خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 15؍دسمبر2017ء
قرآن مجید، احادیث نبویہﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کے ارشادات اور تاریخی واقعات کے حوالہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کے ارفع مقام اور ان کے ایمان، اخلاص، وفا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اعمالِ صالحہ کے اعلیٰ درجہ کے معیاروں کا تذکرہ اور ان پاکیزہ روشن مثالوں کے حوالہ سے افراد جماعت کو ان نمونوں کو اپنانے اور ان کےنقشِ قدم پر چلنے کی تاکیدی نصائح
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 15؍ دسمبر 2017ء بمطابق 15؍فتح 1396 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا۔ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (التوبۃ100:)۔اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت لے جانے والے اولین اور وہ لوگ جنہوں نے حسن عمل کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے اور اس نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں وہ ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں یہ بہت عظیم کامیابی ہے۔
اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا ذکر ہے جو سبقت لے جانے والے ہیں جو روحانی مرتبہ میں سب سے اوپر ہیں اور اپنے ایمان کے معیاروں اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق اعمال بجا لانے والوں میں باقی سب کو پیچھے چھوڑنے والے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جو سب سے پہلے ایمان لائے اور دوسروں کے لئے، بعد میں آنے والوں کے لئے اپنی مثالیں بطور نمونہ چھوڑ گئے تا کہ دوسرے ان کے نمونوں کی تقلید کریں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہاں صحابہ کو بعد میں آنے والوں کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ بنایا ہے اور اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کے معیار اور ان اعمال سے راضی ہوا جو وہ بجا لاتے رہے اور انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ ہر حال میں وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندوں میں شامل رہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو بھی ان نمونوں پر چلتے رہیں گے، ایمان، اخلاص، وفا اور اعمال صالحہ بجا لاتے رہیں گے وہ خداتعالیٰ کے انعامات کے حاصل کرنے والے بنتے رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کے بلند مقام کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاتے ہوئے ان کی پیروی کو ہدایت پانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ میں نے اپنے صحابہ کے اختلاف کے بارہ میں اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تیرے صحابہ کا میرے نزدیک ایسا مرتبہ ہے جیسے آسمان میں ستارے ہیں۔ بعض بعض سے روشن تر ہیں لیکن نور ہر ایک میں موجود ہے۔ پس جس نے تیرے کسی صحابی کی پیروی کی میرے نزدیک وہ ہدایت یافتہ ہو گا۔( اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہدایت یافتہ ہو گا۔ )
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ جلد 11 صفحہ 162-163 کتاب المناقب باب مناقب الصحابہؓ حدیث 6018 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کی بھی تم اقتدا کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔
پس اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو یہ مقام عطا فرمایا ہے۔ ہر ایک ان میں سے ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ صحابہ کے مقام و مرتبہ اور اللہ تعالیٰ کے ان سے راضی ہونے اور اللہ تعالیٰ سے اُن کے راضی ہونے کا ذکر فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’صحابہ کرام نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں وہ صدق دکھلایا ہے کہ انہیں رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ کی آواز آ گئی۔ یہ اعلیٰ درجہ کا مقام ہے جو صحابہ کو حاصل ہوا۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے۔ اس مقام کی خوبیاں اور کمالات الفاظ میں ادا نہیں ہو سکتے‘‘۔ (کیا خوبیاں اور کتنے کمالات ہیں اس کے؟۔ الفاظ ان کا احاطہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔) فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ سے راضی ہو جانا شخص کا کام نہیں بلکہ یہ توکّل، تبتّل اور رضا و تسلیم کا اعلیٰ مقام ہے جہاں پہنچ کر انسان کو کسی قسم کا شکوہ شکایت اپنے مولیٰ سے نہیں رہتی ۔اور اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ سے راضی ہونا یہ موقوف ہے بندہ کے کمال صدق و وفا داری اور اعلیٰ درجہ کی پاکیزگی اور طہارت اور کمال اطاعت پر‘‘۔ فرمایا کہ ’’جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے معرفت اور سلوک کے تمام مدارج طے کر لئے تھے۔…….‘‘
پھر اس کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ
’’…… تم اپنے دل کو پاک کرو کہ مولیٰ کریم تم سے راضی ہو جاوے۔‘‘ ہمیں نصیحت فرماتے ہیں ’’اور تم اس سے راضی ہو جاؤ۔‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ سے کبھی کسی قسم کا شکوہ نہ رہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے اپنے صدق سچائی اور وفا داری کو بھی کمال تک پہنچانا ہے۔ اپنے پاکیزگی کے درجہ کو بھی اعلیٰ معیار تک پہنچانا ہے۔ طہارت کو بھی اعلیٰ معیار تک لے کر جانا ہے۔ اور اطاعت کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں۔ فرمایا کہ تم اس سے راضی اور مولیٰ کریم تم سے راضی ہو جائے۔ یہ باتیں ہوں گی تو مولیٰ کریم راضی ہو گا) ’’اور تم اس سے راضی ہو جاؤ۔ پھر وہ تمہارے جسم میں تمہاری باتوں میں… برکت رکھ دے گا‘‘۔
(ملفوظات جلد 8صفحہ 139-140۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
جب یہ مقام حاصل ہو جائے تو پھر برکت حاصل ہوتی ہے۔ پس صحابہ ہمارے لئے نمونہ ہیں اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کا قرب پانا ہے۔ ان کے اگر آپس کے اختلافات کہیں نظر بھی آتے ہیں تب بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں قابل تقلید اور روشن ستارے کا نام ہی دیا ہے۔ اور روشن ستارہ ہی بتایا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک موقع پر اپنے صحابہ کے مقام و مرتبہ کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے صحابہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے خوف سے کام لینا۔ انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنانا۔ جو شخص ان سے محبت کرے گا تو وہ دراصل میری محبت کی وجہ سے کرے گا۔ اور جو شخص ان سے بغض رکھے گا وہ دراصل مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا۔ جو شخص ان کو دکھ دے گا اس نے مجھ کو دکھ دیا اور جس نے مجھے دکھ دیا اس نے اللہ تعالیٰ کو دکھ دیا اور جس نے اللہ کو دکھ دیا اور ناراض کیا تو ظاہر ہے کہ وہ اللہ کی گرفت میں ہے‘‘۔
(سنن الترمذی ابواب المناقب باب فیمن سبّ اصحاب النبیؐ حدیث 3862)
پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ
’’میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہنا‘‘۔ ہمارے مسلمانوں میں جو مختلف فرقے ہیں خاص طور پہ شیعہ یہ جب ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں تو صحابہ کے بارے میں بہت زیادہ کہتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’برا بھلا مت کہنا۔ ان کے کسی اقدام پر تنقید نہ کرنا۔ خدا کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خیرات کرو تو بھی تمہیں اتنا ثواب و اجر نہیں ملے گا جتنا انہیں ایک مُد یا اس کے نصف کے برابر خرچ کرنے پر ملا تھا۔ ‘‘
(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب قول النبیؐ لو کنت متخذا خلیلا حدیث 3673)
پس یہ وہ لوگ ہیں جن کا مقام اور مرتبہ بہت بلند ہے اور ہمارے لئے نمونہ ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے تو ان کے پیچھے ہم نے چلنا ہے۔ کجا یہ کہ کسی کے خلاف کوئی بات کی جائے یا کسی کے بارے میں بھی ذہن میں خیال آئے اور کسی کے مرتبہ کو ہم اپنے بنائے ہوئے معیار کے مطابق پرکھنے کی کوشش کریں تو یہ غلط طریقہ ہے۔
ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صحابہ کے مقام و مرتبہ کا مزید ادراک دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’انصافاً دیکھا جاوے کہ ہمارے ہادیٔ اکملؐ کے صحابہؓ نے اپنے خدا اور رسول کے لئے کیا کیا جان ثاریاں کیں۔ جلا وطن ہوئے۔ ظلم اٹھائے۔ طرح طرح کے مصائب برداشت کئے۔ جانیں دیں۔ لیکن صدق و وفا کے ساتھ قدم مارتے ہی گئے۔ پس وہ کیا بات تھی کہ جس نے انہیں ایسا جاںثار بنا دیا۔ وہ سچی الٰہی محبت کا جوش تھا جس کی شعاع اُن کے دل میں پڑ چکی تھی۔ اس لئے خواہ کسی نبی کے ساتھ مقابلہ کر لیا جاوے۔ آپؐ کی تعلیم، تزکیہ نفس، اپنے پیروؤں کو دنیا سے متنفّر کرا دینا، شجاعت کے ساتھ صداقت کے لئے خون بہا دینا اس کی نظیر کہیں نہ مل سکے گی‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’یہ مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کا ہے اور اُن میں جو باہمی الفت و محبت تھی اس کا نقشہ( قرآن کریم میں) دو فقروں میں بیان فرمایا ہے۔ وَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ(الانفال64:)۔ یعنی جو تالیف ان میں ہے وہ ہرگز پیدا نہ ہوتی، خواہ سونے کا پہاڑ بھی دیا جاتا۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اَب ایک اَور جماعت مسیح موعود کی ہے جس نے اپنے اندر صحابہؓ کا رنگ پیدا کرنا ہے۔ صحابہؓ کی تو وہ پاک جماعت تھی جس کی تعریف میں قرآن شریف بھرا پڑا ہے‘‘۔ فرماتے ہیں’’ کیا آپ لوگ ایسے ہیں؟ جب خدا کہتا ہے کہ حضرت مسیح کے ساتھ وہ لوگ ہوں گے جو صحابہؓ کے دوش بدوش ہوں گے۔ صحابہؓ تو وہ تھے جنہوں نے اپنا مال، اپنا وطن راہِ حق میں دے دیا۔ اور سب کچھ چھوڑ دیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا معاملہ اکثر سنا ہو گا۔ ایک دفعہ جب راہِ خدا میں مال دینے کا حکم ہوا تو گھر کا کُل اثاثہ لے آئے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ گھر میں کیا چھوڑ آئے تو فرمایا کہ خدا اور رسول کو گھر میں چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’رئیس مکّہ ہو اور کمبل پوش‘‘۔ (حضرت ابوبکر کا مقام کہ مکّہ کے رئیس تھے۔ مسلمان ہو گئے تو کمبل پوش ہو گئے) ’’غربا کا لباس پہنے۔ یہ سمجھ لو کہ وہ لوگ تو خدا کی راہ میں شہید ہوگئے۔ ان کے لئے تو یہی لکھا ہے کہ َسیفوں (تلواروں) کے نیچے بہشت ہے لیکن ہمارے لئے تو اتنی سختی نہیں کیونکہ یَضَعُ الْحَرْب ہمارے لئے آیا ہے۔ یعنی مہدی کے وقت لڑائی نہیں ہو گی۔‘‘
(ملفوظات جلد 1صفحہ 42، 43۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر صحابہ کے طریق زندگی کا نقشہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’ دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کیا تنعّم پسند اور خوردونوش کے دلدادہ تھے جو کفار پر غالب تھے؟‘‘ (صرف آسانیاں چاہتے تھے۔ اس لئے کفار پر غالب آ گئے۔) فرمایا ’’نہیں۔ یہ بات تو نہیں ۔پہلی کتابوں میں بھی اُن کی نسبت آیا ہے کہ وہ قائم اللّیل اور صائم الدھر ہوں گے۔ اُن کی راتیں ذکر اور فکر میں گزرتی تھیں۔ اور ان کی زندگی کیسے بسر ہوتی تھی؟قرآن کریم کی ذیل کی آیۂ شریفہ اُن کے طریق زندگی کا پورا نقشہ کھینچ کر دکھاتی ہے وَمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللہِ وَعَدُوَّکُمْ (الانفال61:)۔ اور یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا(آل عمران201:)۔اور سرحد پر اپنے گھوڑے باندھے رکھو کہ خدا کے دشمن اور تمہارے دشمن اس تمہاری تیاری اور استعداد سے ڈرتے رہیں۔ اے مومنو! صبر اور مصابرت اور مرابطت کرو‘‘۔ (صبر کرتے رہنا۔ صبر دکھاؤ اور صبر کرو۔) رباط کے معنی کیا ہیں؟ آپ فرماتے ہیں کہ ’’رباط ان گھوڑوں کو کہتے ہیں جو دشمن کی سرحد پر باندھے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ صحابہؓ کو اعداء کے مقابلہ کے لئے مستعد رہنے کا حکم دیتا ہے۔ اور اس رباط کے لفظ سے انہیں پُوری اور سچی تیاری کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اُن کے سپرد دو کام تھے۔ ایک ظاہری دشمنوں کا مقابلہ اور دوسرا روحانی مقابلہ‘‘۔ (روحانی مقابلے کے لئے بھی رباط کا حکم ہے۔ ہر وقت سچی تیاری کرتے رہو۔ فرمایا ’’اور رباط لغت میں نفس اور انسانی دل کو بھی کہتے ہیں۔ اور یہ ایک لطیف بات ہے کہ گھوڑے وہی کام کرتے ہیں جو سدھائے ہوئے اور تعلیم یافتہ ہوں‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ آجکل گھوڑوں کی تعلیم و تربیت کا اسی انداز پر لحاظ رکھا جاتا ہے۔ اور اُسی طرح اُن کو سدھایا اور سکھایا جاتا ہے جس طرح بچوں کو سکولوں میں خاص احتیاط اور اہتمام سے تعلیم دی جاتی ہے۔ اگر اُن کو تعلیم نہ دی جائے اور وہ سدھائے نہ جائیں تو وہ بالکل نکمّے ہوں۔ اور بجائے مفید ہونے کے خوفناک اور مُضر ثابت ہوں۔‘‘
(ملفوظات جلد 1صفحہ 54،55۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اسی طرح نفس کو بھی سدھارنے کی ضرورت ہے۔ اس کو بھی قابو کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کو بھی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ پس رباط اسی وقت ہو گا جب انسان، ایک مومن علمی اور عملی طور پر ترقی کی کوشش کرے اور اپنے نفس کو بھی لگام دیتا رہے۔
صحابہ کے کیسے نمونے تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کے نتیجہ میں ان میں پیدا ہوئے؟ اس کے بعض نمونے پیش کرتا ہوں۔ ایک تو ہم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نمونہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس میں دیکھا کہ اپنے گھر کا کُل سامان دینی ضرورت کے وقت لے کر حاضر ہو گئے۔ آپ کے انکسار اور اللہ تعالیٰ کی خشیت کا ایک واقعہ اب سنیں۔
ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ کی حضرت عمرؓ کے ساتھ تکرار ہو گئی جو ناراضگی تک لمبی بحث ہو گئی۔ ان کی آوازیں اونچی ہو گئی ہوں گی۔ اس کے بعد جب بات ختم ہو گئی تو حضرت ابوبکر حضرت عمر کے پاس گئے اور معذرت کی کہ زیادہ تکرار میں آواز شاید کچھ زیادہ اونچی ہو گئی ہو گی۔ سخت الفاظ ہو گئے ہوں گے۔ لیکن حضرت عمر نے معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر حضرت ابوبکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ واقعہ بیان کیا اور عرض کی کہ اس کی معافی کے لئے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔ تھوڑی دیر بعد ہی حضرت عمر کو بھی احساس ندامت ہوا۔ شرمندگی ہوئی۔ احساس ہوا کہ غلطی ہو گئی تھی اور وہ بھی حضرت ابوبکر کے گھر گئے کہ ان سے معذرت کریں۔ وہاں دیکھا تو گھر میں نہیں تھے۔ حضرت عمر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئے۔ انہیں دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ناراضگی سے سرخ ہو گیا۔ یہ دیکھ کر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عمر پہ بڑی ناراضگی ہے۔ حضرت ابو بکر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرنے لگے کہ غلطی میری تھی آپ عمر کو معاف کر دیں۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب قول النبیؐ لو کنت متخذا خلیلا حدیث 3661) یہ تھا آپ کا انکسار اور اللہ تعالیٰ کا خوف اور پھر حضرت عمر بھی شرمندہ تھے اور پھر معافی مانگنے آئے تھے۔ دونوں طرف سے شرمندگی تھی۔ یہ وہ پاک معاشرہ تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا تھا اور اس میں رہنے والے اللہ تعالیٰ کی رضا کے مورد بنے۔
حضرت عمر کی عاجزی کے ایک واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمر سے کہا کہ آپ حضرت ابوبکر سے بہتر ہیں۔ اس پر حضرت عمر رونے لگے اور فرمایا کہ خدا کی قسم! حضرت ابوبکر کی ایک رات اور ایک دن ہی عمر اور اس کی اولاد کی پوری زندگی سے بہتر ہے۔ فرمایا کیا مَیں تمہیں اس رات اور دن کا حال سناؤں؟ پوچھنے والے کے یہ کہنے پر کہ ہاں جی فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ ان کی رات تو وہ تھی جب رات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کر کے جانا پڑا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کا ساتھ دیا اور ان کا دن وہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور عرب نماز اور زکوۃ سے منکر ہو گئے۔ اس وقت انہوں نے میرے مشورے کے برخلاف جہاد کا عزم کیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اس میں کامیاب کر کے ثابت فرمایا کہ وہ حق پر تھے۔ (کنز العمال کتاب الفضائل باب فضائل الصحابہؓ فضل الصدیقؓ جلد 12 صفحہ 493-494 حدیث 35615 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ 1985ء)
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور جلیل القدر صحابی حضرت عثمان تھے جو خلیفہ ثالث بھی تھے۔ آپ کی صلہ رحمی اور آپ کی زندگی کی بہت ساری خصوصیات بڑی نمایاں ہیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت عثمان سب سے بڑھ کر صلہ رحمی کرنے والے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے تھے۔ اور دین کے لئے بہت قربانیاں کرنے والے بھی تھے۔
(الاصابہ فی تمیز الصحابۃ جلد 4 صفحہ 378 عثمان بن عفانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت2004ء)
جب توسیع مسجد نبوی کا معاملہ آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ارد گرد کے جتنے مکانات ہیں ان کو مسجد میں شامل کر لیا جائے۔ ظاہر ہے وہ مکانات لوگوں سے خریدنے تھے۔ اس وقت حضرت عثمان نے آگے بڑھ کر یعنی فوری طور پر اپنے آپ کو پیش کیا کہ مَیں یہ خریدتا ہوں اور پندرہ ہزار درہم دے کر وہ جگہ خرید لی۔ مسلمانوں کو پانی کی دقّت کا سامنا ہوا۔ ایک یہودی کا کنواں تھا۔ وہاں سے پانی لینے میں دقّت تھی تو آپ نے یہودی سے منہ مانگی قیمت پر وہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے پانی کا انتظام فرمایا۔ (سنن النسائی کتاب الاحباس باب وقف المساجد حدیث 3637-3638) یہ ان کی ہمدردیٔ خلق تھی۔
پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ امیر معاویہ نے کسی سے حضرت علیؓ کے اوصاف بیان کرنے کے لئے کہا۔ اس نے کہا آپ سن لیں گے جو میں بیان کروں گا۔ انہوںنے کہا ٹھیک ہے بیان کرو۔ ظاہر ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ان کی مخالفت چلتی رہی۔ اس نے کہا کہ اگر ضرور سننا ہے تو سنیں کہ وہ بلند حوصلہ اور مضبوط قویٰ کے مالک تھے۔ فیصلہ کُن بات کہتے اور عدل سے فیصلہ کرتے۔ ان کی جانب سے علم کا چشمہ پھوٹتا اور ان کی حکمت ہر طرف سے ٹپکتی۔ دنیا اور اس کی رونقوں سے وحشت محسوس کرتے اور رات اور اس کی تنہائی سے اُنس رکھتے۔ یعنی بجائے دنیا داری میں ملوّث ہونے کے راتوں کی عبادت ان کی پسندیدہ چیزیں تھیں۔ کہنے لگا کہ وہ بہت رونے والے، لمبا غور کرنے والے تھے۔ وہ ہم میں ہماری طرح رہتے تھے۔ بڑی سادہ زندگی تھی۔ کہتا ہے کہ خدا کی قَسم! ہم ان کے ساتھ محبت و قرب کے تعلق کے باوجود ان کے رعب کی وجہ سے بات کرنے سے رکتے تھے۔ کھل کے بات نہیں کر سکتے تھے۔ وہ دیندار لوگوں کی عزت کرتے اور مساکین کو اپنے پاس جگہ دیتے۔ طاقتور کو اس کے باطل موقف میں طمع کا موقع نہ دیتے۔ اگر کوئی طاقتور ہے اور اس نے اگر جھوٹا موقف اختیار کیا ہے۔ اس میں لالچ ہے، لالچ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو اس کا موقع اس کو نہ دیتے۔ وہیں پکڑ لیتے۔ اور کمزور آپ کے عدل سے مایوس نہ ہوتا۔ یہ حضرت علیؓ کی خصوصیات تھیں۔ یہ سن کرامیر معاویہ نے بھی کہا کہ تم سچ کہتے ہو اور رو پڑے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 3 صفحہ 208-209 علی ابن ابی طالبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف تھے۔ مالی قربانی کرنے میں آپ کا بھی بڑا مقام تھا۔ بڑے مالدار تاجر تھے۔ دولت کی بڑی فراوانی تھی۔ ایک دفعہ ایک شخص نے خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے کسی کی آواز سنی جو یہ دعا کر رہا تھا کہ اے اللہ مجھے اپنے نفس کے بخل سے محفوظ رکھ۔ جب دیکھا کہ وہ شخص کون ہے تو وہ عبدالرحمن بن عوف تھے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 2 صفحہ 388-389 عبد الرحمٰن بن عوفؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
ایک دفعہ ان کا ایک تجارتی قافلہ مدینہ آیا تو اس میں سات سو انٹوں پر گندم آٹا اور دوسرا سامان لدا ہو اتھا۔ مدینہ میں اتنے بڑے قافلے کے چرچے ہو رہے تھے کہ اتنا بڑا قافلہ آیا ہے۔ یہ خبر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تک بھی پہنچی تو حضرت عائشہ نے کہا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ عبدالرحمن جنتی ہیں۔ جب عبدالرحمن کو یہ اطلاع ہوئی تو حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ کو گواہ کر کے سات سو اونٹوں کا یہ لدا ہوا قافلہ جو ہے، پورے سامان سے لدا ہوا، اونٹوں سمیت خدا کی راہ میں وقف کرتا ہوں۔
(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 378 عبد الرحمٰن بن عوف مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)
حضرت عبدالرحمن کے مقام کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک دفعہ حضرت خالد کی تکرار حضرت عبدالرحمن سے ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے خالد! میرے صحابہ کو کچھ نہ کہو۔ تم میں سے اگر کوئی اُحد کے پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو عبدالرحمن بن عوف کی اس صبح یا شام کو بھی نہیں پہنچ سکتا جو اس نے خدا تعالیٰ کی راہ میں جہاد کر کے گزارے ہیں۔
(کنز العمال جلد 13 صفحہ 222-223 حدیث 36674 مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)
ایک صحابی سعد بن وقاصؓ تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے ایمان کا واقعہ یوں بیان ہوتا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ جب میں نے اسلام قبول کیا تو میری والدہ نے کہا کہ یہ تم نے کیا نیا دین اختیار کر لیا ہے؟ تمہیں بہرحال یہ دین چھوڑنا پڑے گا ورنہ مَیں نہ کچھ کھاؤں گی نہ پیوں گی۔ بھوک ہڑتال ہے یہاں تک کہ مرجاؤں گی۔ اور نتیجہ کیا ہو گا؟ لوگ تمہیں کہیں گے کہ ماں کا قتل کر دیا۔ تمہیں ماں کے قاتل کا طعنہ دیں گے۔ کہتے ہیں کہ میں نے کہا ماں ایسا ہرگز نہ کرنا کیونکہ میں اپنا دین نہیں چھوڑ سکتا مگر وہ نہ مانی اور تین دن اور راتیں گزر گئیں انہوں نے نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ بھوک سے نڈھال تھیں۔ کہتے ہیں تب میں نے ان کو جا کر کہا کہ خدا کی قسم! آپ کی ہزار جانیں بھی ہوں اور وہ ایک ایک کر کے نکلیں تو تب بھی میں اپنا دین نہیں چھوڑوں گا۔ جب انہوں نے بیٹے کا یہ عزم دیکھا تو کھانا پینا شروع کر دیا۔ (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 234 سعد بن مالک القرشی ؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)
اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ والدین کی باتیں مانو۔ ان کی خدمت کرو۔ لیکن جہاں دین کا معاملہ آئے، جہاں اللہ کا معاملہ آئے وہاں بہرحال تم نے اللہ کی بات سننی ہے۔ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور پہرہ دینے کا بھی موقع ملا۔ حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ آئے تو بعض دنوں میں کچھ یا ان دنوں میں کچھ خراب حالات تھے۔ اس کی وجہ سے آپ رات آرام کی نیند سو نہ سکے۔ آپ نے فرمایا کئی راتیں اس طرح گزر گئیں۔ ایک رات آپ نے فرمایا کہ رات خدا کا کوئی بندہ پہرہ دیتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ خطرہ جو تھا وہ نہ ہو، اور میں تھوڑی دیر آرام کر لوں جو بھی آپ معمولی آرام کیا کرتے تھے۔ تو کہتی ہیں جب آپ یہ بات کر ہی رہے تھے تو اچانک ہتھیاروں کی آواز سنائی دی۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون ہے؟ جواب دیا مَیں سعد ہوں۔ آپ نے پوچھا کیسے آئے؟ انہوں نے عرض کیا کہ مجھے آپ کی حفاظت کے بارے میں خطرہ پیدا ہوا اس لئے پہرہ دینے آیا ہوں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ رات آرام سے سوئے اور انہیں دعائیں دیں۔
(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فی فضل سعد بن ابی وقاص حدیث 6231)
ایک صحابی حضرت زبیر بن العوام تھے۔ ان میں خشیتِ الٰہی بہت تھی۔یعنی اللہ تعالیٰ کا خوف بڑا تھا کہ میں کوئی ایسی غلط بات نہ کروں جس پہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آ جاؤں۔ آپ کے بیٹے نے ایک دفعہ پوچھا کہ آپ دوسرے صحابہ کی طرح احادیث کثرت سے بیان نہیں کرتے۔ کہنے لگے کہ جب سے اسلام لایا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہیں ہوا۔ ہمیشہ آپ کے ساتھ ساتھ رہا ہوں۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تنبیہ سے ڈرتا ہوں۔( ساتھ ساتھ رہا ہوں۔ بہت باتیں سنی ہیں۔ بہت حوالے ہیں میرے پاس۔ بہت روایات ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تنبیہ سے ڈرتا ہوں) کہ جس نے میری طرف غلط بات منسوب کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ کہ کہیں کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جس کو میں سمجھا نہ ہوں اور غلط نکل جائے اور اس وجہ سے میں بہت خوفزدہ ہوں۔
(صحیح البخاری کتاب العلم باب اثم من کذب علی النبیﷺ حدیث 107)
شجاعت اور مردانگی بھی آپ میں بہت زیادہ تھی۔ اتنی تھی کہ جب اسکندریہ کا محاصرہ لمبا ہو گیا تو آپ نے سیڑھی لگا کر قلعہ کی فصیل پر چڑھنا چاہا۔ ساتھیوں نے کہا کہ قلعہ میں سخت طاعون پھیلا ہوا ہے۔ آپ نے کہا کوئی فرق نہیں۔ ہم بھی طعن اور طاعون کے لئے ہی ہیں اور آپ نے بات نہیں مانی اور قلعہ کی دیوار پر چڑھ گئے۔ بہت مالدار تھے جو مال آتا اس کا اکثر حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کر دیتے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 57-58 ومن بنی اسد بن عبد العزی … ذکر وصیت زبیر وقضاء دینہ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996)
پھر ایک صحابی کا ذکر ملتا ہے جن کا نام طلحہ بن عبید اللہ تھا۔ آپ بھی امیر آدمی تھے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ اپنی جائیداد کا ایک حصہ سات لاکھ درہم میں حضرت عثمان کو فروخت کیا اور سب مال خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 117 ومن بنی تیم بن مرہ … طلحہ بن عبیدؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996)
مہمان نوازی بھی ان کا ایک خاص وصف تھا۔ ایک دفعہ ایک قبیلہ کے تین مفلوک الحال افراد نے اسلام قبول کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا صحابہ میں سے کون ان کی کفالت کی ذمہ داری لیتا ہے۔ حضرت طلحہ نے بخوشی اس کی حامی بھر لی اور تینوںکو اپنے گھر لے گئے اور وہیں ٹھہرایا اور ان کی میزبانی کرتے رہے یہانتک کہ مستقل گھر کا فرد بنالیا۔ کہتے ہیں یہانتک کہ موت نے انہیں آپ سے جدا کیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 446 حدیث 1401 مسند طلحہ بن عبید اللہ ؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت طلحہ دوستی اور اخوّت کا رشتہ بھی خوب نبھانے والے تھے۔
حضرت کعب بن مالک انصاری کو جب غزوہ تبوک میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے مقاطعہ کی سزا ہوئی تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کی معافی کا اعلان فرمایا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے تو حضرت طلحہ دیوانہ وار دوڑتے ہوئے ان کے استقبال کو آگے بڑھے اور مصافحہ کر کے انہیں مبارکباد دی۔ حضرت کعب ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ حضرت طلحہ جیسا استقبال اور گرمجوشی کسی اَور نے نہیں دکھائی۔
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالکؓ حدیث 4418)
ایک خوبی جو بیویوں سے تعلق رکھتی ہے، خاوندوں سے تعلق رکھتی ہے وہ بھی آپ کی ایک اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت طلحہ ہنستے مسکراتے گھر واپس آتے۔ بڑے کام تھے۔ مصروف تھے۔ سب کچھ تھا۔ گھر آتے تو ایسی شکل بنا کر نہیں آتے تھے کہ گھر والے ڈر کر ایک طرف کونے میں لگ جائیں۔ ہنستے مسکراتے گھر واپس آتے اور خوش و خرّم باہر جاتے۔ گھر والوں کے ساتھ بھی نیک سلوک تھا۔ ہمیشہ خوش رہتے تھے۔ اور یہ نہیں کہ گھر میں اَور مُوڈ ہے اور باہر اَور ہے۔ کہتی ہیں کچھ طلب کرو تو بخل نہیں کرتے تھے۔ مانگو تو دے دیتے تھے اور خاموش رہو تو مانگنے کا انتظار نہیں کرتے تھے۔ یعنی یہ نہیں ہے کہ مانگو تبھی ملنا ہے بلکہ جو ضروریات ہوتی تھیں خود دیکھتے بھی رہتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ میں کسی طرح گھر والوں کی ضروریات پوری کروں۔ چار بیویاں تھیں۔ چاروں بڑی خوش تھیں۔ کہتی ہیں نیکی کرو تو شکر گزار ہوتے تھے اور غلطی کرو تو معاف کر دیتے تھے۔
یہ وہ اصول ہیں جو گھروں کے سکون کا باعث بنتے ہیں جو میاں بیوی کے رشتوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ پس یہ بھی ہمارے لئے ایک نمونہ ہے۔ (کنز العمال جلد 12 صفحہ 198-199 حدیث 36592 مسند طلحہ بن عبید اللہؓ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ 1985ء)
ایک صحابی عبیداللہ بن مسعود کی اطاعتِ خلافت کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے۔ آپ کو حضرت عمرؓ نے اہل کوفہ کی تعلیم و تربیت کے لئے مقرر فرمایا اور اہل کوفہ کو لکھا کہ ان کی مدینہ میں بہت ضرورت ہے لیکن تمہاری خاطر میں قربانی کر کے انہیں تمہاری تربیت کے لئے بھیج رہا ہوں۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 135-136 عمار بن یاسرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996) تو یہ مقام تھا ان کا۔ حضرت عثمان نے بھی ان کے اس مقام کو قائم رکھا بلکہ کوفہ کا امیر مقرر کر دیا اور ساتھ قاضی اور بیت المال کا نظام بھی ان کے پاس تھا تو مسائل پیدا ہوئے۔ کوفہ والوں کی شرارتیں بھی ہوتی رہتی تھیں۔ تو پھر بعض مصالح کی وجہ سے، حضرت عثمان نے ان کو امارت سے ہٹا کر واپس مدینہ بلا لیا۔ تو کوفہ والوں نے کہا کہ آپ واپس نہ جائیں اور یہیں رہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تا۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا کہ خلیفہ وقت کی اطاعت مجھ پر واجب ہے اور مَیں ہرگز گوارا نہیں کر سکتا کہ ان کی نافرمانی کر کے فتنہ کا کوئی دروازہ کھولوں اور مدینہ واپس چلے گئے۔ ان کے بارے میں ایک راوی نے کہا کہ مَیں کئی صحابہ کی مجالس میں بیٹھا ہوں مگر عبداللہ بن مسعود کی دنیا سے بے رغبتی اور آخرت سے رغبت کی اپنی شان تھی۔ (الاصابہ فی تمیز الصحابۃ جلد 4 صفحہ 201 ذکر من اسمہ عبد اللہ، عبد اللہ بن مسعود الغفاری مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت2004ء)
ظاہری طور پر بھی آپ بڑے نفاست پسند تھے۔ دنیا سے بے رغبتی کے باوجود آپ کے ملازم، ایک خادم نے، غلام نے کہا کہ بہترین قسم کا سفید لباس پہنتے اور اعلیٰ خوشبو لگاتے۔ ان کے بارے میں حضرت طلحہ کہتے ہیں کہ ان کی خوشبو ایسی اعلیٰ قسم کی ہوتی تھی کہ رات کے اندھیرے میں بھی خوشبو سے پتا چل جاتا تھا کہ عبداللہ بن مسعود آرہے ہیں۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 83-84 ومن حلفاء بنی زھرۃ … ذکر ما اوصی بہ عبد اللہ بن مسعودؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996)پس دنیوی چیزوں کا استعمال بھی تھا لیکن دنیا سے رغبت نہیں تھی ۔
پھر حضرت بلالؓ ہیں جو ہر قسم کی تکلیف برداشت کرتے رہے لیکن ہمیشہ خدائے واحد کا نعرہ ہی لگایا۔ سخت پتھروں اور گرم ریت پر آپ کو گھسیٹا جاتا لیکن اس کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہے اور اَحَدْ اَحَدْ ہی کہا۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ ہی کہا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 124 من شھد بدراً ۔ بلال بن رباحؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996)
پھر سعد بن معاذ جو انصاری تھے انہوں نے جنگ بدر والے دن انصار کی نمائندگی کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو انصار کی طرف سے جو توقع تھی اس پہ آپ پورا اترے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی اور گواہی دی کہ آپ کی لائی ہوئی تعلیم برحق ہے اور ہم نے اس پر آپ سے پختہ عہد کئے کہ ہمیشہ آپ کی بات سن کر فوراً اطاعت کریں گے۔ پس اے خدا کے رسول! آپ کا جو ارادہ ہے اس کے مطابق آپ آگے بڑھیں۔ انشاء اللہ آپ ہمیں اپنے ساتھ پائیں گے۔ اگر آپ سمندر میں کود جانے کے لئے ہمیں ارشاد فرمائیں تو ہم اس میں کود جائیں گے اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ اور ہم دشمن سے مقابلہ کرنے سے گھبراتے نہیں۔اور ہم ڈٹ کر مقابلہ کرنا خوب جانتے ہیں۔ ہمیں کامل امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہم سے وہ کچھ دکھائے گا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔ پس آپ جہاں چاہیں ہمیں لے چلیں۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 421 باب غزوہ بدر الکبری، استیثاق الرسول اللہؐ … الخ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
پس یہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے عہد پورے کئے اور پھر اپنے نمونے قائم کئے اور اللہ تعالیٰ بھی ان سے راضی ہوا۔ یہ چند صحابہ کے نمونے ہیں۔تاریخ تو ان کے نمونوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ لوگ ہیں جو ہمارے لئے قابل تقلید ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے۔ اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں۔ صحابہ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو۔ دیکھو انہوں نے جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے اُن سے کئے تھے پورے ہو گئے۔ ابتدا میں مخالف ہنسی کرتے تھے کہ باہر آزادی سے نکل نہیں سکتے۔ اور بادشاہی کے دعوے کرتے ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں گم ہو کر وہ پایا جو صدیوں سے ان کے حصّے میں نہ آیا تھا۔ وہ قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے اور اُن ہی کی اطاعت اور پیروی میں دن رات کوشاں تھے۔ اُن لوگوں کی پیروی کسی رسم و رواج تک میںبھی نہ کرتے تھے جن کو کفّار کہتے تھے‘‘۔ (یعنی جب ایمان لے آئے تو کفار کے ہر کام جو تھے چھوڑ دئیے۔ اور خالصۃً اسلامی تعلیم پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ ’’جب تک اسلام اس حالت میں رہا وہ زمانہ اقبال اور عروج کا رہا۔‘‘ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 157۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) جب ایسا زمانہ تھا تو اسلام ترقی بھی کرتا رہا۔
پھر ایک موقع پر آپ صحابہ کے فضائل بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے وفادار اور مطیع فرمان تھے کہ کسی نبی کے شاگردوں میں ایسی نظیر نہیں ملتی اور خدا کے احکام پر ایسے قائم تھے کہ قرآن شریف ان کی تعریفوں سے بھرا پڑا ہے۔ لکھا ہے کہ جب شراب کی حرمت کا حکم نافذ ہوا تو جس قدر شراب برتنوں میں تھی وہ گرا دی گئی اور کہتے ہیں اس قدر شراب بہی کہ نالیاں بَہ نکلیں۔ اور پھر کسی سے ایسا فعلِ شنیع سرزد نہ ہوا‘‘۔ (جب ایک دفعہ شراب سے توبہ کر لی تو پھر کبھی نہ پی) ’’اور وہ شراب کے پکّے دشمن ہو گئے۔ دیکھو یہ کیسا ثبات اور استقلال علی الطاعت تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت جس وفاداری، محبت اور ارادت اور جوش سے انہوں نے کی کبھی کسی نے نہیں کی۔ موسیٰ علیہ السلام کی جماعت کے حالات پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ کئی بار پتھراؤ کرنا چاہتی تھی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری تو ایسے کمزور اور ضعیف الاعتقاد تھے کہ خود عیسائیوں کو تسلیم کرنا پڑا ہے۔ اور حضرت مسیح آپ انجیل میں سست اعتقاد ان کا نام رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے استاد کے ساتھ سخت غداری کی اور بے وفائی کا نمونہ دکھایا کہ اس مصیبت کی گھڑی میں الگ ہو گئے۔ ایک نے گرفتار کرا دیا۔ دوسرے نے لعنت بھیج کر انکار کر دیا۔ مگر صحابہؓ ایسے ارادتمند اور جان ثار تھے کہ خود خدا تعالیٰ نے ان کی شہادت دی کہ انہوں نے خداتعالیٰ کی راہ میں جانوں تک دینے میں دریغ نہیں کیا اور ہرصفت ایمان کی اُن میں پائی جاتی ہے۔ عابد، زاہد، سخی، بہادر اور وفادار یہ شرائط ایمان کی کسی دوسری قوم میں نہیں پائی جاتیں۔‘‘
آپ فرماتے ہیں کہ’’ جس قدر مصائب اور تکالیف صحابہؓ کو ابتدائے اسلام میں اٹھانی پڑیں ان کی نظیر بھی کسی اور قوم میں نہیں ملتی۔ اس بہادر قوم نے ان مصیبتوں کو برداشت کرنا گوارا کیا لیکن اسلام کو نہیں چھوڑا۔ ان مصیبتوں کی انتہا آخر اس پر ہوئی کہ ان کو وطن چھوڑنا پڑا اور نبی کریمؐ کے ساتھ ہجرت کرنی پڑی۔ اور جب خدا تعالیٰ کی نظر میں کفّار کی شرارتیں حد سے تجاوز کر گئیں اور وہ قابلِ سزا ٹھہر گئیں تو خدا تعالیٰ نےاُنہیں صحابہؓ کو مامور کیا کہ اس سرکش قوم کو سزا دیں۔ چنانچہ اس قوم کو جو مسجدوں میں دن رات اپنے خدا کی عبادت کرتی تھی اور جس کی تعداد بہت تھوڑی تھی جس کے پاس کوئی سامان جنگ نہ تھا مخالفوں کے حملوں کے روکنے کے واسطے میدانِ جنگ میں آنا پڑا ۔اسلامی جنگیں دفاعی جنگیں تھیں۔ ‘‘
(ملفوظات جلد 4 صفحہ 137-138۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر ایک جگہ آپ نے مختصر فرمایا کہ’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بڑے سیدھے سادے تھے۔ جیسے کہ ایک برتن قلعی کراکر صاف اور ستھرا ہو جاتا ہے ایسے ہی ان لوگوں کے دل تھے جو کلام الٰہی کے انوار سے روشن اور کدورت نفسانی کے زنگ سے بالکل صاف تھے گویا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا(الشمس10:) کے سچے مصداق تھے‘‘۔(ملفوظات جلد 6 صفحہ 15 ۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) آپ فرماتے ہیں کہ ’’ اگر انسان اسی طرح صاف ہو اور اپنے آپ کو قلعی دار برتن کی طرح منور کرے تو خدا تعالیٰ کے انعامات کا کھانا اس میں ڈال دیا جاوے۔ لیکن اب کس قدر انسان ہیں جو ایسے ہیں اور قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا کے مصداق ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 6 صفحہ 15 مع حاشیہ۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اپنی اصلاح کریں اور اپنے برتنوں کو صاف کریں۔ اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو اس زمانے میں مانا ہے تو پھر ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی بھی کوشش کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائی ہیں۔ جن کی پہلی سنت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی پھر ان کے نمونے ہمیں آپ کے صحابہ نے دکھائے۔ تبھی ہم حقیقی مسلمان بھی بن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
٭…٭…٭