﴿ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام﴾
یہ زمانہ وہی آخری زمانہ ہے کہ جس کا ذکر قرآن میں ہے اور مقرر ہوگیا کہ یہ وقت وہی وقت ہے کہ جس میں خاتم خلفاء کا مبعوث ہونا ضروری تھا اور اس امر کا ثبوت اپنے کمال کو پہنچ گیا۔ آیا میرے سوا کسی شخص کو اس زمانہ میں دیکھتے ہو جو کہے کہ مَیں مسیح موعود ہوں اور میری طرح
بڑے بڑے نشان لایا ہو۔ تمہیں کیا ہوگیا جو تم اس کو قبول نہیں کرتے کہ عین اپنے وقت پر آیا اور بہت سے نشان دکھلائے۔
’’ تم جانتے ہو کہ سورۃفاتحہ اُمُّ القرآن ہے جو کچھ حق ہے وہی فرماتی ہے اور اس میں ان نیکوں کا ذکر ہے کہ مسلمانوں سے پہلے گزرے ہیں اور ان بدوں کا بھی ذکر ہے کہ مسلمانوں سے پہلے ہوئے ہیں اور خدا نے ان پر غضب کیا اور ان کا بھی ذکر ہے کہ جن پر اس سورۃ کو ختم کیا گیا ہے یعنی فرقہ ضالّین۔ اور تم اقرار کرتے ہو کہ وہ فرقہ ضالّین نصاریٰ ہی ہیں اور خدا نے سب سے بعد اس سورۃ کے آخر میں ان کا ذکر کیا ہے تاکہ جان لو کہ نصاریٰ کا فتنہ تمام فتنوں کے پیچھے ہے۔ پس تمہارے دجّال کے لئے قدم رکھنے کی جگہ نہیں رہی۔ اور یہ تین فرقے ہیںاہل کتاب کے اور اسی طرح تم میں بھی تین فرقے ہیں کہ بعض بعض کے مشابہ ہوگئے۔ اور اس دعا پر خدا نے مومنوں کو رغبت دلائی ہے اور اس کے بعد سورۃنور میں وعدہ دیا ہے کہ مسلمانوں میں سے خلیفے مقرر کرے گا اُن خلیفوں کی طرح جو اُن سے پہلے ہوئے ہیں تاکہ مومنوں کو بشارت دے کہ ان کی دعا قبول ہوئی۔اب کونسا بیان اس بیان سے زیادہ روشن ہوگا۔ کیا یہ بات تمہیں بُری معلوم ہوتی ہے کہ تمہارا مسیح تم میں سے ہی ہووے یا چاہتے ہوکہ خدا کے کلام کو جھٹلاؤ۔ اے میری قوم! خدا کی طرف سے اس میں تمہارا امتحان ہے اب خطا کی طرف قدم مت اٹھاؤ۔ خدا نے کوئی خبر عیسیٰ علیہ السلام کی تم کو نہیں دی ہے مگر اس غرض سے کہ تم میں سے بھی ایک مسیح مسیح بنی اسرائیل کی مانند ضرور آئے گا۔ پس خدا کے وعدہ پر خوش ہو جاؤ۔ اس شخص کی طرح خصومت نہ کرو کہ جو اعراض کرتا اور رُو گردانی کرتا ہے۔ اور تم جانتے ہو کہ عیسیٰ علیہ السلام آخر زمانہ میں یہود کے آئے تھے اسی طرح خدا تعالیٰ نے تمہارے مسیح کے لئے زمانہ مقرر کیا جو مسیح بنی اسرائیل کے زمانہ کے مشابہ تھا تاکہ وہ مشابہت پوری ہو جو اس اُمّت کوبنی اسرائیلی اُمّت سے ہے۔تمہیں کیا ہوگیا جو تم اس طریق کو اختیار کرتے ہو کہ وہ مخالفِ طریقِ خدا ہے۔ اس امر کو فراموش کرتے ہو جس کا خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے۔ تحقیق یہ ہمارا زمانہ آخری زمانہ ہے اس زمانہ کی طرح جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بنی اسرائیل کے لئے آخری زمانہ تھا۔ بتحقیق عیسیٰ علیہ السلام یہودیوں کی تباہی کی گھڑی کے لئے ایک دلیل تھے اور میں قیامت کے لئے ایک دلیل ہوں اور بہت سے اس زمانہ کے علامات قرآن شریف میں مرقوم ہیںاور اونٹنیاں بیکار ہوگئیں اور کتابیں بے شمار شائع ہوئیں۔ اور چاند سورج کو رمضان میں گرہن لگا اور نہریں جاری ہوئیںاور راستے کھل گئے اور ولایتوں کے لوگ آپس میں ملنے لگے اور پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گئے کہ کوئی اونچائی نچائی باقی نہ رہی اور اونٹ سواری اور بار برداری سے متروک ہوگئے۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ یہ زمانہ وہی آخری زمانہ ہے کہ جس کا ذکر قرآن میں ہے اور مقرر ہوگیا کہ یہ وقت وہی وقت ہے کہ جس میں خاتم خلفاء کا مبعوث ہونا ضروری تھا اور اس امر کا ثبوت اپنے کمال کو پہنچ گیااور خدا تعالیٰ نے کوئی شک اس میں باقی نہ رکھا اور ہم اس امر میں اس قدر معرفت دیئے گئے ہیںکہ اگر درمیان سے پردہ اٹھ جائے تو ہمارا یقین زیادہ نہیں ہوتا۔ آیا میرے سوا کسی شخص کو اس زمانہ میں دیکھتے ہو جو کہے کہ مَیں مسیح موعود ہوں اور میری طرح بڑے بڑے نشان لایا ہو۔ تمہیں کیا ہوگیا جو تم اس کو قبول نہیں کرتے کہ عین اپنے وقت پر آیا اور بہت سے نشان دکھلائے اور اس وقت آیا کہ وہ اس زمانہ کا مشابہ ہے کہ جس زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام بعد موسیٰ علیہ السلام آئے تھے۔ اور میں نے بار بار ذکر کیا ہے کہ میں وہی مسیح ہوں کہ جس کا ظہورآخری سلسلہ محمدیہ میں مقدر تھا اس مسیح کی طرح کہ موسوی سلسلہ کے آخر میں آیا تھا تاکہ دونوں سلسلے برابر ہو جائیںاور وعدہ الٰہی پورا ہو جائے۔ پس ساری خوبیاں خدا تعالیٰ کے لئے ہیں کہ اس اُمّت کے حق کو کم نہیں کیا اور امر مشابہت کو نَعل بَہ نَعل مطابقت میں پورا اتارا ۔ پس تُو کوئی ظلم اور کمی بیشی کو نہیں دیکھتا۔ پس اس چیز کا انکار مت کر کہ جو قرآن شریف سے ثابت ہے اور دعا کر کہ اے خدا! میرا علم زیادہ کر۔ اور تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تو کلامِ خدا کی پیروی نہیں کرتا اور دوسرے اقوال کے پیچھے ہولیا ہے اور ہدایت وہی ہدایت ہے جو خدا کی طرف سے ہے۔ خدا نے اپنا وعدہ سچاکیا اب خدا کے سچے وعدہ سے کہاں بھاگتے ہو۔ اور جھوٹے قصے تراشتے ہواور مسیح علیہ السلام کی زندگی میں تم کو بجز اس کے کیا فائدہ ہے کہ پادریوں کو مدد دیتے ہو اور زمانہ کی طرف نہیں نظر کرتے ہو اور نہیں دیکھتے ہو کہ کس قدر مسلمان نصرانی ہوگئے اور کس قدر خدا کے بندے ہلاک ہوگئے۔ خدا کے بندوں پربڑی بلا اتری اگر خدا کا یہی ارادہ ہوتاکہ کسی کو آسمان سے اتارتا جیسا کہ تمہارا گمان ہے تو بہتر یہ تھا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان سے اتارتا۔ خدا نے جو فرمایا تم نے اب تک نہیں پڑھا کہ اگر ہم بیٹا بناتے تو اپنے پاس سے بیٹا بناتے یعنی محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم کو۔ اس آیت میں تدبّرکرو۔ زمین وآسمان دونوں بند تھے اس زمانہ میں دونوں کھل گئے تاکہ نیکوں اور بدوں کا امتحان ہو جائے اور ہرایک گروہ اپنے اعمال کی جزا سزا پاوے۔ پس خدا تعالیٰ نے کچھ چیزیں زمین کی زمین سے نکالیں اور جو کچھ آسمان سے اتارنا تھا اتارا۔ ایک گروہ نے زمینی فریبوں سے تعلیم پائی اور دوسرے گروہ کو وہ چیزیں دیں جو انبیاء کو دی تھیں۔ اس جنگ میں آسمان والوں کو فتح حاصل ہوئی۔ تم چاہو ایمان لاؤ یا نہ لاؤ خدا تعالیٰ اپنے بندہ کو جسے اصلاح خلق کے لئے بھیجا ہے ہرگز نہ چھوڑے گا اور خدا تعالیٰ ایسا نہیں ہے کہ اندھے کے انکار سے آفتاب کو ضائع کرے۔ دو فریق ہیںجو آپس میں جھگڑتے ہیں۔ ایک گروہ کے لئے دروازے زمین کے کھولے گئے اور دوسرے گروہ کے لئے آسمانی دروازے کھولے گئے۔ لیکن جس گروہ کے لئے زمینی دروازے کھولے گئے وہ شیطان کی پیروی کرتے ہیںاور وہ گروہ جس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے وہ انبیاء کے وارث ہیں اور ہر ایک طرح سے پاک و صاف ہیں۔ قوم کو پروردگار کی طرف بلاتے ہیں اور ان کو برائیوں سے بچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا کے ساتھ کسی چیز کو زمین و آسمان میں شریک نہ کرنا چاہیے۔ میں تم میں اس خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوا ہوں جس کی تم عزت نہیں کرتے اور میں قوم کو اسی واسطے ڈراتا ہوں کہ ابن مریم علیہ السلام کے حق میں مبالغہ کرتے ہیں ۔ ‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 89تا95۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)