صلح اور معاف کرنے کی تلقین
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۱؍اگست ۲۰۱۷ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب کشتیٔ نوح میں فرماتے ہیں کہ’’خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا۔‘‘ فرمایا’’تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں۔ وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلّل اختیار کرو تا تم بخشے جاؤ۔‘‘ فرماتے ہیں ’’نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا۔ تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 12-13)
یہ اقتباس مختلف تقریروں میں، درسوں میں، اکثر جماعت کے افراد کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلّل اختیار کرنے کا فقرہ تو ایسا ہے جو اکثر احمدی مختلف اوقات میں بطور حوالہ پیش کرتے ہیں بلکہ آپس کے معاملات کی تفصیل پیش کرتے ہوئے مجھے بھی لکھتے ہیں کہ ہم نے تو ایسا رویہّ اختیار کیا لیکن دوسرا فریق تب بھی ہمارے ساتھ ظالمانہ رویہّ اپنائے ہوئے ہے۔
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے قضا اور جھگڑوں کے مقدموں کے حوالے سے بھی کچھ باتیں کی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ الفاظ جن کو آپ نے اپنی تعلیم میں شامل کیا ہے یہ آپ کی اپنے ماننے والوں سے توقعات اور ان کے لئے آپ کے دل کے درد کا اظہار ہے۔ انسان جب کشتی نوح میں تعلیم کے مکمل حصہ کو پڑھتا ہے تو ہل کر رہ جاتا ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ چند الفاظ بھی بار بار ہمارے سامنے لائے جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو معاف کرنے اور صلح کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تذلّل بھی اختیار کرتے ہیں، صلح کے لئے ہر شرط کو قبول کر لیتے ہیں لیکن پھر بھی دوسرا فریق ظلم کا رویہّ اپناتا ہے۔ اگر حقیقت میں دوسرا فریق ایسا ہی ہے جیسا کہ وہ کہتے ہیں تو پھر وہ اپنا معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہےکہ وہ کاٹا جائے گا اور پھر آگے یہ بھی فرمایا کہ ’’بدبخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 13)
پس وہ لوگ جو ضدّ کرتے ہیں ان کے لئے بہت بڑا انذار ہے۔ انہیں ہوش کرنی چاہئے۔ ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم فسادنہیں کریں گے۔ نفسانی جوشوں سے بچیں گے۔ اور دوسری طرف صلح سے بھی گریز کرتے ہیں۔ تو پھر یہ عہد بیعت سے دُوری ہے۔ عہد بیعت کو نبھانا نہیں ہے۔
آپ علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا’’کہ ہماری جماعت کو ایسا ہونا چاہئے کہ نری لفّاظی پر نہ رہے‘‘ لفظوں سے ہی اپنے آپ کو احمدی نہ ثابت کرتے رہیں۔ فرمایا کہ’’بلکہ بیعت کے سچے منشاء کو پورا کرنے والی ہو۔‘‘ آپ نے فرمایا کہ ’’اندرونی تبدیلی کرنی چاہئے۔ صرف مسائل سے تم خدا تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتے۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ’’اگر اندرونی تبدیلی نہیں تو تم میں اور تمہارے غیر میں کچھ فرق نہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 8صفحہ 188۔ ایڈیشن 1984ء)
پس آپ علیہ السلام نے بڑا واضح فرما دیا کہ بیعت کے منشاء کو پورا کئے بغیر اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حق کی ادائیگی اور صلح اور صفائی بھی ضروری ہے۔
آپ اپنی حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے اور اس بات کا اظہار فرماتے ہوئے کہ آپ میں کتنی وسعت حوصلہ اور معاف کرنے کی طاقت ہے، اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’مَیں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص جس نے مجھے ہزاروں مرتبہ دجّال اور کذّاب کہا ہو اور میری مخالفت میں ہر طرح کی کوشش کی ہو اور وہ صلح کا طالب ہو تو میرے دل میں یہ خیال بھی نہیں آتا اور نہیں آ سکتا کہ اس نے مجھے کیا کہا تھا اور میرے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔‘‘ پھر آپ نے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ’’میری نصیحت یہی ہے کہ دو باتوں کو یاد رکھو۔ ایک خدا تعالیٰ سے ڈرو۔ دوسرے اپنے بھائیوں سے ایسی ہمدردی کرو جیسے اپنے نفس سے کرتے ہو۔‘‘ جو اپنے لئے چاہتے ہو یا خواہش ہے کہ تمہارے ساتھ دوسروں کی ہمدردی ہو، وہی سلوک اپنے بھائیوں سے بھی رکھو۔ فرمایا کہ’’اور اگر کسی سے کوئی قصور اور غلطی سرزد ہو جاوے تو اسے معاف کرنا چاہئے، نہ یہ کہ اس پر زیادہ زور دیا جاوے اور کینہ کشی کی عادت بنا لی جاوے۔‘‘(ملفوظات جلد 9صفحہ 74۔ ایڈیشن 1984ء) پس ہمیں ہر وقت یہ بات سامنے رکھنی چاہئے کہ آجکل کی دنیا میں جہاں ہر وقت اور ہر جگہ فتنہ و فساد کی حالت طاری ہے ہم جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر ایک حصار میں آیا ہوا سمجھتے ہیں اور اس بات پر شکر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا کی عمومی فساد کی حالت سے محفوظ رکھا ہوا ہے حقیقت میں ہم اس وقت محفوظ ہو سکتے ہیں جب ہر وقت ہم یہ احساس رکھیں کہ اپنے جائز معاملات میں بھی دوسروں سے معاملات پڑنے پر نرمی کا رویہّ رکھنا ہے اور صلح کی بنیاد ڈالنی ہے۔ ورنہ ہماری باتیں صرف باتوں کی حد تک رہیں گی اور ہمارا دعویٰ صرف دعوے کی حدتک ہی ہے کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر کوئی فائدہ ہوا ہے۔ یہ ہمارا دعویٰ تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت نہیں۔ فائدہ اُسی وقت ہو گا جب اعلیٰ اخلاق کا ہر خُلق ہم میں اپنی چمک دکھا رہا ہو گا۔ ہمدردیٔ خَلق اور صُلح ایک ایسا خُلق ہے جس کو اپنانے کی ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بار بار نصیحت فرمائی ہے۔ پس ہر احمدی کو اس پہ بہت توجہ دینی چاہئے۔ آپ کے بعض اور اقتباسات بھی ہیں۔ اپنی مختلف کتابوں میں، اپنی ملفوظات میں آپ نے بار بار اس کا تذکرہ کیا ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ طاقتور پہلوان وہ شخص نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے۔ اصل پہلوان وہ ہے جو غصّہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الأدب باب الحذر من الغضب حدیث 6114)
پس یہ ایک مومن کی شان ہے کہ اس طرح کے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرے۔ غصّہ کی حالت میں اپنے اوپر کنٹرول ہونا چاہئے۔ کبھی کوئی کافر اس بات پر عمل نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لئے تو یہ حیرانی کی بات ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ آتا ہے جب آپ نے دشمن کوپچھاڑ لیا۔ اس پر بیٹھ گئے اور قریب تھا کہ اس کو قتل کر دیتے۔ اس نے آپ کے منہ پر تھوک دیا۔ اور آپ علیحدہ ہو گئے۔ اس نے کہا کہ ایسی حالت میں آپ نے مجھے چھوڑ کیوں دیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ اس لئے کہ پہلے میں تمہیں اسلام کے دشمن ہونے کی وجہ سے قتل کرنے لگا تھا۔ اب تم نے میرے منہ پر تھوک دیا تو میری ذات اس میں شامل ہو گئی اور میں اپنے نفس کی خاطر کسی کو قتل کرنا نہیں چاہتا۔ تو یہ اعلیٰ معیار ہیں جو ہمیں تاریخ میں نظر آتے ہیں جو ہمارے بزرگوں نے پیش کئے۔ (ماخوذ از الفخری اصول ریاست اور تاریخ ملوک مؤلفہ محمد علی ابن علی مترجم مولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی صفحہ 68 مطبوعہ ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور2007ء)
پس مومن کی تو یہ شان ہے کہ غصّہ دبائے اور صلح کی طرف آمادہ ہو لیکن کافر کبھی یہ نہیں سوچ سکتا۔ اور یہی وہ مومنانہ شان ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں تا کہ ہمارے ہر عمل سے اسلام کی حقیقی تعلیم کا اظہار ہو۔ اس حقیقی تعلیم کا اظہار ہو جو عفو، درگزر اور صلح پھیلانے والی تعلیم ہے۔
چنانچہ ایک موقع پر اپنی ایک مجلس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں جو اسی حدیث کی تشریح بھی ہے کہ ’’ہماری جماعت میں شَہ زور اور پہلوانوں کی طاقت رکھنے والے مطلوب نہیں‘‘۔ ہمیں وہ نہیں چاہئیں جو بڑے زورآور ہوں اور پہلوان ہوں۔ فرمایا کہ ’’بلکہ ایسی قوت رکھنے والے مطلوب ہیں جو تبدیلِ اخلاق کے لئے کوشش کرنے والے ہوں۔‘‘ اپنے اخلاق کو بدلنے اور اعلیٰ معیاروں تک لے جانے والے ہوں۔ فرمایا ’’یہ ایک امر واقعی ہے کہ وہ شہ زور اور طاقت والا نہیں جو پہاڑ کو جگہ سے ہٹا سکے۔ نہیں نہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’اصلی بہادر وہی ہے جو تبدیل اخلاق پر مقدرت پاوے۔’’جو اپنے آپ پر کنٹرول رکھتا ہو اور اخلاق کو اعلیٰ اپنانے کی طاقت رکھتا ہو۔ فرمایا کہ پس یاد رکھو کہ ساری ہمت اور قوت تبدیل اخلاق میں صرف کرو کیونکہ یہی حقیقی قوت اور دلیری ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1صفحہ 140۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)