دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی حقیقی روح پیشِ نظر ہو (سالانہ اجتماع واقفاتِ نَو (یوکے) سے حضورِ انور کا بصیرت افروز اختتامی خطاب)
(مسجد بیت الفتوح،لندن۲۹؍و ۳۰؍اپریل ۲۰۲۳ء، نمائندگان روزنامہ الفضل انٹرنیشنل) مورخہ ۲۹؍و ۳۰؍اپریل ۲۰۲۳ء بروز ہفتہ و اتوار کو باالترتیب جماعت احمدیہ برطانیہ کی واقفاتِ نَو اور واقفینِ نَوکے سالانہ اجتماعات منعقد ہوئے۔ ان اجتماعات کی خصوصیت نہ صرف یہ تھی کہ کورونا وبا کے باعث ۲۰۱۹ء کے بعد پہلی مرتبہ یہ منعقد ہو رہے تھے بلکہ دونوں دن امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بنفس نفیس ان اجتماعات کورونق بخشی اور ان کے اختتامی اجلاسات سے دو بصیرت افروز خطابات ارشاد فرمائےجو بلا شبہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے واقفینِ نَو اور واقفاتِ نَو کے لیے ایک لائحہ عمل کی حیثیت رکھتےہیں۔
۲۹؍اپریل ۲۰۲۳ء بروز ہفتہ واقفاتِ نَو کا اجتماع منعقد ہوا۔ اس اجتماع کی اختتامی کارروائی سے قبل حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد بیت الفتوح تشریف لائے اور ساڑھے چار بجے کے قریب نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔
اختتامی اجلاس کی کارروائی
نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ پانچ بجے سے کچھ پہلے طاہر ہال میں تشریف لائے اور ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ کا تحفہ عطا فرما کر کرسیٔ صدارت پر رونق افروز ہوئے۔
اجلاس کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ عزیزہ ادیبہ صدف نے سورۃ آل عمران کی آیت ۳۷ تا ۳۸ کی تلاوت کی اوران آیات کا انگریزی ترجمہ عزیزہ رشیقہ خان نے پیش کرنے کی سعادت پائی۔ اس کے بعد عزیزہ بشریٰ غالب نے حضرت مصلح موعودؓ کے منظوم کلام؎
عہد شکنی نہ کرو اہل وفا ہو جاؤ اہل شیطاں نہ بنو اہل خدا ہو جاؤ
میں سے منتخب اشعار خوش الحانی سے پیش کیے۔
بعد ازاں ملیحہ منصور صاحبہ معاونہ صدر برائے واقفاتِ نَو نے اجتماع کی رپورٹ پیش کی۔ موصوفہ نے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کی اجتماع میں تشریف آوری پر شکریہ ادا کرنے کے بعد کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چار سال بعد ہمیں واقفاتِ نَو کا سالانہ اجتماع منعقد کرنے کی توفیق ملی ہے۔ صبح دس بجے محترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ یوکے کی زیرصدارت اجتماع کا آغاز ہوا جس کے بعد حضورِ انور کی ہدایت کے مطابق مختلف group discussions منعقد ہوئیں جن میں ’’واقفاتِ نَو کیسے اپنا کردارادا کرسکتی ہیں؟‘‘، ’’اسلام کس طرح عورتوں کے حقوق کا علمبردارہے؟‘‘، ’’نوجوانوں کو در پیش عصر حاضر میں مسائل‘‘، ’’خلافت سے مضبوط تعلق پیدا کرنے کی اہمیت‘‘ جیسے موضوعات شامل تھے۔ اس کے علاوہ بڑی عمر کی ناصرات کے لیے career guidance بھی منعقد کی گئی۔ علاوہ ازیں تبلیغ ورک شاپ نیز panel discussions کا انعقاد کیا گیا۔
حاضری کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے موصوفہ نے بتایا کہ امسال اجتماع میں واقفاتِ نو کی حاضری ۱۲۱۳؍تھی جبکہ واقفاتِ نَو کی ماؤں سمیت کُل حاضری ۱۶۰۶؍رہی۔ اجتماع میں شامل واقفاتِ نو میں سے ۶۳۷؍سات سے پندرہ سال کی عمر کی تھیں جبکہ ۵۷۶؍پندرہ سال سے زائد عمر کی تھیں۔
خطاب حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
سوا پانچ بجے حضورِ انور منبر پر رونق افروز ہوئے اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عطا فرما کر خطاب کا آغاز فرمایا۔ حضورِانور نے یہ خطاب انگریزی زبان میں ارشاد فرمایا۔
تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج واقفاتِ نَو یوکے کا اجتماع منعقد ہورہا ہے۔ جیسا کہ آپ سب واقف ہیں کہ وقفِ نَو وہ سکیم ہے کہ جس کے تحت والدین نے اپنے بچوں اور بچیوں کو ان کی پیدائش سے پہلے ہی خدا کے دین کی خاطر وقف کردیا ہے۔
پس ایک واقفۂ نو کے طور پر آپ کے لیے سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ آپ نے دین کو ہر چیز پر مقدم رکھنا ہے۔ آج اسی حوالے سے مَیں کچھ تفصیل بیان کروں گا کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جو عہد ہم کرتے ہیں آخر اس کا کیا مطلب ہے۔
ایک شخص جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والا ہو تو یقیناً اس کی زندگی حسنِ اخلاق کا اعلیٰ نمونہ ہوگی اور وہ معاشرے پر مثبت اثر ڈالنے والا ہوگا۔
ایسے وقت میں کہ جب دنیا بڑی تیزی کے ساتھ تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے ایک واقفۂ نو کی سب سے بڑی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اپنے عملی نمونے سے اسلام کی حقیقی تعلیم کا اظہار کرے۔ پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کے طفیل آپ ہی وہ خوش نصیب واقفاتِ نو ہیں کہ جو اپنے عمل کے ذریعے دنیا میں ایک روحانی اور اخلاقی انقلاب برپا کرسکتی ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کے بعد ایک احمدی کا سب سے اولین فرض یہ ہے کہ وہ اپنے عہدِ بیعت کو نبھائے۔ آپ نے تو اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کے حضور وقف کی ہوئی ہیں لہٰذا آپ کا تو یہ بدرجہ اولیٰ فرض ہے کہ اپنی زندگیوں کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔
آپ سب کا فرض ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مضبوطی سے قائم ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بادشاہت زمین پر قائم ہونے کے لیے کوشاں رہیں۔ اس مقصد کے لیے آپ کو اپنے اندر ایک اخلاقی اور روحانی انقلاب پیدا کرنا ہوگا اسی طرح آپ دیگر احمدیوں کے لیے بہترین نمونہ بن سکیں گی۔
اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے تو آپ کو خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والا بننا ہوگا۔ یاد رکھیں کہ آپ نے ہمیشہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی ہے۔ دنیاوی کاموں اور سرگرمیوں کے لیے آپ نماز کی ادائیگی میں سستی کرنے والی نہ ہوں بلکہ آپ نماز کو پورے انہماک اور توجہ سے ادا کرنے والی ہوں۔ اسی طرح قرآن کریم کی تلاوت کی طرف بھی بھرپور توجہ کریں۔ قرآن کریم کا بغور مطالعہ کریں اور اس کی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم والدین کے حقوق کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے عورتوں کے حقوق بھی بیان فرماتا ہے۔ لیکن جہاں قرآن کریم نے عورتوں کے حقوق قائم فرمائے ہیں وہیں ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومن عورتوں کو چاہیے کہ اپنی حیا کی حفاظت کریں اور اپنے پردے کا ہمیشہ اہتمام کریں۔ پردے کا حکم خدا تعالیٰ نے اس لیے دیا تاکہ عورتیں مردوں کی ناپاک نظروں سے محفوظ رہ سکیں اور کوئی بدباطن شخص انہیں ہراساں کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔
غیر مسلم دنیا کی طرف سے حجاب اور پردے پر ہمیشہ اعتراض اٹھائے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے پردے کا حکم دے کر عورتوں پر کوئی پابندی نہیں لگائی بلکہ یہ حکم اس لیے دیا ہے تاکہ عورتیں اعتماد کے ساتھ معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا کرسکیں۔
اب تو انصاف پسند مغربی طبقات بھی پردے کی ضرورت اور اہمیت کے قائل ہوتے جارہے ہیں۔ حال ہی میں برطانیہ میں کیا گیا ایک سروے سامنے آیا ہے جہاں اٹھارہ سے چوبیس برس کی ستانوے فیصد خواتین نے اس بات کا اظہار کیا کہ انہیں مردوں کی طرف سے ہراساں کیا جاتا ہے۔
اسلام کسی پر بھی غیر ضروری روک نہیں لگاتا۔ پس احمدی بچیوں کو پردے کے حوالے سے کسی احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اسلامی تعلیم کے ہر ہر حصے کی بنیاد انسانی فطرت پر ہے اور اسلامی تعلیم کا بنیادی مقصد معاشرے میں امن اور سلامتی کا قیام ہے۔ یہ معاشرہ کہ جہاں ہر جانب اخلاق سوز مناظر کا غلبہ ہے ایسے معاشرے میں ہر احمدی بچی کو بالعموم اور ہر واقفۂ نو بچی کو بالخصوص دینی غیرت کا اظہار کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات پر پورے یقین کے ساتھ قائم ہونے کی ضرورت ہے۔
تحریکِ وقف نو اب ایک ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے کہ بعض ابتدائی دَور کی واقفات اب شادی شدہ ہیں اور ان کے بچے بھی ہوچکے ہیں لہٰذا اب اُن کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف اپنی بلکہ اپنے بچوں اور اگلی نسلوں کی بھی اعلیٰ تربیت کریں اور انہیں اس معاشرے کے بد اثرات سے بچائیں تاکہ وہ بُرائیوں سے بچتے ہوئے اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے والے بنیں۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جسے واقفات نَو ماؤں کو پورا کرنا ہے۔ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں اور اپنے بچوں کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا سلوک کریں اور ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔اس کے بعد اپنی محبت اور ہمدردی کا دائرہ اپنے پڑوسیوں، رشتہ داروں اور دوستوں تک پھیلائیں اور ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہیں جس کا آپ کا دین آپ سے تقاضا کرتا ہے۔ ان عورتوں سے سبق حاصل کریں جنہوں نے ماضی میں اعلیٰ قربانیوں کی مثالیں قائم کیں اور اعلیٰ روحانی مقامات حاصل کیے۔ ہر زمانے میں ایسی پرہیزگارخواتین رہی ہیں جنہوں نے اپنے دین کی خاطر اعلیٰ کردار ادا کیا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بھی عورتوں نے مشکل حالات میں قربانیاں پیش کیں اور بڑی جرأت اور وفا کے ساتھ مرد حواریوں سے بڑھ کر حالات کا مقابلہ کیا۔
پھر قرآن کریم خاص طور پر دو عورتوں کا ذکر کرتا ہے۔ حضرت مریم اور فرعون کی بیوی کا جنہوں نے ہر قسم کے حالات میں انتہائی جرأت کے ساتھ زندگی گزاری۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمان عورتوں نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر قسم کے تشدد اور ظلم کا مقابلہ کیا اور ایمان کو قبول کیا۔ مسلمان مردوں کے ساتھ عورتوں نے بھی قربانیاں دیں۔ انہیں گرم ریت پر گھسیٹا اور مارا جاتا تھا۔
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک مسلمان میاں بیوی پراُن کا مالک شدید ظلم کررہا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ایمان میں ذرا بھر بھی متزلزل نہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتے ہوئے دعائیں کرتے رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو صبر کی نصیحت کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کی نوید عطا فرمائی۔ بعد ازاں ظلم کے نتیجے میں اُن دونوں میاں بیوی کی وفات ہوگئی لیکن وہ ایمان کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرگئے۔
اسلام کے ابتدائی زمانہ میں حضرت اُمِّ عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی جہاد کے دوران غیر معمولی صبر کا مظاہرہ کیا۔ حضرت عمرؓکی بہن نے اسلام قبول کرنے کے بعد ناموس رسالت کی حفاظت کی جس کے نتیجہ میں حضرت عمرؓ اسلام لے آئے۔ آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی عورتوں اور مردوں نے ہر قسم کے ظلم و تعدی کو برداشت کرتے ہوئے شہادت کا رتبہ پایا اور اپنے ایمان پر یقین کی اعلیٰ مثالیں قائم کرگئے۔ پس آپ بھی ان تمام مثالوں کو یاد رکھیں اور ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں۔
پاکستان میں مردوں کے ساتھ ساتھ احمدی خواتین نے بھی اپنے دین کی خاطر اپنی جانیں دیں، اور انہوں نے اپنے اندر غیر متزلزل ایمان کوظاہرکیا اور ہر قسم کے ظلم و تعدی کو برداشت کیا۔ تاریخ میں کئی خواتین کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے دین میں ایک نام حاصل کیا ہے۔ واقفاتِ نو ہمیشہ ان کی مثالوں کو اپنے سامنے رکھیں کہ یہ مثالیں صرف بیان کرنے کے لیے نہیں بلکہ عمل کرنے کے لیے ہیں۔
اس معاشرہ میں جہاں ہر طرف برائی نظر آتی ہے آپ اپنے عمل سے ثابت کریں کہ اب آپ کی باری ہے کہ ہر قربانی کے عمل کو دہرائیں۔ دنیا میں بہت ساری بیماریاں ہیں اور لوگ دین سے دور جا رہے ہیں۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ خدا تعالیٰ کے لیے کھڑی ہو جائیں۔ ہمیشہ کو شش کریں کہ دنیاداری کی ہر بات کو اپنے ذہن سے ختم کریں اور دنیا کی چکا چوند پر فریفتہ نہ ہوں بلکہ اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔ آپ نے اپنی دینی تعلیم اور عمل کو ہر چیز پر فوقیت دینی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق قائم کرنا ہے، اور خلوص دل سے دعا کرنی ہے۔ دنیا میں ایسی تبدیلی لائیں کہ وہ آپ کی تقلید کرنے والی ہو۔ آپ دنیا کو رسول اللہﷺ کے جھنڈے تلے لانے والی ہوں۔ اگر ایسا کرنے کا عہد کرتی ہیں تو تب آپ اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرنے والی ہوں گی۔ تب آپ صرف نام کی واقفۂ نو نہ ہوں گی بلکہ وقف کی روح کو سمجھنے والی ہوں گی۔ اپنے ماں باپ کے عہد کی لاج رکھیں جو انہوں نے آپ کی پیدائش سے پہلے کیا تھا۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں اور اسلام کی خدمت کو زندگی کا مقصد بنائیں۔ اللہ کرے کہ آپ اپنی ذمہ داری پورا کرنے والی ہوں، خدا تعالیٰ کی باندیاں ہوں جو دنیا میں حقیقی روحانی انقلاب لانے والی ہوں۔
اس کے بعد حضور انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد حضور انور تمام حاضرین کو ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ کا تحفہ عطا فرما کر طاہر ہال سے تشریف لے گئے۔