کیا غیر روزہ دار کا روزہ دار کے سامنے کھانا پینا شرعاً جائز ہے؟
عام طور پر لوگوں میں روزہ دار کے سامنے غیرروزہ دار کا کھانا پینا بہت بُرا سمجھا جاتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض ایسے لوگ خود روزے کے روحانی تقاضوں کو پورا کریں یا نہ کریں۔ جھوٹ ، رشوت، ظلم و زیادتی، گالی گلوچ، لڑائی جھگڑے اور دیگر برائیوں سے بچیں یا نہ بچیں لیکن اگر کوئی شخص خواہ بیماری یا سفر کی وجہ سے یا کسی اور مجبوری کی بنا پر روزہ نہ رکھ سکے اور روزہ دار کے سامنے کچھ کھالے تو اسے مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں کہ اس نے رمضان کا احترام نہیں کیا۔ آجکل جو نام نہاد علماء و گدی نشینوں میں انتہاپسندی اور تشدّد کے رجحانات پائے جاتے ہیں ان میں سے بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ رمضان المبارک میں جو ہوٹل دن کے وقت کھلے ہوتے ہیں و ہ رمضان کی اعلانیہ توہین کے مرتکب ہوتے ہیں جو کہ ’’شرعاً جرم‘‘ ہے اور یہ کہ ماہ رمضان میں دن کے وقت اعلانیہ کھانے پینے والوں کے لئے ’’فقہاء اسلام‘‘ نے موت کی سزا تجویز کی ہے۔
لیکن کیا کسی غیرروزہ دار کا روزہ دار کے سامنے کھانا پینا واقعی ’’شرعاً‘‘ گناہ ہے اور ایسے شخص کی سزا موت ہے؟ آئیے قرآن و سنت و حدیث کی روشنی میں حقیقت کو معلوم کرتے ہیں۔
امرواقعہ یہ ہے کہ ہمیں تاحال کوئی ایسی آیت یا حدیث نہیں مل سکی جس میں رمضان المبارک کے دوران غیرروزہ دار کا، روزہ داروں کے سامنے کھانا پینا منع کیاگیاہو۔
البتہ اس کے برعکس ایسی روایات موجود ہیں کہ جن میں روزہ داروں کے سامنے غیرروزہ دار کے کھانے پر نہ صرف حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے غیرروزہ دار کو منع نہیں فرمایا بلکہ ایسی حالت میں روزہ داروں کے لئے فرشتوں کے دعائیں کرنے کی خوشخبری بھی دی ہے
ز حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
اَلصَّائِمُ اِذَا اَکَلَ عِنْدَہُ المَفَاطِیرُ صَلَّتْ عَلَیْہِ الْمَلَائِکَۃ۔
(سنن الترمذی ابواب الصّوم باب مَاجَائَ فِی فَضْلِ الصَّائِمِ اِذَا اُکِل عندہٗ)
اگر کسی روزہ دار کے سامنے کھایا پیا جائے تو فرشتے اس کے لئے دعا کرتے ہیں۔
ز حضرت عمارہ بنت کعب انصاریہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ
اَنَّ النَّبِیَّ صَلّی اللہ علیہ وَسَلّم دَخَلَ عَلَیْھَا فَقَدَّمَتْ اِلَیْہِ طَعَامًا، فَقَالَ؛ کُلِی، فَقَالَتْ؛ اِنِّیْ صَائِمَۃٌ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ الصَّائِمَ تُصَلِّی عَلَیْہِ الْمَلَائِکَۃُ اِذَا اُکِلَ عِنْدَہُ حَتَّی یَفْرُغُوا۔
(سنن الترمذی ابواب الصّوم باب مَاجَائَ فِی فَضْلِ الصَّائِمِ اِذَا اُکِل عندہٗ)
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے تو مَیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بھی کھاؤ، مَیں نے عرض کی حضور! میرا روزہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کسی روزہ دار کے سامنے کھایا جائے تو ان کے کھانے سے فارغ ہوجانے تک فرشتے روزہ دار کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں۔
ز حضرت عمارہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
اَتَانَا رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَرَّبْنَا اِلَیْہِ طَعَامًا، فَکَانَ بَعْضُ مَنْ عِنْدَہُ صَائِمًا، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلصَّائِمُ اِذَا اُکِلَ عِنْدَہُ الطَّعَامُ صَلَّتْ عَلَیْہِ الْمَلَآئِکَۃُ۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام بابٌ فِی الصَّائِمِ اِذَا اُکِل عندہٗ)
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا۔ جبکہ بعض حاضرین مجلس کا روزہ تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب روزہ دار کے سامنے کھانا کھایا جائے تو فرشتے اس (یعنی روزہ دار) کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں۔
ز حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم لِبِلَالٍ الْغَدَائُ یَا بِلَالُ، فَقَالَ اِنِّیْ صَائِمٌ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم نَاْکُلُ اَرْزَاقَنَا، فَضْلُ رِزْقِ بِلَالٍ فِی الْجَنَّۃِ، اَشَعَرْتَ یَا بِلَالُ اَنَّ الصَّائِمَ تُسَبّحُ عِظَامُہُ، وَ تَسْتَغْفِرُ لَہُ الْمَلَائِکَۃُ مَا اُکِلَ عِنْدَہٗ۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام بابٌ فِی الصَّائِمِ اِذَا اُکِل عندہٗ)
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ سے فرمایا بلال ناشتہ کرلو۔ آپؓ نے عرض کیا کہ حضور! میرا روزہ ہے، اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم اپنا رزق کھا رہے ہیں اور بلال کا زائد رزق جنت میں ہے۔ اے بلال! کیا تجھے معلوم ہے کہ جب تک روزہ دار کے سامنے کھایا جائے اس کی ہڈیاں تسبیح کرتی ہیں اور فرشتے اس کے لئے مغفرت طلب کرتے ہیں۔
ز حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم لسِتَّ عَشْرَۃَ مَضَتْ مِنْ رَمَضَانَ، فَمِنَّا مَنْ صَامَ وَمِنَّا مَنْ اَفْطَرَ، فَلَمْ یَعِبِ الصَّائِمُ عَلَی الْمُفْطِرِ، وَلَاالْمُفْطِرُ عَلَی الصَّائِمِ۔
(صحیح مسلم کتاب الصّیام باب جواز الصوم والفطر فی شھر رَمَضَانَ لِلْمُسَافِرِفِی غَیْرِ مَعْصِیَۃٍ اِذَا …..)
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ 16رمضان کو غزوہ میں آپؐ کے ساتھ گئے، ہم میں روزہ دار بھی تھے اور بغیر روزہ کے بھی۔ نہ تو روزہ دار نے روزہ نہ رکھنے والے کو اعتراض کا نشانہ بنایا اور نہ ہی روزہ چھوڑنے والے نے روزہ دار کو۔
ز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:
خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنَ الْمَدِیْنَۃِاِلَی مَکَّۃَ، فَصَامَ حتَّی بَلَغَ عُسْفَانَ، ثُمَّ دَعَا بِمَائٍ فَرَفَعَہُ اِلَی یَدَیْہِ لِیُرِیَہُ النَّاسَ، فَاَفْطَرَ حَتَّی قَدِمَ مَکَّۃَ، وَذٰلِکَ فِی رَمَضَانَ۔
(صحیح بخاری کتاب اکصوم باب من افطر فی السفر لیراہ الناس)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ کے لئے نکلے تو آپؐ نے روزہ رکھا یہاں تک کہ جب عسفان مقام پر پہنچے تو پھر پانی منگوایا اور آپؐ نے اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے اُسے اٹھایا تاکہ لوگ دیکھیں۔ پھر آپؐ نے روزہ کھول دیا اور اُسی حالت افطار میں مکّہ پہنچ گئے اور یہ واقعہ رمضان میں ہوا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سنّت اور آپؐ کے مذکورہ بالا ارشادات سے یہ مسئلہ خوب کھل جاتا ہے۔ اس کے بالمقابل نام نہاد ’’فقہائے اسلام‘‘ کی کوئی حیثیت نہیں۔ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے برخلاف کوئی بات کہتا ہے وہ خود ’’شارع‘‘ بننے کی جسارت کرتا ہے اور عملاً توہینِ رسولؐ کا مرتکب ہوتا ہے۔
جہاں تک ہم احمدیوں کا تعلق ہے تو ہمارے لئے تو اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ کامل اور آپؐ کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے حَکم و عدل نے قرآن و سنّت اور احادیث نبویہ کی روشنی میں مزید کھول کر ان مسائل کی وضاحت فرمادی ہے۔ جیسا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور سے کچھ احباب رمضان میں قادیان آئے۔ حضرت صاحب کو اطلاع ہوئی تو آپؑ مع کچھ ناشتہ کے ان سے ملنے کے لئے مسجد میں تشریف لائے۔ اُن دوستوں نے عرض کیا کہ ہم سب روزے سے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا سفر میں روزہ ٹھیک نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رخصت پر عمل کرنا چاہئے۔ چنانچہ ان کو ناشتہ کرواکے ان کے روزے تڑوادیئے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ نمبر 344-345، روایت نمبر 381)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
’’بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ نے کہ اوائل زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں کوئی مہمان یہاں حضرت صاحب کے پاس آیا۔ اُسے اس وقت روزہ تھا اور دن کا زیادہ حصّہ گزر چکا تھا بلکہ شاید عصر کے بعد کا وقت تھا۔ حضرت صاحب نے اسے فرمایا آپ روزہ کھول دیں۔ اُس نے عرض کیا کہ اب تھوڑا سا دن رہ گیا ہے اب کیا کھولنا ہے۔ حضورؑ نے فرمایا آپ سینہ زوری سے خداتعالیٰ کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔ خداتعالیٰ سینہ زوری سے نہیں بلکہ فرمانبرداری سے راضی ہوتا ہے۔ جب اس نے فرمادیا ہے کہ مسافر روزہ نہ رکھے تو نہیں رکھنا چاہئے۔
اس پر اس نے روزہ کھول دیا۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ نمبر 97، روایت نمبر 177)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
’’ملک مولابخش صاحب پنشنر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمٰن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان شریف میں امرتسر تشریف لائے۔ اور آپ کا لیکچر منڈوہ بابو گھنیالعل (جس کا نام اب بندے ماترم ہال ہے) میں ہوا۔ بوجہ سفر کے حضور کو روزہ نہ تھا۔ لیکچر کے دوران مفتی فضل الرحمٰن صاحبؓ نے چائے کی پیالی پیش کی۔ حضورؑ نے توجہ نہ فرمائی۔ پھر وہ اور آگے ہوئے۔ پھر بھی حضورؑ مصروفِ لیکچر رہے۔ پھر مفتی صاحب نے پیالی بالکل قریب کردی تو حضورؑ نے لے کر چائے پی لی۔ اس پر لوگوں نے شور مچادیا یہ ہے رمضان شریف کا احترام؟ روزے نہیں رکھتے؟ اور بہت بکواس کرنا شروع کردیا۔ لیکچر بند ہوگیا اور حضور پسِ پردہ ہوگئے۔ گاڑی دوسرے دروازے کے سامنے لائی گئی اور حضور اس میں داخل ہوگئے۔ لوگوں نے اینٹ پتھر وغیرہ مارنے شروع کئے اور بہت ہلّڑ مچایا۔ گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیا مگر حضورؑ بخیروعافیت قیامگاہ پر پہنچ گئے۔ اور بعد میں سنا گیا کہ ایک غیراحمدی مولوی یہ کہتا تھا کہ ’’اَج لوکاں نے مرزے نوں نبی بنادتّا‘‘۔ یہ مَیں نے خود اس کے منہ سے نہیں سنا۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کے ساتھ ہم باہر نکلے اور اُن کی خدمت میں عرض کی کہ لوگ اینٹ پتھر مارتے ہیں۔ ذرا ٹھہر جائیں۔ تو آپؓ نے فرمایا وہ گیا جس کو مارتے تھے، مجھ کو کون مارتا ہے۔ چونکہ مفتی فضل الرحمٰن صاحبؓ کے چائے پیش کرنے پر یہ سب گڑبڑ ہوئی تھی اس لئے سب آدمی اُن کو کہتے تھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ مَیں نے بھی اُن کو ایسا کہا۔ وہ بیچارے تنگ آگئے اور بعد میں میاں عبدالخالق صاحبؓ مرحوم احمدی نے مجھے بتلایا کہ جب یہ معاملہ حضورؑ کے سامنے پیش ہوا کہ مفتی صاحب نے خواہ مخواہ لیکچر خراب کردیا۔ تو حضورؑ نے فرمایا کہ مفتی صاحبؓ نے کوئی بُرا کام نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے فعل سے اس حکم کی اشاعت کا موقعہ پیدا کردیا۔ پھر تو مفتی صاحب شیر ہوگئے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد دوم حصہ چہارم، روایت نمبر 1202)
الغرض شرعاً تو روزہ دار کے سامنے کسی غیرروزہ دار کا کھانا پینا جائز ہے مگر جن لوگوں میں روزہ دار کے سامنے کھانا پینا بُرا سمجھا جاتا ہو، اور اس کے نتیجہ میں مقدمہ بازی، لڑائی جھگڑااور فتنہ و فساد کا اندیشہ ہو، وہاں فتنہ سے بچنے کی خاطر روزہ دار کے سامنے کھانے پینے سے گریز کرنا چاہئے۔