’’میری نوشابہ!‘‘ پیاری بیگم کے نام خط…
(جلیس احمد صاحب مربی سلسلہ (ہفت روزہ الحکم) اور ان کی اہلیہ نوشابہ مبارک صاحبہ شادی کے پانچ سال بعد پاکستان گئے ہوئے تھے کہ واپسی پر لاہور ایئرپورٹ کی طرف جاتے ہوئے موٹر کو حادثہ پیش آیا اور ان کی اہلیہ شدید زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وفات پا گئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ذیل میں جلیس احمد صاحب اپنی اہلیہ مرحومہ کو خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے اور لواحقین کو صبرِ جمیل سے نوازے۔ آمین۔ مدیر)
میری نوشابہ!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خطوں کا آغاز سلام سے کرنا روایت تو ہے ہی، مگر میں جب یہ سلام لکھ رہا ہوں تو میرے لیے اس کے روحانی کے علاوہ بہت گہرے جذباتی معنی بھی ہیں۔
تمہیں تو یاد نہیں تھا، مگر جب میں 2013ء میں اپنے بھائی کی شادی پر ربوہ گیا تھا، تو تم نے مجھے سلام کیا تھا۔ یہ گویا پہلی بات تھی جو میرے کسی بھی عزیز نے پاکستان میں مجھ سے کی تھی۔ مجھے تمہارا سلام یاد رہ گیا۔ تب تو کسی کو خبر بھی نہ تھی کہ کبھی ہماری شادی ہو جائے گی۔ تب تو تم میرے لیے صرف خالہ زیب النساء کی بیٹی تھی۔ مگر مجھے تمہارا سلام یاد رہ گیا۔ کیا خبر تھی کہ تم اور تمہارا سلام میری زندگی کا حصہ بننے والے تھے۔
آج اس بات کو نو سال کا عرصہ بیت گیا۔ شادی کے بعد میں نے تمہیں یہ بات یاد دلائی تو تمہیں یاد نہیں تھی۔ تمہارا حافظہ تو بہت اچھا تھا۔ لیکن یہ یقیناً تمہارے لیے ایک معمولی بات تھی، مگر میرے دل میں نقش ہو کر رہ گئی۔
آج جب لکھنے بیٹھا ہوں تو تمہاری ہر یاد امڈتی چلی آرہی ہے۔ ہر لمحہ جو ہم نے ساتھ گزارا۔ وہ تمام صبر آزما وقت بھی جو آیا تو تم پر مگر ہم نے ایک ساتھ گزارا، کہ ہم دونوں ایک ہی تو تھے۔ مگر ایسا وقت بھی آج اپنے اندر کئی سبق لیے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔
ہماری شادی کو ایک مہینہ ہی ہوا تھا کہ تمہیں Hip میں تکلیف شروع ہوگئی۔ تم کس بہادری سے اس کا مقابلہ کرتی رہی جو دنوں اور پھر ہفتوں اور پھر مہینوں پر پھیلتی ہوئی تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ دو سال میں تو تکلیف تہماری برداشت سے باہر ہو گئی۔ میں تمہیں دردمیں دیکھتا تو میرا دل تمہاری اس تکلیف میں حصہ دار بن جاتا۔ پھر وہ وقت بھی یاد ہے جب ہم نے ڈاکٹری مشورے پر hip surgery کی ناخوشگوار تجویز پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا کہ اس کے علاوہ درد سے نجات کا کوئی راستہ نہ تھا۔
میں نے کبھی کھل کہ اظہار نہ کیا مگر آج میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ تکلیف میرے لیے بھی اسی قدر ناقابلِ برداشت تھی، جتنی تمہارے لیے۔ مگر میں اظہار نہ کرتا کہ مجھے ہمیشہ حوصلے کا مظاہرہ کرنا پڑتا۔ جب آنسو تمہاری آنکھوں سے چھلک جاتے، میں تو تمہیں یہ تک پیشکش کرتا کہ اپنے سب دکھ مجھے دے دو، اور میری زندگی کا سارا سکون اور آرام تم لے لو۔ مگر یہ تو محبت کی دنیا کی ناممکن باتوں میں سے تھی۔
اس تکلیف نے تمہیں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے پر مجبور کردیا تھا۔ تم ہر نماز کے بعد سجدہ کرنے کی کوشش کرتی تا کہ معلوم ہو سکے کہ تم سجدہ کر سکتی ہو یا نہیں۔ ناکام ہو کر تم رودیا کرتیں۔ یہ سب دیکھ کر میں سوچا کرتا کہ سجدہ کر لینا ہی بجائے خود ایک کتنی بڑی نعمت ہے اور ہم جب سجدے کرتے ہیں تو اس شکرگزاری کی طرف توجہ جاتی ہی نہیں۔ جو بہت سارے سبق میں نے تم سے سیکھے، ہر سجدے پر شکرگزار ہونا بھی ایک سبق تھا۔
اس صبر آزما دورمیں تمہارا صبر مثالی رہا۔ تمہاری ایمانی حالت اور بھی پختہ ہوتی گئی۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے جب تم ایسی مشکل گھڑیوں میں ہمیشہ کہا کرتی کہ ؎
راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو
اس آپریشن سے پہلے تمہیں چلنے کے لیے لاٹھی اور میرے کندھے کا سہارا درکار ہوتا۔ ایسے میں تمہارا ہر قدم تمہارے صبر و رضا کی خاموش گواہی دیا کرتا۔ ایسی ہی حالت میں وہ وقت آیا جب ہم اپنے محبوب آقا کی خدمت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ ہم حضور کے کمرے میں داخل ہوئے تو حضور تمہیں اس طرح چلتا دیکھ کر اپنی نشست سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ ایسے میں تمہارے قدم کمزور ہی سہی مگر تیز ہوگئے۔ میرے کندھے پر تمہارے ہاتھ کی مضبوط ہوتی گرفت سے مجھے اندازہ ہوا کہ تم تیز چل کر پہنچنا چاہ رہی ہو۔ تا کہ حضور کو زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑے۔
اس میں بھی تم نے مجھے ایک گہرا سبق دیا۔ خلافت سے محبت اور ایسی محبت کہ جہاں حضور کے ہر لمحے کی قدر کا احساس ہو۔ یہ خیال رہے کہ ایک ثانیہ بھی حضور کے وقت کا ضائع نہ ہو۔ حضور کے قیمتی وقت کے ضائع ہونا تمہارے لیے ایک ناقابلِ برداشت خیال تھا۔
سرجری کے کچھ ماہ بعد تم نے پہلی بار بغیر بیساکھیوں کے چلنا تھا۔ تم میرا ہاتھ تھامے ایک چھوٹے بچے کی طرح ہمارے چھوٹے سے گھر میں پاؤں پاؤں چل رہی تھی۔اسی میں کوئی بیس پچیس منٹ گزر گئے اور تم نئے سرے سے چلنا سیکھتی رہی۔ ایسے میں تمہاری پررونق آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور تم ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی رہی۔
تم چلتی رہی اور میں تمہیں دیکھ کر یہ سوچتا رہا کہ ہم چلتے ہوئے ہزاروں قدم اٹھاتے ہیں۔ اور یاد نہیں رکھتے کہ ہر قدم خدا کا شکر ادا کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ مجھے بہت سی کتابیں شکر گزاری کا وہ سبق نہ دے سکیں جو تم نے مجھے دے دیا۔
اس کے بعد کیاتھا۔ تم تو مسجد بیت الفتوح جانے کے بہانے ڈھونڈا کرتی ۔ نماز، میٹنگ، اجلاس۔ کچھ بھی ہو۔ تم اپنے پیروں پر چلتی ہوئی مسجد کی طرف رواں دواں ہوجاتی۔
پھر جلسہ سالانہ برطانیہ 2023ء آیا۔ تم نے غیر معمولی ذوق اور شوق کے ساتھ ڈیوٹی دی۔ ایسے جیسے تمہارا جشنِ صحت ہو۔ تم نے بہت سی سہیلیاں بھی بنائیں اور خوب خوش ہوکر ڈیوٹی کی، باوجود اس کے کہ سرجری کے بعد بھی کچھ تکلیف باقی تھی۔
مگر تکلیف ہو یا آرام و آسائش۔ تمہارے ساتھ گزرا ہوا ہر لمحہ قیمتی تھا۔ آج مجھے ہر لمحہ بہت یاد آرہا ہے۔ تم نے مجھ سے کبھی کوئی تقاضے نہ کیے۔ تمہیں معلوم تھا کہ میں ایک واقفِ زندگی ہوں۔ تم نے اس بات کا ہمیشہ پاس رکھا اور میں جس قدر بھی آرام اور آسائش یا سہولیات تمہیں دے سکا، تم اس پر خوش رہیں۔ اللہ تمہاری روح کو ہمیشہ خوش رکھے۔
آج تمہارے بارے میں سوچتا ہوں تو دفتر کے لیے گھر سے نکلتے وقت تمہارا ’’فی امان اللہ‘‘ کہنا بہت یاد آتا ہے۔ تم یہ دعا دل کی گہرائی سے دیا کرتیں۔ اور پھر ہمیشہ یہ اصرار بھی کہ دفتر پہنچ کر بتادینا کہ خیریت سے پہنچ گئے ہو۔ میں ہمیشہ تمہیں یہ خبر میسج کر کے پہنچا دیا کرتا کہ میں خیریت سے دفتر پہنچ گیا ہوں۔
اب بھی دفتر پہنچتے ساتھ میرا ہاتھ بے اختیار فون کی طرف جاتا ہے۔ مگر اب میں تمہیں کیسے بتا سکتا ہوں کہ میں دفتر پہنچ گیا ہوں۔ تم بھی تو اب گھر سے نکلتے وقت مجھے فی امان اللہ نہیں کہتیں۔ مگر روزانہ میرا ہاتھ جب فون کی طرف بڑھتا ہے تو بھی تمہارا سکھا یا ہوا سبق ہی یاد دلاتا ہے۔ کہ ہمیں بس خدا کی رضا پہ راضی رہنا ہے۔ ہمارے جذبات جو بھی ہوں۔ ہم اچھے مسلمان کیسے ہو سکتے ہیں اگر ہمارے دل خدا کی رضا پرراضی ہی نہ ہوں۔
جب سرجری کے بعد تمہیں آرام آگیا تو ہم نے پیدل چل کر مسجد جاناشروع کیا۔ تمہارا مسجد کی طرف بڑھتا ہوا ہر قدم جس شوق سے اٹھتا، اس کی یاد آج بھی دل پر نقش ہے۔ پھر نمازِ جمعہ کے لیے مسجد بیت الفتوح جانے کے لیے تم نکلتیں، تو مجھے ٹیکسٹ کر کے بتاتیں کہ تم روانہ ہوگئی ہو۔ اور اب تم مسجد پہنچ گئی ہو۔ اور اب تمہیں بیٹھنے کے لیے کرسی مل گئی ہے۔ تمہیں ہر قدم پر اپنے آرام سے زیادہ یہ خیال رہتا کہ مجھے تمہاری خیریت کی خبر ملتی رہے۔
اور یاد ہے، بعض اوقات تم مجھےبتانا بھول جاتی کہ تمہیں کرسی مل گئی ہے تو میں کرسی کی emoji اور سوالیہ نشان بھیج کر پوچھ لیا کرتا۔ اور تم فوراً ٹیکسٹ کر کے بتادیا کرتیں۔
میں آج تمہارے لیے دعاگو ہوں کہ تم جنت الفردوس میں آرام اور سکون سے بیٹھ چکی ہو۔ اور اب جب کہ تم وہاں ہو۔ اور میں وہاں نہیں ہوں۔ تو اتنا کردینا کہ آنحضورﷺ کی خدمت میں اپنا اور میرا سلام عرض کردینا۔ ارادہ تو ہم نے کیا تھا کہ کبھی مدینہ حاضر ہوکر ہم دونوں یہ سلام آنحضورﷺ کی خدمت میں پیش کریں گے۔ مگر سب کچھ ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا۔
میری دعا ہے کہ آنحضورﷺ کے دستِ مبارک کا سایہ ہمیشہ تمہارے سر پررہے۔
ایک اور بات جو تم نے وفات سے کچھ دن پہلے مجھے اپنے عمل سے سمجھائی، وہ بھی تمہیں بتادوں۔ میں واقفِ زندگی ہوں مگر وقف کی روح کا سبق مجھے تمہارے ایک عمل سے ملا۔ تم شادی کے بعد لندن آگئی تھیں۔ اب پانچ سال بعد اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے ملنے ربوہ پہنچی تھیں۔ مگر وہاں تم پہنچ کر جب ان سے ملیں، تم نے اپنی آنکھوں میں ایک بھی آنسو نہ آنے دیا۔
میں تمہیں کیسے بتاؤں کہ مجھے کتنی حیرت ہوئی۔ میرا خیال تھا کہ ایک نوجوان لڑکی جو اپنے ماں باپ سے بہت دور ایک لمبا عرصہ گزار کر اور بہت صبر آزما مراحل سے گزرنے کے بعد ان سے مل رہی ہے، ضرور رو پڑے گی۔ مگر نہیں! تم نے آنسو ضبط کرلیے۔ تم نے واقفِ زندگی کی بیوی ہوکر مناسب نہ سمجھا کہ تم روپڑو، مبادا انہیں احساس ہو کہ تم کسی تکلیف میں ہو۔ میں اس بات تمہارا بہت شکرگزار ہوں ۔اور اللہ کا شکرگزار ہوں کہ اس نے مجھے تم جیسی بیوی دی۔
حیرتوں کی بات چل رہی ہے تو ایک اور بات بھی بتاتا چلوں۔ کیونکہ یہ بات سوچ کر میں بہت حیران ہوتا ہوں۔ اللہ کے کام کس طرح چل رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان جانے سے کوئی دو ماہ پہلے تم نے نظام وصیت میں شامل ہونے کے لیے درخواست بھیجی۔ آخر تم کیا سوچ رہی تھی؟ کیا تمہیں معلوم تھا کہ تم اپنی زندگی کے اختتام پر پہنچی کھڑی ہو؟ ظاہر ہے تمہیں تو معلوم نہیں تھا۔ مگر اس کو معلوم تھا جس کو ہر چیز کا علم ہے۔ اور یہ بھی تو اسی خدا کا فضل ہے کہ حضور کی شفقت سے تمہاری یہ درخواست، جو عام حالات میں سال بھر کا وقت لے کر منظور ہوتی ہے، فوراً منظور ہوگئی اور تم بطور موصیہ اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ الحمدللہ۔
اپنی وفات سے کچھ روز پہلے تم نے ناک میں پہننے والا سونے کا ایک چھوٹا سا لونگ لیا۔ اور ابھی ہم نے خریدا ہی تھا کہ تم نے مجھے کہا کہ یاد سے ہم نے اس کا اندراج بھی وصیت میں کروانا ہے۔ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا تمہارا شوق میرے لیے بھی ایک قابل تقلید مثال تھا۔
ہم سب جو تمہارے قریبی تھے، تمہاری طبیعت کی نفاست کو یاد کرتے ہیں۔ یہ نفاست ہر چیز میں جھلکتی۔ تمہارے کپڑے کئی سال پرانے بھی ہوتے تو نئے ہی لگا کرتے۔ تم ہر چیز کو حفاظت سے اور نفاست سے سنبھال کر رکھتی۔ یہ نفاست تمہاری سوچ اور خیالات میں صاف نظر آیا کرتی۔
بہت سی باتیں ہیں جن پر مجھے تمہارا شکریہ بھی ادا کرنا ہے۔ مثلاً مجھے تہجد کے لیے اٹھانا۔ فجر کے لیے وقت پر اٹھانا۔ رمضان میں بروقت اٹھانا۔ تمہاری وجہ سے رمضان کا روحانی تجربہ تمہارے ساتھ اور بھی پرلطف ہوتا تھا۔ کاش میں سب شادی شدہ جوڑوں کو بتاسکوں کہ کبھی اس قیمتی ساتھ کو معمولی خیال کر کے نظر انداز نہ کریں۔ یہ ساتھ بہت خوش قسمتی کی بات ہے۔
ہر رمضان میں قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ تین بار، اور بعض اوقات تو چار بار پڑھ لیا کرتی۔ پھر ساتھ جماعت اور خلافت کے ساتھ تمہاری محبت میرے لیے قابلِ رشک رہی۔ اس پر بھی تمہارا شکریہ۔
اس بات کا بھی شکریہ کہ تم نے مجھے دوسروں کے لیے دعائیں کرنے کی ہمیشہ نصیحت کی۔ تمہارا شکریہ کہ تم نے میری ذمہ داریوں میں ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ بطور واقفِ زندگی، میری کوئی ذمہ داری تمہیں کبھی ناخوشگوار نہ لگی۔ چاہے میں گھر پر رات کو دیر تک اپنا کام کرتا۔ یا عید پر بھی کام کرنا پڑتا۔ تم نے کبھی اعتراض نہ کیا۔ تم نے کبھی کوئی تقاضا کیا ہی نہیں۔ وقف ِ زندگی کی روح تو تم نے ایسی سمجھی کہ میں شکرگزار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
پھر بغیر باقاعدہ دینی تعلیم کے، تم دینِ اسلام کا کیسا گہرا علم رکھتی تھی۔ ایسا اچھا علم کہ تم تو اس موضوع پر باقاعدہ گفتگو کرسکتی تھی۔ تمہارا یہ علم میرے لیے اس بات کی گواہی بن گیا کہ جماعت اور خلافت سے وابستگی انسان کو علم اور معرفت میں ترقی دیتی ہے، اور سوچ میں نکھار پیدا کرتی ہے۔ تم ہمیشہ اس بات اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کرتی رہیں کہ اس نے ہمیں احمدی پیدا کیا۔
تم جب بھی کسی وفات یافتہ کا ذکر کرتیں، تو ہمیشہ دعا کرتیں کہ ’’اللہ انہیں جنت میں جگہ دے‘‘۔ میری نوشابہ! آج ہم سب تمہارے لیے یہی دعا کررہے ہیں۔ اور یہ بھروسا رکھنا کہ ہم ہمیشہ کرتے رہیں گے۔ اور میں اللہ پر بھروسا رکھتا ہوں کہ وہ ہماری یہ دعا ضرور قبول کرے گا۔
میں نے تم سے صبر سیکھا۔ قناعت سیکھی۔ لوگوں سے ہمدردی کرنا سیکھا۔ تکلیف میں مسکرانا سیکھا۔ ہر حال میں اللہ کی شکر گزاری سیکھی۔ اپنی ضروریات کو قربان کر کے دوسروں کی ضرورت کا خیال کرنا سیکھا۔ ان پانچ سالوں میں جو ہم نے ساتھ گزارے، میں نے تم سے کیا کچھ نہیں سیکھا۔ اللہ تمہیں بہت جزا دے۔
اب میں تمہارے بغیر زندگی گزار رہا ہوں۔ اس امید میں کہ تم سے سیکھی ہوئی نیکیوں پر خود بھی عمل کرسکوں۔ تا کہ تم ان نیکیوں کا اجر ملتا رہے۔ اور یہ تمہارے درجات کی بلندی کا باعث ہو سکیں۔
آج کل، یہ پہاڑ جیسے روز و شب میں اس وجود سے تعلق پیدا کرنے میں گزار رہا ہوں جس کے پاس تم چلی گئی ہو۔ میں اپنے دل کی گہرائی سے یہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حفظ و امان میں رکھے۔ میر ی نوشابہ! فی امان اللہ۔ تمہیں جنت نصیب ہو۔ تمہیں آنحضورﷺ کا قرب نصیب ہو۔ اور وہ ’’سلام‘‘ نصیب ہو جس کا وعدہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں سے فرمایا ہے۔
تمہیں اپنی ایک اور دعا بھی بتانا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر واقفِ زندگی کو تمہارے جیسی بیوی نصیب کرے۔
میری نوشابہ! تمہیں خدا کے سپرد کیا۔ فی امان اللہ۔
والسلام
صرف تمہارا
جلیس
ماشا اللہ ماشاللہ بہت ہی پیاری اور سبق آموز تحریر اللہ تعالی مرحومہ کو جنت میں جگہ عطا فرمائے