انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی معرفت اور قرب حاصل کرے
ہر آن اور پل میں اس کی طرف رجوع کی ضرورت ہے اور مومن کا گزارا تو ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس کا دھیان ہر وقت اس کی طرف لگا نہ رہے۔ اگر کوئی ان باتوں پر غور نہیں کرتا اور ایک دینی نظر سے ان کو وقعت نہیں دیتا تو وہ اپنے دنیوی معاملات پر ہی نظر ڈال کر دیکھے کہ کیا خدا کی تائید اور فضل کے سوا کوئی کام اس کا چل سکتا ہے؟ اور کوئی منفعت دنیا کی وہ حاصل کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ دین ہو یا دنیا ہر ایک امر میں اسے خدا کی ذات کی بڑی ضرورت ہے اور ہر وقت اس کی طرف احتیاج لگی ہوئی ہے۔ جو اس کا منکر ہے سخت غلطی پر ہے۔ خداتعالیٰ کو تو اس بات کی مطلق پرواہ نہیں ہے کہ تم اس کی طرف میلان رکھو یا نہ۔ وہ فرماتا ہے۔ قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لاَ دُعَاؤُکُمْ (الفرقان:۷۸) کہ اگر اس کی طرف رجوع رکھو گے تو تمہارا ہی اس میں فائدہ ہو گا۔ انسان جس قدراپنے وجود کو مفید اور کار آمد ثابت کرے گا اسی قدر اس کے انعامات کو حاصل کرے گا۔ دیکھو کوئی بیل کسی زمیندار کا کتنا ہی پیارا کیوں نہ ہو مگر جب وہ اس کے کسی کام بھی نہ آوے گا، نہ گاڑی میں جُتے گا، نہ زراعت کرے گا، نہ کنویں میں لگے گا تو آخر سوائے ذبح کے اور کسی کام نہ آوے گا۔ ایک نہ ایک دن مالک اسے قصاب کے حوالے کر دے گا۔ ایسے ہی جو انسان خدا کی راہ میں مفید ثابت نہ ہو گا تو خدا اس کی حفاظت کا ہرگز ذمہ دار نہ ہو گا۔ ایک پھل اور سایہ دار درخت کی طرح اپنے وجود کو بنانا چاہئے تاکہ مالک بھی خبر گیری کرتا رہے لیکن اگر اس درخت کی مانند ہو گا کہ جو نہ پھل لاتا ہے اور نہ پتّے رکھتا ہے کہ لوگ سایہ میں آ بیٹھیں تو سوائے اس کے کہ کاٹا جاوے اور آگ میں ڈالا جاوے اور کس کام آ سکتا ہے۔
خداتعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے۔ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ(الذّاریات: ۵۷) جو اس اصل غرض کو مدنظر نہیں رکھتااور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خرید لوں۔ فلاں مکان بنا لوں۔فلاں جائیداد پر قبضہ ہو جاوے۔ تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خداتعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلا لے اور کیا سلوک کیا جاوے۔
انسان کے دل میں خداتعالیٰ کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ ایک قابل قدر شئے ہو جاوے گا۔ اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیہاکا ہی درد ہے تو آخر تھوڑی سی مہلت پا کر وہ ہلاک ہو جاوے گا۔ خداتعالیٰ مہلت اس لئے دیتا ہے کہ وہ حلیم ہے لیکن جو اس کے حلم سے خود ہی فائدہ نہ اٹھاوے تو اسے وہ کیا کرے۔ پس انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور تعلق بنائے رکھے۔ سب عبادتوں کا مرکز دل ہے۔ اگر عبادت تو بجا لاتا ہے مگر دل کا خدا کی طرف رجوع نہیں ہے تو عبادت کیا کام آوے گی۔ اس لئے دل کا رجوع تام اس کی طرف ہونا ضروری ہے۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۲۲۱-۲۲۲، ایڈیشن۱۹۸۸ء)