میاں بیوی کے حقوق و فرائض
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
ایک …روایت میں آتا ہے سلیمان بن عمرو بن احوص اپنے والد عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے ایک لمبی روایت کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے فرمایا تھا اس میں کچھ حصہ جو عورتوں سے متعلق ہے وہ یہ ہے کہ سنو! تمہارا تمہاری بیوی پر ایک حق ہے، اسی طرح تمہاری بیوی کا بھی تم پر ایک حق ہے تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر ان لوگوں کو نہ بٹھائیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو اور نہ وہ ان لوگوں کو تمہارے گھروں میں آنے کی اجازت دیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو، اور تمہاری بیویوں کا تم پر یہ حق ہے کہ تم ان سے ان کے کھانے کے معاملے میں اور ان کے لباس کے معاملے میں احسان کا معاملہ کرو۔ (ترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی حق المرأۃ علی زوجھا)
اس روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ گھر کے ماحول کو انصاف اور عدل کے مطابق چلانا ہے تو میاں اور بیوی دونوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہو گا ان کے حقوق کی حفاظت کرنی ہو گی، عورتوں کو کس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے گھروں میں آنے والیاں عورتوں کی سہیلیاں ہی ہوتی ہیں ایسی نہ ہوں جن کو خاوند گھروں میں آنا پسند نہیں کرتے اور اپنی دوستیاں بھی ان سے ناجائز یا جائز نہ بنائیں، اگر خاوند پسند نہیں کرتا کہ گھروں میں یہ لوگ آئیں تو نہ آئیں۔ ہو سکتا ہے کہ بعض گھروں کے معاملے میں خاوند کو علم ہو اس کی وجہ سے وہ پسند نہ کرتا ہو کہ ایسے لو گ گھروں میں آئیں۔ یہ باتیں ایسی ہی ہیں کہ خاوند کی خوشی اور رضا مندی کی خاطر عورتوں کو برا ماننا بھی نہیں چاہئے اور جو خاوند کہتے ہیں مان لینا چاہئے۔ اس حدیث میں دوسری بات یہ بیان کی گئی ہے کہ خاوندوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اہل و عیال کا جو حق ہے وہ ادا کریں، گھر کے اخراجات اور ان کے لباس وغیرہ کا خیال رکھیں۔ اس کی وضاحت تو میں پہلے ہی کر چکا ہوں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام(مَردوں کے لئے) فرماتے ہیں :دل دکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں جب والدین ان کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالے کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا امیدیں ان کے دلوں میں ہوتی ہیں اور جن کا اندازہ انسان عَاشِرُوْاھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ کے حکم سے ہی کر سکتا ہے۔ (البدر جلد ۳ ۲۶؍جولائی ۱۹۰۴ء بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ جلد ۲ صفحہ ۲۱۶)
(خطبہ جمعہ فرمودہ۵؍مارچ ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۹؍مارچ ۲۰۰۴ء)