اداریہ

’’پہلے اپنے آپ کو مسلمان کرو پھر قربانی کی ’اجازت‘ دی جائے گی‘‘

خدا تعالیٰ جانوروںکی قربانیوں کے بغیر بھی ہمیں قربانیوں کا اجر دے سکتا ہے

احمدیوں کو ان دنوں میں جہاں اپنے جذبات قربان کرنے پڑتے ہیں جو کہ معمولی چیز نہیں ہے وہاں جذبات کو اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ دعاؤں میں بڑی طاقت ہے

(اداریہ)

گزشتہ دنوں دنیابھر میں مسلمانوں نے عیدلاضحیہ منائی جبکہ پاکستان میں خوشیاں بانٹنے کے اس دن ملاؤں اور غیراحمدی مسلمانوںکے بعض گروہ اس بات کی یقین دہانی کرنے کے لیے کافی سرگرم دکھائی دیے کہ کہیں کوئی احمدی مسلمان سنتِ براہیمی پر عمل کرتے ہوئے قربانی نہ کرلے۔ احمدیوں کے گھروں کو نشان زدہ کیا گیا، بعض مقامات پر انتظامیہ کی جانب سے احمدیوں کو عید سے پہلے ہی متنبہ بھی کر دیا گیا کہ ان کا قربانی کرنا پاکستانی آئین کی خلاف ورزی کہلائے گا۔ چنانچہ گذشتہ دنوں ایسی ویڈیوز بھی منظرِ عام پر آئیں جن میں احمدیوں کے گھروں سے قربانی کی غرض سے خریدے جانے والے جانور ضبط کرتے دکھایا گیا اور ایسا بھی ہوا کہ اگر کسی احمدی نے خاموشی سے قربانی کر بھی لی تو بھنک پڑنے پر اس کے گھر دھاوا بول دیا گیا اور فریج سے قربانی کے گوشت کو ضبط کر کے گویا اسلام کی عظیم الشان خدمت سرانجام دی گئی۔

لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے ۲۲؍ جون کو سیکرٹری محکمہ داخلہ گورنمنٹ آف پنجاب کے نام صوبہ بھر کی انتظامیہ کو یہ سرکلر کرنے کی استدعا کی گئی کہ قربانی چونکہ سنتِ ابراہیمی اور سنتِ نبویﷺ ہے، اسی لیے شعائرِ اسلامی میں سے ہے جس کے پیش نظر احمدیوں کو عید کی نماز کی ادائیگی اور قربانی سے روکنےکے لیے مؤثر کارروائی کی جائے۔ایک خبررساں ادارے میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق یہ خط لاہور ہائی کورٹ بار کی نمائندگی نہیں کرتا کیونکہ بار کے صدر نے اپنی ذاتی حیثیت میں اسے بھجوایا ہے۔ بہر کیف خط ذاتی حیثیت میں لکھا گیا یا بارکی نمائندگی کے طور پر، عالمی خبررساں ادارے بی بی سی (اردو) کے مطابق ۲۳؍ جون کو صوبہ پنجاب کے محکمہ داخلہ نے صوبے کے تمام اضلاع کو ایک مراسلہ بھجوایا جس میں کہا گیا تھا کہ صرف مسلمانوں کو جانوروں کی قربانی کی اجازت ہے۔ اسی مراسلے کا حوالہ دیتے ہوئے پنجاب بھر میں انتظامیہ کی جانب سے احمدیوں کو قربانی کرنے کی صورت میں سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنے کا پیغام دیا گیا۔ ایک ضلع کے ڈی پی او کی جانب سے اپنے ماتحت افسران کے نام حکم نامہ جاری کیا گیا جس میں انہیں ’’سختی سے ہدایت‘‘ کی گئی کہ اپنے اپنے سرکل اور تھانہ لیول پر احمدیہ کمیونٹی کے لوگوں سے ملاقات کریں اور ان سے ’’اشٹام پیپر‘‘ حاصل کریں کہ وہ قربانی نہیں کریں گے۔ ایک علاقے کے سب انسپکٹر نے مسجد کے سپیکر پر اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی ’غیرمسلم‘ قربانی ادا کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اعلان ہے کہ پہلے وہ اپنے آپ کو مسلمان کرے، پھر اسے قربانی کی ’اجازت دی جائے گی‘۔ اگر کوئی بندہ جو مسلمان نہیں ہے، اس نے قربانی کی تو اس کے خلاف ’سخت کارروائی‘ عمل میں لائی جائے گی۔ چنانچہ ڈان نیوز میں دی جانے والی ۲؍جولائی کی ایک خبر میں یہ بتایا گیا کہ پنجاب میں عیدالاضحی پر قربانی کرنے کے جرم میں تعزیراتِ پاکستان دفعہ ۲۹۸ ج کے تحت کم از کم پانچ ایف آئی آر درج کی گئی ہیں جن میں دو صدر گوجرہ ٹوبہ ٹیک سنگھ جبکہ صدر شاہکوٹ ننکانہ صاحب، روشن والا فیصل آباد اور بادامی باغ لاہور کے تھانوں میں ایک ایک رپورٹ شامل ہے۔

پاکستان کے احمدیوں کو اسلام کے نام پر قانون اور آئین کے سائے میں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا، ان کے لیے مصائب و آلام کی دیواریں کھڑی کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے قبل آئین میں احمدیوں کو ’ناٹ مسلم‘ قرار دیا گیا، پھر اپریل۸۴ء کے صدارتی آرڈیننس میں احمدیوں کو اپنے آپ کو مسلمان ’ظاہر‘ کرنے سے بھی منع کر دیا گیا۔ ان قوانین کی آڑ میں احمدیوں کی مساجد کے گنبدوں، مناروں، محرابوں نیز مساجد اور گھروں حتیٰ کہ احمدی مرحومین کے مزاروں کے کتبوں پر تحریر کلمہ طیبہ، مقدس عبارات اور دیگر آیاتِ قرآنیہ کو شہید کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔ کسی احمدی کے فوت ہو جانے پر اس کی تدفین الگ سے ایک گھمبیرتا بننے لگی ہے۔ اَور تو اَور بعض اوقات احمدی مرحومین کی باقیات کی بےحرمتی سے بھی دریغ نہ کیا گیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیر احمدی مسلمانوں کا کسی احمدی کو چاردیواری کے اندر بھی قربانی کرنے سے روک دینا اسلامی اور قانونی لحاظ سے درست ہے؟ کیا لَا تَجَسَّسُوْا کی تعلیم کا علمبردار اسلام لوگوں کے گھروں میں اس طرح بلا وجہ گھسنے کی اجازت دیتا ہے؟ کیا احمدیوں کا قربانی کرنا ایسا جرم ہے جس کے سدِباب کے لیے چادر اور چاردیواری کا تقدّس پامال کیا جائے۔ قربانی کے جانور ضبط کیے جائیں اور فریج تک کھول کر قربانی کا گوشت ضبط کر لیا جائے۔ یہ ہمارا دائرہ کار نہیں کہ اس امر کی تحقیق کریں کہ انتظامیہ نے اس بحقِ سرکار ضبط شدہ مال کے بارے میں ضابطے کی کارروائی مکمل کی ہو گی یا نظریہ ضرورت کے تحت مالِ مفت دلِ بے رحم والا قانون لاگو کیا ہو گا۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر احمدی مسلمان ہے اور سنتِ نبویﷺ کی پیروی میں عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کرنا اس کا بنیادی حق ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کے قانون میں احمدی ’ناٹ مسلم‘ ہیں نیز ان کو شعائرِ اسلامی کے استعمال کی اجازت نہیں کیونکہ جب بھی کوئی احمدی مسلمانوں والے کام کرتا ہے تو اس سے سادہ لوح مسلمان غلط فہمی کا شکار ہو کر انہیں مسلمان سمجھ سکتے ہیں یا بعض لوگوں کے جذبات احمدیوں کو شعائرِ اسلامی کا استعمال کرتا دیکھ کر مجروح ہوتے ہیں تو اس کا جواب ہمیں ۲۰۲۲ء میں کیے جانے والے سپریم کورٹ کے فیصلے میں مل سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے طاہر نقاش وغیرہ بنام سرکار اپنے ایک فیصلے محررہ ۱۲؍ جنوری ۲۰۲۲ء میں آئین کے آرٹیکل ۱۴ میں فردِ واحد کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت کا حوالہ دیتے ہوئے رولنگ دی کہ

To deprive a non-Muslim (minority) of our country from holding his religious beliefs, to obstruct him from professing and practicing his religion within the four walls of his place of worship is against the grain of our democratic Constitution and repugnant to the spirit and character of our Islamic Republic. It also deeply bruises and disfigures human dignity and the right to privacy of a non-Muslim minority, who like all other citizens of this country enjoy the same rights and protections under the Constitution. Bigoted behaviour towards our minorities paints the entire nation in poor colour, labelling us as intolerant, dogmatic and rigid. It is time to embrace our constitutional values and live up to our rich Islamic teachings and traditions of equality and tolerance.

یعنی ہمارے ملک میں بسنے والی کسی غیر مسلم (اقلیت) کو اپنے عقائد کے اظہار سے منع کرنا اور اس کی عبادت گاہ کی چار دیواری کے اندر اسے اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی سے روکنا ہمارے جمہوری آئین کی بنیادی روایات اور ایک اسلامی ریاست کے کردار کے منافی ہے۔ ایسا کرنا ایسے غیرمسلم افراد کی عزتِ نفس اور ان کی شخصی آزادی جیسے حق کو مجروح کرتا ہے جبکہ آئین ان کے حقوق کا تحفظ بھی اس ملک کے کسی بھی دوسرے باشندے کی طرح یقینی بناتا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا متعصبانہ رویہ پوری قوم کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا اورہمیں برداشت سے عاری، کٹر اور متشدد ثابت کرتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی قانونی اقدار نیز مساوات اور رواداری پر مبنی عظیم الشان اسلامی تعلیمات اور روایات کو اپنائیں۔

پس اب جبکہ عدالتِ عالیہ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ چاہے کسی کو احمدیوں کے عبادت کے طریق اور شعائرِ اسلامی کے استعمال پر سو اعتراض ہوں، ان کا چار دیواری کے اندر رہ کر اپنی مذہبی رسومات بجا لانا جرم نہیں کیونکہ نہ ان کی ادائیگی کوئی غیر احمدی مسلمان دیکھے گا اور نہ اس کے جذبات مجروح ہوں گے تو پھر احمدیوں کو قربانی اور نمازِ عید کی ادائیگی سے روکنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟

چلیے مانا کہ عدالت کا شرعی امور سے کیا تعلق، اس کے لیے شرعی عدالت سے رجوع کیا جانا چاہیے تو تاریخ کے اوراق الٹنے سے ہمیں اس کا جواب بھی مل جاتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے مجیب الرحمٰن بنام فیڈرل گورنمنٹ میں فیصلہ دیتے ہوئے احمدیوں کے خلاف متعارف کروائے جانے والے قوانین کے حوالے سے کہا تھا کہ

this does not affect the rights of the Qadianis to profess their faith in Mirza sahib…nor does it interfere with their right to practice their religion or to worship or in their place of worship according to its dictates.

یعنی یہ (قوانین) قادیانیوں کے مرزا صاحب پر ایمان لانے کے حق کو تلف نہیں کرتے نہ ہی ان کے اپنی تعلیمات کے مطابق اپنے مذہب یا مذہبی رسومات کے اپنی عبادت گاہ کے اندر بجاآوری میں کوئی رخنہ پیدا کرتے ہیں۔

یعنی بالفرض احمدیوں کو آئین پاکستان کے تحت غیرمسلم تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی ملک کی سب سے بڑی عدالت، یعنی سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت دونوں احمدیوں کو پورا پورا حق دیتے ہیں کہ وہ چار دیواری کے اندر نماز پڑھ سکتے ہیں، قرآن مجید پڑھ سکتے ہیں، قرآنِ مجید رکھ سکتے ہیں، اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل کر سکتے ہیں، اپنی مذہبی رسومات ادا کر سکتے ہیں یعنی قربانی بھی کر سکتے ہیں تو پھر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا سیکرٹری داخلہ کو خط لکھنا، سیکرٹری داخلہ کا پورے پنجاب کے اضلاع کو سرکلر کرنا اور پھر مختلف اضلاع میں انتظامیہ کا اس پر عمل درآمد کرنا کیا کہلائے گا؟ کیا یہ قانون کی پاس داری ہے یا قانون شکنی۔ بہرکیف آج کل پاکستان میں جس کسی کے پاس لاٹھی ہے، بھینس بھی اسی کی ہے۔ جمہوری نظام میں اعلیٰ عدلیہ دادرسی کے لیے اعلیٰ ترین بلکہ ایک لحاظ سے آخری ادارہ شمار ہوتی ہے۔ یہاں سے احکامات کے جاری ہونے پر انتظامیہ کا ان کی اطاعت نہ کرنا کیا کہلائے گا یہ احبابِ حل و عقد اور اربابِ اختیار خوب جانتے ہیں۔

رہی بات احمدیوں کو قربانی کرنے کی اجازت دینے یا نہ دینے کی تو ازروئے قرآن کسی کے پاس اختیار نہیں کہ دوسرے کو اسلام کے کسی رکن، کسی عبادت کی بجاآوری سے روکے، چاہے اس کا عقیدہ آپ سے کیسا ہی مختلف ہو تاکہ یہ واضح ہوکہ اسلام کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے۔ اگر کوئی بزعمِ طاقت ایسا کرتا بھی ہے تو ہم ایک الٰہی جماعت ہیں اور ہم میں خلافت کی عظیم الشان نعمت موجود ہے جو ہر قدم پر ہماری راہنمائی کرتی ہے۔ اپنے خطبہ عید میں ہمارے امام ایّدہ اللہ نے چند جملوں میں دریا کو سمو دیا اور احمدیوں کی بے چینی، پریشانی اور خوف چند لمحوں میں رفو ہو گئی۔ فرمایا کہ اس قربانی کے نہ کرنے کی وجہ سے جذبات کی قربانی دینی پڑتی ہے، انتہائی خوف و ہراس کی حالت سے گزرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ جس قانون کے تحت احمدیوں کو روکا جاتا ہے اس قانون کی وضاحت میں ان کی ہی اعلیٰ عدلیہ نے یہ فیصلہ دیا ہوا ہے کہ چار دیواری کے اندر احمدی اپنی عبادات اور مناسک بجا لا سکتے ہیں لیکن بعض افسران کے ملاں کے خوف ان کے یا اپنے ذاتی عناد کی وجہ سے بھی احمدیوں کو قربانی سے روکا جاتا ہے۔

حضورِ انور نے انتظامیہ کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ سے زیادہ بندوں کا خوف ہے۔ نہیں جانتے کہ ظلم زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ لوگ جو اپنی طاقت کے نشے میں من مانیاں کر رہے ہیں، ایک دن اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئیں گے۔ انشاء اللہ۔

اسی طرح ان حالات میں آئندہ کا لائحہ عمل دیتے ہوئے ڈھارس بھی بندھائی کہ احمدیوں کو ان دنوں میں جہاں اپنے جذبات قربان کرنے پڑتے ہیں جو کہ معمولی چیز نہیں ہے وہاں جذبات کو اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ دعاؤں میں بڑی طاقت ہے۔نیز فرمایا کہ اگر احمدی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی حالتوں کے جائزے لینے ہوں گے۔ اگر ہمارے اندر تقویٰ ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہمارا ہر فعل ہے تو اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے، ہمارے جذبات کی کیفیت جانتا ہے، ہماری جانوروںکی قربانیوں کے بغیر بھی ہمیں قربانیوں کا اجر دے سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر ایک نیک شخص کے بندے کا حق ادا کرنے کی وجہ سے حج پر نہ جانے کے باوجود بھی حج قبول کر سکتا ہے اور لاکھوں حاجیوں کا جنہوں نے حج کیا تھا ردّ کر سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ ہماری قربانیوں کو بھی اگر نیک نیتی سے کرنے کی نیت تھی تو قبول فرمائے۔

احمدیوں کو قربانی کرنے کی اجازت نہ دینے والے، ان کے قربانی کے جانور ضبط کرنے والے اور ان کے فریج سے گوشت کو نکال کر لے جانے والے کیا خداتعالیٰ کو بھی احمدیوں کی جانب سے کی جانے والی قربانیاں قبول نہ کرنے پر مجبور کریں گے! نعوذباللہ

احمدیوں پر ظلم کر کے ’لبّیک یا رسول اللّٰہ‘ کہنے والے کسی فرصت کے لمحے میں ذرا سوچیں کہ کیا رسول اللہ کے نام پر ظلم کو روا رکھنے والے رسول اللہ کے سچے اطاعت گزار ہیں یا رسول اللہ کے حکم کی اطاعت میں امامِ آخرالزماں پر ایمان لا کر ظلم سہ کر خاموش رہنے والے اور جذبات کی قربانی دیتے ہوئے اپنا معاملہ اپنے اللہ پر چھوڑ دینے والے!

خدا کی تائید کس کے ساتھ ہے اس کا فیصلہ تو کب کا ہو چکا، ذہن رسا رکھنے والوں کے لیے ایک نشان ہی کافی ہے، شرط چھوٹی سی ہے کہ دل میں خوفِ کردگار ہو!

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مذہبی شدت پسندوں اور انتظامیہ کے باہمی تعاون سے احمدیوں پر کھلے عام ظلم کیا جانا عین عبادت سمجھا جانے لگا ہے۔ شاید وہ بھول رہے ہیں کہ ایک عظیم ہستی یہ تلخ حقیقت بتا چکی ہے کہ ظلم کے مقابل ان کا ’اسلام‘ ان کے کسی کام نہیں آئے گا کیونکہ

المُلْكُ يَبْقَي‌ مَعَ الكُفْرِ وَ لَايَبْقَي‌ مَعَ الظُّلْمِ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button