شہادتوں سے لے کر مہدی آباد کے سفر تک کی داستان
۱۱؍جنوری بدھ کا دن تھا اور کسی کے وہم وگمان میںبھی نہیں تھا کہ یہ دن جماعت برکینا فاسو کے لیے کس قدر دکھی خبر کے ساتھ ختم ہوگا۔رات کے پونے نو بجے امیر صاحب کو یہ اندوہناک خبر ملی کہ ہمارے ۹؍بزرگ انصار کو مہدی آباد میں شہید کر دیاگیا ہے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔
یہ عام شہادتیں نہیں تھیں کہ دہشت گرد آئے اور گولیاں مار کر چلے گئے۔بلکہ ہر ناصر کو موقع دیا گیاکہ احمدیت چھوڑ دوتو کچھ نہیں کہا جائے گا۔لیکن احمدیت کے بہادر جان نثاروں نے اپنے ایمان کو موت پر ترجیح دی۔ایک کے بعد ایک نے جام شہادت نوش کیا لیکن بزدلی نہ دکھائی۔ مہدی آباد کے شہداء برکینا فاسو اور احمدیت کی تاریخ میں ہمیشہ عزت اور وقار کے ساتھ یادرکھے جائیں گے۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور باقی رہ جانے والوں کے ایمان مضبوط رکھے۔اور ان کی خود حفاظت فرمائے۔آمین
جس دن سے شہادتیں ہوئی تھیں دل میں یہ خواہش باربار اٹھتی تھی کہ کاش ہم لوگ ان شہداء کے ورثاء کو مل کر ان سے گلے لگیں،تعزیت کریں اور یقین دہانی کروائیں کہ ساری دنیا کی جماعت آپ کے دکھ پر تڑپ رہی ہےاور آپ کے لیے دعائیں کر رہی ہےاورسب سے بڑھ کر یہ کہ پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ کی محبتیں اور شفقتیں اور دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔
لیکن ملکی حالات اس قدر خراب ہیں اور دہشت گردی کا اس قدر راج ہے کہ زمینی راستے سے توان لواحقین تک پہنچنا مشکل نظر آ رہا تھا۔اتنے میں پیارے آقا کی طرف سے ارشاد موصول ہوا کہ امیر صاحب خود وفد بنا کر گھانا کے نمائندگان کے ساتھ جلد مہدی آباد جانے کا پروگرام بنا ئیں اور لواحقین سے حضور کی طرف سے تعزیت کریں۔کوشش تو پہلے بھی کی جا رہی تھی اب ارشاد موصول ہونے کے بعد کوششیں اورتیز کر دیں۔ہیلی کاپٹر کے بغیر جانا ناممکن تھا۔گولڈ مائن والوں سے رابطہ کیا وہ بھی کوئی حتمی بات نہیں کر رہے تھے۔پھر ایئر فورس والوں کے ساتھ چارٹر طیارے کا معاہدہ ہو گیا۔جہاں پہلےپانچ لوگوں نے جانا تھا تو اب زیادہ لوگوں کی گنجائش نکل آئی اور ہمارے جیسوں کی بھی دلی مراد بر آئی۔امیر صاحب کا رات آٹھ بجے فون آیا کہ پاسپورٹ کی کاپی بھجوادیں۔میں نے کہا کہ کیا مجھے بھی لے کر جانا ہے ؟کہنے لگے ان شاء اللہ۔مجھےیقین نہیں آیا کہ مجھے بھی ان حالات میں مہدی آباد جانے کا موقع مل سکتا ہے۔ خیر نو بجے تک واپس آکر تفصیل بتائی کہ جگہ ہے،میں اور ایک اور ممبر لجنہ اماءاللہ مادام عثمانہ رقیہ صاحبہ دونوں ساتھ چلیں تاکہ وہاں کی خواتین اور بچیوں سے مل کر ان سے تعزیت کر سکیں۔یوں ہم دونوں بھی قافلہ میں شامل ہو گئیں۔صبح سات بجے نکلنا تھا۔ساری رات ٹھیک سے نیند بھی نہ آئی کہ کیسے ان سے ملیں گے۔
اللہ اللہ کر کے رات کٹی اور صبح ہم ایئر پورٹ پر پہنچے۔جہاں ایک بہت پرانا سا ہیلی کاپٹر کھڑا تھاجس پر ہم نے سفر کرنا تھا۔خیر ہم اس پر سوار ہوئےاور ڈیڑھ گھنٹے بعد تقریباً سوا نو بجے ہم گولڈ مائن پر اترےکیونکہ جس گاؤں میں ہمارے احمدی نقل مکانی کر کے گئے ہیں وہاں دہشت گردی کے خوف سے ہیلی کاپٹر نہیں اتر سکتا تھا۔لینڈنگ کے لیے گولڈ مائن ہی ان کو محفوظ جگہ ملی۔لیکن مائن والوں کے اپنے اصول تھے۔انہوں نے اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے بہت وقت لگا دیا۔جب ہمیں مائن پہنچے بہت دیر ہو گئی اور جانے کی کوئی صورت نظرنہیں آرہی تھی توشدید بے چینی شروع ہو گئی کہ جس مقصد کے لیے آئے ہیں اس کو پورا کیےبغیر واپس جا نہیں سکتےاور دیر ہو تی جارہی ہے۔دعائیں تو صبح سے زبان پر جاری تھیں کہ اللہ تعالیٰ انتظام فرما دےکہ ہم اپنے پیارے آقا کے حکم کی تعمیل کر سکیںاور اپنے پیاروں کو مل سکیں۔
دوپہر ایک بجے کے قریب گرین سگنل ملا کہ اب آپ لوگ جا سکتے ہیں۔لیکن آپ کے پاس صر ف دو گھنٹے ہیں۔بہت بھاری دل کے ساتھ نکلے کہ اتنا تھوڑا وقت! اس میں ہم کیا بات کریں گے۔کیا بات سنیں گے۔لیکن پھر اللہ تعالیٰ کا شکر اداکیا کہ جانے کا بندوبست ہوا۔بہت سخت سیکیورٹی کے انتظامات کے ساتھ قافلہ کے افراد کو دو بسوں میں سوار کر کے گاؤں کے لیے روانہ کیاگیا۔ آدھے گھنٹے کی مسافت پر گاؤں تھا جہاں ہماری پیاری جماعت مہدی آباد کے لوگ صبح سے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔
جب ہمارا قافلہ ان کے پاس رکا توساری جماعت کے لوگ بہت بے تابی کے ساتھ ملنے کے لیے آگے بڑھے۔بہت ہی غم اورتکلیف کا ماحول تھاجوبیان سے باہرہے۔ہم دونوں خواتین لجنہ کی طرف چلی گئیں۔سب کے ساتھ مصافحہ کیا اور گلے لگے۔لیکن سلام ہے ان احمدی خواتین کو انہوں نےکوئی واویلا،کوئی رونا دھونا نہیں کیا۔صبرکا اعلیٰ نمونہ دکھایا۔
ہمارے لیے صبرکرنا مشکل ہو رہا تھا۔لیکن ان کو دیکھ کر کچھ حوصلہ بڑھاتوبات شروع کی۔زبان کا مسئلہ تھاکہ اتنے میں ایک بہت ہی پیاری صاف ستھرےسفید رنگ کے کپڑے پہنے،بہت حوصلہ مند بچی ہمارے پاس آکر بیٹھ گئی جس کو فرنچ آتی تھی۔کہنے لگی میں عائشہ ہوں۔ امام ابراہیم صاحب کی بیٹی۔میرے ابا بہت پیار کرنے والے انسان تھے۔بہت بہادر تھے۔ان کو بار بار کہا گیا کہ احمدیت چھوڑ دولیکن انہوں نے کہا مر جانا منظور ہے۔ احمدیت نہیں چھوڑوں گا۔میرے باپ نے سینے میں گولی کھائی۔لیکن احمدیت نہیں چھوڑی۔ہمارےآنسو بہ رہے تھے۔لیکن وہ معصوم بچی اپنے آنسو پیتے ہوئے اتنی بہادری سے بات کر رہی تھی کہ اسے دیکھ کر رشک آرہا تھاکہ جس جماعت کے بچے بھی اتنے بہادر اور مضبوط ہوں تودشمن ان کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔اس بچی کو دیکھ کر اور بچے بھی ہمارے پاس آگئے۔اکثر ان میں ایسے تھے جوواقعہ کے دن مسجد میں موجودتھےاور اپنے پیاروں کو گولیاں مارےجانے کی آوازیں سن رہے تھے۔باہر نکلنے کی ان کو اجازت نہیں تھی لیکن بعد میں جب وہ اپنے گھروں کو گئے ہوں گے توکیسے انہوں نے اپنے پیاروں کی لاشیں دیکھی ہوں گی؟وہ رات انہوں نے کیسے بسر کی ہوگی؟جب دہشتگرد ان معصوموں کو دھمکیاں دے رہے تھےتو ان پر کیا گزری ہو گی؟
اس بستی کے بچے عورتیں،مرداور بوڑھے سب ہی حوصلہ مند اور بہادر ہیں،لیکن ان کے چہرے ان کے اندر کی داستان سنا رہے تھے۔ان کے دکھ سنا رہے تھے۔یہ دو گھنٹے اتنی جلدی گزر گئے،دل مان ہی نہیں رہا تھا کہ انہیںچھوڑ کر واپس جایا جائے لیکن سیکیورٹی والوں کے بار بار کہنے پرہمیں رخصت ہونا ہی پڑا۔سب جماعت نے ہمیں اور ہم سب نے پیاری جماعت کو بھاری دل کے ساتھ الوداع کیا۔ ہم بس میں سوار ہو گئے۔جب تک بس سے ایک دوسرے کو نظر آتے رہے ہاتھ ہلاتے رہے۔ایک دوسرے کو پیاسی نظروں سے دیکھتے رہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جلد ایسے سامان پیدافرمادے کہ ملنے ملانے کے راستے کھل جائیں۔اور وہ لوگ اپنی معمول کی زندگیوں میں واپس آسکیں۔بچے دوبارہ اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کر سکیں۔اللہ تعالیٰ ان شہیدوں کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دے گا۔ان شاء اللہ۔
خوں شہیدانِ اُمت کا اے کم نظر
رائیگاں کب گیا تھا کہ اَب جائے گا
ہر شہادت ترے دیکھتے دیکھتے
پھول پھل لائے گی، پھول پھل جائے گی
واپسی کے سارے راستے لگتا تھا ذہن اور دل مہدی آباد کے مکینوں کے پاس ہی چھوڑ آئے ہیں۔سلام ہے ان کے حوصلوں اورصبرپر۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان سب کاحامی وناصر ہو۔اوران کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔اور پیارے آقا کی منشا کے مطابق ہم ان کا خیال رکھ سکیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔آمین