ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
عالم برزخ کے عجائبات میں سے یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ ان کی موت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے روضۂ مبارک کے قریب کئے جاتے ہیں جس کے نیچے جنت ہے اور بعض لوگ اس روضہ سے دُور کئے جاتے ہیں۔پس رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے بارہ میں یہ خبر دی ہے کہ میں مقرّبین میں سے ہوں۔
میرے ربّ نے مجھے بشارت دی کہ وہ میرے لئے درخشاں نشان ظاہر فرمائے گا اورپے درپے تائیدات سے میری مدد کرے گا تاکہ وہ زبر دست دلائل اور روشن معجزات سے حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کر دے۔
’’اور اس بارہ میں مَیں نے بہت سی کتابیں تالیف کیں اور لوگوں کے فائدے کی خاطر دور درازملکوں تک ان کی اشاعت کی ہے۔ پھر جب ہمارے درمیان اس بحث نے طول پکڑا اور میںنے ایک شخص بھی ایسا نہیں دیکھا جو اسلام کی طرف میلان ظاہر کرے تو میں سمجھ گیا کہ یہ معاملہ منّان خدا کی نصرت کا محتاج ہے۔ اورمَیں خود تو کچھ بھی نہیں ہوں یہاںتک کہ خدائے رحمان کی رحمت مجھے آلے ،تو میں اس کی نصرت کا سوالی بن کر آستانۂ الٰہی پر گر گیا اور میں محض مُردہ کی طرح تھا۔ تب میرے رب نے دو کلمات سے مجھے زندہ کیا اور آنکھوں کو منور کیا اور فرمایا: یعنی ’’اے احمد خدانے تجھ میں برکت رکھ دی۔ وہ خدائے رحمان ہے جس نے تجھے قرآن سکھلا یا ہے۔ کہ تا تُو ان لوگوںکو ڈراوے جن کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے اور تا خدا کی حجت پوری ہوجاوے اور مجرموںکی راہ کھل جائے۔ ان کو کہہ دے کہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور سب سے پہلے اس بات پرمَیں ایمان لانے والا ہوں۔[٭ اہل قبلہ میں سے مرے دشمن میرا نام اوّل الکافرین رکھتے ہیں۔ ان کی تردید میں اللہ تعالیٰ کا قول جو میری کتاب براہین احمدیہ میں آ چکا ہے۔’’کہہ میں مامور ہوں اور میں اس بارہ میں تمام مومنوں میں سے پہلا ہوں‘‘۔ اور انہوں نے کہا کہ اس شخص کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جائے۔ تو اس کے ردّ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قول آچکا ہے کہ ’’مسیح موعود میری قبر میں دفن کیا جائے گا اور قیامت کے روز میرے ساتھ ہی مبعوث کیا جائے گااور یہ ان مکفرین کو جواب دیا گیا ہے جو مجھے جہنمی خیال کرتے ہیں اور اگر تُو شک میں مبتلا ہے تو مفتیوں سے دریافت کر لے۔ اور عالم برزخ کے عجائبات میں سے یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ ان کی موت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے روضۂ مبارک کے قریب کئے جاتے ہیں جس کے نیچے جنت ہے اور بعض لوگ اس روضہ سے دُور کئے جاتے ہیں۔ پس رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے بارہ میں یہ خبر دی ہے کہ میں مقربین میں سے ہوں اور یہ اس شخص کے اعتراض کا ردّ ہے جس نے کہا کہ یہ شخص جہنمیوں میں سے ہے۔ اور یہ ایسی تدفین ہو گی جس کو اللہ تعالیٰ روحانی طریق پر پورا کرے گا اور یہ ایسا امر ہے جس کے اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول کے ارشادات میں اشارے پائے جاتے ہیں اور جس پر روحانیت سے تعلق رکھنے والے ایک گروہ کا اس پر اتفاق ہے۔اسی طرح انہوں نے کہا کہ اس شخص کی جماعت کے لوگ کافر ہیں۔ مومن نہیں۔ پس ان کے وفات یافتوں کو مسلمانوںکے قبرستان میں دفن نہ کرو کیونکہ یہ بدترین کافر ہیں۔ تو میرے رب نے مجھے وحی کی اور ایک قطعۂ زمین کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ ایسا قطعہ زمین ہے جس کے نیچے جنت ہے۔ جو اس میں دفن کیا جائے گا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ اور وہ امن دیئے جانے والوں میں سے ہو گا۔ پس اگر دشمنوں کی باتیں نہ ہوتیں تو ان انعامات کا وجود بھی نہ ہوتا۔ پس ان کے غضب نے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش دلایا۔ پس تمام قسم کی تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو رب العالمین ہے۔منہ ]
اور اس نے مجھے بشارت دی کہ دین اسلام سر بلند کیا جائے گا اور اس کی اشاعت کی جائے گی۔ اور تیرے جیسا موتی ضائع نہیں ہوسکتا اور یہ پہلی وحی ہے جو قدیر و نصیر خدا کی طرف سے اس عاجز کو کی گئی۔ اور میرے رب نے مجھے بشارت دی کہ وہ میرے لئے درخشاں نشان ظاہر فرمائے گا اورپے درپے تائیدات سے میری مدد کرے گاتاکہ وہ زبر دست دلائل اور روشن معجزات سے حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کر دے۔ پھر اس کے بعد میں نے پادریوں اور عیسائیوں اور عیسائیت میں داخل ہونے والوں اور ان کے علاوہ برہمنوں اور مشرکوں کودعوت دی اور انہیں کہا کہ اللہ کے نشانوں اور اس کی نصرت کے ذریعہ حق کو پرکھو تا یہ ظاہر ہوجائے کہ کون اللہ کی طرف سے نصرت یافتہ ہوگا اور کون اس کی لعنت کا مورد ہوگا۔ مگر وہ ہتھیار بند پہلوانوں کی طرح اس مقابلہ کے لئے نہ نکلے اور اپنے آشیانوں میں چھپ گئے۔ اور اللہ کی قسم ! اگر وہ میدان میں آتے تو میرا رب ٹھیک ٹھیک نشانے پر تیر برساتا ،اور ان میں سے ہر ایک ناکام و نامراد ہو کر لَوٹتا۔ اور اللہ کی قسم اگر تُو تحقیق کرتا تو دیکھ لیتا کہ اسلام نشانات کا خزینہ اور ان کا شہر ہے اور تو اس میں ایسا نور پاتا جو ہر شخص کو اس کی سکینت بخشتا۔ پس افسوس ہے ایسے لوگوں پر جواس کے دفینوں کا انکار کرتے ہیں اور اس کے خزائن کی طرف کچھ توجہ نہیں کرتے اور اسلام کو بوسیدہ ہڈیوں کی طرح سمجھتے ہیں عظیم نعمتوں سے بھرا ہوا نہیں سمجھتے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو اس بات پر ایمان نہیں لاتے کہ ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اللہ کسی سے کلام کرتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ خیر الوری صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مکالمہ الٰہی کے سلسلہ پر مہر لگ گئی ہے۔ گویا اس زمانے میں اللہ صفت کلام کو کھو بیٹھاہے۔ اور صرف سماعت کی صفت باقی رہ گئی ہے اور شاید یہ صفت ِ سماعت بھی آئندہ زمانے میں جاتی رہے اور جب صفتِ تکلم اور دعائیں سننے کی صفت معطل ہوگئی تو باقی صفات کی سلامتی کی بھی امید نہیں رکھی جاسکتی۔ میری مراد یہ ہے کہ اس صورت میں تمام صفات سے امان اٹھ جائے گی۔ پس جس نے اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی ایک صفت کے ابدی ہونے کا انکار کیا تو گویا اس نے تمام صفات کا انکار کر دیا اور دہریت کی طرف مائل ہوگیا۔ پس اے اہل دانش ! تم ایسے شخص کے متعلق کیا کہتے ہو۔ کیا وہ مسلمان ہے یا وہ ملّتِ (اسلامیہ) کے مینارسے گر گیاہے؟
کیا تم خیال کرتے ہو کہ اسلام چند گنے چنے قصوں سے عبارت ہے اور اس میں ایسے نشان موجود نہیں جو دکھائی دیتے ہوں۔ کیا ہمارے ربّ نے ہمارے سید و مولیٰ خیر البریہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہم سے منہ موڑلیا ہے ؟ پھر کونسی چیز اس ملّت کی صداقت پر دلالت کرتی ہے۔ کیا اللہ اپنے اس انعام کے وعدے کو بھول گیا جس کا اس نے سورۃ فاتحہ میں ذکر فرمایا ہے۔ یعنی اس اُمّت کو سابقہ اُمّتوں کے انبیاء کی مانند بنانا۔
کیا ہمیں قرآن میں بہترین اُمّت قرا رنہیں دیا گیا۔ پھر کس چیز نے فرقان حمید کے خلاف ہمیں بد ترین اُمّت بنا دیا۔ کیا عقل جائز قرار دیتی ہے کہ ہم تو اللہ کی معرفت کے لئے پوری تگ و دَو کریں لیکن پھر بھی اس کی شاہراہوںکو پانہ سکیں اور ہم نسیم رحمت کی خاطرمریںلیکن پھر بھی ہم اس کے جھونکوں سے محروم رہیں۔کیا یہی اس اُمّت کے کمال کی حد ہے ؟ جبکہ دنیا کی عمر کا آفتاب ڈوبنے کو ہے۔ سو جان لو کہ جس طرح یہ خیال کمال ذہانت کی رُو سے باطل ہے۔ ویسے ہی صحف مقدسہ پر تحقیقی نظر ڈالنے کے لحاظ سے بھی باطل ہے۔‘‘
(الاستفتاء مع اردو ترجمہ صفحہ 126تا130۔ شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ ربوہ)