خطبہ جمعہ
قرآن کریم میں مالی قربانی کی طرف مومنوں کو توجہ دلانے کا ذکر کئی جگہ ملتا ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اور جو بھی تم مال میں سے
خرچ کرو تو وہ تمہارے اپنے ہی فائدہ کے لئے ہے۔ اور ساتھ ہی مومن کی یہ نشانی بتا دی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہی خرچ کرتے ہیں۔ پس کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس سوچ کے ساتھ اپنے مال خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور آج اللہ تعالیٰ کے
فضل سے روئے زمین پر سوائے احمدی کے کوئی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مالی قربانی کرنے کی سوچ رکھتا ہو۔
شاید کچھ لوگ اور بھی ہوں دنیا میں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرتے ہیں یا اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتے ہیں
لیکن مِن حَیثُ الجماعت صرف جماعت احمدیہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے غریبوں اور ضرورتمندوں کی مدد کے علاوہ
دین کی اشاعت اور اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کو دکھانے کے لئے اپنے اوپر بوجھ ڈال کر بھی مالی قربانیاں کرتی ہے۔
حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام اور اسی طرح صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مالی قربانیوں کے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ
یہ جو سلسلہ قربانیوں کا ہے یہ خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ آج بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں نظر آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو اس قربانی کا وہ اِدراک دیا ہے جو جیسا کہ میں نے کہا کہ دنیا میں کسی اور کو نہیں ہے اور اس کے
بے شمار نمونے ہم ہر سال دیکھتے ہیں۔ آج کیونکہ حسب روایت جنوری کے پہلے خطبہ میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان ہوتا ہے
اس لئے اس لحاظ سے میں وقف جدید میں مالی قربانی کرنے والوں کے بعض ایمان افروز واقعات بیان کروں گا۔
وقف جدید کی مالی قربانی میں حصّہ لینے والے افراد کے ایمان افروز واقعات کا بیان۔ افراد جماعت کا مالی قربانی کے لئے ذوق و شوق، چندہ کی برکت سے
ان کی مشکلات کے دُور ہونے، مالی کشائش اور تسکین قلب عطا ہونے اور ان کے اموال و نفوس میں برکت کے روح پرور واقعات کا تذکرہ
وقف جدید کے اکسٹھویں( 61) مالی سال کے آغاز کا اعلان
گزشتہ سال(2017ء میں) جماعت احمدیہ عالمگیر نے وقف جدید میں 88لاکھ 62ہزار پاؤنڈز کی مالی قربانی پیش کی۔ مجموعی طور پرپاکستان اوّل نمبر پر، برطانیہ دوسرے نمبر پر اور جرمنی تیسرے نمبر پر رہے۔ گزشتہ سال میں 16لاکھ سے زائد افراد وقف جدید کی مالی تحریک میں شامل ہوئے ۔ نئے شامل ہونے والوں کی تعداد 2لاکھ 68 ہزارتھی۔
مختلف پہلوؤں سے چندہ وقف جدید میں نمایاں قربانی کرنے والے ممالک اور جماعتوں کا جائزہ
اللہ تعالیٰ تمام قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میںبے انتہا برکت ڈالے۔ ان کے ایمان و اخلاص میں بھی اضافہ کرے اور ہر ایک اپنے ہر قول و فعل میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق عمل کرنے والے ہوں۔
عزیزم علی گوہر منور ابن مکرم وجیہ منور صاحب کی ایک کار حادثہ میں وفات۔ مرحوم کی نماز جنازہ حاضر۔
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
قرآن کریم میں مالی قربانی کی طرف مومنوں کو توجہ دلانے کا ذکر کئی جگہ ملتا ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِکُمْ(البقرۃ273:)۔ اور جو بھی تم مال میں سے خرچ کرو تو وہ تمہارے اپنے ہی فائدہ کے لئے ہے۔ اور ساتھ ہی مومن کی یہ نشانی بتا دی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہی خرچ کرتے ہیں۔ فرماتا ہے۔ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ اللہِ (ا لبقرۃ273:)۔ اور تم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے علاوہ خرچ بھی نہیں کرتے۔ پس کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس سوچ کے ساتھ اپنے مال خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے روئے زمین پر سوائے احمدی کے کوئی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مالی قربانی کرنے کی سوچ رکھتا ہو۔ شاید کچھ اَور لوگ بھی دنیا میں ہوں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرتے ہیں یا اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتے ہیں لیکن مِن حَیثُ الجماعت صرف جماعت احمدیہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے غریبوں اور ضرورتمندوں کی مدد کے علاوہ دین کی اشاعت اور اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کو دکھانے کے لئے اپنے اوپر بوجھ ڈال کر بھی مالی قربانیاں کرتی ہے۔ اصل میں تو یہ سب خرچ چاہے وہ کسی انسان کی مدد کے لئے ہو یا دین کے لئے خرچ کرنا ہو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات کے لئے تو کسی مال کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی خاطر خرچ کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس کی مخلوق کی بہتری کے لئے اور اس کے دین کی برتری کے لئے خرچ کیا جائے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حوالے سے فرماتے ہیں۔ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے آدم کے بیٹے! تُو اپنا خزانہ میرے پاس جمع کر کے مطمئن ہو جا۔ نہ آگ لگنے کا خطرہ، نہ پانی میں ڈوبنے کا اندیشہ اور نہ کسی چور کی چوری کا ڈر۔ میرے پاس رکھا ہوا خزانہ مَیں پورا اُس دن تجھے دوں گا جب تُو سب سے زیادہ اس کا محتاج ہو گا۔ (کنز العمال جلد 6 صفحہ 352 حدیث 16021 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)
پس جس کو ہم بظاہر خرچ سمجھ رہے ہوتے ہیںا ور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خرچ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اصل میں خرچ نہیں ہے۔ بلکہ میری رضا چاہنے کے لئے میرے کہے ہوئے مقاصد کے لئے جو خرچ تم نے کیا وہ حقیقت میں خرچ نہیں بلکہ تمہارے اکاؤنٹ میں جمع ہو گیا ہے اور جب تمہیں اس کی ضرورت ہو گی اللہ تعالیٰ اسے واپس لوٹا دے گا۔
اسی طرح ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن حساب کتاب ختم ہونے تک انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے اپنے مال کے سائے میں رہیں گے۔(مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 895 حدیث 17466 مسند عقبۃ بن عامرؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
لیکن ساتھ ہی آپ نے ایک جگہ یہ بھی شرط لگائی ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو گندہ مال پسند نہیں ہے۔ غلط طریق سے کمایا ہوا مال پسند نہیں ہے۔ بلکہ پاک کمائی اور محنت سے کمایا ہوا مال اگر اس کی راہ میں خرچ ہو گا تو قبول ہو گا۔ (صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تعالیٰ تعرج الملائکۃ … الخ حدیث 7430)
پس اس بات کو ہمیں ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ ہمارا مال ہمیشہ پاک مال رہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کس طرح کوشش کر کے اور محنت کر کے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی مالی تحریک میں حصہ لینے کے لئے کماتے تھے اور چندے دیتے تھے۔ صدقات دیتے تھے، اس کا ایک روایت میں یوں ذکر ملتاہے۔ حضرت ابو مسعود انصاری کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی صدقے اور مالی قربانی کا ارشاد فرماتے تو ہم میں سے بعض بازار جاتے اور وہاں محنت مزدوری کرتے اور کسی کو اُجرت کے طور پر اگر ایک مُدّ بھی ملتا تو وہ اسے اس تحریک میں خرچ کرتا۔
مُدّ ایک پیمانہ ہے جس سے اناج تولا یا ناپا جاتا ہے۔ شاید کلو سے بھی کم وزن ہو یا اس کے برابر ہو۔ لیکن بہر حال وہ صحابی کہتے ہیں کہ اس وقت جن کا یہ حال تھا کہ قربانی میں تھوڑا سا حصہ ڈالنے کے لئے بازار جاتے تھے اور کمائی کرتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ نے انہیں اس دنیا میں جو نوازا ہے تو ان میں سے بعض کا یہ حال ہے کہ ایک ایک لاکھ درہم یا دینار ان کے پاس ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ … الخ حدیث 1416)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ایک روایت آتی ہے کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو ان کے پاس اس کاروبار اور جائیداد کے علاوہ جو ان کی تھی چالیس ہزار اشرفی جمع شدہ تھی۔ انہوں نے ارادہ کیا کہ یہ سب میں دین کے لئے خرچ کر دوں گا اور خرچ کرتے رہے اور ہجرت کے وقت ان کے پاس اس میں سے صرف پانچ سواشرفی بچی تھی۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 91 باب ذکر اسلام ابی بکرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) آج اگر اُس زمانے کی اشرفی کا جو سونے کی اشرفی تھی قیمت کے لحاظ سے اندازہ لگائیںتو شاید گیارہ بارہ ملین پاؤنڈ بنیں گے۔ ہمارا دیکھ رہا تھا ہمارے وقف جدید کا جو تمام دنیا کا بجٹ ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ تو صحابہ کا یہ حال تھا کہ جن کے پاس کچھ نہیں تھا انہوں نے بھی محنت کر کے چاہے چند پینی(penny) یا چند سینٹ(cent) دئیے ہوں، چند روپے دئیے ہوں وہ دینے کی کوشش کی۔ اور جن کے پاس تھا انہوں نے تنگدستی کی کچھ پرواہ نہیں کی اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں بے دریغ خرچ کیا۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ میں ہم دیکھتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی قربانی کے قصے سنتے ہیں۔ جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا آپ نے بے انتہا قربانی دی۔ اسی طرح حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب تھے جو حضرت اُمّ ِناصر کے والد تھے۔ انہوں نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعوے کے بارے میں سنا تو فوراً کہا کہ اتنے بڑے دعوے والا شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا اور فوراً بیعت کر لی اور پھر مالی قربانیوں میں بھی پیش پیش رہے۔ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے۔ سرکاری ملازم تھے۔ بڑی کشائش تھی۔ اچھی کمائی کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو اپنے بارہ حواریوں میں لکھا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ ان کی قربانیاں اس قدر بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو یہ سند دی کہ آپ نے سلسلہ کے لئے اس قدر مالی قربانیاں کی ہیں کہ آئندہ قربانی کی ضرورت ہی نہیں۔ بہرحال یہ لوگ قربانیاں کرتے تھے۔ لیکن اس سند کے باوجود یہ نہیں کہ انہوں نے قربانیاں چھوڑ دیں۔ قربانیاں کرتے چلے گئے۔ جب گورداسپور کا مقدمہ چل رہا تھا تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوستوں میں یہ تحریک کی کہ اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ مقدمے کے بھی اخراجات ہیں۔ خاص طور پر جو لنگر خانہ ہے اس کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہاں قیام کی وجہ سے گورداسپور میں بھی لنگر چل رہا تھا۔ اور قادیان میں بھی لنگر چل رہا تھا۔ دونوں جگہ لنگر چل رہا تھا تو اس کے لئے جب آپ نے رقم کی تحریک کی تو اس پر خلیفہ رشید الدین صاحب جن کو اتفاق سے اسی دن تنخواہ ملی تھی جس دن ان کو اس تحریک کا پتا چلا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تمام تنخواہ جو اس زمانے میں چار سو پچاس روپے تھی اور بہت بڑی رقم تھی۔ آجکل کے لاکھوں کے برابر ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھجوا دی۔ ان کو ان کے کسی دوست نے کہا کہ اپنے گھر کی ضروریات کے لئے بھی کچھ رکھ لیتے تو انہوں نے کہا کہ خدا کا مسیح کہتا ہے کہ دین کے لئے ضرورت ہے تو پھر کس کے لئے رکھتا۔(ماخوذ از تقاریر جلسہ سالانہ 1926ء، انوار العلوم جلد 9 صفحہ 403) پس جب دین کے لئے ضرورت ہے تو دین کے لئے ہی سب کچھ جائے گا۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے پیار سے اپنے بعض غریب احمدیوں کا بھی ذکر کیا ہے ان کی قربانیوں کا ذکر کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ مَیں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیر الدین اور امام الدین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں۔ وہ تینوں غریب بھائی ہیں جو شاید تین آنے یا چار آنے روزانہ مزدوری کرتے ہیں۔ لیکن سرگرمی سے ماہواری چندے میں شریک ہیں۔ باقاعدگی سے چندہ دیتے ہیں۔
پھر آپ نے فرمایا کہ ان کے دوست میاں عبدالعزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے۔ باوجود قلّت معاش کے ایک دن سو روپیہ دے گئے کہ مَیں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہو جائے۔ آپ فرماتے ہیں کہ وہ سو روپیہ شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہو گا مگر للّہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلا دیا۔ (ماخوذ از ضیمہ رسالہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 313-314)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے مَیں نے ایک دو واقعات بیان کئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے ایک دو واقعات بیان کئے۔ یہ جو مالی قربانیوں کا سلسلہ ہے یہ خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں یہ نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو اس قربانی کا وہ اِدراک دیا ہے جو جیسا کہ میں نے کہا کہ دنیا میں کسی اور کو نہیں ہے اور اس کے بے شمار نمونے ہم ہر سال دیکھتے ہیں۔
آج کیونکہ حسب روایت جنوری کے پہلے خطبہ میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان ہوتا ہے اس لئے اس لحاظ سے میں وقف جدید میں مالی قربانی کرنے والوں کے بعض ایمان افروز واقعات بیان کروں گا۔ کس طرح پھر اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کی وجہ سے انہیں اس دنیا میں بھی نواز دیتا ہے جو اُن کے ایمان کی مضبوطی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
مالی قربانی کس شوق سے لوگ کرتے ہیں اور اس نمونے پر عمل کرتے ہیں جو صحابہ کا تھا جس کا میں نے ذکر کیا کہ مالی تحریک پر صحابہ بازار جاتے تھے اور جو معمولی مزدوری ملتی تھی اس کو لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ ایسے نمونے ہم میں آج بھی ملتے ہیں۔
برکینا فاسو کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ودگو ریجن میں ہماری ایک جماعت کاری(Kari) ہے۔ وہاں اس کے قریب حکومت زمین میں فائبر آپٹک(Fibre Optic) تار بچھا رہی ہے تو کاری جماعت کے بعض خدام نے ٹھیکیدار سے بات کی کہ وہ ان کو ایک کلو میٹر کی کھدائی کا کام دے دے۔ چنانچہ کام ملنے پر جماعت کے خدام نے مل کر کھدائی کا کام کیا اور اس کے عوض ملنے والی ایک ملین فرانک سیفا کی رقم جو تقریباً کوئی بارہ سو پچاس پاؤنڈ بنتے ہیں وقف جدید کے چندہ میں ادا کر دی۔ پس یہ جذبہ ہے کہ جیسا مَیں نے کہا آج جماعت احمدیہ کے علاوہ اور کہیں نظر نہیں آتا۔
اللہ تعالیٰ کس طرح نوجوانوں اور بچوں کے ایمانوں میں بھی چندے کی برکت سے مضبوطی عطا فرماتا ہے اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ برکینا فاسو کے ملک میں بَنْفَورہ ریجن کی ایک جماعت ہے۔ وہاں کے ایک ممبر اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے ایک سفر پر جانا تھا اور وقف جدید کا سال ختم ہو رہا تھا۔ دوسری طرف فصل کی بھی برداشت ہو رہی تھی۔ کاٹی جا رہی تھی۔ تو میں نے جانے سے پہلے اپنے بچوں سے کہا کہ فصل جب مکمل ہو جائے تو اس میں سے دسواں حصہ نکال کر چندے میں دے دینا۔ یہ کہہ کر میں سفر پر چلا گیا۔ بعد میں بچے جو فصل تھی، اناج تھا تمام گھر لے آئے اور چندہ ادا نہیں کیا۔ کہتے ہیں جب میں واپس آیا اور میں نے دیکھا، پتا کیا تو پتا لگا کہ بچوں نے تو سارا اناج گھر میں رکھ لیا ہے۔ اس پر میں نے بچوں سے کہا کہ ابھی سارا اناج گھر سے باہر نکالو اور چندے کا حصہ علیحدہ کرو۔ چنانچہ جب بچوں نے وہ سارا اناج گھر سے نکالا اور چندے کا حصہ نکال کر اسی جگہ پہ وہ واپس رکھا تو کہتے ہیں اس میں کوئی بھی کمی نہیں تھی اور بچے یہ چیز دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چندہ علیحدہ کیا ہے لیکن اس کے باوجود اناج اتنے کا اتنا ہی ہے۔ اس پر کہتے ہیں مَیں نے انہیں بتایا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو دکھایا ہے کہ اس کی راہ میں خرچ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ یہ صحیح اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والے ان لوگوں کا ایمان ہے جو ہزاروں میل دور بیٹھے ہیں اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کیا، مانا۔
چندے کی برکت سے مشکلات کے دور ہونے اور مضبوطی ایمان کا بھی ایک واقعہ ہے۔ آئیوری کوسٹ کی جماعت دِپِنْگُوہے۔ وہاں سے تعلق رکھنے والے ایک احمدی دوست یعقوب صاحب کہتے ہیں کہ میں کافی دیر سے احمدی تھا لیکن چندے کے نظام میں شامل نہیں تھا۔ پہلے میری زندگی ہمیشہ مسائل میں گھری رہتی تھی۔ کبھی بچے بیمار رہتے تھے تو کبھی فصل کی وجہ سے پریشانی رہتی۔ لیکن گزشتہ تین سال سے میں چندہ وقف جدید کے بابرکت نظام میں شامل ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی نظام کا مستقل حصہ بننے کے بعد خدا تعالیٰ نے زندگی بدل دی ہے۔ اب میرے بچے پہلے سے زیادہ صحت مند ہیں اور فصل بھی زیادہ ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کس طرح نومبایعین میں بھی قربانی کی روح پیدا ہو رہی ہے۔ آئیوری کوسٹ کے ایک دوست زَبْلُو احمد صاحب نے کچھ عرصہ قبل عیسائیت سے احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی۔ اپنے شہر میں اکیلے احمدی ہیں اور باقاعدگی سے میرے خطبات بھی سنتے ہیں۔ بہت سے جماعتی پروگرام بھی سنتے رہتے ہیں۔ ان میں بڑا اخلاص ہے۔ انہوں نے ایمان اور اخلاص میں بڑی ترقی کی ہے۔ بیعت کے بعد فرنچ زبان میں موجود جماعتی لٹریچر کا مطالعہ کیا اور اب ایک اچھے داعی الی اللہ بھی بن چکے ہیں۔ تبلیغ کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنا گاؤں چھوڑ کر ہمارے جماعتی سینٹر کے قریب رہائش اختیار کر لی تا کہ اسلام کے متعلق زیادہ سے زیادہ سیکھ سکیں۔ اس دوران ان کے پاس کام کاج نہیں تھا۔ جگہ چھوڑی۔ کام میں فرق پڑا۔ کام کی تلاش میں تھے۔ صرف ان کی اہلیہ کچھ پیسے کما رہی تھی اور اس سے گھر کا خرچ چل رہا تھا۔ انہیں جب چندے کی تحریک کی گئی تو سخت حالات کے باوجود پانچ ہزار فرانک سیفا کی رقم چندے میں ادا کر دی اور کہنے لگے کہ یہ میرا اور میری فیملی کا چندہ ہے۔ ٹھیک ہے حالات خراب ہیں لیکن چندے کی برکات سے مَیں محروم نہیں رہنا چاہتا۔
چندہ دینے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی کس طرح سکون ملتا ہے۔ اس بارے میں آئیوری کوسٹ کے ہمارے ایک مبلغ لکھتے ہیں کہ بَنْدُوکُو شہر آئیوری کوسٹ میں اسلام کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور مولویوں کی اکثریت ہے۔ یہاں ایک زیر تبلیغ دوست عبدالرحمن صاحب نے بیعت کی تھی۔ ان کو جماعت کے ساتھ تعارف ایک پمفلٹ کے ذریعہ ہوا تھا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں چار سال قبل مع فیملی عیسائیت سے مسلمان ہوا تھا۔ لیکن میرا دل مطمئن نہیں ہوتا تھا لیکن جب جماعت کے متعلق پتا چلا اور مشن ہاؤس جا کر بعض سوالات کئے تو مجھے میرے سارے سوالوں کے جوابات مل گئے اور میں نے بیعت کر لی۔ کہتے ہیں جب میں نے بیعت کی تو دسمبر کا مہینہ تھا۔ مبلغ صاحب نے مسجد میں چندہ وقف جدید کی اہمیت بتائی اور چندے کی تحریک کی۔ میری جیب میں اس وقت دو ہزار فرانک سیفا تھا جس میں سے ایک ہزار میں نے اسی وقت وقف جدید کی مدّ میں دے دئیے۔ کہتے ہیں الحمد للہ اس دن سے اللہ تعالیٰ نے میری زندگی ہی بدل دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے کام میں برکت ڈال دی ہے۔ جس جگہ میں کام کرتا ہوں وہاں افسروں سمیت سب میری عزت کرتے ہیں اور محدود آمدنی میں بھی اتنی برکت ہے کہ خوشحال زندگی گزار رہا ہوں۔ موصوف بیعت کرنے کے بعد پہلے دن سے ہی چندے کے نظام کا مستقل حصہ بن گئے ہیں۔
تنزانیہ کے ایک گاؤں کے ایک نومبایع جِینائی پاؤلو (Jinai Paulo) صاحب کی مثال ہے۔ گاؤں کا نام Shatimba ہے۔وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں چندہ دینے کے حوالے سے بہت کنجوسی کرتا تھا۔ کہتے ہیں جب مجھے چندے کے بارے میں یاددہانی کروائی جاتی تو مَیں کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتا تھا۔ کہتے ہیں میں کوئلہ تیار کرنے کا کام کرتا ہوں اور میرے مالی حالات بھی اچھے نہ تھے اس لئے بھی چندہ دینے سے گریز کرتا تھا۔ لیکن جب سے مجھے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا مضمون سمجھ آیا ہے میری زندگی ہی بدل گئی ہے اور اس سال جب میں نے فصل لگائی تو جس کھیت سے پہلے آٹھ یا دس بوریاں ملتی تھیں اسی کھیت سے چاولوں کی چھپّن بوریاں مجھے حاصل ہوئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا نتیجہ ہے۔ جب سے میں نے چندہ دینا شروع کیا ہے میری زندگی بدل گئی ہے۔ میرے مالی حالات اچھے ہو گئے ہیں۔ اب میں چھ کمروں کا نیا مکان بنا رہا ہوں اور بڑا گھر بنانے کی وجہ یہ ہے کہ مَیں چاہتا ہوں کہ جب بھی جماعتی مہمان ہمارے گاؤں آئیں تو وہ میرے گھر میں رہیں اور مجھے میزبانی کا شرف بخشیں۔ اب یہ خرچ بھی جو اپنے رہائشی مکان کی تعمیر پہ خرچ کر رہے ہیں اس میں بھی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کی رضا کو مقدم رکھا ہے۔ اس کے دین کے لئے خرچ کرنا ان کی پہلی ترجیح ہے۔
مالی کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک دن ہمارے مشن ہاؤس میں ایک دوست عبدالرحمن صاحب آئے اور کہنے لگے کہ مَیں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ جب ان سے پوچھا کہ آپ کیوں بیعت کرنا چاہتے ہیں تو کہنے لگے کہ میرے دادا ایک بہت بڑے بزرگ تھے۔ انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ امام مہدی علیہ السلام آ چکے ہیں اور اس کی ایک نشانی یہ بتائی تھی کہ امام مہدی کے پیروکار اشاعت اسلام کے کام میں امام مہدی کی مالی امداد کریں گے۔ جب میں نے آپ لوگوں کا ریڈیو سنا۔ کہتے ہیں کہ میں نے ریڈیو میں سنا جو کہ امام مہدی علیہ السلام کے آنے کا اعلان کرتا ہے اور ساتھ ہی خلیفۃ المسیح کے خطبات سنے جن میں وہ مالی قربانی کے واقعات کا ذکر کرتے ہیں تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہی وہ امام مہدی ہیں جن کے متعلق ہمارے دادا نے ہمیں خبر دی تھی اس لئے میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ موصوف نے بیعت بھی کی اور بڑی باقاعدگی سے چندہ بھی دے رہے ہیں اور مالی نظام میں بھی شامل ہیں۔
غربت کی انتہا کو پہنچے ہوئے جو لوگ ہیں وہ بھی مالی قربانی کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ بھی انہیں عجیب رنگ میں نوازتا ہے اور ان کے ایمانوں کو مضبوط کرتا ہے۔ گیمبیا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک خاتون فاطمہ جالو صاحبہ جن کی عمر انچاس برس ہے وہ نَیَامِیْنَا ویسٹ میں کُنڈا (Kunda)نامی گاؤں میں رہتی ہیں۔ جب انہیں چندہ وقف جدید کی تحریک کی گئی تو کہنے لگیں کہ میرے پاس پیسے تو نہیں ہیں لیکن میری سہیلی نے کچھ دن پہلے مجھے ایک مرغی تحفہ میں دی تھی۔ اب یہ بھی وہی مثال ہے جس طرح قادیان میں ایک عورت مرغی کے انڈے اور مرغی لے کر حضرت مصلح موعود کے پاس آ گئی تھی۔ جو اُسے کسی نے تحفہ میں دی تھی کہ اگر جماعت اسے قبول کر لے تو وہ وقف جدید کا چندہ ادا کر دیں گی۔ چنانچہ انہوں نے مرغی ہی چندے میں دے دی۔ چندہ ادا کرنے کے بعد کہنے لگیں کہ میں اپنے چچا کے سلسلہ میں بہت پریشان ہوں جو گھر کے واحد کفیل تھے اور چار مہینے پہلے بدامنی کے الزام میں سینیگال میں انہیں سات سال کی سزا سنائی گئی ہے اور وہ جیل میں ہیں۔ مجھے انہوں نے دعا کے لئے خط بھی لکھا اور اس کے بعد کہتی ہیں چندہ بھی ادا کیا۔ بہرحال چندے کی بھی برکت تھی۔ کہتی ہیں دو مہینے بعد انہیں خبر ملی کہ ان کے چچا کو گورنمنٹ نے معاف کر دیا ہے اور وہ جیل سے رہا ہو گئے ہیں۔ ان کی رہائی کے متعلق جس نے بھی سنا وہ یہی کہتا تھا یہ کوئی معجزہ ہے ورنہ اس جرم میں رہائی ناممکن ہے۔ ان خاتون کے چچا لامین جالو صاحب ہیں۔ ان کو جب اس واقعہ کا پتا چلا کہ ان کی بھتیجی نے اس طرح چندہ ادا کیا تھا اور مجھے دعا کے لئے بھی لکھا تھا اور پھر ان کی رہائی بھی ہو گئی تو اس سے بہت متأثر ہوئے اور انہوں نے بھی احمدیت قبول کر لی۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے فاطمہ صاحبہ باقاعدگی سے چندہ ادا کرتی ہیں۔ تبلیغ بھی کرتی ہیں اور لوگوں کو بتاتی ہیں کہ چندے کی برکت کے نتیجہ میں ان کے چچا کو رہائی مل گئی جس کی وجہ سے وہ پریشان تھیں۔
پھر صرف افریقہ میں نہیں، احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایمان و اخلاص کا نمونہ دکھلاتے ہیں۔
آسٹریلیا کے مبلغ سید ودود احمد صاحب لکھتے ہیں کہ میلبرن میں ایک خادم جو کہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں وہ وعدے کے مطابق وقف جدید کا چندہ ادا کر چکے تھے۔ لیکن جمعہ پر مالی قربانی کی طرف دوبارہ توجہ دلائی گئی اس پر اس خادم نے مزید پانچ سو پچاس ڈالر کا وعدہ کیا اور اگلے دن ادائیگی بھی کر دی۔ یہ خادم پڑھائی کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم کام بھی کرتے ہیں اور انہیں ہر پندرہ روز کے بعد پانچ سو تیس ڈالر ملتے ہیں لیکن اس ہفتے وہ کہتے ہیں ان کو بارہ سو بتیس ڈالر ملے جس کی انہیں بالکل امید نہیں تھی۔ کہنے لگے کہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے نتیجہ میں ہوا ہے۔
پھر امیر صاحب فجی ہیں۔ وہ نَسَرْوَانگا جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ بہت ہی مخلص ہیں۔ سیکرٹری مال کے طور پر خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے جب سے چندے کی ادائیگی شروع کی اللہ تعالیٰ نے ان کے کاروبار میں بہت برکت ڈالی۔ ان کی اہلیہ جو کہ ایک عیسائی خاندان سے آئی ہوئی ہیں وہ کہتی ہیں کہ سب خدمت دین اور مالی قربانی کا نتیجہ ہے ورنہ ہمارے قرضے ختم ہی نہیں ہوتے تھے ۔
پھر بینن کے پاراکو ریجن کی ایک پرانی جماعت’’اِنا‘‘ ہے وہاں کے معلم حمید صاحب لکھتے ہیں کہ یہاں کے لوکل زیادہ تر کھیتی باڑی کرتے ہیں اور کپاس کی کاشت کرتے ہیں۔ اس سال کاشتکاروں نے کپاس چُن کر گاؤں کے پاس ایک جگہ ڈھیر لگایا تا کہ فیکٹری میں بھجوائی جائے۔ لیکن ایک دن اچانک کپاس کے ڈھیر کو آگ لگ گئی اور کروڑوں روپے کی کپاس جل کر راکھ ہو گئی۔ اس وقت صرف ایک آدمی کی کپاس بچی جو جماعت کے مخلص ممبر ہیں۔ مقامی لوگوں نے ان سے کہا کہ یہ تو ایک معجزہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی کپاس کو بچا لیا ہے۔ اس پر وہ احمدی دوست کہنے لگے کہ میرا یقین ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرے اموال کو اس لئے بچایا ہے کہ میں احمدی ہوں اور ہر ماہ اللہ کی راہ میں چندہ دیتا ہوں۔
کانگو برازاویل کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک خاتون مادام عائشہ سرکاری سکول میں پڑھاتی ہیں۔ ایک دن یہ اپنے بیٹے کے ساتھ مشن ہاؤس آئیں اور اپنی شدید مالی پریشانی کا اظہار کیا۔ مالی پریشانی کی ایک وجہ خاوند کی طرف سے کچھ بھی خرچ نہ دینے کے علاوہ یہ بھی تھی کہ حکومت کی طرف سے بطور ٹیچر جو ماہانہ الاؤنس ملتا تھا وہ بھی سابقہ قرضے کی کٹوتی کی وجہ سے آدھا مل رہا تھا۔ انہوں نے قرض لیا ہوا تھا آدھی تنخواہ مل رہی تھی۔ خاوند کچھ دے نہیں رہا تھا بڑی پریشان تھی۔ یہ کہتے ہیں ان کی پریشانی سن کر ایک تو انہوں نے مجھے خط لکھنے کا کہا کہ دعا کے لئے خط لکھیں اور ایک نسخہ یہ بتایا کہ جتنی بھی توفیق ہے آپ چندہ کی ادائیگی باقاعدگی سے کیا کریں۔ کہتے ہیں انہوں نے فوراً خط تو خیر لکھا لیکن چندہ کی ادائیگی بھی باقاعدگی سے کرنی شروع کر دی اور اپنی فیملی کی طرف سے بھی چندہ ادا کیا۔ کہتے ہیں ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ خاوند نے خود بخود گھر کا کرایہ، بچے کی سکول فیس ادا کرنی شروع کر دی۔ دوسری طرف ان کی بڑی بہن جس نے والد مرحوم کی ساری جائیداد پر قبضہ کیا ہوا تھا اس نے پہلی دفعہ اپنی اس بہن کو ایک لاکھ فرانک سیفا بھیجا۔ اس احمدی خاتون نے فوراً مشن ہاؤس فون کر کے اطلاع دی کہ چندے کی برکت سے میری ساری پریشانی دور ہو گئی ہے اور پھر خود مشن ہاؤس آ کر اس رقم میں سے مزید دس ہزار فرانک سیفا چندہ ادا کیا۔
صدر لجنہ کینیڈا لکھتی ہیں کہ یونیورسٹی کی ایک بچی نے بتایا کہ ایک دفعہ میری لوکل سیکرٹری وقف جدید نے مجھے کہا کہ تم چندہ وقف جدید ضرور دو۔ خدا تعالیٰ اس طرح تمہاری مشکلات دور فرمائے گا۔ اس بچی نے بتایا کہ میرے پاس اس وقت صرف پچاس ڈالر تھے جو کہ ایک سٹوڈنٹ ہونے کے ناطے میرے لئے بہت بڑی رقم تھی لیکن میں نے چندہ وقف جدید میں ادا کر دئیے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں یہ رقم دینے کے کچھ عرصہ بعد ہی مجھے یونیورسٹی سے آٹھ سو ڈالر سکالر شپ مل گیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے میری قربانی سے بہت بڑھ کے نوازا۔
مصر کے ہمارے ایک احمدی عبدالرحمن صاحب ہیں۔ کہتے ہیں جب انہوں نے لکھا۔ غالباً انہوں نے جون میں لکھا تھا۔ کہتے ہیں کہ گزشتہ جمعہ کے روز میرے پاس سو مصری پاؤنڈ تھے جن میں سے پچاس پاؤنڈ میں نے جماعت کو دے دئیے اور پچاس سفر خرچ اور باقی ضروریات کے لئے رکھ لئے۔ میں اپنے گھر اور علاقے سے دور رہتا ہوں جہاں خدا کے سوا میرا کوئی نہیں ہے۔ اگلے دن اچانک علم ہوا کہ ماہوار تنخواہ جو بالعموم تاخیر سے آتی ہے اس دفعہ جلدی آ گئی ہے اور مجھے اسی دن وصولی کرنی چاہئے۔ تاہم میں دو دن بعد گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حکومت نے تنخواہ میں ساٹھ فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ اب میرا ارادہ ہے کہ اگلے جمعہ کو اس کا نصف بھی خدا کی راہ میں دے دوں۔ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اپنی راہ میں خرچ کرنے کی لذّت عطا فرمائے۔
پھر انڈیا کے ہمارے ایک انسپکٹر سلیم خان صاحب ہیںلکھتے ہیں کہ صوبہ گجرات کی ایک جماعت سمبڑیالہ کے دورے پر گئےتو وہاں کے ایک دوست سے فون پہ رابطہ ہوا ۔انہیں بتایا کہ ہم ایک گھنٹے تک آپ کی طرف آ رہے ہیں۔ جب ایک گھنٹے کے بعد گئے تو کہتے ہیں کہ ابھی بات چیت چل رہی تھی کہ اچانک دو آدمی آئے اور ان سے بات کی۔ اس کے بعد ان کا ریفریجریٹر اٹھا کے لے گئے۔ کہتے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ آپ نے کہا تھا ہم آ رہے ہیں اور پیسے ہمارے پاس آج تھے کوئی نہیں تو ریفریجریٹر گھر میں پڑا تھا۔ میں نے اس کا سودا کر دیا اور اس کو فروخت کر دیا۔ اس پہ کہتے ہیں ہم نے کہا کہ اس کی اتنی جلدی کیا تھی۔ نہ کرتے۔ ابھی بھی واپس رکھ لیں۔ انہوں نے کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ مرکز سے نمائندہ یا مرکز کی نمائندگی میں کوئی ہمارے پاس آئے اور ہم اس کو خالی ہاتھ جانے دیں۔ ریفریجریٹر کا کیا ہے فریج ہم دوبارہ خرید لیں گے انشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ان کے مال میں برکت ڈالے۔ موصوف کرائے کے گھر میں رہتے ہیں۔ مستری کا کام کرتے ہیں لیکن اپنی تنگدستی کے باوجود اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی سے گریز نہیں کیا۔
اسی طرح انڈیا سے ہی انسپکٹر وقف جدید منور صاحب ہیں وہ لکھتے ہیں کہ جماعت ساندھن صوبہ یوپی کے دورے کے دوران ایک دوست کے پاس چندہ وقف جدید کی وصولی کے لئے گئے تو انہوں نے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ آپ کل صبح آ جائیں پھر دیکھتے ہیں۔ کہتے ہیں اگلے روز میں دوبارہ ان کے گھر گیا تو موصوف نے بتایا کہ پیسوں کا انتظام نہیں ہوا۔ ان بچوں کو دیکھیں۔ بچوں میں قربانی کی کتنی روح ہے۔ان کی چھوٹی بیٹی پاس کھڑی سن رہی تھی وہ اپنے والد کے پاس آ کر کہنے لگی کہ آپ نے مجھے وعدہ کیا تھا کہ سردی بڑھ رہی ہے اور آپ مجھے سردیوں میں جوتے خرید کر دیں گے۔ آپ نے میری سردی کے جوتوں کے لئے جو رقم رکھی ہوئی ہے وہ مجھے دے دیں۔ بچی نے ضد کر کے اپنے والد سے یہ رقم حاصل کی اور ساری چندہ وقف جدید میں ادا کر دی اور کہنے لگی کہ جوتے تو بعد میں بھی آتے رہیں گے پہلے چندہ لے لیں۔ ویسے تو میں نے ان کو کہا ہوا ہے کہ ایسے گھروں کا، ایسے لوگوں کا خیال رکھا کریں اوروہ دینا بھی چاہیں تو ان سے نہ لیا کریں لیکن بہرحال بعض لوگ مجبور کرتے ہیں اور ضد کر کے دیتے ہیں لیکن جماعت کو بعد میں ان کا خیال بھی رکھنا چاہئے۔
پھر انڈیا کے وقف جدید کے ایک انسپکٹر فرید صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نومبر کے مہینہ میں یوپی میں وقف جدید کے مالی دورے پر گیا تو معلوم ہوا کہ میرٹھ میں بھی ایک احمدی گھر ہے جو کئی سالوں سے جماعت کے رابطے میں نہیں ہے۔ چنانچہ جب ان کے گھر پہنچے اور انہیں مالی قربانی کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے کہا ہم صرف وقف جدید میں ہی نہیں بلکہ تمام چندہ جات میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ لہٰذا موصوف نے اپنا با شرح لازمی چندہ کا بجٹ لکھوایا اور ساتھ ہی وقف جدید اور تحریک جدید اور ذیلی تنظیمات کے چندہ جات کا بجٹ بھی بنوایا اور پندرہ ہزار روپے اسی وقت چندہ وقف جدید میں بھی ادا کر دئیے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے وقف جدید کی بابرکت تحریک کی بدولت ایک خاندان کا جماعت احمدیہ کے ساتھ رابطہ بھی بحال کر دیا۔ پس جیسا کہ پہلے بھی میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ ہماری طرف سے، ہمارے کارکنان کی طرف سے سستی ہوتی ہے۔ جماعتوں سے رابطہ نہیں کرتے اور بعض دفعہ ایک لمبا عرصہ رابطہ نہیں ہوتا۔ اس لئے سارے نظام کو بھی فعال ہونا چاہئے تا کہ لوگوں تک پہنچ سکیں۔
یہ چند واقعات ہیں جو میں نے بیان کئے۔ یہ جہاں دین کی خاطر مالی قربانیوں کے کرنے کے بارے میں ہمیں علم دیتے ہیں وہاں یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت اور جماعت احمدیہ کی سچائی اور اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم ہونے کی بھی ایک دلیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ احباب جماعت کا ایمان اور یقین ترقی کرتا رہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ قربانیوں میں بڑھتے جائیں۔
گزشتہ سال میں جماعت نے وقف جدید میں جو قربانیاں دی ہیں اور جماعتوں کی جو پوزیشن ہے اس بارے میں اب کچھ بتاؤں گا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے31؍دسمبر کو وقف جدید کا ساٹھواں سال ختم ہواہے۔ یکم جنوری سے اکسٹھواں نیا سال شروع ہوگیا ہے اور جماعت ہائے احمدیہ عالمگیر نے دوران سال وقف جدید میں اٹھاسی لاکھ باسٹھ ہزار پاؤنڈ کی قربانی پیش کی۔ گزشتہ سال کی نسبت یہ آٹھ لاکھ بیالیس ہزار پاؤنڈ زیادہ ہیں۔الحمد للہ۔ پاکستان کے علاوہ۔ وہ تو مجموعی وصولی کے لحاظ سے پہلے نمبر پہ ہوتا ہی ہے۔ باقی جو دنیا میں وقف جدید میں پوزیشن ہے وہ پہلے دس ملکوں کی اس طرح ہےکہ برطانیہ پہلے نمبر پر ہے۔ جرمنی دوسرے نمبر پرہے۔ تحریک جدید میں یہ الٹ تھا۔ امریکہ تیسرے نمبر پر۔ کینیڈا چوتھے نمبر پر۔ ہندوستان پانچویں نمبر پر۔ آسٹریلیا چھٹے نمبر پر۔ مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے ساتویں نمبر پر۔ انڈونیشیا آٹھویں نمبر پر۔ پھر نویں نمبر پر مڈل ایسٹ کی جماعت ہے گھانا دسویں نمبر پر۔ گھانا نے بھی اس دفعہ کافی ترقی کی ہے۔
مقامی کرنسی کے لحاظ سے گزشتہ سال کے مقابل پر نمایاں اضافہ کرنے والے ممالک میں اس سال کینیڈا سرفہرست ہے۔ اس نے کافی ترقی کی ہے۔ اس کے علاوہ افریقہ کے ممالک میں نائیجیریا نے کافی ترقی کی ہے۔ تراسی فیصد اضافہ کیا ہے۔ مالیؔ نے پچپن فیصد اضافہ کیا ہے۔ سیرالیون نے پینتالیس فیصد اضافہ کیا ہے۔ کیمرون نے پینتالیس فیصد اضافہ کیا ہے۔ غانا نے چوبیس فیصد اضافہ کیا ہے۔ یعنی گزشتہ سال کی نسبت زائد وصولیاں کی ہیں۔
شاملین کی تعداد۔ اصل تو یہ چیز ہے کہ شاملین بڑھنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال وقف جدید میں سولہ لاکھ سے زائد چندہ دہندگان شامل ہوئے ہیں اور نئے شامل ہونے والوں کی تعداد دو لاکھ اڑسٹھ ہزار ہے۔ اور شاملین میں اضافے کے اعتبار سے نائیجیریا نمبر ایک پہ ہے۔ پھر سیرالیون ہے۔ پھر نائیجر ہے۔ پھر بینن ہے۔ پھر مالی ہے۔ پھر کیمرون ہے۔ آئیوری کوسٹ ہے۔ سینیگال ہے۔ برکینا فاسو ہے۔ گیمبیا ہے۔ گنی بساؤ ہے۔ پھر کینیا ہے۔ تنزانیہ ہے۔ زمبابوے ہے۔ انہوں نے نمایاں کام کیا ہے۔
وقف جدید میں دو چندے ہوتے ہیں۔ اطفال کا اور بالغان کا۔چندہ بالغان میں پاکستان اور کینیڈا کا زیادہ کام ہے لیکن اس دفعہ آسٹریلیا نے بھی کیا ہے۔
بالغان میںپاکستان میں جو پہلی تین پوزیشنیں ہیں اس میں پہلے نمبر پہ لاہور ہے۔ دوسرے پہ ربوہ ہے۔ تیسرے پہ کراچی۔ اور اضلاع کی پوزیشن کے لحاظ سے پہلے نمبر پہ اسلام آباد۔ پھر راولپنڈی۔ پھر سرگودھا۔ پھر گجرات۔ پھر عمر کوٹ۔ پھر حیدرآباد۔ پھر میر پور خاص۔ پھر ڈیرہ غازی خان۔ پھر کوٹلی آزاد کشمیر۔ اور پھر کوئٹہ۔
پاکستان میں وصولی کے لحاظ سےجو پہلی دس جماعتیں اسلام آباد شہر۔ ٹاؤن شپ۔ گلشن اقبال کراچی۔ سمن آباد لاہور۔ راولپنڈی شہر۔ عزیز آباد کراچی۔ دہلی گیٹ لاہور۔ مغلپورہ لاہور ۔ سرگودھا شہر۔ اور ڈیرہ غازی خان شہرہیں۔
اطفال کی تین بڑی جماعتیں ہیں۔ اوّل لاہور۔ دوم کراچی۔ سوم ربوہ۔اور اضلاع کی پوزیشن کے لحاظ سے نمبر ایک پہ سرگودھا۔ نمبر دو پہ راولپنڈی۔ نمبر تین پہ گجرات۔ نمبرچار فیصل آباد۔ نمبر پانچ حیدرآباد۔ نمبر چھ نارووال۔ سات نمبر پہ ڈیرہ غازی خان۔ آٹھویں پہ کوٹلی آزاد کشمیر۔ نویں پہ شیخوپورہ۔ اور دسویں پہ بدین۔
برطانیہ کی دس بڑی جماعتیں۔ نمبر ایک پہ ووسٹر پارک۔ نمبر دو پہ مسجد فضل۔ نمبر تین برمنگھم ساؤتھ۔ نمبر چار جلنگھم۔ نمبر پانچ برمنگھم ویسٹ۔ چھ نیو مولڈن۔ سات گلاسگو۔ آٹھ اسلام آباد۔ نو پٹنی۔ اور دس ہیز۔ اور ریجن کے لحاظ سے لنڈن بی نمبر ایک پہ۔ لنڈن اے دو۔ پھر مڈ لینڈز۔ نارتھ ایسٹ۔ مڈل سیکس۔ ساؤتھ لندن۔ اسلام آباد ۔ ایسٹ لندن۔ نارتھ ویسٹ۔ اور ہرٹس( ہارڈ فورڈ شائر)۔ اور سکاٹ لینڈ۔
امریکہ کی پہلی دس جماعتیں ہیں۔ سلیکون ویلی نمبر ایک پہ۔ پھر سیاٹل۔ ڈیٹرائٹ۔ سلور سپرنگ۔ سینٹرل ورجینیا۔ بوسٹن۔ لاس اینجلس ایسٹ۔ ڈیلس۔ ہیوسٹن نارتھ اور لورل(Lourel)۔
وصولی کے لحاظ سے جرمنی کی پانچ لوکل امارات یہ ہیں۔ ہیمبرگ نمبر ایک پہ، فرینکفرٹ دو ۔ ویزبادن۔ پھر گراس گراؤ۔ مورفلڈن والڈورف۔
اور مجموعی وصولی کے لحاظ سے دس جماعتیں ہیں روئیڈرمارک۔ نوئس۔ مہدی آباد۔ نیڈا۔ فریڈ برگ۔ کوبلنز۔ فلورزہائیم ۔ وائن گارٹن۔ پِنّےبرگ۔ اور لانگن ۔
وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی امارتیں ہیں نمبر ایک پہ وان۔ پھر کیلگری۔ پھر پِیس ویلیج۔ بریمیٹن، وینکوور۔ مسی ساگا۔
دس بڑی جماعتیں ہیں۔ ڈرہم نمبر ایک پہ۔ پھر ایڈمنٹن ویسٹ۔ سسکاٹون ساؤتھ۔ ونڈسر۔ بریڈ فورڈ۔ سسکاٹون نارتھ۔ مونٹریال ویسٹ۔ لائیڈ منسٹر۔ ایڈمنٹن ایسٹ۔ ایبٹس فورڈ ۔
اور دفتر اطفال میں پانچ نمایاں جماعتیں۔ ڈرہم نمبر ایک پہ۔ پھر بریڈفورڈ۔ سسکاٹون ساؤتھ۔ سسکاٹون نارتھ۔ لائیڈ منسٹر۔
اور دفتر اطفال میں پانچ نمایاں امارتیں۔ پِیس ویلیج نمبر ایک پہ۔ کیلگری۔ وان۔ وینکوور۔ ویسٹن۔
بھارت کی صوبہ جات کے لحاظ سے نمبر ایک پہ کیرالہ۔ پھر جموں کشمیر۔ پھر یتلنگانا۔ کرناٹکا۔ پھر تامل ناڈو۔ پھر اڑیسہ۔ ویسٹ بنگال۔ پھر پنجاب۔ پھر اُتّر پردیش۔ پھر مہاراشٹرا۔
اور وصولی کے لحاظ سے انڈیا کی جو جماعتیں ہیں وہ ہیں۔ کالیکٹ نمبر ایک پہ۔ پھر حیدرآباد۔ پھر پاٹھا پریام۔ پھر قادیان۔ پھر کولکتہ۔ پھربینگلور۔ پھرکانور ٹاؤن۔ پینگاڈی ۔ کارولائی اور کارُونا گاپلی۔
آسٹریلیا کی دس جماعتیں ہیں۔ نمبر ایک پہ کاسل ہل ، نمبردو برزبن لوگان۔ مارزڈن پارک۔ پھر ملبرن لانگ وارن ۔بیروِک۔پیزتھ۔ پلمپٹن۔ بلیک ٹاؤن۔ ایڈیلیڈساؤتھ اور کینبرا۔
دفتر اطفال میں آسٹریلیا کی جماعتیں ہیں۔ برزبن لوگان۔ پیزتھ۔ برزبن ساؤتھ۔ ملبرن بیروک۔ ایڈیلیڈ ساؤتھ۔ ملبرن لانگ وارن۔ پلمپٹن۔ کاسل ہل۔ مارزڈن پارک۔ ماؤنٹ ڈروئیٹ۔
اللہ تعالیٰ تمام قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میںبے انتہا برکت ڈالے۔ ان کے ایمان و اخلاص میں بھی اضافہ کرے اور ہر ایک اپنے ہر قول و فعل میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق عمل کرنے والے ہوں۔
نمازوں کے بعد میں ایک نماز جنازہ حاضر بھی پڑھاؤں گا جو عزیزم علی گوہر منور ابن وجیہ منور صاحب کا ہے۔یہاں آلڈرشاٹ یُوکے کے ہیں۔ 23؍دسمبر 2017 ءکو اپنی فیملی کے ساتھ جرمنی جاتے ہوئے کولن شہر کے نزدیک ان کی کار کو حادثہ پیش آ گیا۔ ٹائر پھٹ گیا تھا۔ والدہ ان کی کار چلا رہی تھی۔ پانچ سال کی عمر میںان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ علی گوہر وقف نَو کی تحریک میں شامل تھے۔ اس کے دادا چوہدری منور حفیظ صاحب کا تعلق نارووال سے تھا۔ انہوں نے علی کا نام اپنے پڑدادا حضرت علی گوہر صاحب کے نام پر رکھا تھا جو کہ خاندان کے پہلے احمدی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ جبکہ عزیزم علی کے نانا مکرم محمدادریس صاحب کا تعلق حیدرآباد دکن سے ہے۔ علی کی والدہ نصرت جہاں ہمارے دفتر کی انگلش ڈاک ٹیم میں کام کرتی ہیں۔ حادثہ میں جیسا کہ میں نے کہا اس کی والدہ ہی گاڑی چلا رہی تھیں۔ نصرت جہاں کی والدہ یعنی بچے کی نانی بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔ انہیں بھی کافی چوٹیں آئی ہیں اور ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صحت و سلامتی والی زندگی دے اور ان کے والدین کو بھی۔ بچے کے والدین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ماں نے خاص طور پر بڑے صبر سے اس صدمے کو برداشت کیا ہے اور بچے تو معصوم ہیں ہی۔ اللہ تعالیٰ یقیناً بچوں کو فوری جنت میں لے ہی جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے والدین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان کو نعم البدل بھی عطا فرمائے۔ نماز کے بعد جیسا کہ میں نے کہا جنازہ پڑھاؤں گا۔ جنازہ حاضر ہے۔ اس لئے مَیں باہر جاؤں گا اور احباب یہیں مسجد کے اندر ہی رہیں اور جنازہ میں شامل ہوں۔