وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے (قسط 2)
ابھی کچھ روز قبل پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے تحریک جدید انجمن احمدیہ کے دفاتر پر نہایت جارحانہ طرز پر حملہ آور ہوئے اور معصوم مربیان سلسلہ اور کارکنان کو بلا جواز قید کر کے لے گئے۔ اسی روز صبح خاکسار کی ملاقات تھی۔ خاکسار حاضر ہوا۔ تو پھر توکّل کا اعلیٰ نمونہ دیکھا۔ فکر بھی ہے، پریشانی بھی ہے مگرایسا نہیں کہ بس پریشانی لے کر بیٹھے ہوں۔ نظر اور امید اللہ تعالیٰ کی ذات پر لگی ہوئی ہے۔ کچھ ہی دیر میں ایک صحافی حضور کا انٹر ویو کرنے کے لئے آنے والے تھے۔ انہیں انٹرویو دیا اور اس انٹرویو کا ہر لفظ بھی توکّل علی اللہ کے مضمون کو اجاگر کرنے والا ہے۔ ظلم کرنے والے ظلم کرتے رہیں، مگر ہم نہ تو قانون کا دامن ہاتھ سے چھوڑتے ہیں اور نہ ظلم کا جواب ظلم سے دیتے ہیں ۔ ہم اپنی تمام التجائیں خدا تعالیٰ کے حضور ہی پیش کرتے ہیں۔ قلم اور میڈیا کے ذریعہ پُر امن احتجاج ضرور کرتے ہیں کہ اگر یہ بھی نہ ہو تو ہم ظالم کا ساتھ دینے والے بن جائیں گے۔ یہ تھا خلاصہ اس انٹرویو کا۔
جماعت پر ہونے والے مظالم سے ایک اور واقعہ یاد آیا جو حضور انور کے عظیم الشان توکّل، تشکّر، بلند حوصلہ اور دُوربینی کا پتہ دیتا ہے۔ یہ2008ء کی بات ہے کہ حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ پرہونے والے مظالم کی ماہانہ رپورٹ ایم ٹی اے پر Persecution News کے نام سے نشر کی جایا کرے۔ فوری طور پر اس کی تیاری کی گئی اور جو پہلی رپورٹ تیار ہوئی وہ نشر کرنے سے قبل بغرضِ ملاحظہ حضور انور کی خدمت میں پیش کی گئی تا کہ معلوم ہو سکے کہ رپورٹ حضور انور کے منشا ء کے مطابق ہے یا نہیں۔ریکارڈنگ کے ساتھ حضور کی خدمت میں جو خط ارسال کیا گیا، اس پر حضور انور کی طرف سے نہایت ہی حوصلہ افزا نوٹ موصول ہوا۔حضور نے تحریر فرمایا تھا ’اچھی کوشش ہے۔ اللہ اور بہتر کرنے کی توفیق دے۔ آئندہ پروگرام کب آئے گا؟‘
ہم سب کے لئے یہ بہت حوصلہ افزا بات تھی۔ حضور کے یہ الفاظ ہمارے اندر ایک نئی روح پھونک گئے۔ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اگلے پروگرام کی تیاری شروع کر دی گئی۔ اس مرتبہ ہم نے جماعتی اداروں کے قومیائے جانے، اور ان کی شکست و ریخت کی حالت اور ربوہ میں عام شہری سہولیات کی عدم فراہمی کے موضوع پر پروگرام کی تیاری شروع کر دی۔ ٹی آئی کالج وغیرہ کی تصاویر منگوائی گئیں، ربوہ کی شہری سہولیات جو حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ مہیا کریں ان کے نظر انداز کئے جانے پر رپورٹیں جمع کی گئیں، ربوہ میں مختلف جماعتی عہدیداران کے انٹرویو ریکارڈ کئے گئے اور ہم نے بھرپور تیاری کے ساتھ دوسرا پروگرام تیار کر ڈالا۔ اس وقت خاکسار کے ساتھ اس پروگرام میں محترم عابد وحید خان صاحب اور محترم مشہود اقبال صاحب (انگریزی اور ار دو میں بالترتیب)شریک گفتگو ہوا کرتے تھے۔ پروگرام حضور انور کی خدمت میں بغرضِ ملاحظہ و رہنمائی ارسال کیا گیا۔پیر کے روز پروگرام بھیجا اور انتظار شروع کر دیا کہ حضور کی طرف سے جواب آئے۔ اس روز شام کو کوئی جواب نہ آیا۔ اگلے روز بھی کوئی جواب نہ آیا۔ مگر رات کو، یعنی منگل کی رات محترم عابد خان صاحب کا فون آیا کہ ان کی شام کو حضور انور سے ملاقات تھی اور پروگرام حضور کو پسند نہیں آیا۔ حضور نے فرمایا کہ خاکسار حضور کی خدمت میں حاضر ہو۔ منگل کی رات کا وقت ہے۔ اگلے روز کی دفتری ملاقات لکھوائی نہیں جاسکتی کہ اس وقت تک اگلے روز کی ملاقاتوں کی منظوری آچکی ہے۔ بدھ کے روز ملاقات لکھوانے کے لئے حاضر ہوا۔ معلوم ہوا کہ جمعرات کو دفتری ملاقات نہیں ہوتی، اور نہ ہی جمعہ کے روز ہوتی ہے۔ لہذاملاقات کا امکان ہفتہ کی صبح سے پہلے نہیں ہے۔ ہفتہ کی صبح ملاقات کی درخواست داخل کر دی۔ مگر بدھ کا سارا دن، پھر جمعرات کا سارا دن اور پھر جمعہ کا سارا دن جس بے چینی اور پریشانی میں گزارا وہ بیان کرنا مشکل ہے۔ حضور نے اپنے قیمتی وقت میں سے نصف گھنٹہ نکالا اور ہمارا ایک کام حضور کی طبیعت پر بوجھ بنا۔ حضور کے لئے ناگواری کا باعث ہوا۔ اپنی خوش اعتمادی پر غصہ آتا رہا۔ یہ بھی خیال آتا رہا کہ جب پسندیدگی کا خط آیا تھا تو جشن منانے سے زیادہ توبہ اور استغفار کرنے کی زیادہ ضرورت تھی۔ ایسا تھوڑا ہی تھا کہ ہم نے کوئی معرکہ مار لیا تھا۔ یہ تو حضور کی شفقت تھی کہ پسند فرمایا۔ یہ تو ہمارے ظرف کا امتحان تھا۔ اگلی کوشش بہت احتیاط اور بہت زیادہ دعا کے ساتھ کرنا چاہیے تھی۔ یہ ہم کیا کر بیٹھے!!اسی بے قراری اور بے کلی میں یہ درمیانی شب و روز بسر ہوئے۔
ہفتہ کی صبح ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو دل کا عجیب حال تھا۔ انسان چاہے کتنی مرتبہ ہی حضور کی خدمت میں حاضر ہوا ہو، ہر بار اسی طرح محسوس ہوتا ہے کہ یہ پہلا تجربہ ہے۔ اور میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ ہر ملاقات ہی پہلے تجربہ کی طرح ہوتی ہے کیونکہ ہر ملاقات میں انسان کوئی نئی بات سیکھ کر نکلتا ہے۔
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالمِ نَو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
معرفت کے ان نئے نئے موتیوں کو ہم اپنی جھولیوں میں کب تک سمیٹے رکھتے ہیں، ہم ان پر عمل کرتے ہیں یا نہیں، انہیں یاد رکھتے ہیں یا نہیں، انہیں اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں یا نہیں یہ اپنے اپنے نصیب اور کوشش کی بات ہوتی ہے۔ہر ملاقات میں ملنے والے سبق کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لینا یقینا اللہ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن میری تو واقعی پہلی دفتری ملاقات تھی۔ وہ بھی اس حال میں کہ میرا کوئی فعل حضور کی ناپسندیدگی کا باعث ہوا۔امی نے بچپن میں جتنی دعائیں یاد کرائی تھیں، سب پڑھ ڈالیں۔ بوکھلاہٹ میں سفر تک کی دعا پڑھ لی۔ خیر!انتظار کے یہ کٹھن لمحات صدیوں کی طرح گزرے۔ یاد فرمایا۔ خاکسار حاضر ہوا۔ اور خیال یہ کہ جاتے ساتھ سخت سرزنش ہوگی۔ یہ خیال بھی کہ اگرچکرا کر گر گیا تو کیا تماشہ کھڑا ہوگا۔
نظریں زمین پر گاڑے داخل ہوا تو نہایت ہی محبت میں ڈوبی ہوئی آواز آئی
’ہاں جی !کیا کہتے ہو؟‘
خاموشی کے سوا کچھ نہ سوجھا۔ حضور نے فرمایا
’لگتا ہے بہت پریشان رہے ہو!‘
عرض کی کہ جی حضور، تینوں دن پریشانی اور ندامت میں ہی گزرے ہیں۔
فرمایا ’تین دن؟ چاروں دن کیوں نہیں؟ میں نے تو چار دن پہلے پیغام بھجوایا تھا۔ پریشانی میں دعا بھی زیادہ ہوتی ہے۔(یہ سبق بھی مل گیا کہ خلیفۂ وقت کے سامنے کبھی بھی اٹکل اور اندازوں سے بات نہیں کرنی چاہیے، خواہ محاورۃً ہی کیوں نہ ہو)
عرض کی کہ حضور وہ پروگرام غلط بن گیا۔ بہت معذرت چاہتا ہوں۔ فرمایا کہ میں نے پہلے خط پر لکھا تھا کہ اللہ بہتر کرنے کی توفیق دے۔ میرا خیال تھا کہ آکر پوچھو گے کہ بہتر ی کی کوشش کے لئے کیا کرنا ہے؟
میں اپنا سا منہ لے کے رہ گیا۔ میں تو سرزنش کی توقع لئے ، خوفزدہ حالت میں حاضر ہوا تھا۔ یہاں تو محبت اور شفقت کا یہ حال ہے کہ ایک بحرِ بے کنار ہے۔ میں کیسے عرض کرتا کہ حضور اگر مجھے یہ اندازہ بھی ہو جاتا کہ اس ارشاد سے حضور کا منشاء مبارک کیا ہے، تو میں سر کے بل چل کر حاضر ہوتا۔
اس کے بعد حضور انور نے بڑی محبت سے فرمایا کہ یہ پروگرام دوبارہ کیا جائے۔ حضور نے فرمایا کہ کبھی بھی جماعت پر ہونے والے مظالم کا ذکر اس طرح نہیں کرنا کہ جیسے یہ مظالم ہماری کمر ہمت کو توڑ گئے ہیں۔ ایسا کبھی خیال بھی نہیں کرنا کہ یہ مظالم ہمار اکچھ بگاڑ سکتے ہیں۔ اور پھر ٹی وی پر کی گئی بات تو ہر احمدی تک پہنچتی ہے۔ اس لئے کسی بھی پروگرام کے ہر لفظ کو تول کر بولنا چاہیے، مبادا ناظرین بھی اللہ کے فضلوں کو یاد کرنے کی بجائے مظالم اور امتحانات پر صرف واویلا کر نا سیکھ لیں۔
اب اسی پروگرام کو دوبارہ کرو اور اس میں ان سارے کاموں کا بھی ذکر کرو جو اربابِ حکومت کی دانستہ غفلت کے باوجود جماعت نے خود کئے ہیں ۔بتاؤ کہ کس طرح جماعت نے اللہ کے فضل سے اس چھوٹے سے قصبہ میں ہر وہ سہولت پیدا کر لی ہے جو پاکستان کے کسی بڑے شہر میں ہوتی ہے۔ اور ان سے زیادہ منظم اور کہیں زیادہ نافع الناس۔ فلاں سے رابطہ کرو، فلاں سے تصویریں منگواؤ، فلاں سے مکمل معلومات حاصل کرو۔
پریشانی، گھبراہٹ، خوف سب جاتا رہا۔ فکر تھی تو بس یہ کہ حضور کا فرمایا ہوا کوئی لفظ محفوظ کرنے سے رہ نہ جائے۔ ’ہونٹوں سے تیرے پھول گریں اور ہم چنیں‘
والی حالت میں مَیں اپنے قلم کو پوری رفتار سے چلا رہا تھا۔ میں نے اس قدر جامع گفتگو کبھی نہ سنی تھی۔ لفظ کم اور معنی بھرپور۔ حضور نے اتنی باریکی سے ہدایات دیں کہ کوئی پہلو بھی تشنہ نہ رہا۔ حضور نے گفتگو کا سلسلہ روکا۔ تھوڑا توقّف فرمایا جو شاید اس لئے تھا کہ مَیں جو لکھ رہا ہوں وہ مکمل کرلوں۔ جونہی میں نے لکھنا ختم کیا تو فرمایا: ’بس؟ چلو پھر!‘
یوں یہ ملاقات اپنے اختتام کو پہنچی۔ ملاقات کیا تھی نصابِ حیات کا ایک عظیم الشان باب تھی۔ persecution کو دیکھنے اور اسے سمجھنے کا ایک الگ، انوکھا اوراچھوتا زاویہ تھی۔ ہم تو ظلم کو صرف ظلم کے طور پر دیکھتے رہے۔ کبھی سوچا ہی نہیں کہ یہ ظلم کس کھاد کا کام کر رہا ہے۔ یہ آزمائشیں ہمیں کس طرح اونچے سے اونچے مقام کی طرف مائلِ پرواز کرتی ہیں۔ ساری عمر ربوہ میں گزار دی۔ فضلِ عمر ہسپتال میں علاج معالجے کی زبردست سہولیات سے کئی بار فائدہ اٹھایا۔ خلافت لائبریری سے اس قدر استفادہ کیا کہ آج تک اس لائبریری کا ممنون احسان ہوں۔ نصرت جہاں اکیڈمی جیسے موقر ادارہ میں پڑھایا۔ ربوہ کی سرسبزی اور شادابی کو پھیلتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہاں کی علمی اور روحانی فضا سے لطف اٹھایا اور استفادہ بھی کیا۔ مگر توجہ کبھی اس طرف نہ گئی کہ ان میں ہر بات ایک نشان ہے۔ کہاں ایک بنجر ویرانہ اور کہاں یہ حال کہ اپنے رقبہ کے اعتبار سے ایک قصبہ ہونے کے باوجود اس میں ہر وہ سہولت موجود ہے جو کسی بڑے شہر میں ہونی چاہیے۔ اس ملاقات نے اندر تک ہلا کر رکھ دیا۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری یہ ملاقات آج تک میرے ذہن پر نقش ہے اور ہمیشہ رہے گی، کیونکہ میں نے اس ملاقات میں حضرت خلیفۃ المسیح کی عالی مرتبت شخصیت کا صرف ایک پہلو دیکھا، لیکن کیا ہی خوب دیکھا۔ اور قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس روز یہ احساس ہوا کہ میرے آگے جو شخص ڈھال کی طرح ہے، مجھے اس کی اقتدا میں کوئی خوف نہیں۔ شرمندگی کے ساتھ ہی سہی، مگر یہ اعتراف بھی کرنا چاہتا ہوں کہ شاید اس روز پہلی مرتبہ حضور کے لئے اس طرح دعا نکلی جس طرح پہلے کبھی نہ نکلی تھی۔ میری جان آپ پر قربان ہو، میرے ماں اور باپ آپ پر فدا ہوں۔ ہم کیسے کمزور سہاروں کو تلاش کرتے زندگی گزار دیتے ہیں، جب کہ ہمارے لئے خدا نے وہ عُروۂ وثقیٰ مہیا فرما رکھا ہے کہ اگر اسے تھامیں تو ہر طرح کی حفاظت کی ضمانت ہے۔ یہ بھی اقرار کرنا چاہتا ہوں کہ اس روز مجھے انگریزی کے لفظ inspiration کے اصل معانی سمجھ میں آئے۔ اور الحمد للہ یہ بھی سمجھ میں آیا کہ اگر دنیا میں کہیںinspirationمل سکتی ہے تو وہ کسی شاعر ادیب میں نہیں، کسی مصور میں نہیں، کسی نامور سے نامور سائنسدان میں نہیں، بلکہ صرف اس انسان کے ذریعہ سے مل سکتی ہے جسے خدا کے اذن سے، روح القدس سے مدد پا کر خدا کے دین کو پھیلانے کے لئے کھڑا کیا گیا ہے۔خدا ہمیں اس بات کو سمجھنے اور سمجھتے چلے جانے کی توفیق عطا فرمائے کہ یہ ایک بُت شکن نظریہ ہے۔خدا کی طرف بلانے والا یہ وجود ہمیں کتنے ہی قسم کے شرک سے محفوظ کر تا اور یہاں وہاں کئے جانے والے ’ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات‘۔
بہر حال، ہم نے حضور کی ہدایات کے مطابق یہ پروگرام کیا۔ ربوہ کی سرسبزی و شادابی کا ذکر کیا۔ سیر گاہوں کا ذکر کیا۔ رہائشی سہولیات کا ذکر کیا۔ سوئمنگ پول، ناصر فائر بریگیڈ سروس، ایمبولنس سروس، طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ، کھیل کے میدان اور کمپلیکس۔ غرض اختصار سے ہی سہی، مگر ان تمام سہولیات کا تحدیثِ نعمت کے طور پر ذکر کیا اور اس سب کے ساتھ اس persecution کا بھی جو جماعت پر روا رکھی جاتی ہے۔ مگر اس سب کے سامنے تو اس کا چراغ گل ہو گیا۔ الحمدللہ کہ حضور نے پسند فرمایا۔ حضور نے پسند فرمایا تو دنیا بھر کے ناظرین میں بھی اس کی مقبولیت بڑھی۔
یہ بھی میرا تجربہ رہا ہے کہ ایم ٹی اے کے جس پروگرام کو حضور کی توجہ اور محبت کی نظر حاصل ہو جائے، اللہ اس کی مقبولیت کے لئے ایک ہوا چلا دیتا ہے۔ یہی پروگرام آگے چل کر ’راہِ ہدی‘ بنا اور غیر ازجماعت ناظرین کے لئے لائیو سوالات پوچھنے اور ان کے جوابات حاصل کرنے کا ذریعہ بنا۔ یہی پروگرام قادیان کی مقدس بستی سے لائیو نشر ہونے لگا اور آج بھی ہو رہا ہے یہ بھی ایک آزمودہ حقیقت ہے کہ جس کوشش کو یہ توجہ نہ ملے، وہ کوشش runway پر چکر تو شاید کچھ دیر کاٹتی رہے، مگر پرواز کے قابل ہو ہی نہیں پاتی۔
اختتام پر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ علامہ محمد اقبال ایک بہت متنازعہ شخصیت رہے۔ ان کا فکر کئی مغالطوں کا بھی شکار ہوا ہوگا۔ مگر ایک بات بڑی درست کہہ گئے کہ’اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ‘ دیکھنا ہو تو قادیان میں دیکھو۔ ان الفاظ میں تھوڑی ترمیم کے ساتھ بات ختم کرتا ہوں کہ اسلامی تعلیمات کا ٹھیٹھ نمونہ آج اگر کہیں ہے تو وہ صرف اور صرف حضرت خلیفۃ المسیح کی ذات ِ بابرکات میں ہے، اور کہیں نہیں۔ توکّل علی اللہ کا معیار جو آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے غلامِ صادق حضرت مسیح موعودؑ ہم میں دیکھنا چاہتے تھے، اس کا عملی نمونہ آج صرف اور صرف ہمارے محبوب آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ میں مجسم ہے۔ اللہ ہمیں اسے سمجھنے اور اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
(نوٹ: بیت الفتوح کی آگ سے ایم ٹی اے کے دفاتر اور سٹوڈیو والا حصہ محفوظ رہا۔ وہ خطوط بھی جن پر حضورانور کے دستِ مبارک سے تحریر فرمودہ ہدایات نصب تھیں بالکل محفوظ ر ہے جنہیں پہلی فرصت میں محفوظ کر لیا گیا)
کچھ عرصہ ہوا حضرت موسیٰ کے یدِ بیضا والے واقعہ کی تفسیر بیان فرمودہ حضرت المصلح الموعودؓ پڑھنے کا موقع ملا۔حضور نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد ہدایت اور رہنمائی بھی ہو سکتی ہے جو اس ہاتھ کے ذریعہ سے موسیٰ کی قوم کو حاصل ہونے والی تھی مگر اس سے عملًا یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ آپ کے ہاتھ سے حقیقت میں نورانی شعائیں نکلی ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ افراد کو ایسا نور عطا فرماتا ہے جو ان کے وجود سے نکل کر دوسروں میں دخول کرتا ہے۔ حضور فرماتے ہیں کہ بعض اوقات لوگ میرے پاس آتے ہیں۔ کہہ کچھ اَور رہے ہوتے ہیں مگر مجھے ان کے اندر کچھ اور نظر آرہا ہوتا ہے۔ بعض اوقات کوئی بظاہر تو میرے ہاتھ کو بوسہ دے رہا ہوتا ہے مگر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرے ہاتھ پر نجاست مل رہا ہے۔
یہ پڑھ کر دل خوف سے بھر گیا۔ ہم بھی تو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ اگرچہ ہمیں تو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی مجال نہیں ہوتی، مگر حضور تو ہمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ نہایت ہی برکت اور سعادت کا باعث ہے کہ حضور کی نظرِ مبارک ہم پر پڑ جائے، مگر اس دوران ہماری شخصیت کے prism کا کونسا رخ سامنے آجائے اور اللہ تعالیٰ انہیں ہمارے اندر کا کیا احوال بتا دے، کیا پتہ ہوتا ہے۔کئی دن اس خوف کی حالت طاری رہی۔ جیسی ٹوٹی پھوٹی دعا کرنی آتی ہے، وہ خدا کے حضور کی بھی۔ یہی خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ ستاری کا سلوک فرماتا رہے۔ بظاہر میں جو بھی بنتا پھروں، باطن کا حال تو خود مجھے معلوم ہے یا میرے خدا کو کہ وہاں تو کوئی بھی ایسی بات نہیں جو حضور ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر جگہ ہر سطح پر کمزوری اور کوتاہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔اللہ کی ستاری ہی ہے کہ گزارہ ہو رہا ہے اور حضور کی شفقت حاصل ہے۔ یا اللہ! اگر کبھی تیرے اس برگزیدہ نے میرے اندرکا حال جان لیا تو کیا ہوگا۔
اللہ کا بڑا کرم ہوا کہ انہیں دنوں حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب ’منصبِ خلافت‘ بھی پڑھنے کا موقع ملاجس میں آپ نے ایک خلیفہ کے کام بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جو نبی کے کام ہیں، وہی خلیفہ کے کام ہوتے ہیں۔ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ۔
تو دل کی کچھ ڈھارس اس طرح بندھی کہ اگر تو ہم گناہگاروں کے تزکیہ کا کام بھی خلیفہ کے سپرد ہے، تو وہ ہمارا مرض دیکھے گا تو علاج کرے گا۔ اس کے بغیر تو ممکن نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ استعداد دے کر ہماری شرم یوں رکھ لی کہ جو باتیں ہم نہایت شرمناک سمجھتے ہیں اور کہنے کی ہمت کر ہی نہیں سکتے، وہ اللہ انہیں خود سجھا دیتا ہے۔ بلکہ اللہ کا بہت بڑا احسان اس شخص پر ہوگا جس کے اند ر کا حال خلیفۂ وقت جان لے اور اس کا تزکیہ کر دے۔
یوں دل نے تسلی پکڑی اور اس کے بعد نہ صرف حضور کی خدمت میں اپنی کمزوریوں کو بیان کرنے کا حوصلہ ملا، بلکہ جب جب لگا کہ حضور نے اس وقت دل کے اندر دیکھ لیا ہے، اور کچھ فرمایا ہے، تو اسے حق بات سمجھ کر تسلیم کیا۔ وہ مقام کج بحثی کا مقام نہیں۔ وہاں صفائیاں دینے کی گنجائش نہیں۔ وہاں غلط بیانی بھی نہیں ہو سکتی۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح خامس ایدہ اللہ تعالیٰ تو اپنے سامنے بیٹھے اپنے غلاموں کی اس حد تک شرم رکھتے ہیں کہ کبھی براہِ راست سوال نہیں کیا (علاوہ انتظامی معاملات کے جہاں یہ ناگزیر ہو جائے)۔ شخصی اعتبار سے ہمیشہ اشاروں کنایوں میں بات سمجھا دی۔ سمجھنے والا سمجھ لے تو خوش نصیب، نہ سمجھے تو یقینا بے حد بدنصیب۔
مثلا اگر کبھی فرمایا کہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کا خیال بھی رکھتے ہو یا افسری جھاڑتے رہتے ہو؟۔ تو اس کا جواب ہر گز ہرگز یہ نہیں کہ نہیں، نہیں…مَیں تو ایسا نہیں ہوں۔مَیں تو بڑا شفیق ہوں۔مَیں تو ایسا کر ہی نہیں سکتا۔ اس کا جواب اس قدر ہے کہ حضور کوشش تو کرتا ہوں کہ خیال رکھوں، لیکن حضور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اور بھی زیادہ خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں کیا پتہ کہ آج تو ہم سمجھ رہے ہیں کہ ہم میں یہ عیب نہیں، مگر آگے جا کر پیدا ہونے والا ہو۔ ہمارے کون سے عمل کی پاداش میں خدا تعالیٰ ہمارے دلوں سے رحم اٹھا لے اور ہم بے رحم بن کر رہ جائیں۔ پس ایسے موقعوں پر اس ہستی کی خدمت میں دعا کی درخواست کرنے سے زیادہ اور کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ صرف خدا تعالی غیب کا حال جانتاہے، مگر وہ خود فرماتا ہے کہ میں اس کا کچھ حصہ اپنے فرستادوں کو بھی دیتا ہوں۔ اور اس دور میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر فرستادہ کون ہوگا؟ اگر کوئی دوسرا یہ دعویٰ کرے تو صریحًا جھوٹا ، گمراہ اور گمراہ کن انسان ہے۔پس ہمیں کیا پتہ کہ خدا نے اس گھڑی خلیفہ کے دل میں کیا بات ڈال دی ہے۔ اور دعا کے لئے عرض کرنے کا تو کوئی موقع بھی ضائع کرنے کے لائق نہیں۔
آج کچھ واقعات یہاں بیان کرنا چاہوں گا جو میرے لئے نہایت ایمان افروز ہیں۔ ان واقعات کے بعد میرے دل میں تو کوئی شائبہ بھی شک نہیں رہ گیا کہ خدا تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو وہ دیدۂ بینا عطا فرما رکھا ہے جو پاتال تک پہنچتا ہے اور وہاں موجود سوالات ، خیالات اور محسوسات کو بھانپ لیتا ہے۔
ایک واقعہ تو ابھی کچھ روز قبل پیش آیا جس نے محاورۃً نہیں بلکہ حقیقتًا رونگٹے کھڑے کر دئیے۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؓ کی ایک مجلس سوال و جواب ایم ٹی اے پر نشر کرنا مقصود تھی۔ اس مجلس کے سلسلہ میں حضور انور سے ہدایت کی درخواست کرنی تھی۔ میں نے ابھی بات شروع کی کہ حضور! حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی ایک مجلس سوال و جواب ہے ۔ یہ کینیڈا میں ہوئی تھی…ابھی اسی قدر عرض کی تھی کہ فرمایا…’اور وہ مجلس انگریزی زبان میں ہے۔ اس میں کسی نے اٹھ کر اردو میں سوال کیا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے اسے کہا کہ مجلس انگریزی کی ہے، انگریزی میں پوچھو۔ اور اس نے جس قسم کی انگریزی میں پوچھا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے فرمایا کہ یہ تو انگریزی نہیں ہے!یہی والی مجلس ہے نا؟‘
اس سوال تک پہنچتے پہنچتے خاکسار مبہوت ہو چکا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں نے ابھی صرف یہ عرض کیا تھا کہ ایک مجلس سوال و جواب ہے جو کینیڈا میں ہوئی تھی۔ کینیڈا میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی بے شمار مجالسِ سوال و جواب ہیں۔ حضور کو کس طرح معلوم ہو گیا کہ میں کیا پوچھنے والا ہوں۔پھر وہ بھی اس قدر تفصیل کے ساتھ ۔ ایک ایک بات بالکل درست ایسے جیسے ابھی ابھی حضور نے ملاحظہ فرمائی ہو۔ ایک ذرہ مبالغہ کے بغیر عرض کروں گا کہ میرے ہوش و حواس معطل سے ہو گئے۔ یہ تک پوچھنے کی طاقت نہ تھی کہ حضور!آپ کو یہ سب کیسے پتہ چلا۔ پہلے تو یہ معلوم ہو جا نا کہ میں کون سی مجلس کے بارہ میں پوچھنے والا ہوں۔ پھر وہ پورا واقعہ مجلس کے اس مقام کا تھاجس مقام سے متعلق خاکسار کو رہنمائی کی ضرورت تھی۔ پھر واقعہ بھی اس تفصیل کے ساتھ۔ ابھی میرا ذہن حیرت میں غوطے کھا رہا تھا کہ ارشاد ہؤا’بتاؤ ؟ یہی ہے نا؟‘ عرض کہ جی حضور، بالکل یہی مجلس ہے۔ بالکل یہی بات ہے جس کے آس پاس ہدایت کی ضرورت ہے۔ حضور انور کے چہرۂ مبارک پر ایک بھرپور مسکراہٹ تھی۔ ادھر میری جو حالت تھی، اسے خوف کہنا چاہیے ، گھبراہٹ یا حیرت۔ اب یہ الفاظ لکھتے وقت بھی نہیں معلوم کہ اسے کیا کہا جائے۔ میں نے اس موقع پر جس بیساختگی سے پوچھاکہ حضور، آپ کو کیسے پتہ چلا؟، اتنی بے ساختگی کی مجال کبھی ہوش کے عالم میں نہیں ہوئی۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ میں کس درجہ حواس باختہ تھا۔ صرف اس قدر ارشاد فرمایا کہ تم نے کہا کینیڈا کی مجلس ہے۔ تو بہت سال پہلے ایم ٹی اے پر یہ مجلس دیکھی تھی۔ میں نے سوچا تم نے اسی کے بارہ میں پوچھنا ہوگا۔
ادھر مَیں تھا کہ اب بھی حیرت زدہ۔ بہت حیرت زدہ۔ کچھ خوفزدہ بھی۔ متعلقہ بات پر حضور انور نے رہنمائی سے نوازا اور پوچھا کہ ’ اورکیا کہتے ہو؟
ابھی دو تین اور باتیں (اس کے علاوہ) پوچھنے والی تھیں۔ میں نے اپنے کاغذات ، اپنے نوٹس ٹٹولے، مگر کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا ڈھونڈ رہا ہوں، کیا کر رہا ہوں۔ اوپر نظر اٹھی تو حضور اپنے کام میں مصروف تھے اور چہرۂ مبارک پر اب بھی ایک پرسکون مسکراہٹ تھی۔ اجازت چاہی اور باہر آگیا۔ باہر نکل کر لگا کہ کسی اور دنیا سے اس دنیا میں واپسی ہوئی ہے۔ جس جس کو یہ بات بتائی، سب حیرت زدہ تھے، کہ یہ ممکن کس طرح ہے؟ بعض نے تو یہ بھی کہا کہ ضرورتم نے کچھ نہ کچھ اشارہ تو دیا ہوگا۔ مگر انہیں یقین دلاتا رہا کہ میں نے کوئی بھی، کسی بھی قسم کا اشارہ نہیں دیا۔ اگر کینیڈا کہہ دینا کوئی اشارہ ہے تو یہ تو کوئی اشارہ نہ ہوا۔ وہاں تو درجنوں مجالسِ سوال و جواب ہوئیں۔یہ کیسے ہوا، کیاہوا، میں تو کچھ بھی کہنے کے لائق نہیں۔ البتہ یہ ضرور ہوا اور میں اس بات کا عینی شاہد ہوں۔ بلکہ یہ میرے سامنے میرے ساتھ ہوا ۔ بس اس قدر جانتا ہوں کہ وہ کوئی ایسی گھڑی تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فرستادہ پر اپنے خاص علم کی ایک کھڑکی کھولی تھی۔ میں اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں کہ میں نے کم از کم اس ایمان افروز واقعہ کا مشاہدہ ہی کر لیا۔
اسی طرح کچھ عرصہ قبل جماعتِ احمدیہ کی ایک بزرگ خاتون کا انتقال ہوا۔ ان پر ایم ٹی اے پاکستان سے ایک پروگرام بن کر آیا۔ یہ ان کی ذات اور شخصیت کے حوالہ سے ان کے عزیز و اقارب کی گفتگو پر مبنی تھا۔تین واقعات ایسے تھے کہ ان پر ہدایت لینا ضروری محسوس ہوا۔ خاکسار ڈی وی ڈی پر اس پروگرام کی ریکارڈنگ لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور انور نے اپنے دراز سے ٹی وی اور ڈی وی ڈی پلئیر کے ریموٹ نکالے اور یہ پروگرام حضور کے سامنے لگے ٹی وی پر چلا کر خاکسار ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ حضور نے پروگرام کے شروع کا کچھ حصہ دیکھا پھر ریکارڈنگ کو fast forwardکیا۔ روک کر جہاں سے چلایا، میں نے عرض کی کہ حضور، ایک بات تو یہ پوچھنی تھی(دل میں سوچا کہ عجیب اتفاق ہے)۔ حضور نے اس پر رہنمائی فرمائی۔ پھر fast forward کیا اور روک کر جہاں سے چلایا، وہ دوسری بات تھی جو میں نے پوچھنی تھی(اب بات اتفاق سے آگے بڑھ رہی تھی)۔ ہدایت ارشاد فرمائی اور پھر fast forward کیا۔ روک کر فرمایا کہ اور تیسری بات یہ ہے جو تم نے پوچھنی ہے۔ یہی ہے نا؟۔ عرض کی کہ جی حضور، بالکل یہی ہے(اب کون ہے جو اسے اتفاق کہے؟)۔
حیرت سے میں نے حضور کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھا۔ مگر وہاں تو ایسا سکون تھا کہ جیسے ہوا ہی کچھ نہیں۔ جیسے یہ کوئی معمولی بات ہو۔ جیسے اس میں حیران پریشان ہونے کی وجہ ہی کوئی نہ ہو۔
پوچھنے کی ہمت کسے ۔ نہایت ادب سے عرض کی کہ حضور، مَیں نے یہی تین باتیں پوچھنی تھیں۔ اس امید پر کہ شاید حضور کچھ پردہ اٹھائیں اور بتائیں کہ حضور کو یہ کس طرح معلوم ہوا۔ مگر حضور نے بس اس قدر جواب ارشاد فرمایا کہ ’چلو، پوچھنی تھیں تو پوچھ لیں۔ جواب بھی مل گیا‘۔ میری کوشش رائیگاں گئی۔ مجھے اس حیرتناک واقعہ کے پیچھے کارفرما علم کا کوئی سراغ نہ ملا۔
خطبہ جمعہ کا بھی تو یہی حال ہے۔ یقینا سبھی اتفاق کریں گے کہ ہفتہ بھر کے دوران ایک خیال ہمیں پریشان کر رہا ہے۔ کوئی صورتحال درپیش ہے اور اس سے نمٹنے کی کوئی صورت نہیں بن رہی۔ گھر میں بچے نے کوئی سوال پوچھ لیا ہے مگر اس کا جواب نہیں سوجھ رہا۔ اور جب خطبہ جمعہ شروع ہوا تو یا تو پہلے ہی جملہ سے آپ کا دل خوش ہو گیا کہ لو بھئی! یہ تو آج میرے مسئلہ کا حل نکل گیا۔ یا پھر آگے چل کر کوئی نہ کوئی بات ایسی ارشاد فرمائی جو آپ کے ذہن کی گرہ کو کھول گئی۔پس اس سے اس تلقین کی حکمت بھی سمجھ آتی ہے جو حضور ہمیں متواتر فرماتے ہیں کہ خلیفۂ وقت کے خطبات کو سنو۔ غور سے سنو۔ ان کی جگالی کرو۔ انہیں آپس میں دہراؤ۔ ان باتوں کو مجالس میں بیان کرو۔ حضور کی یہ تلقین اور تاکید ہمیں بتاتی ہے کہ حضور کا خطبہ ہمارے لئے life line ہے۔ ہم خطبات کو سنتے ہیں اور جب غور سے سنتے ہیں تو دل کئی بار یہ کہہ اٹھتا ہے کہ
’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘
یہ علم کہ اس وقت جماعت کے دل میں کیاہے، انہیں کس جواب کی ضرورت ہے، ان میں سے بہت سوں کو کس معاملے میں رہنمائی کی ضرورت ہے، یہ سب علم خدا نہیں دیتا تو اَور کون دیتا ہے۔ مانا کہ ہر فردِ جماعت حضور کو باقاعدگی سے خط لکھتا ہے ۔ اپنے مسائل بتاتا ہے۔ مگر خطبہ میں کروڑوں لوگوں کے خطوط کے جواب تو نہیں دئیے جاتے۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہوتا ہے؟ علم نفسیات میں ایک اصطلاح رائج ہے collective psychology۔ یعنی کسی معاشرہ یا قوم کی مجموعی نفسیات۔ مگر علمِ نفسیات میں اس اصطلاح کا اطلاق کسی خاص معاشرہ یا کسی ایک قوم پر ہوتا ہے۔ اس اصطلاح کا ماخذ جرمن ماہرِ نفسیات و مفکر کارل ینگ کا نظریہ مجموعی لاشعور ہے جس کے مطابق کسی ایک خاص علاقہ میں رہنے والے، کسی ایک خاص بودوباش سے تعلق رکھنے والے،کسی ایک نسل سے تعلق رکھنے والے ایک مجموعی لاشعور کے زیر اثر بہت سے رحجانات کو اپناتے ہیں۔ مگر بات ہو جماعت احمدیہ مسلمہ کی تو یہ جماعت تو دنیا کے ہر ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ ہر ثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگ اس میں شامل ہیں جو اپنی اپنی ثقافت کے ساتھ ساتھ بلحاظِ عقیدہ احمدی مسلمان ہیں۔ ان سب کی نبض کو ٹٹول کر ان کی دھڑکن کو پڑھ لینا اور اس کے مطابق خطبہ میں ان کی رہنمائی کرنا، یہ صرف اور صرف حضرت خلیفۃالمسیح ہی کا خاصہ ہو سکتا ہے۔ وہ خلیفہ جو خدا نے خود چنا ہو۔ اسی خلیفہ کی آواز کے بارہ میں تو کہا گیا کہ
جو آرہی ہے صدا، غور سے سنو اس کو
کہ اس صدا میں خدا بولتا سا لگتا ہے
حضور انور کے خطبات کاہر لفظ ہمارے ذہنوں میں گردش کرنے والے سوالات اور مسائل کا حل ہے۔ آپ کے خطابات جو آپ بین الاقوامی سطح پر سیاسی و ملّی اکابرین کے سامنے ارشاد فرماتے ہیں، ان کا ہر لفظ کئی سوالوں کے جواب دیتا ہے۔ ان خطابات کے بعد یہ سیاسی اکابرین اور مفکرین بہت دفعہ اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ ہم جو سوالات لے کر آئے تھے، ہمارے بغیر پوچھے حضور نے ان کے جوابات دے دئیے۔ ہم جو تصورات اسلام کے بارہ میں لے کر آئے تھے ہمارا خیال تھا کہ انہی کے ساتھ واپس جائیں گے، مگر حضور کو جیسے معلوم ہو گیا کہ ہم کیا سوچ رہے ہیں ۔ حضور نے ہمارے خیالات کو تبدیل کر ڈالا۔
دفتری ملاقات میں مجال نہیں ہوتی کہ حضور کے اس قدر قیمتی وقت میں کسی ذاتی معاملہ کسی ذاتی مسئلہ کو چھیڑ دیا جائے۔ مگر بہت دفعہ یوں بھی ہوا کہ ذہن میں ایک ذاتی مسئلہ ہے اور ملاقات کے اختتام پر حضور نے خود ہی اسی مسئلہ کے بارہ میں دریافت فرمالیا۔ یا یہ کہ جو باتیں دفتری ملاقات میں پوچھنی تھیں، پوچھ لیں ۔ حضور اپنے کام میں مصروف ہیں۔اٹھنے کا اشارہ نہیں ہوا۔ جب اشارہ نہیں ہوا تو کون ہے جو نوروں نہاتے ہوئے اس قامتِ گلزار کے پاس سے اٹھ کر چلا آئے۔ پھر ارشاد ہوا’اور کیا کہتے ہو؟‘ تو اس میں کچھ عرض کرنے کی ہمت پیدا ہوئی۔ حضور نے ایسے سنا جیسے یہی سننا چاہتے تھے۔ اور اس مسئلہ پر، اگرچہ ذاتی نوعیت ہی کا ہو، بڑی محبت سے ہدایات سے نوازا اور رہنمائی فرمائی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ سب لوگ جو حضور انور کی خدمت میں ملاقات کی غرض سے حاضر ہوتے ہیں، مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ہمیشہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضور کو معلوم تھا کہ ہم کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات تو یہاں تک کہ ہم کیا کہنا چاہتے ہیں۔
یہ بات ہمارے لئے خوف کا مقام تو ہے ہی کہ ہمارا پیارا امام ہمارے دلوں کی پاتال تک میں دیکھتا ہے۔ یہ بات ہمیں اللہ تعالیٰ سے ستاری کی دعا پر راغب بھی کرتی ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بہت ہی شکر کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی شکل میں وہ ڈھال عطا فرما رکھی ہے، جس کے پیچھے ہم محفوظ ہیں۔ ڈھال تو آگے ہوا کرتی ہے۔ اور حضور انور تو بہت ہی، بہت ہی آگے ہیں۔ ہم تو پیچھے پیچھے رینگتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ حضور کے دل میں پیچھے آنے والوں کے دلوں کا حال آشکار کردیتا ہے۔ پھر کیوں نہ ہم خود بھی یہی کریں اور اپنے بچوں کو بھی یہی تعلیم دیں کہ اپنا دل کھول کر خلیفۂ وقت کے سامنے رکھ دو۔ خط کے ذریعہ ملاقات سبھی کی ہو جاتی ہے۔ اپنے خطوں میں کیوں نہ اپنے دل کو کھول کر حضور کے سامنے پیش کر دیں۔ خدا تعالیٰ نے ویسے بھی حضور کو ہمارے دل کا حال بتا ہی دینا ہے۔ کیوں نہ ہم اپنے دل کی کتاب کھول کر خود سامنے رکھیں اور اپنے تزکیہ کا سامان کریں۔
رکھتا نہ کیسے روح و بدن اس کے سامنے
وہ یوں بھی تھا طبیب، وہ یوں بھی طبیب تھا
(باقی آئندہ )