لاہور کے نواحی علاقہ کے گاؤں جاہمن میں واقع جماعت احمدیہ کی مسجد کے میناروں کی پولیس نے بے حرمتی کر کےان کو تباہ کردیا
٭… لاء اینڈ آرڈر ایجنسیوں کی جانب سے مظالم کی کارروائیاں واضح طور پر اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ انہیں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ کے جاری کردہ احکامات کا بالکل بھی احترام نہیں ہے
احباب جماعت کو بہت دکھ کے ساتھ یہ خبر دی جاتی ہے کہ لاہور کے نواحی علاقہ کے گاؤں جاہمن میں واقع جماعت احمدیہ کی مسجد کے میناروں کی بے حرمتی کر کے ان کو شہیدکردیا گیا۔
کچھ عرصے سے احمدیوں کو نہ ختم ہونے والے مسلسل ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کا تازہ ترین واقعہ جاہمن کی احمدیہ مسجد کے میناروں کو مسمار کرنا ہے۔ تفصیلات کے مطابق یہ افسوسناک کارروائی ۱۲؍جون ۲۰۲۴ء کی رات تقریباً ایک بجے وردی میں ملبوس ۱۰/۱۲ پولیس اہلکاروں اور سادہ لباس میں ۴؍افراد نے کی۔ پولیس ڈی وی آر یعنی ڈیجیٹل ویڈیو ریکارڈر اپنے ساتھ لے گئی۔
واضح رہے کہ ۲۰۲۳ء کا سال جماعت احمدیہ پر مذہبی ظلم و بربریت کے لحاظ سے بدترین سال تھا، جہاں ۴۳؍کے قریب احمدیوں کی مساجد کی بے حرمتی کی گئی ، تاہم ستمبر ۲۰۲۳ء میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد یہ واقعات رک گئے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب چھ ماہ کے بعد کیا ہوا، جس کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا؟
لاء اینڈ آرڈر ایجنسیوں کی جانب سے مظالم کی کارروائیاں واضح طور پر اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ انہیں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ کے جاری کردہ احکامات کا بالکل بھی احترام نہیں ہے کہ ۱۹۸۴ء سے پہلے بنائی گئی احمدیوں کی عبادت گاہوں میں کسی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے اور جاہمن کی احمدیہ مسجد کی تعمیر کو ۵۴ سال ہو چکے ہیں۔
مزید برآں جسٹس تصدق حسین جیلانی کا ۲۰۱۴ء میں تاریخی فیصلہ کہ عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے خصوصی ٹاسک فورس بنائی جائے لیکن پولیس عبادت گاہوں کی حفاظت کی بجائے معاشرے کے مذہبی غنڈوں کو خوش کر رہی ہے جودنیا بھر میں پاکستان کی عزت کو بدنام کر رہے ہیں۔
ایمنسٹی انٹر نیشنل ساؤتھ ایشیا ریجنل آفس حکومت پنجاب پر زور دیتا ہے کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ احمدیہ برادری کو تحفظ فراہم کیا جائے، خاص طور پر عید الاضحی کے موقع پر، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے لائحہ عمل بنائے کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کو پرامن طریقے سےپورا کر سکیں۔مزید کہا ہے کہ مشکل سیکیورٹی حالات میں بھی انسانی حقوق کا تحفظ کیا جانا چاہیے اور ایسے قوانین جو ان حقوق کی خلاف ورزیوں میں سہولت فراہم کرتے ہیں، ان میں ترمیم یا ان دفعات کو ختم کرنے کے لیے اچھی طرح سے نظرثانی کی جانی چاہیے جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیاروں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
(رپورٹ: ابو سدید)