ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم لوگوں کو علی وجہ البصیرت اُس طرف بلائیں جسے ہم نے پایا ہے۔
ایمان کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ بندہ اللہ کی عطا سے مایوس نہ ہو اور اس کے دروازہ کو اس کے پیاروں پر بند خیال نہ کرے۔
’’کیا حجاب کی موت سے بڑھ کر بھی کوئی موت ہے اور اُس اندھے پن سے زیادہ اذیت ناک اور کیا چیز ہے کہ جس میں وہّاب خدا کے چہرے کا دیدار نہ ہو۔ اگر یہ امّت گونگوں اور بہروں جیسی ہوتی تو عشاق اس غم سے مر جاتے جو محبوب کے وصال کیلئے اپنے وجود گھلا دیتے ہیں اور ان کی دنیا میں کوئی اور آرزو نہیں ہوتی بجز اس کے کہ انہیں اپنا یہ مطلوب مل جائے۔ پھریہ کیسے ہوسکتاہے کہ ان کا محبوب خدا ان پیاروں کو اضطرار و کرب کے شعلوں اور انتظار کی آگ میںپڑا رہنے دے۔ اور اگر ایسے ہوتا تو یہ قوم تمام بدبخت قوموں سے زیادہ بد بخت ہوتی کہ نہ ان کی صبح تابناک ہوتی اور نہ ان کی چیخ و پکارسنی جاتی اور وہ آہ و بکاء کی حالت میں مر جاتے۔ ایسا ہرگز نہیں بلکہ اللہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے اوراس نے بھوک پیدا کی تو اس کے ساتھ ہی اس نے بھوکے کے لئے کھانا بھی پیدا کیا۔پیاس پیدا کی تو پیاسے کیلئے پانی بھی پیدا کیا اور معرفت کے طالبوں کیلئے بھی اس کی یہی سنّت جاریہ ہے۔ میں نے بچشم خود یہی دیکھا ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ میں مشاہدہ کے بعد اس کا انکار کروں۔ اور میں نے خود اس کا تجربہ کیا ہے پھر اس تجربے کے بعد میں اس میں کیونکر شک کرسکتا ہوں۔
ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم لوگوں کو علی وجہ البصیرت اس طرف بلائیں جسے ہم نے پایا ہے۔ اس لئے ہراس شخص کے لئے جو خدائے یگانہ پر ایمان رکھتا ہے اور کلمۂ توحید سے ناک بھوں نہیں چڑھاتا، لازم ہے کہ وہ بوسیدہ کپڑوں پر قناعت نہ کرے (بلکہ ) دین کے فاخرانہ لباس کا متلاشی ہو اور ظاہری اور باطنی لباس کی تکمیل کے لئے رغبت دکھائے اور کمال صدق اور اضطرار سے رب کریم کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ وہ (اللہ) بہت سخی ہے وہ لوگوں کے سوال سے اکتاتا نہیں اور اس کے خزانے حد و قیاس سے باہر ہیں۔ پس جو زیادہ مانگے گا زیادہ انعام پائے گا۔پس ایمان کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ بندہ اللہ کی عطا سے مایوس نہ ہو اور اس کے دروازہ کو اس کے پیاروں پر بند خیال نہ کرے۔اور اے لوگو! یقیناً تم اللہ کی نعمتوں اور اس کی عنایات کے محتاج ہو۔ پس یہ بدبختی ہوگی کہ تم اس کی عطا کردہ نعمتو ں کو ردّ کردو۔ اس بھوکے شخص سے بڑھ کر بد بخت اور کون ہوسکتاہے جو قریب المرگ ہو اور جب اسے لذیذ کھانا اور عمدہ روٹی پیش کی جائے وہ اسے رد کر دے‘ اور اسے نہ لے‘ اور اس پر نگاہ تک نہ ڈالے جبکہ وہ بھوک کا ماراہو ا اور بے حال ہو لیکن اس کے باوجودوہ اس کی خواہش نہ کرے۔
اے بھائیو! رحمان خدا تم پر رحم فرمائے! جان لو کہ میں تمہارے لئے آسمان سے ایک کھانا لایا ہوں اور اللہ نے اس صدی کے سر پر تمہاری آرزؤوں کو پورا کیا اور تم ان کے پورا ہونے کی دعا کیا کرتے تھے۔ سو اس نے تم پر اپنی نعمتوں کے دروازے کھول دئیے۔ کیا تم ان (نعمتوں ) کو قبول کروگے؟ مجھے معلوم ہے کہ تم مجھ سے ہرگز خوش نہیں ہوگے۔ جب تک کہ میں تمہارے عقائد کی پیروی نہ کروں۔ اور میں اپنے رب کی وحی کیسے چھوڑ دوں اورتمہاری خواہشات کی پیروی کروں جبکہ اللہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جائو گے۔ اور مجھے نشانات، برکات اورہر قسم کی نصرت اور تائیدات عطا کی گئی ہیںاور کاذبوں کے لئے یہ دروازہ کھولا نہیں جاتا خواہ مجاہدہ سے ان کے اعصاب کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ خائنوں اور گناہگاروں سے پیار کرتا ہے۔ میں اس کی جناب سے تمہاری مدد کے لئے ایسے شیر کی طرح آیا ہوں جو اپنی کچھا رسے نمودار ہوتا اور اپنی کچلیاں ظاہر کرکے حملہ کرتاہے۔ پس تم مجھے پادریوں ، ملحدوں اور مشرکوں میں کوئی شخص بھی ایسا دکھائو جو اس میدان کارزار میں میرا مقابلہ کرے اور قہّار خدا کے نشانات کے ساتھ مجھ سے برسرپیکار ہو۔ بخدا وہ سب میرا شکار ہیں اور اللہ نے ان پر راہ ِ فرار بند کر دی ہے۔ نہ تو انہیں کوئی جنگل پناہ دے گا اور نہ سمندروں میں سے کوئی سمندر ۔ ہم ان کی طرف تیز رفتاروں کی طرح سرعت سے فاصلے طے کرتے آرہے ہیںاور ہم اِنْ شَائَ اللّٰہ ان تک فتح مند اور کامیاب وکامران ہو کر پہنچیں گے ۔[٭ میرے رب نے میری طرف وحی کی اور فرمایا کہ اس رات کی تمہاری تمام دعائیں میں قبول کروں گااور ان میں سے ایک دعا اسلام کی قوت وشوکت کے بارہ میں ہے اور یہ 16؍ مارچ 1907ء کی شب تھی۔ منہ]
اور وہ تم پر غالب نہیں آسکتے تھے مگرتم حفاظت کرنے والوں کو چھوڑ کر جنگل کی طرف چلے گئے ہو اور پناہ دینے والے کی پناہ سے بیابان کی طرف نکل گئے ہو اور تم نے علوم کا توشہ ختم کر دیا اور تم ایک تنگدست محروم کی طرح ہوگئے اور تم نے اپنے آپ کو ایک ایسے پیر فرتوت کی طرح بنالیا جس کی نہ کوئی رائے ہوتی ہے اور نہ عقل۔ یا پھر ایسے چوپائے کی طرح جو جڑی بوٹیوں کے سوا کچھ نہیںجانتا۔تم اس ہتھیار کو قبول نہیں کرتے جو آسمان سے حضرت کبریاء کی طرف سے اترا ہے۔ رہے دنیا کے ہتھیار تو وہ اِن دشمنوں کے مقابلے میں کوئی چیز نہیں۔ پس اب تمہاری جائے رہائش چٹیل بیابان اور ایسے دشت ہیں جہاں پانی نہیں۔ تم عمداً ایسے چشمہ ہائے رواں کو چھوڑ رہے ہو جو پیاسے کو سیراب کرتے ہیں۔ تم بیابانوں کو ترجیح دیتے ہو اور ہلاک کرنے والوں سے نہیں ڈرتے۔ اور دوپہر کی گرمی نے (تمہارے) بدنوں کو پگھلادیا ہے۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اس کشادہ سایہ تلے پناہ نہیں لیتے جو تمہیں شدت گرمی سے بچائے اور تمہیں آبِ شیریں کی طرف لے جائے اور تمہیں قبروں کے گڑھوں سے دور رکھے۔ مدعی رسالت کے صدق کی سب سے بڑی دلیل ضلالت سے بھرپور زمانے کا ہونا ہے۔ اوراگر تمہیں میرے معاملہ میں شک ہو تو صبر سے کام لو حتی کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ فرمادے اور وہی فیصلہ کرنے والوں میں سے سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ دشمنوں سے مباہلہ ہونے کے بعد اللہ نے ہمیں فرقان عطا کیا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی طرف سے ہمیں غلبہ حاصل ہوگا لیکن اللہ نے دلیل سے ہلاک ہونے والے کو ہلاک کر دیا۔ اورتم نے بھی منصوبہ باندھا اوراللہ نے بھی تدبیر کی اور اللہ تمام تدبیر کرنے والوں میں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ تم دیکھ رہے ہو کہ دشمن تمہارے گرد کس طرح خیمہ زن ہیں اور تم پر کس طرح مصیبت نازل ہو رہی ہے اور تم اپنی کمزوری کے باعث ان کے سامنے ذلت سے سرنگوں ہو اور نفسانی خواہشات نے تمہیں ان کی طرف کھینچا ہے اور انہوں نے ایسے ایسے حیلے تراشے ہیں جو بصارت اور بصیرت کو محو حیرت کر دیتے ہیں۔‘‘
(الاستفتاء مع اردو ترجمہ صفحہ 130تا135۔ شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ ربوہ)