امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ امریکہ 2018ء (26؍اکتوبر)
… … … … … … … … …
26؍اکتوبر2018ءبروزجمعۃ المبارک
… … … … … … … … …
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح ساڑھے چھ بجے ’’مسجد بیت السمیع‘‘ میں تشریف لا کر نمازِفجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
صبح حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک اور خطوط ملاحظہ فرمائے اور ہدایات سے نوازا۔ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔
آج جمعۃ المبارک کا دن تھا۔ ہیوسٹن (Houston) کی سرزمین سے خلیفۃ المسیح کا یہ پہلا خطبہ جمعہ تھا جو MTA انٹرنیشنل کے ذریعہ ساری دنیا میں براہِ راست Live نشر ہوا۔
ہیوسٹن کے علاوہ امریکہ کی دوسری مختلف جماعتوں سے احباب جماعت بڑے لمبے اور طویل سفر طے کرکے اپنے پیارے آقا کی اقتداء میں نمازِجمعہ کی ادائیگی کے لئے پہنچے۔
جماعت Tennesseeسے آنے والے احباب 830 میل کا فاصلہ 12گھنٹے میں طے کرکے پہنچے تھے۔ Georgia سے آنے والے احباب 13 گھنٹے کا سفر بذریعہ کار طے کرکے پہنچے تھے۔ اسی طرح Kentucky سے آنے والے 1050 میل کا سفر 16 گھنٹوں میں طے کرکے پہنچے۔ جبکہ میامی (Miami) سے آنے والے بذریعہ جہاز تین گھنٹے کا سفر طے کرکے پہنچے۔
بالٹی مور، لاس اینجلیز، Laurel اور سلور سپرنگ کی جماعتوں سے آنے والے احباب اور فیملیز بذریعہ جہاز ساڑھے تین گھنٹے کا سفر طے کرکے پہنچیں۔
بوسٹن (Boston) اور (Bay Point) سے جو احباب ہیوسٹن پہنچے وہ بذریعہ جہاز 4گھنٹے کا لمبا سفر طے کرکے پہنچے۔
نمازِجمعہ کی ادائیگی کے لئے مختلف دُور کی جماعتوں سے احباب کی ایک بہت بڑی تعداد جمعرات کی شام تک ہیوسٹن پہنچ گئی تھی۔ جمعہ کی ادائیگی کا انتظام مسجد کے علاوہ مختلف مارکیز لگا کر کیا گیا تھا۔ نمازِ جمعہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد اٹھارہ صد سے زائد تھی۔
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک بجے ’’مسجد بیت السمیع‘‘ میں تشریف لا کر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ (خطبہ جمعہ کا مکمل متن الفضل انٹرنیشنل 9؍تا15؍ نومبر 2018ء کے صفحہ 5 تا 9پر شائع ہو چکا ہے۔) اس خطبہ جمعہ کے چند نکات درج ذیل ہیں:
حضورانور نے فرمایا:
٭…بدظنی اگر دور ہو جائے تو ہمارے معاشرے کے آدھے فساد اور جھگڑے اور رنجشیں دور ہو جائیں۔ اکائی پیدا ہو جائے، وحدت پیدا ہو جائے۔
٭… عبادتوں اور دعاؤں کو قبول کروانا ہے تو اس کے لئے بنیادی چیز یہی ہے کہ انسان برائیوں سے رُکے اور نیکیوں کو اپنائے۔ یہ تقویٰ ہے ۔
٭…صرف اعتقاد کام نہیں آئے گا۔ اصل چیز عمل ہے جس کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ پس اسلام لانا کافی نہیں ہے، احمدی ہونا کافی نہیں ہے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے۔
٭…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، جس کے پیچھے بھی چلو گے وہ تمہیں صحیح رستے کی طرف لے جائے گا۔
٭…’’یاد رکھو اب جس کا اصول دنیا ہے پھر وہ اس جماعت میں شامل ہے خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ اس جماعت میں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی اس جماعت میں داخل اور شامل ہے جو دنیا سے دستبردار ہے۔‘‘
٭…’’خدا تعالیٰ کبھی اس شخص کو جو محض اسی کا ہو جاتا ہے ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ خود اس کا متکفل ہو جاتا ہے۔‘‘
٭…یہ کبھی نہیں ہوا اور نہ ہو گا کہ خدا تعالیٰ کا سچا فرمانبردار ہو وہ یا اس کی اولاد تباہ و برباد ہو جاوے۔
٭…’’یہ بیعت اس وقت کام آ سکتی ہے جب دین کو مقدم کر لیا جاوے اور اس میں ترقی کرنے کی کوشش ہو۔‘‘
٭…یہ آفات کوئی معمولی آفات نہیں ہیں۔ ان کی پیشگوئیاں سو سال پہلے ہو چکی ہیں۔ اور ان سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف آئے ۔
آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے
جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار
٭…’’خدا تعالیٰ کی بعض باتوںکو نہ ماننا اس کی سب باتوں کو ہی چھوڑنا ہوتا ہے۔ ‘‘
٭…اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم بیعت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والے بنیں۔
… … … … … … … … …
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطبہ جمعہ دو بج کر پانچ منٹ تک جاری رہا۔ بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نمازِجمعہ کے ساتھ نمازِعصر جمع کرکے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے۔ رکن امریکن کانگریس Michael McCaul صاحب حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کے لئے آئے ہوئے تھے۔ وصوف کے ساتھ ان کے دفتر کے دو عہدیدار پریس سیکرٹری اور معاون اعلیٰ بھی ملاقات میں شامل تھے۔
٭کانگریس مین نے عرض کیا کہ ہم حضورکو امریکہ میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ وہ یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس کررہے ہیں کہ ان کے دفتر کے رابطہ کی وجہ سے امریکی وزارت داخلہ اورا نتظامیہ نے حضورِانور کے دورہ کے لئے مکمل خصوصی تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے اور یہ حضورِانور کے شایانِ شان بھی ہے کیونکہ حضورِانور انتہاپسندی کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں اور دنیا میں اعتدال پسندی اور امن کے قیام کے علمبردار ہیں۔
اس پر حضورِانور نے فرمایا: آپ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس پر آپ کا شکریہ۔ حضورِانور نے فرمایا کہ میں تواسلام کی اصل اور حقیقی تعلیم ہی بیان کرتاہوں۔ آجکل انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کی جانب سے جو کارروائیاں ہورہی ہیں ان کا اسلام کی اس حقیقی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حضورِانور نے فرمایا اسلام کے اصل معنی ہی امن کے ہیں، سلامتی ہیں۔
آنحضرت ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں ایک مصلح، ایک ریفارمر آئے گاجو اسلام کا احیائے نو کرے گا اور اسلام کی حقیقی تعلیم بتائے گا۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق بانی جماعت احمدیہ نے اسلام کی اصلی اور حقیقی تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور آج جماعت احمدیہ اسلام کی حقیقی تعلیم، امن کی تعلیم ہر جگہ پیش کررہی ہے۔ ہم مخالفین کے اعتراضات کا جواب دینے میں کوئی اسلحہ استعمال نہیں کرتے بلکہ اسلام کی سچی تعلیم اور دلائل استعمال کرتے ہیں اور دلائل سے اسلام کا دفاع کرتے ہیں ۔
٭بعد ازاں ممبر کانگریس نے انتہاء پسندوں اور دہشت گردوں کی طرف سے ہونے والی کارروائیوں کا ذکر کیا۔
اس پر حضورِانور نے فرمایا: جو لوگ radicalise ہورہے ہیں ان کی کوئی وجہ ہے۔ نام نہاد مسلمان علماء ان کو ایسی غلط تعلیم دیتے ہیں جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ وہ تعلیم قرآن کریم میں ہے اور نہ نبی کریم ﷺ کے عمل سے ظاہر ہے۔ یہ غلط تعلیم ان لوگوں کوانتہاپسند بنارہی ہے۔
حضورِانور نے فرمایا: ایک تو تعلیمی معیار کی کمی کی وجہ سے لوگ ملّاں کے پیچھے چلتے ہیں اور جو پڑھے لکھے لوگ ہیں ان کو بھی دینی علم نہیں ہوتا، وہ بھی جو ملّا ں کہتا ہے اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور پھر معاشی بدحالی اور روزگار کی کمی بھی انتہاپسندی کو پھیلنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ مسلمانوں کے لئے تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں۔
حضورِانور نے فرمایا: آپ احمدیوں میں ایسا نہیں دیکھیں گے کہ اُن میں کوئی انتہاپسندی کی طرف مائل ہو۔ کیونکہ احمدی اسلام کی سچی اور حقیقی تعلیم کو جانتے ہیں۔ اس لئے وہ radicalise نہیں ہوتے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں آباد جو احمدی ہے، اس کا رویہ اور کردار اور عمل ایک جیسا ہی ہے کیونکہ وہ اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل پیرا ہے۔
کانگریس مین نے انتہاپسندی اور پُرتشدد کارروائیوں کے خلاف جماعت احمدیہ کے کردار کی اہمیت کو بیان کیا اور کہا کہ مسلم دنیا میں حضورِانور ہی حقیقی راہنما ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ تمام مسلمان حضورِ انور کے ارشادات کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ اس پر حضورِ انور نے فرمایا: انتہاپسندی کے خلاف جنگ کا حل شاید ہماری زندگی میں تو نہ ہو لیکن آنے والی نسل کی زندگی میں شاید ہوجائے۔
٭گوئٹے مالا میں ہسپتال کے قیام اورا س کے افتتاح کا ذکر ہوا۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ ہم نے وہاں یہ ہسپتال صرف عوام کی خدمت کے لئے کھولا ہے۔ ہم نے وہاں سے کوئی رقم نہیں کمانی۔ ہم نے افریقہ کے مختلف ممالک میں ہسپتال اور بہت زیادہ سکول کھولے ہیں اور بلاتمیز رنگ و نسل، مسلمان، عیسائی سب طلباء پڑھتے ہیں۔
٭یہاں امریکہ میں آنے کے مقصد کے حوالہ سے بات ہوئی تو حضورِانور نے فرمایا: تین مساجد کے افتتاح کا پروگرام تھا۔ پھر گوئٹے مالا میں ہسپتال کے افتتاح کا پروگرام تھا۔ اپنی کمیونٹی کے لوگوں سے ملنا تھا اور پھر آپ جیسے شرفاء سے ملنا تھا۔
٭رکن کانگریس مائیکل مک کائول نے احمدیہ مسلم کاکس (Caucas) کا ذکر کیا تو حضورِ انور نے اِن سے دریافت فرمایا کہ کیا وہ اس کے چیئرمین ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ اُن کے قریبی دوست رکن کانگریس پیٹرکنگ (Peter King) آف نیویارک اِس کے چیئرمین ہیں۔
٭جلسہ سالانہ یوکے کا ذکر ہونے پر حضورِانور نے فرمایا کہ دنیا کے مختلف ممالک سے مہمان آتے ہیں، چالیس ہزار کے لگ بھگ تعداد ہوجاتی ہے۔ ایک فارم (farm) میں جلسہ کا انعقاد ہوتا ہے اور ایک عارضی ویلیج (village) تعمیر کیا جاتا ہے۔ اس سارے کام کا ستر فیصد والنٹیئرز (volunteers)کرتے ہیں۔ وہاں پولیس ڈیوٹی پر آتی ہے تو کہتی ہے کہ ہمارے یہاں آنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ آپ کے نوجوانوں نے سیکیورٹی کا سارا کام سنبھالا ہوا ہے۔
حضورِانور نے فرمایا: یہاں بھی باہر پولیس ہے وہ اپنی ڈیوٹی پر ہیں۔ اندر سے تو کسی انتظام، سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، باہر سے ہو سکتاہے۔
٭کانگریس مین نے حضورِانور کے لندن قیام اور پاکستان میں جماعت پر روا رکھے جانے والے مظالم اور حقوق سے محرومی کا ذکر کیا۔ اس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ لندن میں مقیم ہوں اور پاکستان میں پرسیکیوشن اور اپنے فرائض منصبی ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے نہیں جاسکتا۔
حضورِانور نے فرمایا: پاکستان میں 1974ء میں اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قانون بنایا تھا کہ احمدی قانونی اور آئنی تقاضوں کے پیش نظر غیرمسلم ہیں۔ حضورِانور نے فرمایا کہ یہاں لندن آنے سے قبل میں ربوہ میں رہا ہوں۔ ربوہ، لاہور سے 100 میل کے فاصلہ پر ہے اور اسلام آباد سے قریباً اڑھائی صد میل کا فاصلہ ہے۔ ربوہ کی 97 فیصد آبادی احمدی ہے۔ اس کے باوجود وہاں کی لوکل کونسل میں ہمارا کوئی ممبر نہیں ہے۔ وہاں کی لوکل کمیٹی کی انتظامیہ میں ہمارا کوئی ممبر نہیں ہے۔ اب وہاں دو فیصد اقلیت ہم پر مسلّط ہے اور ہم پر ربوہ میں حکومت کررہی ہے۔ ووٹ کے حق سے محرومی کے حوالہ سے حضورِ انور نے فرمایا کہ حکومت نے ہمارے لئے یہ شرط رکھی ہے کہ اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کرو تو پھر ووٹ کا حق ملے گا۔ حضورِانور نے فرمایا آپ جو مجھے سمجھتے ہیں، سمجھیں لیکن مجھ کو مجبور نہیں کرسکتے کہ میں اپنے آپ کو غیرمسلم کہوں۔
حضورِانور نے فرمایا: میں پاکستان میں رہتا تھا، وہاں جماعت کا ہیڈ (ناظر اعلیٰ) تھا۔ جماعت کے خلاف جو قوانین ہیں ان کی وجہ سے میں خود بھی گیارہ دن جیل میں رہا ہوں۔ جبکہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا، کسی کو مارا نہیں، کسی مخالف نے جھوٹی شکایت کردی۔ پھر بعد میں مجسٹریٹ نے دیکھا کہ شکایت جھوٹی ہے اور غلط طور پر قید کیا گیا ہے تو رہائی عمل میں آئی۔
حضورِانور نے فرمایا: ضیاء الحق نے اپنے دور میں جماعت کے خلاف سخت قوانین بنائے۔ السلام علیکم نہیں کہہ سکتے، تین سال قید کی سزا ہوگی۔ بچوں کے نام مسلمانوں کے نام کی طرح نہیں رکھ سکتے، شادی کارڈ پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے کی وجہ سے احمدیوں پر مقدمات بنے۔ آجکل مختلف چارجز کی وجہ سے بہت سے احمدی جیل میں ہیں۔
ہم اپنی مساجد میں جاتے ہیں، اذان نہیں کہہ سکتے، مسجد کو مسجد نہیں کہہ سکتے۔
٭رکن کانگریس نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیوں جماعت احمدیہ کو غیرمسلم قرار دلوایا جبکہ وہ خود کو ایک سیکولر راہنما کہتا تھا۔
اس پر حضورِ انور نے فرمایا: ایک تو یہ کہ بھٹو نے سوچا کہ احمدی ملک میں اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ الیکشن میں احمدیہ کمیونٹی نے اس کے لئے کام کیا تھا اور خاص کر اُن علاقوں میں کیا تھا جہاں اس کو کوئی جانتا نہ تھا۔ ہماری جماعت ایک منظم جماعت ہے۔ ہمارے پاس ووٹ تھے۔ چنانچہ احمدیہ کمیونٹی ہی بھٹو کو اِس سٹیج پر لائی تھی کہ اُس نے حکومت بنائی۔
پھر دوسری بات یہ ہے کہ بھٹو مسلم ورلڈ کا لیڈر بننا چاہتا تھا۔ اس نے پاکستان میں summitکانفرنس کا بھی انعقاد کیا جس میں مسلم ممالک کے سربراہان شامل ہوئے۔ بھٹو نے سوچا کہ اگر احمدیوں کو غیرمسلم قرار دے دوں تو مسلمان ممالک میں میرا ایک مقام بن جائے گا۔ یہ سارا معاملہ پولیٹیکل طور پر ہوا۔
٭حضورِانور کے لندن آنے کے حوالہ سے بات ہوئی تو حضورِانور نے فرمایا کہ میں تو چوتھے خلیفہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی وفات پر چند دن کے لئے لندن آیاتھا۔ مجلس انتخاب خلافت میں شامل تھا۔ میں تو واپس جانے کے لئے آیا تھا۔ خلیفۃ المسیح منتخب ہوا۔ اب میں پاکستان واپس نہیں جاسکتا تھا۔ وہاں کسی کو السلام علیکم نہیں کہہ سکتا، خطبہ جمعہ نہیں دے سکتا تھا، اپنی ذمہ داری بحیثیت خلیفۃ المسیح ادا نہیں کرسکتا تھا۔
حضورِانور نے فرمایا: آج میں نے یہاں ہیوسٹن میں خطبہ جمعہ دیا ہے جوساری دنیا میں یہاں سے ٹیلی کاسٹ ہوا ہے اور اس کا آٹھ زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔ جبکہ پاکستان میں یہ نہیں ہوسکتا تھا۔
اِس پر کانگریس مین نے کہا: اِس صورتحال میں حضورِانور اگر پاکستان گئے تو ان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہی ہوتا۔
حضورِانور نے فرمایا: پاکستان میں ملّاں کا زور ہے۔ مشرف جب صدر تھا تو اُس نے فیصلہ کیا تھا کہ مشترکہ انتخاب ہوگا اور احمدی پاکستان کے شہری ہونے کے لحاظ سے ووٹ دے سکتے ہیں تو اس فیصلہ پر ملاں نے بہت شور مچایا تو اُس نے ملاں کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے۔
حضورِانور نے فرمایا: جو بھی حکومت ہو وہ ملاں کے دبائو میں آجاتی ہے۔ اب عمران خاں کی حکومت ہے، اس نے بھی ملاں کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔ پروفیسر عاطف میاں جو یہاں امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، ان کو عمران خان نے حکومت کی اکنامک ایڈوائزری کونسل (economic advisory council)میں رکھا تھا۔ اس پر ملاں نے شور مچایا کہ یہ احمدی ہے، اس کو نکالو۔ چنانچہ حکومت نے نکال دیا اور کہا کہ اپنا استعفیٰ دے دو۔ ہم ملاں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
٭ملاقات کے آخر پر رکن کانگریس نے عرض کیا کہ حضورِانور دنیا سے انتہاء پسندی کے خاتمے اور امریکہ میں امن کے لئے خاص طور پر دعا کریں۔ اور درخواست کی کہ حضورِانور بھی ہمارے لئے دعا کریں۔ حضورِانور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ دنیا سے انتہاء پسندوں کا خاتمہ کرے اور دنیا میں امن قائم ہو۔
٭ اس رکن کانگریس نے عرض کیا کہ تمام مسلم امہ کو بلکہ تمام دنیا کو حضورِانور کی راہنمائی اور پیغام کی ضرورت ہے۔
٭آخر پر موصوف نے حضورِانور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ یہ ملاقات پانچ بج کر پندرہ منٹ پر ختم ہوئی۔
٭بعدازاں پروگرام کے مطابق حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد کے بیرونی حصہ میں تشریف لے آئے اور مسجد کی بیرونی دیوار میں نصب ایک یادگاری تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کروائی۔اس تختی پر درج ذیل عبارت تحریر کی گئی تھی۔
’’30؍جون 1998ء بروز منگل حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس مسجد کا افتتاح سابق امیر جماعت امریکہ مکرم ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب نے بروزجمعۃ المبارک دو اپریل 2004ء کو کیا۔ اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل پیغام بھیجا۔
’الحمدللہ کہ جماعت احمدیہ ہیوسٹن کو ایک خوبصورت مسجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی ہے۔ اللہ بہت مبارک فرمائے اور تمام مالی قربانی کرنے والوں کو جزائے خیر دے اور ان کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے۔ اسی طرح مساجد سے وابستہ تمام برکات سے اس علاقہ، اس شہر اور جماعت احمدیہ کے ہر فرد کو فیضیاب فرمائے۔
مساجد کی تعمیر کی اصل غرض وغایت ہی یہی ہے کہ ان میں خدا کے بندے خدائے واحد ویگانہ کی عبادت کے لئے جمع ہوں اور مساجد کی اصل زینت ان نمازیوں کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔ پس آپ کا اصل کام اب شروع ہوا ہے کہ آپ نے خالص اللہ کی خاطر عبادت کرنے والے نمازیوں سے اس مسجد کو آباد کرنا ہے۔ اللہ آپ کو اپنے خالص عبادت گزار بندوں میں شامل کرے اور یہ مسجد ایسے ہی عبادت گزاربندوں سے پُر رہے۔‘
آج 21؍اکتوبر بروز اتوار یہ تختی حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پہلے تاریخی دورہ کی یادگار کے طور پر نصب کی جارہی ہے۔ـ‘‘
تختی کی نقاب کشائی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس اپنے دفتر تشریف لے آئے۔
پروفیسر کریگ کانسیڈائن Craig Considine) ماہر سوشیالوجی رائس یونیورسٹی امریکہ اور پروفیسر عمران البداوی ماہر علوم مشرق وسطی اور عربی حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ملاقات کے آغاز پر دونوں پروفیسر صاحبان نے اپنا تعارف کروایا۔ بعدازاں پروفیسر عمران البداوی نے حضورِانور کی خدمت میں اپنی کتاب (The Quran and the Armaic Gospel Traditions) پیش کی۔ حضورِانور نے موصوف کا شکریہ ادا کیا۔
پروفیسر البداوی صاحب نے اپنے موجودہ پراجیکٹ کے بارہ میں بتایا جو کہ معاشرہ اور قرآن کے متعلق ہے اور ساتھ ہی ایک کانفرنس کا ذکر کیا جس کا اہتمام انہوں نے کیا تھا اور پاکستان سے مکرم مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ نے اس میں شمولیت کی تھی۔ پروفیسر موصوف نے کہا کہ جماعت احمدیہ کی پیش کردہ قرآن کی تشریح بالکل حقائق کے مطابق ہے اور وہ جماعت احمدیہ کے اس کام کو سراہتے ہیں اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
حضورِانور نے پروفیسر البداوی صاحب سے دریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب دیباچہ تفسیر القرآن کا مطالعہ کیا ہے؟اس پر موصوف نے عرض کیا کہ نہیں پڑھی۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ پروفیسر صاحب کو یہ کتاب دی جائے۔ چنانچہ پروفیسر صاحب کو یہ کتاب مہیا کردی گئی۔ اس پر موصوف نے حضورِانور کا شکریہ ادا کیا۔
حضورِانور نے فرمایا: دیباچہ تفسیر القرآن کے پہلے حصہ میں مذاہب اور مذاہب کے مابین موازنہ کیا گیا ہے۔ جبکہ دوسرے حصہ میں حضرت نبی کریم ﷺ کے حالات زندگی بیان کئے گئے ہیں۔
اس کے بعد پروفیسر کانسیڈائن نے اپنی کتاب کے لئے تعلیمی کام کا ذکر کیا جو کہ ڈبلن (آئرلینڈ) اور باسٹن (امریکہ) میں نوجوان مسلمان لڑکوں کے خیالات اور عادات کے بارے میں ہے۔
حضورِانور نے پروفیسر صاحب سے دریافت فرمایا کہ انہوں نے نوجوان مسلمان لڑکیوں کو اس میں شامل کیوں نہیں کیا؟ اس پر پروفیسر صاحب نے کہا کہ اس کی وجہ لڑکیوں کے انٹرویو کے لئے سماجی رکاوٹیں ہیں۔
حضورِانور نے فرمایا: کوئی بھی تحقیق مسلمان لڑکیوں کے انٹرویو کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ حضورِانور نے پروفیسر صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ اس کام کے لئے دنیا کے مختلف حصوں کا سفر اختیار کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ افریقہ، ایشیا یا آسٹریلیا اور وہ احمدی مسلمان لڑکیوں کے انٹرویو سے اس کا آغاز کرسکتے ہیں۔
حضورِانور نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ نصف دین عائشہ ؓ سے سیکھو۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک مسلمان خاتون کو دینی علم ہے، دینی علم پر عبور حاصل ہے۔ حضورِانور نے فرمایا: عورت کا اسلام میں بڑا کردار ہے، بڑا مقام ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔
حضورِانور نے فرمایا: اب آپ کی اگلی کتاب ’’Woman in Islam‘‘ پر آنی چاہئے۔ حضورِانور نے فرمایا: آپ احمدی مسلم خاتون سے انٹرویو پاکستان میں لیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا۔
پروفیسر صاحب نے حضورِانور کی راہنمائی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اب ان کو اپنی نئی کتاب کے لئے راہنمائی مل گئی ہے۔
اس بات کا بھی ذکر ہوا کہ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’پیس سمپوزیم یوکے‘‘ کے موقع پر اپنے ایڈریس میں پروفیسر کانسیڈائن کا حوالہ دیا تھا۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ بعد میں، میں نے پروفیسر صاحب کا ایک ٹویٹ بھی پڑھا تھا، جس میں انہوں نے حوالہ دینے کی خبر ملنے کا ذکر کیا تھا۔ اس پر پروفیسر صاحب نے عرض کیا کہ انہیں بڑی خوشی ہے کہ اتنی بڑی ہستی نے ان کا حوالہ کے طور پر ذکرکیا ہے۔
پروفیسر البداوی صاحب سے حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟ اس پر موصوف نے عرض کیا کہ والد صاحب کا تعلق ملائشیا سے ہے اور والدہ صاحبہ مصر کی ہیں۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا: اس بیک گرائونڈ کی وجہ سے تو آپ کو عربی زبان کا ماہر ہونا چاہئے۔ پروفیسر البداوی صاحب نے عرض کیا کہ وہ بنیادی طور پر عربی پر عبور رکھتے ہیں بلکہ وہ عربی زبان اور ادب پڑھاتے رہے ہیں۔
حضورِانور نے پروفیسر صاحبان سے فرمایا کہ یوکے جلسہ پر آئیں، وہاں دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ آتے ہیں اور چالیس ہزار کے لگ بھگ حاضری ہوتی ہے۔ امسال اگست 2019ء کے پہلے ہفتہ میں یہ جلسہ ہے۔
پروفیسر کانسیڈائن صاحب نے عرض کیا کہ ملاقات کے لئے آنے سے قبل، ہم حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہیومینٹی فرسٹ یوکے کے ایک پروگرام میں جو خطاب فرمایاتھا وہ سن رہے تھے۔ اس خطاب میں حضورِانور نے وہ حدیث پیش فرمائی تھی جس میں خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں بھوکا تھا، میں پیاسا تھا اور میں ننگا تھا، تم نے نہ مجھے کھانا دیا، نہ پانی دیا اور نہ لباس مہیا کیا۔ پروفیسر موصوف نے عرض کیا کہ میرے بہت سے احمدی احباب دوست ہیں اور میرے اِن سے بڑے اچھے تعلقات ہیں۔
پروفیسر البداوی صاحب نے عرض کیا کہ وہ اپنے لیکچرز میں جہاد کے حوالہ سے جماعت احمدیہ کا موقف پیش کرتے ہیں۔
اس پر حضورِانور نے فرمایا: اگر آپ چارٹر آف مدینہ کو اپنائیں تو پُرامن معاشرہ بنالیں گے۔آج اسلامی دنیا اس پر بالکل عمل نہیں کررہی لیکن یہ انسانی حقوق کا پہلا قانون تھا۔ جس پر اگر عمل کیا جائے تو معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتاہے۔
اب پاکستان میں عمران خان صاحب نے کہا تھا کہ میں اس پر عمل کروں گا لیکن وہ نہیں کرسکا۔
حضورِانور نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے حجۃالوداع کے موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا تھا وہ چارٹر آف ہیومن رائٹس ہے۔ اگر اس پر عمل کیا جائے تو پھر کسی فریق، کسی قوم کی حق تلفی نہیں ہوگی اور کسی سے زیادتی نہیں ہوگی۔
حضورِانور نے فرمایا: چارٹر آف مدینہ اور آخری خطبہ حجۃ الوداع یہ سچا اسلام ہے اور یہ اصل اور حقیقی اسلام ہے۔
چارٹرآف مدینہ میں حکومتی طرز طریق بتایا گیا ہے جبکہ حجۃ الوداع کے خطبہ میں انسانی اقدار کا قیام اور انسانی حقوق کے احترام کی تعلیم دی گئی ہے۔
آخر پر پروفیسر البداوی صاحب نے عرض کیا کہ وہ حضورِانور کو رائس یونیورسٹی کے بیکرانسٹیٹیوٹ میں خطاب کی دعوت دینا چاہتے ہیں جو کہ مختلف راہنمائوں کو مدعو کرنے والا معتبر ترین ادارہ ہے۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا شائد مستقبل میں کسی وقت دورہ کے دوران شیڈول کی مناسبت سے یہ ممکن ہو سکے۔
حضورِانور نے پروفیسر کانسیڈائن صاحب سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کیتھولک مذہب پر عمل کررہے تھے؟ اس پر موصوف نے جواب دیا کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کررہے ہیں۔ شائد اس وجہ سے کہ وہ آئرش نسل کے ہیں۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ مذہب پر عمل کرنے والا شخص بہتر ہے چاہے مذہب کوئی سا ہو۔
یہ ملاقات پانچ بج کر پچاس منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر دونوں پروفیسر صاحبان نے حضورِانور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
……………………(جاری ہے)