رمضان المبارک کی اہمیت و برکات (حصہ دوم)
اس مبارک مہینہ میں مسلمان صبح سے شام تک صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کھانا پینا ترک کرتے ہیں۔ سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:’’روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اوراس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتاہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتاہے اورکشفی قوتیں بڑھتی ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۱۰۲، ایڈیشن ۲۰۰۳ء) اس کی تشریح کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’پس رمضان کے مہینے میں کھانے میں زیادتی رمضان کا حق ادا نہیں کر تی بلکہ رفتہ رفتہ کھانے میں کمی رمضان کاحق ادا کرتی ہے۔ عام طورپر دیکھا گیاہے کہ لوگوں کو شروع میں تو بھوک نہیں لگتی اس وقت میں اس لئے نسبتاً کم کھاتے ہیں اورجوں جوں رمضان آگے بڑھتاجاتا ہے وہ زیادہ کھانے لگتے ہیں یہاں تک کہ آخری دنوں میں تو رمضان ان کو پتلا کرنے کی بجائے موٹا کر جاتا ہے۔ یہ جسم کی فربہی دراصل نفس کی فربہی بھی ہو سکتی ہے۔ اس لئے عام طورپر بھولے پن میں، لاعلمی میں لوگ ایسا کرتے ہیں مگر ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’ تزکیۂ نفس ہوتاہے‘‘ جو کم کھانے سے زیادہ ہوتاہے۔ پس جتنا آپ کم کھانے کی طرف متوجہ ہوں گے اتنا ہی رمضان آپ کے لئے فائدہ بخش ہوگا۔’’اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں‘‘ یعنی خدا تعالیٰ کو انسان مختلف صورتوں اور صفات میں دکھائی دینے لگتا ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۶؍جنوری ۱۹۹۶ء)
بچوں کے روزہ کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’جب بچے کی ضروری قوتیں نشوونما پاچکی ہوں تو ہر سال کچھ نہ کچھ روزے رکھوانے چاہئیں تاکہ عادت ہوجائے مثلاً پہلے پہل ایک دن روزہ رکھوایا پھر دوتین چھوڑ دئیے۔ پھر دوسری دفعہ رکھوایا۔ ایک چھڑوادیا میرے نزدیک بعض بچے تو پندرہ سال کی عمر میں اس حد کو پہنچ جاتے ہیں کہ روزہ ان کے لئے فرض ہوجاتا ہے۔ بعض سولہ سے انیس اور حد بیس سال تک اس حالت کو پہنچتے ہیں۔ اس وقت روزہ رکھنا ضروری ہے پس یاد رکھو روزہ فرض ہونے کی حالت میں بلاوجہ روزہ نہ رکھنا اپنے ایمان کو ضائع کرنا ہے۔‘‘ (خطبات محمود جلد ۱۰ صفحہ ۱۱۸)
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ جماعت کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’پس اس فتنے کی فکر کرو جو تمہارے گھروں میں ہورہا ہے تمہارے بچوں کی صورت میں رونما ہورہا ہے۔ تمہارے احوال کی صورت میں رونما ہورہا ہے اور اس کو دور کرنے کے لئے الصلوٰۃ والصوم دو ہی چیزیں ہیں۔ نمازوں سے گھر کو بھر دو اور جب رمضان کے مہینے آیا کریں او ر ویسے بھی اپنے گھروں کو روزوں سے بھر دیا کرو۔ ہر قسم کے فتنے سے نجات پاؤ گے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶ دسمبر ۱۹۹۷ء)
یہ مہینہ سخاوت اور صدقہ و خیرات کا مہینہ ہے۔ روزہ رکھ کر فاقہ کشی کی تلخی کا احساس پیدا ہوتا ہے جو غربا ء اور مسکینوں کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ ’’ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ان کے پاس ایک غریب عورت نے سوال کیا۔اس دن آپؓ روزہ سے تھیں اور گھر میں سوائے ایک روٹی کے کچھ نہ تھا۔آپؓ نے اپنی خادمہ سے کہاکہ وہ روٹی اس (غریب عورت)کو دے دے۔وہ (خادمہ)کہنے لگی کہ آپ کے لیے کوئی اور چیز تو موجود نہیں۔آپ کس چیز سے روزہ افطار کریں گی۔ حضرت عائشہؓ نے اس خادمہ سے کہا کہ تم وہ روٹی اس غریب عورت کو دے دو۔ وہ(خادمہ) کہتی ہے کہ وہ(روٹی اس غریب عورت کو) دے دی۔جب شام ہوئی تو آپؓ کے پاس کسی عزیز نے یا کسی اور شخص نے بکری کا کچھ گوشت اوراس کا بازو بطور تحفہ بھیج دیا۔ آپؓ نے اس خادمہ کو (بلا کر)فرمایا لو کھاوٴ یہ تمہاری روٹی سے (کہیں) بہتر ہے‘‘۔
یہ مبارک مہینہ مسلمان کو روحانی طور پر دوبارہ زندہ کرتا ہے۔ ان کو غفلت کی نیندوں سے بیدار کرتا ہے اور نئے سرے سے دل میں اس واحد و یگانہ کی الفت کو جگاتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے رمضان المبارک کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’ جو رمضان کاسب سے بلند مقصد اور سب سے اعلیٰ پھل ہے وہ یہ ہے کہ اللہ مل جاتاہے۔ چنانچہ… اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذَا سَألَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَاِنّی قَرِیْبٌآنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا ہے اے رسول! یعنی رسول کا نام تو نہیں مگر مخاطب آنحضورؐ ہی ہیں۔ وَاِذَا سَألَکَ عِبَادِیْ عَنِّی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں، عَنّیمیرے بارے میں،فَاِنّی قَرِیبٌتو میں قریب ہوں۔ اس دعا میں جس کی طرف اشارہ ہے یہاں دنیا کی ضرورتیں پوری کرنے کا کوئی حوالہ نہیں۔ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ یعنی جب میرے بندے مجھے ڈھونڈتے پھریں، مجھے چاہتے ہوں اور تجھ سے پوچھیں کیسے ہم اپنے ربّ کو پا لیں تو اس وقت یہ نہیں فرمایا فَقُل اِنّی قَرِیبٌ تُو ان سے کہہ دے اِنَّ اللّٰہَ قَرِیْبٌ۔ کہ اللہ قریب ہے یا میں قریب ہوں۔ فوری جواب ہے فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ۔ قریب والا بعض دفعہ دوسرے کاحوالہ بھی نہیں دیتا، کسی دوسرے کو یہ نہیں بتائے گا کہ اس کو بتا دو کہ میں قریب ہوں۔ تو اس میں سوال کرنے والے کی نیت کے خلوص کا ذکر ہے۔ اگر واقعۃً کوئی اللہ کو چاہتا ہے تو اے رسولؐ جب بھی وہ تجھ سے پوچھے گا میں اس کو سن رہا ہوں گا۔ مجھے بتانے کے لئے اس وقت تیرے حوالے کی ضرورت نہیں۔ اِنِّیۡ قَرِیۡبٌ میں تو ساتھ کھڑا ہوں، رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ لیکن اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔میں پکارنے والے کی دعوت کو سنتا ہوں جب وہ مجھے پکارے۔ یعنی میرا شوق رکھتا ہو، دنیا طلبی کی خاطر نہ میں یاد آؤں۔ یہ عجیب منظر ایک کھینچا گیا ہے اِذَا دَعَانِ۔ جس کا رمضان میں آپ کو زیادہ دیکھنے کا موقع ملے گا، بہت ہی دل کش منظر ہے۔ کئی لوگ ہیں جنہوں نے زندگیاں وقف کر دیں، جنگلوں میں ڈھونڈتے پھرے، اللہ اللہ پکارتے پھرے اور پھر بھی ان کو اللہ نہیں ملا۔ کئی لوگ ہیں جو بعض دفعہ بے اختیار ہو کر اللہ کہتے ہیں تو اللہ ان کو مل جاتا ہے۔ اس مضمون کا فرق کیا ہے۔ یہ فرق اب یہاں بیان کیا جائے گا۔
فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ ان پکارنے والوں کا فرض ہے کہ میری بات بھی تو مانا کریں۔ مجھے اس طرح نہ پکاریں جیسے نوکروں کو پکارا جاتا ہے۔ جب ضرورت پیش آئے آواز دو وہ کہے گا حاضر سائیں! ایسے بندے جو میری باتوں کی طرف دھیان دیتے ہیں جو میری باتوں کے اوپر عمل کرتے ہیں وہ پہلے میرے بندے بنتے ہیں پھر جب وہ پکاریں گے تو ان کو جنگلوں میں جانے کی ضرورت نہیں رہتی جہاں بھی پکاریں گے اِنّی قَرِیْبٌ میں ان کے پاس ہوں گا۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍دسمبر ۱۹۹۷ء)(باقی آئندہ)