وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے (قسط ہفتم)
خاکسار کی خوش قسمتی ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی دورہ سے واپس تشریف لانے پر وہاں ریکارڈ ہوئے تمام پروگرام پہلے خاکسار کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ بعض پروگرام تو دورہ کے دوران لائیو نشر ہو چکے ہوتے ہیں لیکن اکثر پروگرام حضور کے دورہ سے تشریف آوری کے بعد نشر کئے جانے ہوتے ہیں۔ ان پروگراموں میں سب سے پہلے حضور انور کے ساتھ واقفینِ نو اور طلبا کی کلاسوں کو دیکھنے کا اشتیاق ہوتا ہے سو سب سے پہلے انہیں دیکھنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ یہ کلاسیں بھی عجیب کیفیتِ جذب و حال رکھتی ہیں۔
اب دنیا بھر میں ہونے والی کلاسوں کا ایک مخصوص طریق بن گیا ہے کہ پہلے تلاوت ، پھر نظم پھر واقفین نو کی تقاریر اور پھر وہ وقت جس کا سب کو انتظار ہوتا ہے یعنی جب حضور انورشرکاء سے گفتگو فرماتے ہیں۔ یہ گفتگو ہمیشہ صرف شرکا کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام جماعت کے لئے اپنے اندر طرح طرح کے سبق لئے ہوتی ہے۔ جہاں شرکاء سوالات پوچھ کر اپنے جوابات حاصل کرتے ہیں وہاں اور بہت سی باتیں اپنے اندر بہت باریک نکات لئے ہوتی ہیں۔
انہی کلاسوں میں شرکاء ایسے سوالات پوچھ لیتے ہیں جو ان کی عمر کے اعتبار سے بظاہر عام سے نظر آتے ہیں مگر وہ فقہ احمدیہ کے ارتقاء کوایک نئی منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔ دَورِ حاضر کے بہت سے مسائل ہیں جن پر حضور انور رہنمائی فرماتے ہیں۔ مثلاً ایک کلاس میں پوچھا گیا کہ اگر کوئی ریسٹورنٹ سؤر کے گوشت کی اشیائے خوردنی بنا کر فروخت کرتا ہے مثلاً پِیزا یا برگر وغیرہ تو کیا وہاں احمدی مسلمان ملازمت کر سکتے ہیں؟ حضور نے جواب عطا فرمایا کہ اگر ان اشیاء کی تیاری میں بھی ہاتھ ڈالنا پڑتا ہے تو پھر نہیں۔
آئندہ کسی کلاس میں کسی بچے نے اس جواب کا حوالہ دے کر پوچھ لیا کہ بہت سے احمدی ایسے سپر سٹورز میں بھی تو کام کرتے ہیں جہاں شراب اور سؤر کے گوشت کی اشیاء فروخت ہوتی ہیں، تو اس پر حضور انور نے رہنمائی فرمادی کہ ان چیزوں کے بنانے میں اگر وہ شامل نہیں اور خریدار سے پیسہ وصول کر کے اسے سٹور انتظامیہ کو جمع ہی کروانے کا کام ہے تو کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح مارگیج یعنی سود پر مکان خریدنے کے بارہ میں ایسی کلاسوں ہی میں گتھیاں سلجھتی بھی دیکھیں۔ لباس، پردہ، مخلوط تعلیم، مرضی کی شادی، دین اور دنیا کی متوسط اور متوازن راہیں اور اس طرح کے بہت سے پیچیدہ مسائل جو مغربی معاشرہ (اور اب تو تمام دنیا ہی مغربی معاشرہ کا آئینہ بن کر رہ گئی ہے) میں رہنے والے بچوں کو درپیش ہیں، وہ سب ان نوجوانوں نے حضور انور کی خدمت میں پیش کئے اور ان پر رہنمائی چاہی۔ اور حضور نے اس پر رہنمائی عطا فرمائی۔
کئی بار سوچا کہ یوں ہر بات کا جواب مستحضر کیسے ہوتا ہے؟ پھر معلوم ہوا کہ دنیا بھر کے احمدی نوجوان حضور کی خدمت میں اپنی ہر طرح کی مشکل، ہر طرح کا مسئلہ کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ لاکھوں ہوں گے جو خطوط میں اور لاکھوں ہیں جو بالمشافہ حاضر ہو کر اپنے دل کی ہر بات کہہ ڈالتے ہیں۔ کوئی ہے جو عبادت میں لذّت نہیں پاتا، کوئی ہے جو خدا کے بارہ میں شکوک کا شکار ہو گیا ہے، کسی کی محبت میں کوئی خاتون گرفتار ہے مگر احمدی نہیں اور شادی کی خواہشمند ہے ، کسی کو تعلیم کے میدان کے چناؤ میں الجھن درپیش ہے، کسی کے والدین اس سے خوش نہیں، کسی کو پردہ کرنے میں کالج کی طرف سے دقت کا سامنا ہے، کسی کو خود پردہ کی حکمت سمجھ نہیں آرہی۔ کوئی ہے جو اپنے امراض کے علاج پر رہنمائی چاہتا ہے، کوئی ہے جوہجرت کر کے کسی اور ملک جا کر آباد ہونا چاہتا ہے اور یہاں تک بھی کہ کوئی ہے جس کی شادی تو ہو گئی ہے مگر وہ کئی ماہ بعد تک شادی شدہ کہلانے کے قابل نہیں ہوسکا۔
پس کیا مشرق اور کیا مغرب، دنیا کے کونے کونے سے آنے والے لوگ حضور سے رہنمائی کی درخواست کرتے ہیں، اور حضور اپنی اس پیاری جماعت کے افراد کو مشورہ اور ہدایت سے نوازتے رہتے ہیں۔اور یوں دنیا بھر کے مسائل حضور کی نظر کے سامنے رہتے ہیں۔مگر ایسا بھی نہیں کہ چونکہ اکثر مسائل اور ان کے حل مستحضر رہتے ہیں تو حضور ہمیشہ اسی وقت اس کا جواب بھی دے دیں۔ بعض اوقات کسی سوال کی نوعیت کے پیشِ نظر حضور اس پر تحقیق کرنے کا ارشاد بھی فرما دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو خودسائل ہی کوارشاد فرما دیتے ہیں کہ فلاں صاحب سے یا ریسرچ سیل ربوہ سے پوچھ لویا پھر وہاں موجود انتظامیہ میں سے کسی کوتحقیق کرنے کی یہ سعادت بہم ہوجاتی ہے۔
ایک مرتبہ حضرت عیسیٰؑ کے سفرِ کشمیر کے بارہ میں کسی نوجوان نے سوال کیا۔ اس کا سوال بظاہر سیدھا سادا تھا، مگر حضور کا جواب صرف اس نوجوان تک تو محدود نہیں رہنا تھا۔ حضور کے جواب میں تو دنیا بھر کے لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی کا سامان ہوتا ہے۔ اس لمحہ جانے خدا نے دل میں کیا ڈالی کہ حضور نے اسے بہت تفصیل سے بتانا شروع کیا۔ پوری تفصیل بتانے کے بعدخاکسار کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ میرے دفتر میں میرے میز کے بائیں جانب جو بہت سے کاغذ پڑے ہیں ان میں کہیں درمیان میں کرکے اس موضوع پر کچھ مواد پڑا ہے ۔ وہ لے آؤ۔
میں فوراً جانے لگا تو فرمایا سمجھ آگئی ہے نا؟ میز کے بائیں طرف، کاغذوں میں، ایک فولڈر میں ہوگا۔
یہ بات حضور اسی کلاس میں بیان فرمانا چاہتے تھے اور منشاء مبارک یہ تھا کہ وقت بالکل ضائع نہ ہو۔اس لئے دوبارہ اچھی طرح سمجھا کر روانہ کیا۔ میں نے جاکر حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری محترم منیر احمد جاوید صاحب کو پیغام دیا۔ انہوں نے بڑی سرعت سے اٹھ کر یہ مضمون تلاش کیا اور مَیں یہ مضمون لے کر واپس کلاس میں حاضر ہو گیا۔حضور نے شیروانی کی جیب سے عینک نکال کر لگائی اور کچھ تلاش کرکے پڑھ کر اس بات کو بیان کیا۔ بات بالکل وہی تھی جو حضور بیان فرما چکے تھے، مگر چونکہ اس معاملہ پر تفصیلی تحقیق میسر تھی، حضور نے اسے منگوا کر اس میں درج حوالہ جات بھی نوجوان کو بتا دئیے۔
ایک مرتبہ ایک نوجوان نے سوال کیا کہ حضرت صوفی احمد جان صاحب نے دعویٰ سے قبل ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو شناخت کر لیا تھا اور آپ سے بیعت لینے کی التجا بھی کرتے رہتے تھے۔ مگر دعوی اور بیعتِ اُولیٰ کے وقت وفات پاچکے تھے۔ کیا انہیں صحابی کہا جائے گا یا نہیں؟
حضور انور نے فوراً جواب تو ارشاد فرما دیا کہ اپنی نیکی، تقویٰ اور شناخت کے باعث آپ کا مقام بہت اونچا ہے مگر صحابی کی تعریف میں نہیں آتے، لہذا صحابی نہ کہلائیں گے۔ مگر ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ اس معاملہ پر ربوہ میں بعض بزرگان سے پوچھو کہ ان کا کیا کہنا ہے۔ خاکسارنے حسبِ ارشاد ربوہ میں ان بزرگان کو حضور کا ارشاد بھیج دیا۔ انہوں نے اپنی رائے پیش کی کہ وہ صحابی شمار نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جہاں 313 صحابہ کی فہرست درج فرمائی ہے، ان میں ان کا نام نہیں۔پھر حضور نے ایک مرتبہ پھر اس بات کو کلاس میں بیان فرمایا کہ اب مکمل تحقیق کے بعد فیصلہ یہ ہے کہ وہ لفظ صحابی کے اصطلاحی معنوں میں صحابی نہیں۔
کیسی حیرت کی بات ہے۔ آخری فیصلہ خلیفہ وقت ہی کا ہوگا مگر حضور اس آخری فیصلہ سے قبل فرماتے ہیں کہ تحقیق کرو اور جواب لے کر آؤ۔ مجھے تو جو بات سمجھ میں آسکی وہ یہ ہے کہ ایک تو قرآنی احکامات سب سے زیادہ خلیفۂ وقت کے پیش نظر رہتے ہیں۔ اور وہ سب سے زیادہ جانتے ہیں کہ فرمانِ الٰہی کی تعمیل ہی میں برکت ہے۔ سو جہاں بھی موقع ہو، مشاورت کے حکم پر عمل کرتے ہیں تا کہ ہمیں بھی اس کی عادت ہو۔ دوسرا یہ کہ نوجوانوں کی یہ نشستیں ان میں تحقیق کا شوق پیدا کریں۔ احمدیت کے یہ سپاہی دلائل کی تلوار لے کر نکلیں تو دلائل مضبوط ہوں۔ انہیں معاملات کی چھان بین اور ان پر غور و خوض کی عادت ہو۔ پس ان کلاسوں اور ان نشستوں میں حضور انور کے مدِّ نظر احمدی نوجوانوں کی ہر طرح کی تربیت رہتی ہے۔
…………………………
جہاں تحقیق اور وقت لگا کر فیصلہ کرنے کی تربیت ان نشستوں میں نظر آتی ہے وہاں حضور انور گاہے بہ گاہے اس بات کی تربیت بھی دیتے رہتے ہیں کہ جو فیصلہ فوری کرنے کا ہے اس پر غیر ضروری عجلت سے نہیں مگر جلد فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہو۔
جامعہ احمدیہ یوکے کا قیام 2005ء میں عمل میں آیا۔ تب حضور انور کی خدمت میں بغرضِ رہنمائی عرض کی گئی کہ جو طلبا جامعہ چلے گئے ہیں، ان میں سے بیشتر واقفین نَو ہیں۔ کیا انہیں بھی حضور کے ساتھ واقفین نَو کی کلاس میں بلایا جائے؟ حضور نے فرمایا کہ ان کی الگ کلاس ہوگی۔ سوطلبا جامعہ کی الگ کلاس ہونے لگی۔جس طرح باقی کلاسوں کے نام تھے اسی طرح اس کلاس کانام بھی کلاس جامعہ احمدیہ یوکے رکھ دیا گیا۔کچھ عرصہ یہ کلاس یونہی ہوتی رہی۔ ایک روز جامعہ احمدیہ یوکے کی کلاس حضور کے ساتھ جاری تھی کہ اچانک حضور انور نے فرمایا کہ ان کی کلاسیں تو صبح سے شام تک ہر روز ہوتی رہتی ہیں۔ یہاں بھی اس کا نام کلاس کا رکھ دیا ہے۔ کوئی اور نام ہونا چاہیے ہم منتظر تھے کہ حضور کوئی نام ارشاد فرمائیں گے۔ فرمایا سوچو۔ پھر اگلا طالبِ علم اپنا کوئی مضمون پڑھنے لگا۔ اس نے ختم کیا تو فرمایا کہ کچھ سوچا؟ عرض کی کہ کچھ ذہن میں نہیں آیا۔ پھر کچھ اور پڑھا جانے لگا۔ اس کے ختم ہونے پر فرمایا کہ کیا سوچا؟۔ عرض کی کہ ’ایک نشست‘۔ فرمایا ٹھیک ہے، ابھی جا کر ٹھیک کروادو’طلبا جامعہ کے ساتھ ایک نشست‘۔ ہر کلاس کا نام سائڈ پر رکھی ٹی وی سکرین میں نظر آتا رہتا ہے۔ خاکسار فوراً کنٹرول روم میں گیا اور کلاس کا نام بدلوا کر وہ لکھوا دیا جو حضور انور نے ابھی ابھی ارشادفرمایا تھا۔پھر ایم ٹی اے پر پروگرام کی تعارفی پٹّی میں بھی تبدیل کروایا تاکہ جب چلے تو اپنے نئے نام کے ساتھ چلے۔
اس میں ایک سبق ہمیں تو یہ ملا کہ ہمیں اس نئی کلاس کا نام حضور انور سے رہنمائی لے کر رکھنا چاہیے تھا ۔ یہ بات درست نہ تھی کہ گزشتہ ناموں کو دیکھ کر نئی کلاس کا نام بھی وہی رکھ دیں۔پھر طلباء سمیت ہم سب کو جو سبق عطا فرمادیا وہ یہ کہ جو کام کرنے والا ہے، وہ جتنا جلد ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے۔یوں یہ نشست آدھی ایک نام کے ساتھ اور آدھی دوسرے نام کے ساتھ نشر ہوئی۔
بچوں کے ساتھ یہ کلاسیں اکتوبر 2003ء میں شروع ہوئیں۔ پہلی کلاس ’بُستانِ وقفِ نَو‘ کے نام سے شروع ہوئی تھی۔ اس میں بارہ سال سے کم عمر کے بچے اور بچیاں شامل تھے۔ پھر چند ماہ کے بعد بڑے بچوں کے لئے الگ کلاسیں شروع کی گئیں۔ اب بستان کے علاوہ’ گلشنِ وقفِ نَو‘ کے نام سے ناصرات اور اطفال کی کلاسیں شروع کی گئیں۔ پھر لجنہ اور خدام کی کلاسیں بھی اسی نام سے ہونے لگیں۔پہلی پہلی کلاسوں میں ہمیں ناتجربہ کاری (بلکہ یہاں نادانی کا اعتراف بھی کرلینا مناسب ہوگا) کے باعث یہ معلوم نہ تھا کہ حضور کے سامنے قرآن کریم، دُرّثمین اور بعض دیگر کتب رکھنا ضروری ہیں کہ اگر حضوربچوں کو کچھ ان میں سے بتانا چاہیں یا درستگی فرمانا ہو تو کتب فوری میسر ہوں۔ کسی روز ضرورت پڑی اور کتابوں کی ڈھنڈیا مچی تو عقل آئی کہ آئندہ یہ کتب ہمیشہ حضور کے سامنے ہونی چاہئیں تا کہ حضور کو دقّت نہ ہو۔
ہم ٹھہرے سطحی خیالات کے لوگ ۔ہمیں قرآن کریم کا جو نسخہ میسر تھا ، وہ رکھنا شروع کر دیا ۔ انہی دنوں میں حضور انور نے ایک ملاقات کے دوران فرمایا کہ تم نے غور کیا ہے کہ میں جلسہ اور اجتماعوں پرتلاوت کے بعد ، کبھی حضرت مصلح موعودؓ اور کبھی حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا ترجمہ پڑھواتا ہوں؟
عرض کی کہ ’جی حضور‘۔
فرمایا کہ ترجمہ تو ایک سا ہی ہوتا ہے مگر کہیں کہیں معانی کا رنگ ایسا ہوتا ہے کہ کبھی کہیں سے سننے یا پڑھنے والے کو بہتر سمجھ آتا ہے اور کبھی کہیں سے۔ پھر فرمایا کہ مجھے تو ہمیشہ سے ، زمانہ طالب علمی سے لے کر آج تک تفسیر صغیر کا ترجمہ زیادہ بہتر سمجھ میں آتا ہے۔
پھر فرمایا کہ ایم ٹی اے کے پروگراموں اور کلاسوں میں اگر کتب میرے سامنے رکھنی ہوں تو تفسیر صغیر بھی رکھا کرو۔حضور کا حکم سر آنکھوں پہ لئے اگلی کلاس سے پہلے پہلے خاکسار نے تفسیر صغیر کا سب سے نیا طبع ہونے والا ایڈیشن مہیا کرلیا اور وہ حضور کے میز پر رکھا جانے لگا۔
کچھ عرصہ بعدایک ملاقات میں حضور انور نے کوئی آیت دیکھنے کے لئے اپنے زیر استعمال تفسیر ِ صغیر کا نسخہ اٹھایا اور اس میں سے کچھ تلاش فرمانے لگے۔ساتھ ساتھ فرمانے لگے مجھے تو یہی پرانا ایڈیشن اچھا لگتا ہے۔ اس کا انڈیکس دیکھنا آسان ہے، اور مجھے ہمیشہ سے اسی کی عادت بھی ہے۔ وہاں جو تم کتابیں رکھتے ہو ان میں یہی پرانا ایڈیشن رکھ لیا کرو۔
اب جو تعمیل ارشاد میں نکلا ہوں تو یہ نسخہ دفاتر میں تو میسر نہ آیا۔ ایک محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے دفتر میں تھا مگر ظاہر ہے کہ وہاں سے تو یہ نسخہ نہیں لیا جاسکتا کہ آخر حضور ہی کی ضرورت کے پیش نظر انہوں نے بھی رکھا ہوا ہے۔پھر ایک دفتر سے یہ نسخہ مل گیا تو اس دفتر کے نگران صاحب سے نئے ایڈیشن کے عوض یہ پرانا ایڈیشن حاصل کر لیا گیا۔کئی مرتبہ کا مشاہدہ ہے کہ جب بھی ملاقات کے دوران حضور انور کو قرآن کریم سے کچھ تلاش کرنے کی ضرورت پیش آئی، تویا تو حضور سورتوں کے نام دیکھ کر ہی مطلوبہ مقام تک پہنچ گئے، یا پھر فوراً تفسیر صغیر کے اس ایڈیشن کے انڈیکس سے مضمون تلاش فرمایا۔ اور قرآن کریم کی تفسیرصغیر کا یہ نسخہ بھی اپنی حالت سے بتاتا ہے کہ نہ جانے کن زمانوں سے حضور کے استعمال میں ہے۔کئی رنگوں کی کئی نشانیاں جابجا لگی ہوئی ہیں۔ یہی حال حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا ہے۔ روحانی خزائن کا پورا سیٹ حضور کے پہلو میں رکھا ہے۔ قرآن کریم رکھا ہے۔ تفسیر صغیر بھی ہے اورحضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا ترجمہ بھی۔ مگریہ تو صرف حضور کے پہلو میں محدود جگہ میں رکھی کتب کا حال ہے۔
حضور کو اپنے دائیں بائیں ہر طرف لگے شیلفوں میں رکھی کتب کا بہت ہی اچھی طرح علم ہے کہ کون سی کتاب کہاں ہے۔اس کا تجربہ ایک سے زائد مرتبہ ہوا۔ ایک مرتبہ کشمیر کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی خدمات کا تذکرہ تھا۔ اپنے دائیں طرف دیکھا اور فرمایا کہ وہ دیکھو، دو کتابوں کا سیٹ ہے۔ وہ اٹھا لو، اور لے جاؤ۔ مگر مَیں نے واپس لینی ہیں!۔ مَیں بڑی خوشی خوشی اٹھا لایا۔ ان سے استفادہ بھی کیا۔ پھر خیروبرکت کے حصول کے لئے اپنے دفتر کی لائبریری کی کتب کے ساتھ انہیں رکھ چھوڑا۔ کوئی سال بھر کے بعد ایک روز حضور ہمارے دفتر میں تشریف لائے۔شیلف میں لگی کتب کو دیکھتے بھی رہے اور بعض کتب کے بارہ میں تبصرہ بھی فرمایا۔ یکدم فرمایامیری کتابیں بھی تمہارے پاس ہیں۔ کہاں ہیں؟ میں نے اشارہ کرتے ہوئے عرض کی کہ حضور وہ ہیں۔ فرمایامیں نے واپس لینی ہیں!!۔
پھر جامعہ احمدیہ یوکے کے ایک طالبِ علم کے سپرد کشمیری مسلمانوں کے لئے جماعت احمدیہ کی خدمات پر مقالہ سپرد ہوا تو حضور انور نے خاکسار کو اس کا مقالہ نگران مقرر فرمایا۔حضور کی اجازت سے ان کتب سے وہ طالبِ علم بھی استفادہ کرتا رہا۔ پھراب سے کچھ روز پہلے خاکسار یہ دونوں کتب لے کر حضور انور کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکریہ کے ساتھ واپس کیں۔فرمایاخیال آگیا ان کا۔ چلو وہاں رکھ دو۔حضور نے اسی شیلف میں واپس رکھنے کا ارشاد فرمایا جہاں سے یہ کئی سال پہلے لی گئی تھیں۔
………………………
ایک روز خاکسار نے حضور انور کی خدمت میں عرض کی کہ براہینِ احمدیہ میں ایک جگہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک پادری ’ھیکر‘ کا ذکر فرمایا ہے۔ میں نے بہت تلاش کیا ہے مگر اس نام کا کوئی پادری نہیں ملا۔جس کانفرنس کے حوالہ سے حضورؑ نے اس کا ذکر فرمایا ہے اس کانفرنس کے زمانہ اور مقام کے حوالہ سے تحقیق کی ہے تو معلوم ہوا ہے کہ ایک پادری ’ہیکٹر‘ نامی اس وقت موجود بھی تھا اور اس نے وہاں تقریر بھی کی تھی اور یہی بات بیان کی تھی جو حضورؑ نے اس سے منسوب فرمائی ہے۔ میں ابھی اپنی تحقیق کا پلندہ پیش کرنے ہی والا تھا کہ حضور نے فرمایا کہ اٹھو اور پیچھے وہ الماری کھولو۔ الماری شیشہ کی نہ تھی کہ اس میں سے کتابیں نظر آرہی ہوں۔ فرمایا اس میں براہین احمدیہ کا پہلا ایڈیشن ہے، سب سے پہلے اس میں دیکھو۔ یعنی ایسے معاملات میں سب سے پہلے حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں طبع ہونے والا پہلا ایڈیشن دیکھنا چاہیے۔ سو مَیں نے کتاب اٹھائی اور تلاش کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچا جہاں اس پادری کا ذکر تھا۔وہاں بھی ’ھیکر‘ ہی لکھا تھا۔ اس کے بعد فرمایا کہ اب دکھاؤ کیا لائے ہو۔ اس کے بعد تحقیق پیش کی اور حضور انور نے رہنمائی فرمائی کہ نظارت اشاعت، ایڈیشنل وکالتِ تصنیف اور ریسرچ سیل ربوہ کو لکھ کر بھیج دیا جائے کہ اس کی درستگی کر لیں جو غالباً سہوِ کاتب سے یوں لکھ دیا گیا ہے۔
………………………
اسی طرح ایک موقع پر ایک مخصوص ملک میں آباد ایک مخصوص مذہب کے پیروکاروں کے کسی طرزِ عمل کا ذکر تھا۔ فرمایا کہ اس پر ایک کتاب لکھی گئی تھی۔ میں نے کالج کے زمانہ میں پڑھی تھی۔ لیکن شاید میرے پاس یہاں بھی ہو۔ یہ فرما کر حضور ایک شیلف کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اٹھ کر وہاں دیکھو، یہ نام ہے، اگر ہوئی تو اسی جگہ پر ہوگی۔ میں نے دیکھنا شروع کیا۔ جلد ہی یہ کتاب مل گئی۔ فرمایا لے جاؤ، پڑھ کر واپس کر دینا۔یہ کتاب خاکسار لے آیا اور پڑھ بھی جلد لی مگر کتاب ابھی واپس نہیں کی تھی کہ ایک روز برادرم عابد وحید خان صاحب کا فون آیا۔ کہنے لگے کہ حضور نے اس کتاب کا ذکر ان سے کیا اور انہیں میرے بارہ میں فرمایا کہ کتاب اس کے پاس ہے، اس سے کہو کہ پڑھ لی ہے تو تم بھی لے کر پڑھ لو۔یعنی اپنی کتب کے متن ، اپنے دفتر میں ان کے محلِ وقوع اوریہاں تک کہ ان کی نقل و حرکت کا بھی حضور کو خوب علم ہوتا ہے۔
…………………………
ایک مرتبہ ’راہِ ہدیٰ‘ میں حضرت یحییٰ اور قتلِ انبیاء کے موضوع پر سوال پوچھا گیا۔ جواب حضور نے بھی سماعت فرمایا اور حضور جواب سے مطمئن نہ تھے۔ ملاقات کے دوران فرمانے لگے کہ اس پر مفصّل تحقیق کئی سال پہلے ماہا دبوس صاحبہ نے کی تھی۔ مَیں تمہیں اس کا مواد دیتا ہوں۔ اس کے بعد حضور اپنے آس پاس پڑی فائلوں میں یہ مواد تلاش فرمانے لگے۔ جب آس پاس نہیں ملا تو خود اٹھ کر بعض شیلفوں میں دیکھا۔ کچھ شیلفوں میں مجھے دیکھنے کا حکم فرمایا۔ کافی دیر یہ تلاش جاری رہی۔ اِس سارے عمل کے دوران میرے جذبات کا عجیب حال تھا۔ کبھی اپنی خوش نصیبی پر خود ہی رشک آتا کہ حضور کس قدر توجہ اور محبت سے اس مسئلہ کے حل کے لئے کوشش فرما رہے ہیں۔کبھی یہ دکھ ہوتا کہ حضور اس قدر تکلیف خود اٹھا رہے ہیں۔ کبھی یہ سوچتا، کبھی وہ سوچتا۔ مگر اس روز حضور کے ساتھ حضور کے دفتر کی تقریباً تمام الماریاں دیکھ لیں۔ کتابوں، کاغذوں سے بھری ہوئی الماریاں۔ مگر ہر فائل، ہر کتاب بڑے قرینہ سے پڑی ہے۔ مگر ایسا بھی نہیں کہ طاق پر رکھ بھولنے والی بات ہو۔ یہ تحقیق جو حضور تلاش فرما رہے تھے اس کے فولڈر کا رنگ تک یاد تھا کیونکہ جب بھی مَیں نے کسی فولڈر کو نکالا، حضور نے ضرور فرمایا کہ ہاں یہ نکال کر دیکھو یا یہ کہ نہیں یہ نہیں ہوگا کیونکہ اس کے فولڈر کا رنگ اَور ہے اور وہ اس طرح کے فولڈر میں نہیں۔ جب سب الماریاں دیکھی جا چکیں تو فرمایا کہ شاید میرے پاس اوپر لائبریری میں ہو۔
ملاقات اور تلاش تو ختم ہو گئی۔ میں واپس اپنے دفتر بیت الفتوح چلا آیا۔ کھانے کا وقت تھا سو کھانا کھایا۔ اس کے بعد چائے کا شوق پورا کیا۔ پھر کچھ کام کیا کچھ وقت ضائع بھی کیاہو گا۔ اتنے میں پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا فون آگیا کہ حضور نے آپ کے لئے ایک فولڈر دیا ہے آکر لے جائیں۔اللہ جزا دے میرے پیارے آقا کو۔ میں تو اٹھ کر چلا آیا مگر حضور کو مستقل اس تحقیقی مواد کی فکر رہی اور حضور تلاش فرماتے رہے۔ ایم ٹی اے پر کی گئی ایک بات کی اس قدر اہمیت کہ بات چھوٹی ہو یا بڑی، جب دنیا تک جائے تو درست طور پر جائے۔مجھے یہاں اعتراف کرنا ہے کہ ایم ٹی اے کے پروگراموں کی حساسیت کا درس میں نے اس عظیم درسگاہ سے حاصل کیا جسے دنیا حضرت مرزا مسرور احمد (ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) کے نام سے جانتی ہے۔ اگر یہ معمور الاوقات شخص جس کے سپرد کُل دنیا کی رہنمائی کا کام ہے ایم ٹی اے کے ایک پروگرام کے ایک سوال کے ایک جواب کی خاطر اس قدر محنت کر سکتا ہے، تو ہم جو آپ کے ادنی غلام ہیں، ہم چین سے کیونکر بیٹھ رہیں۔ ہماری نیندیں ایسے میں کیوں اڑنہ جائیں؟
تو یہ ایک مختصر سی جھلک ہے اس توجہ کی جو حضور علم کو عام کرنے کے کام پر صرف فرماتے ہیں۔ اور ہمیں یہ بھی سبق دیتے رہتے ہیں کہ اگر حضور علم کو عام کرنے کے لئے خود حصولِ علم پر اس قدر محنت کرتے ہیں تو افرادِ جماعت جن کے سپرد درس وتدریس، تبلیغ، تربیت یا ایم ٹی اے کے پروگراموں میں بیٹھ کر گفتگو کرنے اور جواب دینے کا کام ہے، انہیں تو دن رات حصولِ علم میں صَرف کردینا چاہئیں۔
…………………………
شروع شروع کی کلاسوں کی بات ہے۔ حضور سے کسی نے پوچھا کہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے نام کے ساتھ نواب کیوں لکھا جاتا ہے۔حضور نے تفصیلی جواب عطا فرمایا اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی بیٹیوں کی پیدائش سے پہلے ان کے نام کے ساتھ نواب لکھا ہوا دکھایا گیا تھا۔
کچھ روز بعدملاقات کے دوران فرمایا کہ کلاس میں میں نے دونوں بیٹیوں کے نام کے ساتھ الہاماً نواب لکھا ہوا کہہ دیا تھا؟۔ عرض کی کہ جی حضور۔ فرمایانواب تو صرف حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے نام ساتھ الہاماً لگا ہوا تھا۔ نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ کے نام کے ساتھ تو نواب عبداللہ خان صاحب سے شادی کی وجہ سے لگا تھا۔
اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ ایسی باتیں جو تاریخی حقائق سے تعلق رکھتی ہوں فوراً درست ہو جانی چاہئیں اور اس بارہ میں ہدایت ارشاد فرمائی۔
ذرا دیکھیے، بظاہر بچوں کی کلاس ہے، مگر احتیاط کا کیا عالَم ہے۔ پھر یہ کہ کوئی بھی بات یونہی نہیں کہہ دی۔ خود اپنی کہی ہوئی بات کا تجزیہ بعد میں بھی کیا اور پھر اگلی کلاس میں بچوں کو بتایا کہ اصل بات یوں ہے، اس وقت روانی میں نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہ کے نام کے ساتھ بھی لفظ نواب کو الہامی کہہ دیا تھا۔
کوئی عام آدمی ہوتا تو اوّل تو بچوں کی کلاس سمجھ کر اس بات پر دوبارہ غور بھی نہ کرتا۔ اگر کرتا تو شاید یہ سوچ کر چھوڑ دیتا کہ بچوں کی کلاس ہی ہے، ایسا بھی کیا ہے۔ یا پھر اگر کوئی توجہ دلادیتا تو یا تو اپنی ہی بات کو درست کہتا یا پھر کہتا کہ خیرہے! ایسا بھی کیا ہے، بچے ہی ہیں نا! مگر یہاں علم و معرفت کے اس سمندر کا یہ عالم ہے کہ اس باریک بات پر بھی نظر ہے ۔ یہاں بھی ہم ایم ٹی اے کے کارکنان کے لئے یہی سبق تھا کہ ایم ٹی اے پر کی ہوئی بات تمام دنیا تک جاتی ہے۔ جو بات جائے وہ صد فی صد درست اور مکمل ہونی چاہیے۔
کسی بچہ یا نوجوان نے کلاس میں چھوٹی سی بات بھی پوچھی تو اس کا تفصیلی جواب عطا فرمایا۔ کسی سوال کو لغو یا غیرضروری قرار نہیں دیا۔ جس نے جو پوچھا، اس کی تسلی کی فکر صاف نظر آئی۔
…………………………
ان کلاسوں میں انتظامیہ کی اصلاح کا کام بھی حضور ساتھ کے ساتھ فرما رہے ہوتے ہیں۔ حضور کے سامنے پروگرام رکھا ہوتا کہ تلاوت کون کرے گا اور نظم کون پڑھے گا وغیرہ۔مجھے توکبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے اگر کوئی املاء کی معمولی سی غلطی بھی رہ گئی ہو، وہ شاید حضور کے سامنے اجاگر ہو کر آجاتی ہے۔ شاید چمکنے لگتی ہے۔ حضور ہمیشہ ایسی اغلاط کی نشاندہی فرماتے اور توجہ دلاتے ہیں۔
حضور ایک ملک کے دورہ سے واپس تشریف لائے۔ وہاں کی کلاسیں دیکھ کر انہیں نشر کرنے کی تیاری کا کام جاری تھا۔ ایک کلاس کے بارہ میں میرے ذہن میں ایک سوال تھا ، سو ہمت کر کے ایک ملاقات میں پوچھ ہی لیا۔ عرض کی کہ حضور، اس کلاس میں تو شروع سے آخر تک انتظامیہ کو خوب سرزنش ہوئی ہے۔ انتظامیہ نے ہر کام ہی الٹ پلٹ کیا ہوا تھا۔ ہر بات حضور کو سمجھانا پڑی اور ہر بات پر ان کی خوب سرزنش بھی ہوئی ہے۔ جیسے حضور کا حکم ہو۔
فرمایایہ پوچھ رہے ہو کہ چلانی ہے کہ نہیں۔ تو بالکل چلانی ہے۔ اسی طرح چلے گی۔
ہم اپنی نادانی میں یہ بھولتے رہتے ہیں کہ حضور کے مخاطب وہ چند بچے یا بچیاں نہیں ہوتیں جو سامنے بیٹھے ہوتے ہیں۔ حضور کی کلاس ساری دنیا کی کلاس ہوتی ہے۔ ہم سب، لاکھوں کروڑوں احمدی اس کلاس کا حصہ ہیں جس میں حضرت خلیفۃالمسیح کچھ بھی ارشاد فرماتے ہیں۔حضور کی ہر بات ہم سب کے لئے واجب الاطاعت ہے۔ اگرچہ بہت سے بزرگ ہیں جو منصبِ خلافت سے متعلق لوگوں کو آگاہی دیتے رہتے ہیں اورنوجوان نسل تک اس مقدس امانت کی تعظیم و تکریم کی تلقین کی امانت پہنچاتے ہیں ، مگر کوئی نہیں جو خلیفۂ وقت سے بڑھ کر اس منصب کو سمجھے اور کوئی نہیں جو آپ سے بڑھ کر اس کی عزت و توقیر سے آشنا کرے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح اپنے نہایت درجہ قیمتی وقت میں سے کچھ لمحات نہیں پورا ایک گھنٹہ نکال کر ہم میں تشریف فرما ہوئے ہیں اور وہاں نہ پروگرام رکھا ہے، نہ تلاوت کرنے، نظم پڑھنے والوں کو خود پتہ ہے کہ کون کب کیا پیش کر رہا ہے۔کبھی مائیکروفون نہیں چل رہا۔ مائیکروفون کیسے ایک سے دوسرے تک جائے گا اس کا بھی کسی کو علم نہیں۔پس حضور نے صرف اس کلاس کی انتظامیہ کو ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کے منتظمین کو ہوشیارباش فرمانا تھا۔ سو فیصلہ فرمایا کہ یہ کلاس ضرور نشر ہوگی اور اسی طرح نشر ہوگی۔
………………………
یہ کلاسیں مسجد فضل سے ملحقہ محمود ہال میں منعقد ہوتی ہیں۔ پہلے پہل جامعہ احمدیہ یو کے کی نشست بھی اسی طرح ہوتی تھی کہ جامعہ احمدیہ کے طلباء محمود ہال آجاتے اور حضورانور کی صحبت سے فیضیاب ہوتے۔ پھر جامعہ احمدیہ کی قسمت جاگی اور حضور بنفسِ نفیس جامعہ تشریف لے جانے لگے۔ جامعہ کے طلباء اپنی مادرِ علمی کو خوب چمکاتے کہ عالمِ روحانی کا بادشاہ خود چل کر ان کے پاس تشریف لے جارہا ہوتا۔ انہیں پتہ تھا کہ یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے۔جامعہ یوکے کی پہلی عمارت مسجد فضل لندن سے کوئی پندرہ یا بیس منٹ کے فاصلہ پر تھی۔ جماعت احمدیہ کے ساتھ اللہ کا یہ خاص سلوک ہے کہ ہر عمارت بہت جلد چھوٹی پڑ جاتی ہے۔ سو یہ عمارت بھی جامعہ احمدیہ کی ضروریات کے لئے کافی نہ رہی۔ لندن سے باہر کوئی 45 منٹ کی مسافت پر اللہ تعالیٰ نے ایک بہت ہی خوبصورت مقام پر ایک بہت ہی کشادہ عمارت جامعہ یوکے کے لئے عطا فرمادی۔اب جب بھی ان کی حضور انور کے ساتھ نشست ہوتی، حضور یہ سفر اختیار کر کے وہاں تشریف لے جاتے۔ غالباً 2013 ء کے موسمِ سرما میں ایک روز ان کی نشست ہونا تھی۔لندن اور اس کے نواح میں اب برف کم کم ہی پڑتی ہے۔ مگر اس روز برف نے بھی جانے کیا ٹھان لی کہ پڑی اور پڑتی ہی چلی گئی۔ ٹی وی پر محکمہ موسمیات نے ہر طرح کی وارننگ جاری کر دی۔ باہر نکلنے سے پرہیز، سفر اختیار نہ کرنے کی ہدایت اور جانے کیا کیا احتیاطی تدابیر۔ ایسے میں مسجد فضل سے جامعہ ایک پیغام گیا کہ حضور نے فرمایا ہے کہ حضور ضرور تشریف لے جائیں گے اور نشست ضرور ہوگی۔اس روز جامعہ کے طلباء اور اساتذہ نے مل کر وقارِ عمل کی تاریخ کا ایک عجیب باب رقم کر دیا۔ سب سے بڑا مرحلہ وہ راستہ تھا جو بڑی سڑک سے اتر کر جامعہ کی عمارت تک جاتا ہے۔ اسی پر سے حضور کے قافلہ نے گزرنا تھا اور یہ نہایت اونچی اور بل کھاتی، اور خاصی طویل ڈھلان ہے۔ (Grit) برف پگھلانے والا نمک برف کی اس قدر دبیز تہوں کو پگھلانے سے قاصر تھا۔ بعد میں ایک دوست سے معلوم ہوا کہ اس راستہ کو صاف کرنے کے لئے مناسب سامان تو میسر نہ تھا، مگراپنے امام کے عشق میں سرشار ان طلباء اور اساتذہ نے یہ کیا کہ ایک بڑا سا لوہے کا ستون لے کر اسے ایک گاڑی کے پیچھے باندھا، دو نوجوان اس ستون کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے اور گاڑی آہستہ آہستہ اس ڈھلان پر چلائی گئی ۔ یہ ستون مضبوطی سے زمین پر رگڑ کھاتا جاتا اور برف کو راستے سے صاف کرتا جاتا۔ برف تھی کہ پڑتی جاتی تھی اوراس ڈھلان کو بار بار پھسلن بناتی جاتی۔ مگر اپنے محبوب کے عشق میں یہ دیوانے یہی عمل دہراتے رہے تا وقتیکہ اگلی صبح حضور کے آنے کا وقت ہو گیا۔ حضور اپنے قافلہ کے ہمراہ اس راستہ پر بڑی حفاظت سے گزر کر جامعہ احمدیہ یوکے کی عمارت میں تشریف لے گئے اور کلاس کا انعقاد ہوا۔ جاکر فرمایا کہ یونہی نہیں چھوٹے موٹے چیلنجز سے گھبرا جاتے۔ جو کام کرنا ہے وہ کرناہے۔ پھر اس کے بعد معمول کے مطابق نشست ہوئی۔ لندن کے نواح میں واقع، برف کی چادروں میں لپٹی اس عمارت کے اندرعلم اور عشق اور محبت کے الاؤ روشن ہوئے، اور وہاں موجود سبھی خوش نصیبوں نے اس ٹھٹھرتی صبح میں اپنے وجود میں ایمان کی حدّت کو محسوس کیا۔ باہر تو برف پڑی رہی، مگر میدانِ عمل کے لئے تیار ہونے والے ان نوجوانوں کے باطن کی کتنی ہی برفیں پگھل گئی ہوں گی۔دنیا کا کون سا قائد ہے جو صرف قول سے ہی نہیں، بلکہ اپنے فعل سے زندگی کو برتنے کے قرینے سکھاتا ہو۔منہ سے بات کردینا تو دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔ لیکن
جا لپٹ جا لہر سے، دریا کی کچھ پروا نہ کر
کا عظیم سبق صرف عمل سے دیا جاسکتا ہے، سو حضور نے کیا ہی خوب دیا۔
…………………(باقی آئندہ)