایمان کی نفی ہے کیونکہ صرف خدا ہی شفا دینے پر قادر ہے۔
ڈووی نےعلمِ طب کو بطور پیشہ اختیار کرنے والوں کے خلاف ایک نام نہاد’’مقدس جنگ‘‘ شروع کی ہوئی تھی جس نے ملک کے بیشتر معالجین کو ڈووی کا شدید مخالف بنا دیا تھا۔ ڈاکٹروں کے لیے ڈووی کے نظریات اور قواعد واضح طور پر بے چین کردینے والے تھے، اس لیے ملتا ہے کہ جب ایک دفعہ ڈووی ایک لیکچر دینے کے لیے آیا تو اس پر حملہ کرنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹر جمع ہوگئے۔ تب اگر شکاگو پولیس کے اہلکار عین وقت پر پہنچ کر دست اندازی نہ کرتے تو متوقع فسادات کے نتیجے میں ڈووی کو شدید نقصان پہنچ سکتا تھا۔
ایک ایسی دنیا جہاں ہر نئے دن لوگوں کا خدا پر ایمان مفقود ہوتاجارہا تھا وہاں لوگوں کو خدا پر اعتقاد کو مزید ترک کرنے کی طرف لے جانا ایک سنگین جرم تھا۔
حضرت مرزا غلام احمدقادیانی علیہ السلام ایک ایسے خدا پر یقین رکھتے تھے جولوگوں کو ہر نوع کی درداورتکلیف سے بچانے والا اور بیماروں کوشفایاب کرنے والا ہے، لیکن آپؑ یہ بھی مانتے تھے کہ اسی خدا نے بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے سہولتیں پیدا کی ہیں اوریہ علم الطب اور طبیب ان میں سے ہیں۔ آپ ؑ کے سامنے آنحضورﷺ کا اسوہ تھا جہاں طبی علاج کی سہولت کو خدا کی نعمت سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کی نہ صرف ترغیب تھی، بلکہ خود آپﷺ کا عمل بھی موجود تھا۔
تمام طبی مشوروں اور ادویہ کا استعمال ترک کرنے کا مطلب تو یہ ہوگا کہ انسان خدا کو ہی آزمانا شروع کردے اور ایسی روش جہاں دینی لحاظ سے غیر اسلامی ہوگی،وہاں عمومی معاشرتی پہلو سے بھی سنگین نتائج کا باعث بننے والی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے اس امر کی طرف ڈووی کی جواں سال بیٹی کی آگ سے جھلس کر ہلاک ہوجانے کی طرف بھی توجہ دلائی کہ جب اس کا جسم جل کر جھلس گیا، تو ڈووی جو خدا کی طرف سے واحد چارہ گر اور مسیحا ہونے کا دعویدار تھا، اس کی زندگی نہ بچا سکا۔
اختتامیہ
مذکورہ بالا امور پر مستزادیہ کہ ڈووی کے معاملہ میں سب سے بڑھ کروہ عالمگیر تشہیرتھی جو مشرق سے لیکر مغرب تک پوری دنیا میں پھیل رہی تھی او ر ڈووی کے متکبرانہ دعاوی اورعمومی طور پر نقصان دہ تعلیمات سے ہر کس و ناکس آگاہ ہوچکا تھا۔ ایسے میں ڈووی کو ملنے والا جواب بھی اسی پیمانے پر عالمی شہرت کوحاصل کرنے والا تھا۔ الغرض ڈووی کے مقابل پر حضرت مرزا غلام احمدقادیانی علیہ السلام نے جو ردِ عمل اور جواب شائع فرمایا ان سے اس جھوٹے مدعی کے دعاوی اور مہم کی عمارت منہدم ہو گئی۔اس کے تیزی سے بڑھتے قدم رکنے لگے اور جیسا کہ وہ لوگوں کو فناہونے کی وعید سنایا کرتا تھا اب خود فنا کی راہوں کا راہی بننے لگا۔
الغرض احمد ہندیؑ کے مقابل پر آکر اس بدزبان اور حق دشمن شخص کو جو شکست فاش ہوئی او رجو ناکامی و نامرادی اس کے حصہ میں آئی، وہ محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیروکاروں کی خوش اعتقادی ہی نہیں ہے بلکہ مشرق و مغرب کے انصاف پسند حلقوں نے جیسا تب اقرار کیا تھا آج بھی صاحب علم و عقل یہی کہنے پر مجبور ہیں کہ
مرزاغلام احمد کو ہی فتح عظیم نصیب ہوئی۔
………………
پس نوشت
اگرچہ ڈووی سراسر فریب خوردہ اوراپنے تمام دعاوی میں فاش غلطی پر تھا تاہم اس کی دو پیش گوئیاں ضرور ایسی مل جاتی ہیں جو پوری ہوئی ہیں۔ اگرچہ اس کی امیدوں کے بالکل برخلاف ہی سہی۔
1899ء میں ایک اتوار کی صبح، ڈووی ایک خطبہ دے رہاتھا کہ اچانک ’’وہ اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے کھڑا ہوا اور زارو قطار روتے ہوئے ‘‘ کہنے لگا:
’’کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں موسیٰ جیسا بن جاؤں گا، اس قوم کو آگے لے جانے کے بعد، مجھے الگ کر دیا جائے گا، ہاں! خدا خود مجھے الگ کردے گا اور لوگوں کی رہنمائی کے لیے کسی اَور کو منتخب کر لے گا۔
مجھے ڈر ہے کہ میں کبھی کہوں گا: ڈووی نے کچھ کیا، جبکہ ڈووی نے کبھی کچھ نہیں کیا۔ میں خدا کی شان کو اپنے نام لگا کر خدا کو ناراض کردوں گا۔ جبکہ اصل شان والاتو خدا ہی ہے۔‘‘
اگرچہ ڈووی کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس تشبیہہ میں مغالطہ ہوا، لیکن اس کی بات پوری ہوئی۔ ڈووی کے اپنے معتمدین میں سے ایک Anton Darms اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’یہ پیشگوئی تو ایک من جانب اللہ انتباہ تھا۔۔۔‘‘
جی ہاں۔ اس شخص نے بالکل ٹھیک سمجھا تھا اور آج ہم سب اچھی طرح آگاہ ہیں کہ یہی اصل بات تھی۔
گو ڈووی نے ضد اور ہٹ دھرمی میں اس ربانی آواز کو سننے اور ماننے سے انکار کر دیاتھا۔ مگر پھرخُدا تعالیٰ نے اپنا پیغام اپنے حقیقی مرسل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے مزید واضح الفاظ میں ڈووی کی طرف بھیجا مگر اس بار بھی ڈووی نے آنکھیں پھیر لیں اوراس کے کانوں پر پردہ پڑگیا۔
اوردر حقیقت خدا نے خود ڈووی کو، اسی کے الفاظ میں، ’’ایک طرف کردیا‘‘،اور خدا تعالیٰ نے واضح طور پر دکھادیا کہ اس نے دراصل کس کو اپنی نمائندگی کے لیے منتخب فرمایا ہے۔جو ڈووی کے اپنے الفاظ کے مطابق ’’لوگوں کی رہنمائی کے لیے‘‘ مبعوث کیا گیا ہے۔
ڈووی کی ایک اور پیشگوئی پوری ہوئی اور اسی پر اس مضمون کو ختم کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
قریبا ًاسی زمانہ میں جب ڈووی کو حضرت مرزا غلام احمدقادیانی علیہ السلام نے اس کی گمراہی پر خبردار کرتے ہوئے متنبہ فرمایا تھا اور ڈووی الجھنوں کے اتھاہ گہرائیوں میں اتر گیا تھا، اس نے اپنی جماعت کے سامنے اپنے تخیل کا اظہار کیا:
’’مجھے ابھی برقی توانائی کے امکانات کی وسعت کا اندازہ نہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بولنے والے کا چہرہ لوگوں کو دکھانے کا ذریعہ بن جائے اور روشنی کی مدد سے مقرر کو تقریر کرتے ہوئے دکھانے کے قابل ہوجائے۔ممکن ہے کہ میں یہاں اپنے گرجے میں کچھ بولوں اور تمام امریکہ میری آواز سن سکے۔ ایک دن ایسا ضرور ہوگا۔ میں یہاں Zion کے گرجے میں بولوں گااور دنیا کے ہر کونے تک میری آواز پہنچا کرے گی۔‘‘
Leaves of Healing, Vol 16, No 1, Pg 15
خدا کی شان ہے کہ کسی فاسق و فاجر کی پیشگوئی کو بھی پورا کردے، مگر اپنے حقیقی مرسل اور اس کی جماعت کے حق میں۔برقی توانائی اور دیگر سائنسی ترقی سے یہ تو ہونا ہی تھا اور یہ ہوا۔ لیکن یہ ایک ایسے رنگ اور پہلو سے ہورہا ہے کہ سب منظر ہی بدل چکا ہے، خدا ئے قادر کی تقدیرِخاص اپنا جلوہ دکھاچکی ہے اور وقت کے دھارے نے سب کچھ تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ جو شخص زائن کے منبر سے بولنا چاہتا تھا نہ وہ رہا اور نہ ہی اس کی اسلام مخالف تقاریر۔ اس کا عبرتناک انجام دنیا بھر کے لیے ظاہر ہوگا۔
روشنی کی محتاج دنیا کے لیے خدا ئے قادر نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے جانشین حضرت مرز مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لیے مقدر فرمایا کہ آپ اسی شہرِ صیہون میں موجودہوتے ہوئے، مسجد کے منبر سے الفاظ ارشاد فرمائیں، اور مشرق و مغرب کی سب آبادیاں اور ساری دنیا تک یہ اسلام کا پیغام پہنچ رہا ہو۔
ڈووی پر حضرت مرزاغلام احمدقادیانی علیہ السلام کی فتح عظیم کی ایک نئی بلندی دنیا نے دیکھی کہ حضرت مرزا مسرور احمدایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے زائن کی نوتعمیر کردہ مسجد سے خطبہ ارشاد فرمایا اور آپ کی آواز اور تصویر مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ براہِ راست دنیا بھر میں سنی گئی۔الحمد للہ علی ذالک۔
٭…٭…٭