الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حُسنِ معاشرت
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’عوام الناس خیال کرتے ہیں کہ خلق صرف حلیمی اور نرمی اور انکسارہی کا نام ہے۔ یہ ان کی غلطی ہے بلکہ جو کچھ بمقابلہ ظاہری اعضاء کے باطن میں انسانی کمالات کی کیفیتیںرکھی گئی ہیں ان سب کیفیتوں کا نام خلق ہے۔ مثلاً انسان آنکھ سے روتا ہے اور اس کے مقابل پر دل میں ایک قوّت رقّت ہے۔ وہ جب بذریعہ عقل خداداد کے اپنے محل پر مستعمل ہوتو وہ ایک خلق ہے۔ ایسا ہی انسان ہاتھوں سے دشمن کا مقابلہ کرتا ہے اوراس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو شجاعت کہتے ہیں۔ جب انسان محل پر اور موقع کے لحاظ سے اس قوت کو استعمال میں لاتا ہے تو اس کا نام بھی خُلق ہے۔ اورایسا ہی انسان کبھی ہاتھوں کے ذریعہ سے مظلوموں کو ظالموں سے بچانا چاہتا ہے یاناداروں اور بھوکوں کو کچھ دینا چاہتا ہے یاکسی اَور طرح سے بنی نوع کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوّت ہے جس کو رحم بولتے ہیں …جب انسان ان تمام قوتوں کوموقع اور محل کے لحاظ سے استعمال کرتا ہے تو اس وقت ان کا نام خلق رکھا جاتا ہے۔ اللہ جلشانہٗ ہمارے نبی ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍیعنی تُو ایک بزرگ خلق پر قائم ہے۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی)
حضرت مسیح موعودؑ کی حیات طیبہ کا نمایاں پہلو آپؑ کا حسن خلق اور طرز معاشرت تھا۔ اخلاق و کردار کا جو نکتہ آپؑ دوسروں کو سکھانا چاہتے تھے آپؑ خود اس کی عملی تفسیر تھے۔ لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ 2013ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حسن معاشرت کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون مکرمہ عذراعباسی صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ اخلاق فاضلہ کے بےمثال نمونوں کا ایک خوبصورت گلدستہ ہدیۂ قارئین ہے:
٭…حضرت مفتی فضل الرحمٰن صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مَیں گورداسپور سے ایک خط لے کرحضرت صاحبؑ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ گرمی کا موسم تھااور مَیں سخت دھوپ میں آیا، رات کو بھی سونہ سکا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نیچے کے کمرے میں تشریف فرما تھے۔ مَیں جب پہنچا تو آپؑ خط لے کر میرے لیے شربت لینے تشریف لے گئے۔ گرمی اورکوفت کی وجہ سے مَیں اونگھ گیا اور وہیں لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد کیا دیکھتا ہوں حضرتؑ کے ہاتھ میں پنکھا ہے۔ مَیں اُٹھ بیٹھا اور بہت ہی شرمندہ ہوا۔ فرمایا:تھکے ہوئے تھے، سو جاؤ اچھا ہے۔ مَیں نے عذر کیا اور پھر شربت پی کر گھر چلا آیا۔
٭…عفو اور درگزرحضرت مسیح موعودؑ کی سیرت کا اعلیٰ ترین وصف تھا۔ حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضورؑ کسی کواس کی خطا اور لغزش پر مخاطب کرکے ملامت نہیں کرتے۔ اگر کسی کی حرکت نا پسند آوے تو مختلف پیرایوں میں تقریر کردیں گے۔ اگر وہ سعید ہوتا ہے تو خود ہی سمجھ جاتا اور اپنی حرکت پر نادم ہوتا ہے۔ آپ جب وعظ و نصیحت کرتے ہیں تو ہر ایک ایسا ہی یقین کرتا ہے کہ یہ میرے ہی عیب ہیں جو بیان ہورہے ہیں۔ اوریوں اصلاح اور تزکیہ کا پاک سلسلہ بڑی عمدگی سے جاری رہتا ہے۔
٭…حضرت محمد اکبر خان صاحب سنوریؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم وطن چھوڑ کر قادیان آگئے تو ہم کو حضرت اقدسؑ نے اپنے مکان میں ٹھہرایا۔ آپؑ کا قاعدہ تھا کہ رات کو عموماً بہت سی موم بتیاں اکٹھی روشن کر دیا کرتے تھے۔میری لڑکی بہت چھوٹی تھی۔ ایک دفعہ حضرت اقدسؑ کے کمرے میں بتی جلاکر رکھ آئی۔ اتفاق ایسا ہوا کہ وہ بتی گرپڑی اور تمام مسوّدات جل گئے، علاوہ ازیں اَور بھی چند چیزوں کا نقصان ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب واقعہ معلوم ہوا تو تمام گھر میں گھبراہٹ اور میری بیوی اور لڑکی کو سخت پریشانی کیونکہ حضرت اقدسؑ مسوّدات بڑی احتیاط سے رکھا کرتے تھے۔ لیکن حضورؑ نے اس واقعہ کو یہ کہہ کر رفت گذشت کر دیا کہ خدا کا بہت ہی شکر ادا کرنا چاہیے کہ زیادہ نقصان نہیں ہوگیا۔
٭…حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے کچھ چاول چرائے تو کسی تیز نظر نے پکڑلیا۔ شور پڑگیا اس کی بغل سے کوئی پندرہ سیر کی گٹھڑی چاولوں کی نکلی۔ اِدھر سے ملامت اُدھر سے پھٹکار ہورہی تھی۔ حضرتؑ کسی تقریب سے ادھر آنکلے۔ کسی نے واقعہ کہہ سنایا تو فرمایا: محتاج ہے، کچھ تھوڑے سے اسے دے دو اور فضیحت نہ کرو اور خداتعالیٰ کی ستاری کا شیوہ اختیار کرو۔
٭…حسن سلوک اور سخاوت انسان کی معاشرتی زندگی میں بہترین خلق ہے یعنی نہ احسان کا خیال ہواور نہ شکرگزاری کی آرزو۔ حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی نے ایک خوبصورت قیمتی ٹوپی حضرت اقدسؑ کی خدمت میں بھیجی۔ دو ہندو نوجوان بھی بیٹھے تھے۔ ایک نے اس ٹوپی کی بہت تعریف کی اور ہاتھ میں لے کر باربار دیکھتا رہا۔ آخر حضرت اقدسؑ نے وہ ٹوپی اس کوہی دے دی۔ وہ لے کر خوش خوش چلاگیا۔ مجھ سے مخاطب ہو کر آپؑ نے فرمایا: صاحبزادہ صاحب! یہ ٹوپی اس کو پسند آگئی تھی جبھی تو بار بار تعریف کرتا رہا۔ ہمارے دل نے یہ گوارا نہ کیا کہ اس کو تکلیف پہنچے اس لیے ہم نے بشرح صدر ٹوپی دے دی۔ خدا نے ہمارے پاس ٹوپی بھیجی، اَور بھیج دے گا، اگر ہم اس کو یہ نہ دیتے تو اس کو رنج پہنچتا۔ تالیف قلب بھی تو ایک چیز ہے۔
٭…حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کلیۃً تکلفات سے پاک تھی۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ یہ سادگی اس وجہ سے نہیں تھی کہ عیش و آرام کے اسباب میسر نہ تھے یا آپؑ رہبانیت کو پسند کرتے تھے۔…شیخ نور احمد صاحبؓ کہتے ہیں کہ جنگِ مقدّس کی تقریب پر بہت سے مہمان جمع ہوگئے تھے۔ ایک روز حضرت مسیح موعودؑ کے لیے کھانا رکھنا یاد نہ رہا۔ مَیں نے اپنی اہلیہ کو تاکید کی ہوئی تھی مگر وہ کثرتِ کار کی وجہ سے بھول گئی یہاں تک کہ رات کا بہت بڑا حصہ گزر گیا اور حضرتؑ نے بڑے انتظار کے بعد استفسار فرمایاتو سب کو فکر ہوئی۔ بازار بھی بند ہوچکا تھا۔ حضرتؑ کے حضور صورتحال کا اظہار کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا: اس قدر گھبراہٹ اور تکّلف کی کیا ضرورت ہے، دسترخوان میں دیکھ لو کچھ بچا ہوا ہوگا، وہی کافی ہے۔ دسترخوان کو دیکھا تو اس میں روٹیوں کے چند ٹکڑے تھے۔ آپؑ نے فرمایا:یہی کافی ہیں۔ان میں سے ایک دو ٹکڑے لے کر کھا لیے اور بس۔
٭…حضرت قاضی اکمل صاحبؓ فرماتے ہیں: ایک روز شیخ رحمت اللہ صاحبؓ و دیگر احباب لاہور تشریف لائے تو حضورؑ کی طبیعت نا ساز تھی۔ فرمایا: اندر ہی آجاؤ۔ حضورؑ ایک پلنگ پرتشریف فرما تھے (جو حضورؑ کی تمام ضروریاتِ تصنیف و تالیف کا کام دیتا تھااس لیے وہ لمبا چوڑا بنوایا تھا)اس کے سرہانے ایک چھوٹا سا میز تھا جس پر بہت سی بتیاں پڑی تھیں (حضورؑ ایک ہی وقت میں کئی بتیاں روشن کر لیا کرتے تھے تاکہ کافی روشنی ہو)۔ دوات کے گرد غالباً مٹی تھپی ہوئی تھی (تاکہ گر نہ پڑے)۔ لوگ بےتکلفی سے جہاں کسی کو جگہ ملی بیٹھ گئے۔ کوئی چارپائی پر کوئی صندوق پر، کوئی ٹرنک پر، کوئی دہلیز پر، کوئی فرش پر۔ دیر تک ہم بیٹھے رہے اور حضورؑ کے کلمات طیبات سے شاد کام ہوتے رہے۔ کمرے میں بالکل سادگی تھی۔ کوئی فرش نہ تھا نہ مکلّف سامان بلکہ رضائی بھی پھٹی ہوئی تھی، اس کی روئی نظر آرہی تھی۔
٭…حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ فرماتے ہیں حضورؑ کو کسی خاص لباس کا شوق نہ تھا۔ آخری کچھ سالوں میں آپؑ کے پاس کپڑے بطور تحفہ کے بہت آتے تھے۔ خاص کر کوٹ صدری اور پائجامہ قمیض وغیرہ جو اکثر شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری ہر عید، بقر عید پراپنے ہمراہ نذر لاتے تھے۔ تبرک مانگنے والے بھی طلب کرتے رہتے تھے۔ بعض دفعہ تو یہ نوبت پہنچ جاتی کہ آپؑ ایک کپڑا بطور تبرک کے عطا فرماتے تو دوسرابنواکر اسی وقت پہننا پڑتا۔ اور بعض سمجھ دار نیا کپڑا بھیج کر ساتھ عرض کرتےکہ اپنا اترا ہوا تبرک مرحمت فرماویں۔
٭…حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ بیان فرماتے تھے کہ مَیں حضر ت اقدسؑ کے مکان کے اُوپر کے حصے میں رہتا ہوں۔ مَیں نے کئی د فعہ آپؑ کے گھر کی عورتوں کو آپس میں یہ با تیں کرتے سنا ہے کہ حضر ت صاحب کی توآنکھیں ہی نہیں ہیں، ان کے سامنے سے کوئی عورت کسی طرح سے بھی گز رجا وے ان کو پتہ نہیں لگتا۔ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ بھی بیا ن فرماتے ہیں کہ باہر مَردوں میں بھی آپؑ کی یہی عادت تھی کہ آپؑ کی آنکھیں ہمیشہ نیم بند ر ہتی تھیں اور اِدھراُ دھر آنکھ اُٹھا کر د یکھنے کی عادت نہ تھی۔ بسااوقا ت سیر میں آپؑ کسی خادم کا ذکر غائب کے صیغہ میں فرما تے تھے حالانکہ وہ آپؑ کے ساتھ ساتھ جا رہا ہوتا تھا۔ حضورؑ فر ما تے ہیں: ’’مو من کونہیں چاہئے کہ در یدہ د ہن بنے یا بے محا بہ ا پنی آنکھ کو ہر طرف اُٹھائے پھر ے بلکہ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَا رِ ھِمْ (النور:31)پر عمل کر کے نظر کو نیچی ر کھنا چا ہیے اور بدنظری کے اسباب سے بچنا چا ہیے۔‘‘ (ملفوظات جلد2 صفحہ 332)
٭…حضر ت نوا ب محمد علی خان صا حبؓ فرماتے ہیں کہ پہلی دفعہ فروری 1891ء میں مَیں قادیان آیا تو حضورؑ کی سادگی نے مجھ پر خاص اثر کیا۔ آپؑ کی خلوت اور جلوت میں ایک ہی با ت ہوتی تھی۔ دسمبر 1892ء میں پہلے جلسے میں شامل ہوا۔ حضرت صاحبؑ بعدنمازِ مغرب میرے مکان پر تشریف لے آتے اور مختلف امور پر تقریرہوتی رہتی تھی۔ احباب وہاں جمع ہو جا تے اور کھا نا بھی و ہاں ہی کھاتے۔ نما زِ عشاء تک یہ سلسلہ جاری رہتا۔ مَیں علماء اور بزرگان کے سامنے دو زانو بیٹھنے کا عادی تھا۔ بسااوقات گھٹنے دُکھنے لگتے مگر یہا ں مجلس کی حا لت نہایت بےتکلّفانہ ہوتی۔ جس کو جس طرح آرام ہوتا بیٹھتا۔ بعض پچھلی طرف لیٹ بھی جا تے مگر سب کے دل میں عظمت و ادب اور محبت ہوتی۔ چونکہ کوئی تکلّف نہ ہوتا تھا اسی لیے یہی جی چاہتا تھاکہ آپؑ تقریر فرماتے رہیں اور ہم میں موجود ر ہیں مگر عشاءکی اذان سے جلسہ برخاست ہوجاتا۔
٭…حضرت پیر سراج الحق نعما نی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ سے جو عر ض کرتا کہ میں نے نظم لکھی ہے وہ سنانی چاہتا ہوں۔ خوا ہ وہ پنچا بی ز بان میں ہو خوا ہ فا رسی میں خواہ عربی میں، آپؑ بےتکلّف فرماتے کہ اچھا سناؤ۔ اور آپؑ شوق سے سنتے خوا ہ وہ کیسی ژولیدہ طو ر سے ہو تی، کسی کا دل نہیں توڑ تے اور جز اک اللہ فرما تے۔
٭…حضر ت مسیح مو عو دؑ اُ س ز ما نے میں مبعو ث ہو ئے جب ہندوستان میں ہندوؤں کی تہذ یب کے اثرا ت مسلمانوں کی طرز معاشرت پر اس قدر شدید تھے کہ عورت کی کوئی حیثیت اور احترا م با قی نہیں ر ہا تھا۔ حضورؑ نے اپنے عملی نمونے سے عورت کو پھر اُس کا مقام دلایا۔ حضورؑ فرماتے ہیں: ’’عورتوں کے حقو ق کی جیسی حفا ظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذ ہب نے قطعًا نہیں کی ۔مختصر الفاظ میں فرمادیا ہے وَلَھُنَّ مِثلُ الَّذِی عَلَیہِنَّ کہ جیسے مردوں کے عورتوں پرحقوق ہیں و یسے ہی عورتوں کے مَردوں پر ہیں۔ بعض لوگوں کا حال سنا جاتا ہے کہ ان بےچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں۔ گالیاں دیتے ہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اورپردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سے برتتے ہیں کہ ان کو زندہ در گور کردیتے ہیں۔ چاہئے کہ بیویوں سے خاوندکا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے…۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے خَیرُ کُم خَیرُ کُم لِاَھلِہٖ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے اچھا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلدپنجم صفحہ417تا418)
٭…حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ فرماتے ہیں کہ اس بات کو اندرونِ خانہ کی خدمتگار عورتیں تعجب سے دیکھتی ہیں اور مَیں نے بارہا انہیں خود حیرت سے یہ کہتے ہو ئے سنا ہے کہ ’’مِرجا بیو ی دی گل بڑی مندا اے۔‘‘
٭…حضرت اقدسؑ فرمایا کرتے تھے کہ ’’فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں۔‘‘ اور یہ بھی فرمایا: ’’ہمیں تو کمال بےشرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ درحقیقت ہم پر اتما م نعمت ہے۔ اس کا شکریہ ہے کہ عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں۔‘‘
٭…حضرت شیخ عبدالقادر سودا گرمل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت اماں جانؓ اورحضرت اماں جیؓ (حر م حضرت خلیفۃالمسیح الاوّ لؓ ) اپنے بچوں کو ہمرا ہ لے کر حضر ت میر نا صر نوا ب صاحبؓ کے سا تھ چند روزکے لیے تبدیلی آب و ہوا کی غر ض سے لاہو ر تشر یف لے گئیں۔ 4؍جو لا ئی 1907ء کو یہ قافلہ لاہو ر کی طر ف روا نہ ہو ا اور 14؍جو لا ئی کو واپس بٹا لہ پہنچا حضر ت اقدسؑ جو حسن معا شر ت کا ایک کا مل نمونہ تھے اپنے حرم محترم کے استقبال کے لیے چند خدام سمیت عازم بٹالہ ہوئے۔ حضورؑ پا لکی میں سوا ر تھے اور قرآن کھو ل کر سورۃ فاتحہ کی تلاوت فر ما ر ہے تھے خدا م کا بیان ہے کہ بٹا لہ تک حضورؑ سورۃ فاتحہ پر ہی غورو فکر میں مشغول رہے۔ رستہ میں صرف نہر پر اُتر کر وضو کیا اور پھر وہی سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع کردی۔ اللہ اللہ! کیا عشق تھا خدا کے مامو ر کو خدا کی کتاب کے ساتھ کہ گیا رہ میل کے لمبے سفر میں قرآن کر یم کی ایک چھوٹی سی سورۃ ہی زیرِ غور رہی۔ سچ فرمایا آپؑ نے کہ ؎
دِل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
بٹا لہ میں تحصیلدا ررا ئے جسمل خا ن صا حب نے آپؑ کے لیے ایک آرام دہ جگہ کا انتظام کردیا اور خود بھی شرفِ ملاقات حاصل کیا۔ دوپہرکا کھانا تناول فر مانے کے بعد حضو رؑ اپنے حر م محتر م کے استقبال کے لیے اسٹیشن پر تشر یف لے گئے۔ آپؑ کے اسٹیشن پر پہنچنے سے پہلے گاڑی آچکی تھی اور حضر ت اماں جانؓ آپؑ کو تلا ش کررہی تھیں۔ چونکہ ہجوم بہت زیادہ تھا اس لیے تھوڑی دیر تک آپؑ انہیں نظر نہیں آسکے پھر جب آپؑ پر نظر پڑی تو ’محمود کے ابا‘ کہہ کر آپؑ کو اپنی طرف متو جہ کیا تو حضرت اقدسؑ آگے بڑھے اور اپنی زوجہ محترمہ سے مصافحہ کیا۔ پھر حضورؑ واپس فرودگاہ پر تشریف لائے اور دوپہر کا وقت گزار کر پچھلے پہر عازم قادیان ہوئے۔
٭…حضرت سکینہ بیگم صاحبہؓ اہلیہ حضرت ماسٹر احمدحسین صاحب فریدآبادیؓ بیان کرتی ہیں کہ حضورؑ اپنی مجلس میں فرمایا کر تے تھے کہ ’’مردوں کو چاہئے کہ عورتوں کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آیا کریں‘‘ اور عورتو ں کو فرمایا کرتے کہ ’’عورتوں کو اپنے گھر کو جنت بناکر رکھنا چا ہئے اور مَر دوں کے ساتھ کبھی او نچی آواز سے پیش نہیں آنا چا ہئے۔‘‘ مَیں جب کبھی حضرت صاحبؑ کے گھر آتی تو مَیں دیکھا کرتی کہ حضورؑ ہمیشہ اُمّ المومنینؓ کو بڑی نرمی کے ساتھ آواز دیتے: ’محمود کی والدہ یا کبھی محمود کی اماں‘۔ نوکروں کے ساتھ بھی نہا یت نرمی سے پیش آتے۔ مجھے یا د نہیں آتا کہ حضورؑ کبھی کسی کے ساتھ سختی سے گفتگو کرتے، ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ بولتے۔
٭…حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ نے بیان کیا کہ ایک د فعہ حضرت مسیح موعودؑ کے ز ما نہ میں مَیں کسی وجہ سے ا پنی بیو ی مرحومہ پر کچھ خفا ہو اجس کا ذکر میر ی بیو ی نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی بیوی سے کیا اور انہوں نے مولوی صاحبؓ سے ذکرکردیا۔ اس کے بعد مَیں جب مولوی صا حبؓ سے ملا تو اُنہوں نے فرمایا کہ مفتی صا حب!آپ کو یاد ر کھنا چاہیے کہ یہاں ملکہ کا راج ہے۔ اس کے سوا اَور کچھ نہیں کہا ۔اُن کے یہ الفاظ عجیب معنی خیز تھے کیونکہ ایک تو اُن دنوں میں برطانوی تخت پر ملکہ وکٹوریہ متمکّن تھیں اور دوسرے حضرت مسیح موعودؑ خانگی معاملات میں حضرت اُمّ المومنینؓ کی بات بہت مانتے تھے اور گویا گھر میں اُن کی حکومت تھی۔
٭…حضرت شیخ یقو ب علی عر فا نی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضر ت اُمّ المو منینؓ پر جب کبھی بیما ر ی کا حملہ ہوتا تو آپؑ ہر طرح ہمدردی اور خد مت کر نا ضروری سمجھتے تھے اور اپنے عمل سے آپؑ نے یہ تعلیم ہم سب کو دی کہ بیوی کے کیا حقوق ہوتے ہیں، جس طرح پر وہ ہماری خدمت کرتی ہے عندالضرورت وہ مستحق ہے کہ ہم اسی قسم کا سلوک اُس سے کریں۔ چنا نچہ آپؑ علاج اور تو جہ الی اللہ ہی میں مصرو ف نہ رہتے بلکہ بعض او قا ت حضر ت امّ المو منینؓ کو دباتے بھی۔ نسوانی حقو ق کی صیانت اور ان کے حقوق کی مسا وات کا یہ بہترین نمونہ حضورؑ نے دکھایا۔
٭…حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضر ت مسیح موعودؑ بچوں کی د لدا ری کا بہت خیال رکھا کرتے تھے اور اپنے صا حبزادوں کا خصو صیت سے اس لیے بھی خیال رکھا کرتے کہ ان کوآیات اللہ یقین کرتے تھے اس لیے کہ خداتعالیٰ نے ہر ایک کی پیدائش سے پہلے بطور نشان پیش گوئی فرمائی اور حقیقت تو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بھی یَتَزَوَّجُ وَیُولَدُلَہٗ کہہ کر پیشگو ئی فر ما ئی ہو ئی تھی۔ پس آپؑ آیات اللہ کے اکرا م کے رنگ میں بھی دلداری فرمایا کرتے تھے جبکہ ایک شفیق با پ کا نمو نہ آپؑ کے طرز عمل میں ایسا مو جود تھا کہ اس کی نظیر عام انسانوں میں نہیں بلکہ صرف انبیا ء میں ملتی ہے۔ آپؑ کی شفقت پدری کے حوالے سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ فرماتے ہیں کہ محمودؔ نے جو اُس وقت بچہ تھا آپؑ کی واسکٹ کی جیب میں ایک اینٹ ڈا ل دی۔ آپؑ نے حا مد علی سے فرمایا کہ چند روز سے ہماری پسلی میں درد ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کو ئی چیز چبھتی ہے۔ وہ حیران ہوا اور آپؑ کے جسدِ مبارک پر ہا تھ پھیرنے لگا اور آخر اس کا ہا تھ اینٹ سے جا لگا۔ جھٹ جیب سے نکال لی اور عر ض کیا: یہ اینٹ تھی جو آپ کو چبھتی تھی۔ مسکرا کر فرمایا: چند روز ہو ئے محمو د نے میری جیب میں ڈا لی تھی اور کہا تھا اسے نکالنا نہیں مَیں اس سے کھیلوں گا۔
٭…حضر ت مو لا نا عبدالکر یم صاحب سیا لکو ٹیؓ تحریر فرماتے ہیں کہ محمود کو ئی تین برس کا ہو گا۔آپؑ لد ھیا نہ میں تھے۔ گرمی کا مو سم تھا۔ مر دا نہ اور ز نا نہ میں ایک د یوار حا ئل تھی۔ آدھی رات کا وقت ہوگا جو مَیں جاگا اور مجھے محمود کے رونے اور حضرتؑ کے اِدھر اُدھر کی باتوں میں بہلانے کی آواز آئی۔ حضرتؑ ا سے گو د میں لیے پھر تے تھے اور وہ کسی طرح چُپ نہیں ہوتا تھا۔ آخر آپؑ نے فرمایا: دیکھو محمود! وہ کیسا تارا ہے۔ بچے نے نئے مشغلے کی طر ف د یکھا اور ذرا چُپ ہوا پھر وہی رونا اور چِلّانا اور یہ کہنا شرو ع کر د یا: ابّا تا رے جانا ۔ کیا مجھے مز ہ آیا اور پیا را معلو م ہوا آپؑ کا اپنے سا تھ یوں گفتگو کرنا : ’’یہ اچھا ہو ا ہم نے تو ایک را ہ نکا لی تھی اس نے اس میں بھی ا پنی ضد کی را ہ نکا ل لی۔‘‘ آخر بچہ روتا روتا خود ہی جب تھک گیا تو چُپ ہو گیا مگر اس سا رے عر صہ میں ایک لفظ بھی سختی کا یا شکایت کا آپؑ کی زبا ن سے نہ نکلا۔
٭…حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’با ت با ت پر بچوں کو روکنا اورٹوکنا یہ ظا ہر کرتا ہے کہ گو یا ہم ہی ہدا یت کے مالک ہیں اور ہم اُ س کو اپنی مر ضی کے مطا بق ایک را ہ پر لے آئیں گے۔ یہ ایک قسم کا شرکِ خفی ہے اس سے ہما ری جماعت کو پرہیز کرنا چا ہئے ہم تو اپنے بچوں کے لیے دعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور آداب ِتعلیم کی پابندی کراتے ہیں بس اس سے زیادہ نہیں اور پھر اپنا پورا بھرو سہ اللہ تعا لیٰ پر رکھتے ہیں۔ جیسا کسی میں سعادت کا تخم ہوگا وقت پر سرسبز ہوجائے گا۔‘‘ (ملفو ظا ت جلد 2 صفحہ5ایڈیشن 1984ء)
٭…حضر ت مو لا نا عبدالکر یم سیا لکو ٹی صا حبؓ تحر یر فر ما تے ہیں کہ حضرتؑ بچوں کو سزا د ینے کے سخت مخا لف ہیں۔ میں نے با ر ہا د یکھا ہے ا یسی کسی چیز پر بر ہم نہیں ہو تے جیسے جب سن لیں کہ کسی نے بچہ کو ما را ہے۔ یہاں ایک بز رگ نے ایک د فعہ اپنے لڑ کے کوعا د تاََما را تھا۔ حضر تؑ بہت متا ثر ہو ئے اور انہیں بلا کر بڑ ی دردانگیز تقریر فرما ئی۔ فرمایا :میرے نزدیک بچوں کو یوں مارنا شر ک میں دا خل ہے گویا بد مزا ج مار نے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے۔ ایک جو ش وا لا آدمی جب کسی با ت پر سزا دیتا ہے اشتعال میں بڑھتے بڑھتے ایک د شمن کا رنگ ا ختیا ر کر لیتا ہے…جس طرح اور جس قدر سزا د ینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جا ئیں اور بچو ں کے لیے سوزِ دل سے د عا کر نے کو ایک حز ب مقرر کر لیں اس لیے کہ وا لد ین کی د عا کو بچوں کے حق میں خاص قبو ل بخشا گیا ہے۔
٭…حضرت ڈاکٹر میر محمد ا سمٰعیل صا حبؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضر ت مرزا بشیر احمد صا حبؓ جب دو سال کے تھے تو اُن کو شکر کھا نے کی عا دت ہو گئی تھی۔ ہمیشہ حضرت مسیح موعودؑ کے پاس پہنچتے اور ہا تھ پھیلا کر کہتے ’’ابا چٹی‘‘۔ (چٹی شکر کو کہتے تھے کیونکہ بو لنا پورا نہ آتا تھا اور مراد یہ تھی کہ چٹے رنگ کی شکر لینی ہے۔)حضرتؑ تصنیف میں بھی مصروف ہو تے تو کا م چھوڑ کر فوراً اُٹھتے۔ کوٹھڑ ی میں جاتے۔ شکر نکا ل کر اُ ن کو د یتے اور پھر تصنیف میں مصرو ف ہوجاتے۔ تھوڑی دیر میں میاں صاحب موصوف پھر دستِ سوا ل درا ز کر تے ہو ئے پہنچ جاتے۔ حضرت صاحبؑ پھر اُٹھ کر ان کا سوال پورا کردیتے۔ غر ض اس طرح باوجود تصنیف میں سخت مصرو ف ہو نے کے کچھ نہ فرماتے بلکہ ہر دفعہ اُ ن کے کام کے لیے ا ُٹھتے تھے۔
٭…حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضر ت مسیح مو عودؑ کی شفقت اور لطف ا پنی او لا د کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ تما م بچوں کے سا تھ تھا۔ جماعت کے کسی فرد کے ہاں بچہ پیدا ہو تا تو آپؑ بہت خو ش ہوتے اور اکثر اُ ن کے نا م آپؑ خود تجو یز فر ما یاکر تے۔ آپؑ بچوں تک کی خواب کو بھی نظرانداز نہ فرمایا کرتے تھے بلکہ بعض اوقات فر ما تے کہ بچوں کا نفس زکیہ ہوتا ہے اور اس لیے ان کی خوابیں بھی صحیح ہو تی ہیں۔ اس خصو ص میں آپؑ ا پنی او لاد ہی کی خوا بوں تک اس امر کو محدود نہ رکھتے تھے بلکہ کسی بھی بچہ کی خوا ب اگر کوئی حقیقت رکھتی جس کو حضورؑ خوب سمجھ سکتے تھے تو نہ صرف اسے نوٹ کرلیتے بلکہ اس پر عمل بھی کرتے ۔ آپؑ بچوں کو گود میں اُٹھائے ہوئے با ہر نکل آیا کرتے اور سیر میں بھی اُ ٹھا لیا کرتے۔ اس میں کبھی آپؑ کو تا مل نہ ہوتا۔ ا گرچہ خدام بھی اپنی سعادت سمجھتے مگر بچوں کی خواہش کا احسا س یا اُن کے اصرار کو د یکھ کر آپؑ اُ ٹھا لیتے اور اُ ن کی خوشی پوری کردیتے۔
٭…حضرت مسیح مو عودؑ کے اخلاق فاضلہ میں دو سروں سے عزت و احترا م سے پیش آنا نمایاں وصف تھا۔ کسی کی دل شکنی گوا را نہ کر تے، با ت سننے کے لیے ہمیشہ تیا ر ر ہتے اور دلداری کر تے۔ حضر ت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ؓ فرماتے ہیں کہ آپؑ ا پنے خدام کو بڑ ے ادب اور احترام سے پکا رتے ہیں اور حاضر و غا ئب ہر ایک کا نا م ادب سے لیتے ہیں۔ میں نے بارہا سنا ہے ا ندر اپنی زو جہ محتر مہ سے آپؑ گفتگو کررہے ہیں اور اس اثناء میں کسی خا دم کا نا م زبان پر آگیا ہے تو بڑے ادب سے لیاہے جیسے سامنے لیا کرتے ہیں۔ کبھی تُو کرکے کسی کو خطا ب نہیں کرتے تحریروں میں جیسا آپؑ کا عام رویہ ہے ’حضرت اخویم مولوی صاحب‘ اور ’اخویم حبی فی اللہ مولوی صاحب‘، اسی طر ح تقریر میں بھی فر ماتے ہیں۔
٭…حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے خادموں میں سے ایک حافظ حامدعلی صا حبؓ مر حو م تھے۔ حضورؑ کے اخلاق کا اُن پر ایسا اثر تھاکہ وہ بارہا ذکر کرتے کہ ’’مجھے ساری عمر میں کبھی حضرت مسیح موعو دؑ نے نہ جھڑکا اور نہ سختی سے خطاب کیا بلکہ میں بڑا ہی سست تھا اور اکثر آپؑ کے ار شا دا ت کی تعمیل میں دیر بھی کردیا کرتا تھا۔ با ایں سفر میں مجھے ہمیشہ ساتھ رکھتے۔‘‘ مَیں نے خود دیکھا ہے کہ حضرت مسیح مو عودؑ حا فظ حامدعلی صاحب کو حاضر غائب اسی پورے نام سے پکارتے یا میاں حا مد علی کہتے۔
٭…محترم شیخ عبدالقادر سوداگرمل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضورؑ کے خادم مرزا اسماعیل بیگ کا بیان ہے کہ جب حضرت اقدسؑ ا پنے وا لد بزرگوا ر کے ارشاد کے ماتحت بعثت سے قبل مقدمات کی پیر وی کے لیے جا یا کرتے تھے تو سوار ی کے لیے گھوڑا سا تھ ہو تا تھا اور مَیں بھی عموماً ہمرکاب ہوتا تھا۔ آپؑ پیدل ہی چلتے اور مجھے گھوڑے پر سوا رکرا دیتے میں باربار انکار کرتا اور عرض کرتا حضور مجھے شر م آتی ہے۔ آپؑ فرماتے کہ ہم کو پیدل چلتے شر م نہیں آتی تم کو سوا ر ہو تے کیوں شرم آتی ہے۔جب قادیان سے چلتے تو ہمیشہ پہلے مجھے سوار کراتے۔ جب نصف سے کم یا زیا دہ را ستہ طے ہوجاتا تو میں اُ تر پڑ تا اور آپؑ سوار ہوجاتے۔ اسی طرح جب وا پسی پر پہلے مجھے سوار کراتے اور بعد میں آپؑ سوار ہوتے۔ جب آپؑ سوار ہو تے تو گھوڑا جس چا ل سے چلتا اُسی چال سے چلنے دیتے۔ ٭…ا للہ تعا لیٰ نے حضر ت مسیح مو عو دؑ کے مزا ج میں حلم و کرم اور ضبطِ نفس کی وہ قو ت عطا فر ما ئی تھی آپؑ بڑ ے مشکل حالات و وا قعات میں بھی تو کل علیٰ اللہ کے بھر وسے بڑ ے اطمینان اور سکینت میں رہتے اور یہ امر آپؑ کے نفسِ مطمئنہ اور اعلیٰ درجہ کے قرب الٰہی پر بڑ ی ز بر دست د لیل ہے۔ حضرت شیخ یعقو ب علی عر فا نی صاحبؓ تحریر فر ما تے ہیں:
’’حضرت مسیح مو عو دؑ کو غصہ د لا نے وا لی ایک ہی با ت تھی کہ شعائراللہ کی ہتک ہو۔ آنحضرتﷺ اور قر آنِ مجید پر کوئی حملہ ہو اس کے لیے آ پؑ کوغصہ آتا تھا مگر وہ غصہ وحشیانہ رنگ نہ ر کھتا تھا بلکہ وہ حمیت و غیر ت ،د ینی خودداری اور عزت نفس کے مختلف شعبوں کا مظہر ہو تا تھا۔ جہاں آپؑ کی ذاتی چیز کا سوال ہوتاآپؑ حد در جہ رحیم و کر یم اور دل کے حلیم تھے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آپؑ حلیم تھے تو اس کے یہی معنی ہیں کہ آپؑ غیرت د ینی اور حمیت ا سلا می کی صحیح شا ن کے مظہر تھے اور کبھی اور کسی حا لت میں آپؑ سے کو ئی ایسا فعل سرزد نہ ہوتا تھا جو جوشِ نفسی کا ایک بے جا نتیجہ ہو…جب ہم ان حالات پر غور کرتے ہیں جو حضو رؑ کو پیش آئے۔ آپؑ نے خداتعالیٰ کی طرف سے ما مو ر و مر سل ہو نے کا د عو یٰ کیا اور یہ دعویٰ کسی خاص قو م کی طرف مبعو ث ہو نے کا نہ تھا۔ بلکہ اپنے سید و مو لا آنحضرت ﷺ کے اتبا ع میں نو ع انسا ن کی طر ف تھا۔ خداتعا لیٰ نے آپؑ کو مو عو د اد یا ن اور مصلح امم بنا کر بھیجا تھا۔ اس مقا م و منصب نے آپؑ کو مجبو ر کیا کہ وہ ہر قو م اور مذ ہب کے غلط عقا ئد اوراعما ل پر حملہ کریں۔
مدتوں کے مانے ہوئے غلط عقائد اور مروّجہ ر سوم و عادات سے الگ ہو نا کو ئی معمو لی با ت نہ تھی۔ اس پر ہر قو م کے مذہبی پیشواؤں میں جو ش پیداہوااور انہوں نے کو ئی دقیقہ آپؑ کی مخا لفت اور ایذا د ہی کا با قی نہ ر کھا۔ بد ز با نی اور ایذادہی کی حد ہو گئی۔ لیکن آپؑ چونکہ خدا تعا لیٰ کے ما مو را ور مر سل تھے۔ آپؑ نے اس تما م مقا بلہ میں با و جو د یکہ بے حد ا شتعال د لا یا گیا۔ ضبط اور بردا شت کی قوتوں کو ہا تھ سے جا نے نہیں د یا۔ اس کے علا وہ آپؑ کی رو زا نہ ز ند گی میں عا د تا ًایسی بہت سی با تیں پیش آجا تی تھیں جہا ں کو ئی شخص بھی صبرا ور حو صلہ سے کا م ہی نہیں لے سکتا …حضر ت مسیح مو عو دؑ کی زند گی کے مختلف حصوں اورحالتوں پر نظر کرو اور واقعات کا دقت نظر کے ساتھ مطالعہ کرو تو معلوم ہوگا کہ یہ نفسِ مطمئنہ مجسم ہیں اور غضب اور غصہ کی وہ قو تیں جو انسا ن کو ا خلا ق سے گرا کر نیچے گرا د یتی ہیں۔ آپؑ سے سلب کر لی گئی تھیں۔‘‘
٭…حضر ت مو لا نا عبد الکر یم سیا لکو ٹی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ کوئی ہو لنا ک واقعہ اور غم انگیز سانحہ آپؑ کی توجہ کو منتشر اور مفو ض کام سے غافل نہیں کرسکتا۔ ا قدامِ قتل کا مقدمہ جسے پادریوں نے برپا کیا اور جن کی تائید میں بعض ناعاقبت اندیش نا م کے مسلما ن اور آریہ بھی شا مل ہوگئے تھے، ایک دنیادار کاپِتّہ پگھلا د ینے اور اس کا دل پریشان اور حواس مختل کر د ینے کو کا فی تھا۔ مگر حضر تؑ کے کسی معا ملہ میں، لکھنے میں، معاشرت میں ، با ہر خدا م سے کشادہ پیشانی اور را ٔفت سے ملنے میں غر ض کسی حر کت و سکو ن میں کوئی فرق نہ آیا۔ کو ئی آدمی قیاس بھی نہیں کر سکتاتھا کہ آپؑ پر کوئی مقد مہ ہے …یافلاں شخص شملہ کے پہا ڑو ںسے سر ٹکراتا اور ما تھا پھو ڑ تا پھر تا ہے کہ آپؑ کے دا منِ عز ت پر اپنے نا پا ک خو ن کا کو ئی د ھبہ ہی لگا دے …آپؑ ہمیشہ فرماتے ہیں کہ کوئی معاملہ زمین پرواقع نہیں ہوتا۔ جب تک پہلے آسمان پر طے نہ ہوجائے اور خداتعالیٰ کے ارادہ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور وہ اپنے بندہ کو ذلیل اور ضائع نہیں کر ے گا۔ یہ ایک ایسا ر کن شد ید ہے جوہر مصیبت میں آپؑ کا حصن حصین ہے۔ مَیں مختلف شہروں اور ناگوار نظاروں میں آپؑ کے سا تھ رہا ہوں۔ دہلی کی ناشکرگزار اور جلدباز مخلوق کے مقابل۔ پٹیالہ، جالندھر، کپورتھلہ، امرتسر، لاہور اور سیالکو ٹ کے مخا لفوں کی متفق اور منفرد دل آزار کوششوں کے مقا بل میں آپؑ کا حیرت انگیز صبر اورحلم اور ثبات د یکھا ہے۔ کبھی آپؑ نے خلو ت میں یا جلوت میں ذکر تک نہیں کیا کہ فلا ں شخص یا فلاں قو م نے ہمارے خلاف یہ ناشائستہ حرکت کی اور فلاں نے زبا ن سے یہ نکا لا۔ مَیں صاف دیکھتا تھا کہ آپ ایک پہا ڑ ہیں کہ ناتواں پست ہمت چوہے اس میں سُرنگ کھود نہیں سکتے۔ ایک دفعہ آپؑ نے جالندھر کے مقام میں فرمایا کہ ابتلاکے وقت ہمیں اندیشہ اپنی جماعت کے بعض ضعیف دلوں کا ہو تا ہے میرا تو یہ حال ہے کہ اگر مجھے صاف آواز آوے کہ تُو مخذول ہے اور تیری کوئی مراد ہم پوری نہ کریں گے تو مجھے خداتعالیٰ کی قسم ہے کہ اس عشق و محبت ِ الٰہی اور خدمتِ دین میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی اس لیے کہ مَیں تو اُسے دیکھ چُکا ہوں۔ پھر فرمایا: ھَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیّاً
٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام تکبر،تصنّع اور بےجا مزاح یا ستائش کو ناپسند فرماتے تھے۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں۔ یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رسوا کرتی ہے۔ خدا کا رحم ہر ایک موحد کا تدارک کرتا ہے۔ مگر متکبر کا نہیں۔ شیطان بھی موحد ہونے کا دم مارتا تھا۔ مگر چونکہ اس کے سر میں تکبر تھا اور آدم کو جو خداتعالیٰ کی نظر میں پیارا تھا۔ جب اس نے توہین کی نظر سے دیکھا اور اس کی نکتہ چینی کی اس لیے مارا گیا اور طوق لعنت اس کی گردن میں ڈالا گیا۔ سو پہلا گناہ جس سے ایک شخص ہمیشہ کے لیے ہلاک ہوا تکبر ہی تھا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ 598)
٭…ایک شخص جو فقیروں اور سجادہ نشینوں کا شیفتہ تھا ہماری مسجد میں آیا۔ لوگوں کو آزادی سے گفتگو کرتے دیکھ کر حیران ہوگیا۔ آپؑ سے کہا کہ آپ کی مسجد میں ادب نہیں، لوگ بے محابا بات چیت آپ سے کرتے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا: ’’میرا مسلک نہیں کہ میں ایسا تند خُو اور بھیانک بن کر بیٹھوں کہ لوگ مجھ سے ایسے ڈریں جیسے درندہ سے ڈرتے ہیں۔ اور مَیں بُت بننے سے سخت نفرت رکھتا ہوں۔ مَیں توبُت پرستی کے ردّ کرنے کو آیا ہوں نہ یہ کہ میں خود بُت بنوں اور لوگ میری پوجا کریں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میں اپنے نفس کو دوسروں پر ذرا بھی ترجیح نہیں دیتا۔ میرے نزدیک متکبر سے زیادہ کوئی بُت پرست اور خبیث نہیں۔ متکبر کسی خدا کی پرستش نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی پرستش کرتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد2صفحہ6، ایڈیشن 1984ء)
٭…حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ فرماتے ہیں کہ آپؑ کی ہر ادا سے صاف ترشح ہوتا ہے کہ آپ کو کوئی حبّ جاہ اور علوّ نہیں اورآپ جلوت میں محض خداتعالیٰ کے امر کی تعمیل کی خاطر بیٹھتے ہیں۔ فرمایا: ’’اگر خداتعالیٰ مجھے اختیار دے کہ خلوت اور جلوت میں سے تُوکس کو پسند کرتا ہے تو اس پاک ذات کی قسم ہے کہ مَیں خلوت کو اختیار کروں۔ مجھے تو کشاں کشاں میدان عالم میں اس نے نکالا ہے۔ جو لذت مجھے خلوت میں آتی ہے اس سے بجز خدا تعالیٰ کے کون واقف ہے۔ میں قریب 25سال تک خلوت میں بیٹھا رہا ہوں اور کبھی ایک لحظہ کے لیے بھی نہیں چاہا کہ دربار شہرت کی کرسی پر بیٹھوں۔ مجھے طبعاً اس سے کراہت رہی ہے کہ لوگوں میں مل کر بیٹھوں۔ مگر امر آمرسے مجبور ہوں۔‘‘ فرمایا: ’’مَیں جو باہر بیٹھتا ہوں یا سیر کرنے جاتا ہوں اور لوگوں سے بات چیت کرتا ہوں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے امر کی تعمیل کی بِناپر ہے۔‘‘
مسجد مبارک میں آپؑ کی نشست کی کوئی خاص وضع نہیں ہوتی، ایک اجنبی آدمی آپ کو کسی خاص امتیاز کی معرفت پہچان نہیں سکتا۔ آپؑ ہمیشہ دائیں صف میں ایک کونے میں مسجد کے اس طرح مجتمع ہو کر بیٹھتے ہیں جیسے کوئی فکر کے دریا میں خوب سمٹ کر تیرتا ہے۔ مَیں جو اکثر محراب میں بیٹھتا ہوں اور اسی لیے بسا اوقات ایک اجنبی جو مارے شوق کے سرزدہ اندر داخل ہوا ہے تو سیدھا میری طرف ہی آیاہے اور پھر خود ہی اپنی غلطی پر متنبہ ہوا ہے یا حاضرین میں سے کسی نے اسے حقدار کی طرف اشارہ کردیا ہے۔
٭…حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ محض خدا کی رضا کے لیے بیماروں کی بیمار پُرسی یا ان کے علاج میں سعی کرنا اُن لوگوں کا کام ہے جن کے قلوب کو خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے صاف کیا ہواور اس کا صحیح اندازہ اس وقت ہوسکتا ہے جبکہ عیادت کرنے والے اور مریض کے تعلقات اور مراتب کا پتہ لگ جاوے۔ مثلاً اگر ایک آقا اپنے غلام کی عیادت کے لیے جارہا ہے تو صاف معلوم ہوگا کہ اس کو جو چیز لے جارہی ہے وہ محض خدا کی مخلوق سے ہمدردی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں آپؑ کے اس خلق کا مشاہدہ بھی ایسا مؤثر اور دلگداز ہے کہ انسان کو حیران کیے بغیر نہیں رہتا۔
حضورؑ بیماروں کے لیے دعاؤں پر ہی اکتفا نہ کرتے بلکہ عملی رنگ میں بھی نسخہ تجویز کرتے۔ دوائیں مفت دیتے اور تیمارداری کے لیے گھروں میں تشریف لے جاتے۔ حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات دوادرمل پوچھنے والی گنواری عورتیں زور سے دستک دیتی ہیں اور اپنی سادہ اور گنواری زبان میں کہتی ہیں ’’مرِجاجی جرا بؤا کھولوتاں‘‘ حضرت اس طرح اٹھتے ہیں جیسے مطاع ذی شان کا حکم آیا ہے اورکشادہ پیشانی سے باتیں کرتے اور دوا بتاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں وقت کی قدر پڑھی ہوئی جماعت کو بھی نہیں تو پھر گنوار تو اَور بھی وقت کے ضائع کرنے والے ہیں۔ ایک عورت بےمعنی بات چیت کرنے لگ گئی ہے اور اپنے گھر کا رونا اور ساس نندکا گلہ شروع کردیا ہے اور گھنٹہ بھر اسی میں ضائع کر دیا ہے۔ آپؑ وقار اور تحمل سے بیٹھے سن رہے ہیں۔ زبان سے یا اشارہ سے اس کو کہتے نہیں کہ بس اب جاؤ، دوا پوچھ لی اب کیا کام ہے ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے۔ وہ خود ہی گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور مکان کو اپنی ہوا سے پاک کرتی ہے۔ ایک دفعہ بہت سی گنوار عورتیں بچوں کو لے کر دکھانے آئیں۔ اتنے میں اندر سے بھی چند خدمتگار عورتیں شربت شیرہ کے لیے برتن ہاتھوں میں لیے آنکلیں۔ آپؑ کو دینی ضرورت کے لیے ایک بڑا اہم مضمون لکھنا تھا اور جلد لکھناتھا۔ مَیں بھی اتفاقاً جا نکلا،کیا دیکھتا ہوں حضرت کمربستہ اور مستعد کھڑے ہیں جیسے کوئی یورپین اپنی دنیوی ڈیوٹی پر چست اور ہو شیار کھڑا ہوتا ہے۔ پانچ چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں اور بوتلوں میں سے کسی کو کچھ اور کسی کو کوئی عرق دے رہے ہیں۔ کوئی تین گھنٹے تک یہی بازار لگا رہا اور ہسپتال جا ری رہا۔ فراغت کے بعدمیں نے عرض کیا: حضرت یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع جاتا ہے!۔ اللہ اللہ کس نشاط اور طمانیت سے مجھے جواب دیتے ہیں : یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے، یہ مسکین لوگ ہیں یہاں کوئی ہسپتال نہیں میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا رکھا کرتا ہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں۔ یہ بڑا ثواب کا کام ہے، مومن کوان کاموں میں سست اور بےپروا نہ ہونا چاہیے۔
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مہرحامد قادیان کے ارائیوں میں پہلا آدمی تھا جو حضرت مسیح موعودؑ کے سلسلہ بیعت میں داخل ہوا ۔ وہ نہایت غریب مزاج تھا۔ اس کا مکان فصیلِ قادیان سے باہر اس جگہ واقع تھا جہاں گاؤں کا کوڑا کرکٹ اور رُوڑیاں جمع ہوتی ہیں۔ سخت بدبو اور تعفّن ہوتا تھااور زمین دار آدمی تھے۔ خود اس کے مکان میں بھی صفائی کا التزام نہ تھا۔ مویشیوں کاگوبر اور دوسری چیزیں اسی قسم کی پڑی رہتی تھیں اور سب جانتے ہیں کہ زمین دار کی یہ قیمتی متاع ہوتی ہے۔ جس کو وہ کھاد کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ بہر حال اسی جگہ وہ رہتا تھا۔ وہ بیمار ہوا اور وہی بیماری اس کی موت کا موجب ہوئی۔ حضرت اقدسؑ متعدد مرتبہ اس کی عیادت کو تشریف لے گئے۔ جب عیادت کو جاتے تو قدرتی طور پر بعض لوگوں کو اس تعفّن اور بدبو سے سخت تکلیف ہوتی اور آپؑ بھی اس تکلیف کو محسوس کرتے اور بہت کرتے اس لیے کہ فطرتی طور پر یہ وجود نظافت اور نفاست پسند واقع ہوا تھا مگر اشارتاً یا کنایتاً نہ تو اس کا اظہار کیا اور نہ اس تکلیف نے آپؑ کو اس کی عیادت اور خبرگیری کے لیے تشریف لے جانے سے کبھی روکا۔ آپؑ جب جاتے تو اس سے بہت محبت اور دلجوئی کی باتیں کرتے، اس کی مرض اور تکلیف کے متعلق بہت دیر تک دریافت فرماتے اور تسلی دیتے۔ مناسب موقع ادویات بھی بتاتے اور توجہ الی اللہ کی بھی ہدایت فرماتے۔
(آئندہ شمارے میں جاری ہے)
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍فروری 2014ء میں مکرمہ امۃالباری ناصر صاحبہ کی درج ذیل مختصر نظم شامل اشاعت ہے:
سوچ کر چہرہ وہی اہلِ نظر دیتے ہیں
عزم و ایمان جنہیں اچھی خبر دیتے ہیں
بعد صدیوں کے بہار آئی ہے اس گلشن میں
مست جھونکے گُلِ رعنا کی خبر دیتے ہیں
ہیں مسیحا کے لیے شام و سحر گردش میں
حق کا پیغام ہمیں شمس و قمر دیتے ہیں
گالیاں سن کے دعا دینے کا ہے حکم ہمیں
دل دُکھا ہو تو یہ مشکل ہے مگر دیتے ہیں
نفرتیں ، کینے ، حسد ، بغض کسی سے بھی نہیں
ساری دنیا کو فقط پیار سے بھر دیتے ہیں
دودھ اُتر آتا ہے رحمت کا بِلک کر مانگو
مضطرب آنسو دعاؤں کو اثر دیتے ہیں
ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ اگست و ستمبر 2013ء میں شامل اشاعت مکرمہ خانم رفیعہ مجید صاحبہ کی ایک نظم میں سے انتخاب پیش ہے:
ہر سُو طوفانِ نُوح کے نظاروں سے پوچھ لو
اس ڈوبتی کشتی کے کناروں سے پوچھ لو
کیوں گھیرے میں بھنور کے ہے سفینۂ اسلام
محلوں میں بیٹھے حرص کے ماروں سے پوچھ لو
کیوں برپا ہے نظامِ حشر ملکِ پاک میں
جاہ و حَشم کی چاہ کے ماروں سے پوچھ لو
کیوں اُمّتِ محمدیؐ کرب و بلا میں ہے
کسوفِ مہر و ماہ کے اشاروں سے پوچھ لو
آمد مسیحِؑ وقت کی دیکھو حدیث میں
کرو استخارے، حق کے نظاروں سے پوچھ لو