جلوۂ نَو
شمع ایماں سے منوّر انجمن ہونے کو ہے
رنگِ نَو سے آشنا بزم کُہن ہونے کو ہے
کُند ہر حربہ ہوا یاجوج اور ماجوج کا
بے اثر اُن کی نگاہِ پُرفِتَن ہونے کو ہے
حضرتِ مہدی کے دَم سے اُڑ رہیں تاریکیاں
نُورِ یزداں سے گریزاں اَہرمن ہونے کو ہے
حَرفِ مہدی چشم گیتی میں وہ پائے گا مقام
ماند جس کے سامنے دُرِّعدن ہونے کو ہے
گلشنِ انسانیت پر آ رہی ہے تازگی
مشرق و مغرب میں تجدیدِ چمن ہونے کو ہے
پیش قدمی کر رہے مسرورؔ کے لشکر تمام
تیغ بُرہاں سے مُسخّر کُل زَمن ہونے کو ہے
مِٹ کے رنگ و نسل ہاں بنیادِ عالمگیر پر
ہاتھ سے مہدی کے تعمیرِ وطن ہونے کو ہے
وادی و صحرا میں گونجے گی صدائے احمدی
مُرتعِش پھر گنبدِ کوہ و دَمن ہونے کو ہے
پھیل جائے گی جہاں میں اُلفتوں کی روشنی
دُور دنیا سے کدورت کا گہن ہونے کو ہے
نسلِ آدم تھام لے گی اُٹھ کے دامانِ مسیح
ہاں وہ ’’حَبلُ اللہ‘‘ مُحیطِ کُل زَمن ہونے کو ہے
پیشِ حق جھکنے کو ہے پیشانیٔ نَوعِ بشر
لَاجَرم سجدہ کُناں ہر مَرد و زَن ہونے کو ہے