متفرق شعراء
مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب (مرحوم) کی نذرمنظوم خراج محبت
بجھتی ہوئی آنکھوں کو دِکھا فن ، کہ چلا مَیں
اے شب!! کوئی خورشید نیا جَن کہ چلا مَیں
اُتری نہیں اِس طرح کبھی ریت کی بارش
آباد سبھی شہر ہوئے بَن ۔کہ چلا مَیں
سورج کی تمازت سے بدن ٹوٹ رہا ہے
دیتا ہے صدا دُور سے ساون ، کہ چلا میں
جُز میرے سمائے گا کوئی اور نہ اِس میں
رکھنا! بحفاظت یہ مِرا تن ۔۔ کہ چلا میں
آنکھوں کو جھکائے ہوئے ہر شخص کھڑا ہے
دہلیز ہی پکڑے مِرا دامن ، کہ چلا میں
یاں جو ہے تہِ فکر ، نہیں ذکر کے قابل
واں حُسن سے اک ربط میں ہے ظن کہ چلا میں
پتّوں میں لرزتی ہوئی ماتم کی صدائیں
زردی میں ہے لپٹا ہُوا گلشن کہ چلا میں
کوئی تو ہو ۔ پلکوں میں تسلی کو پرو دے
روتے ہیں لہُو میرے معاون کہ چلا میں
جو کچھ بھی ہے دل میں وہ کرے شوق سے صاحب
دنیا کی ہوئی دُور ہر الجھن کہ چلا میں