اب دیکھتے ہو کیسا رجوع جہاں ہوا اک مرجع خواص یہی قادیاں ہواحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں آپ کے اصحابؓ کے پُر خلوص نذرانے
غلام مصباح بلوچ۔ استاذ جامعہ احمدیہ کینیڈا
علیم و خبیر خدا نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کے دعویٰ ماموریت سے ایک عرصہ قبل ہی یہ بشارات دے دی تھیں کہ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ گوشۂ خلوت میں پڑی تیری ذات ہر خاص و عام کا مرجع ہوگی اور لوگ دُور دُور سے سفر کرکے آئیں گے اور قادیان کو اپنی منزل بنائیں گے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں ہی ان تمام بشارات کا ذکر فرما دیا تھا، بعد ازاں بھی اللہ تعالیٰ نے مزید الہامات کے ذریعے اپنی مزید تائید و نصرت کا وعدہ فرمایا جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ یَأْتِیْکَ تَحَائِف کَثِیْرَۃ (بدر 23؍مئی 1907ء صفحہ 8,9) یعنی تیرے پاس بہت سے تحائف آئیں گے۔ یہ بھی ذوالمنن و ذو المجد خدا کی طرف سے یقین دہانی تھی کہ گو زمانہ بُغض و عناد اور مخالفت میں بہت زور لگائے گا لیکن پھر بھی آنے والے مخلصین میں کمی نہ ہوگی اور سعید فطرت ہمیشہ اخلاص و وفا کا نذرانہ لے کر تیری جماعت میں آ شامل ہوں گے۔ بہت جلد اللہ تعالیٰ نے ان وعدوں کا ایفاء فرمایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مبارک وجود ’’اک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا‘‘ کے دَور سے نکل کر ’’اک مرجعِ خواص یہی قادیاں ہوا‘‘کے مبارک دَور میں داخل ہوا اور لاکھوں لوگ آپ کی حیات مبارکہ میں ہی آپ کے سلسلہ عالیہ میں داخل ہوئے اور شوقِ زیارت میں قادیان حاضر ہوئے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے انہی انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں
’’ثُمَّ بَعْدَ ذالکَ أَیَّدَ اللہُ ھٰذَا الْعَبْدَ کَمَا کَانَ وَعْدُہٗ بِأَنْواعِ الْآلَاءِ وَ أَلْوَان النُّعَمَآءِ۔ فَرَجَعَ اِلَیْہِ فَوْجٌ بَعْدَ فَوْجٍ مِنَ الطُلَبَاءِ، بِأَمْوَال و تَحایِفَ وَ مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْاَشْیَاءِ، حَتّٰی ضَاقَ عَلَیْھِمُ الْمَکَان و کَادَ أَنْ یَّسْأَمَ مِنْ کَثْرَۃِ اللِقَاءِ۔ ھُنَاکَ تَمَّ مَا قَالَ اللّٰہُ صِدْقًا وَ حَقًّا۔‘‘
(ضمیمہ حقیقۃ الوحی۔ الاستفتاء،روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 625)
ترجمہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق اپنے اِس بندے کی انواع و اقسام کی رحمتوں اور قسم قسم کی نعمتوں سے مدد کی۔ پس متلاشیان حق فوج درفوج اپنے اموال و تحائف اور جو کچھ انھیں میسر تھا، کے ساتھ اس (مسیح موعود) کی طرف آئے یہاں تک کہ جگہ ان کے لیے تنگ پڑ گئی اور قریب تھا کہ وہ لوگوں کی ملاقات سے تھک جاتا۔ پس اللہ تعالیٰ کا قول حق اور سچ کے ساتھ پورا ہوا۔
گو کہ بیعت کرنے والوں نے اپنے آپ کو حضرت اقدس علیہ السلام کے ہاتھ پر بیچ دیا تھااور اپنے نفوس و اموال کے ساتھ اس پاک سلسلہ کی معاونت میں لگ گئے تھے لیکن پھر بھی جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں قادیان حاضر ہوتے تو خالی ہاتھ آنا پسند نہ کرتے، بعض تو محبت میں یہ کوشش کرتے کہ کوئی منفرد چیز حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش کی جائے۔ ذیل میں بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پُر خلوص نذرانوں کا تذکرہ درج کیا جاتا ہے
اپنی عمر کے سال حضرت اقدسؑ کی زندگی میں ڈالنے کی دعا کرنا
حضرت میر مردان علی صاحب رضی اللہ عنہ (بیعت ستمبر 1891ء) حیدرآباد دکن میں احمدیت قبول کرنے والے سب سے پہلے بزرگ تھے، آپ نے اپنی بیعت کے خط میں ہی اپنی عمر کے پانچ سال حضرت اقدس علیہ السلام کی نذر کرنے کی آرزو کی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف لطیف ’’ازالہ اوہام‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں
’’اس جگہ اخویم مولوی مردان علی صاحب صدر محاسب دفتر سرکار نظام حیدرآباد دکن بھی ذکر کے لائق ہیں۔ مولوی صاحب موصوف نے درخواست کی ہے کہ میرا نام سلسلہ بیعت کنندوں میں داخل کیا جاوے چنانچہ داخل کیا گیا۔ اُن کی تحریرات سے نہایت محبت و اخلاص پایا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے سچے دل سے پانچ برس اپنی عمر میں سے آپ کے نام لگا دیے ہیں۔ خدا تعالیٰ میری عمر میں سے کاٹ کر آپ کی عمر میں شامل کر دے۔ سو خدا تعالیٰ اس ایثار کی جزا ان کو یہ بخشے کہ اُن کی عمر دراز کرے۔‘‘
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 624)
آپ کی اہلیہ بھی نہایت نیک اورمخلص خاتون تھیں، حضرت مولوی مردان علی صاحبؓ نے ایک مرتبہ ایک نیازنامہ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں بھیجتے ہوئے لکھا
’’میرے مکان میں مجھ سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ مَیں اُن کا مہر جو پانسو روپیہ ہے اس کو اس طرح ادا کروں کہ اُس کی رقم حضور کی خدمت عالی میں پیش کروں۔ مَیں اُن کی اس درخواست سے نہایت درجہ خوش ہوا اور وعدہ کیا ہے کہ مَیں بسر و چشم اُسی طرح اُن کا مہر انشاء اللہ تعالیٰ ادا کردوں گا۔‘‘
(الحکم 21 جنوری 1903ء صفحہ 4)
ایک اور صحابی حضرت میاں محمد دین احمدی صاحبؓ کباب فروش لاہور (موصی نمبر 76۔ وفات 1915ء بعمر40 سال) نے بھی ایک عریضہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا اور لکھا
’’حضرت مَیں نے چند روز سے محض رضائے الٰہی کے لیے جناب باری تعالیٰ میں یہ دعا شروع کی ہے کہ میری عمر میں سے دس سال حضرت اقدس مسیح موعود کو دی جاوے کیونکہ اسلام کی اشاعت کے واسطے میری زندگی ایسی مفید نہیں۔ کیا ایسی دعا مانگنا جائز ہے؟
حضرت اقدسؑ نے جواب میں تحریر فرمایا
’’ایسی دعا میں مضائقہ نہیں بلکہ ثواب کا موجب ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 229)
عمامہ بھجوانا
حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی رضی اللہ عنہ(وفات 3؍ جنوری 1935ء) ابتدائی مخلصین میں سے تھے، آپ نے ایک مرتبہ ایک عمامہ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں ارسال کیا جس کے جواب میں حضرت اقدس نے لکھا
’’عنایت نامہ نیز یک دستار ہدیہ آں مخدوم پہونچا، حقیقت میں یہ عمامہ نہایت عمدہ خوبصورت ہے جو آپ کی دلی محبت کا جوش اس سے مترشح ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحہ 85)
چیتے اور چیتل کی کھال بھجوانا
حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ (بیعت 1895ء ۔ وفات 5 جنوری 1961ء) کبار صحابہ میں سے تھے۔ آپ نے ایک مرتبہ حضرت اقدسؑ کی خدمت میںچیتے کی کھال اور چیتل ( بارہ سنگھے کی ایک قسم ، رنگ بھورا یا زرد اور جسم پر سفید چھوٹے چھوٹے گل یا نشان ہوتے ہیں)کی کھال پیش کی۔ آپ بیان کرتے ہیں
’’ایک زمانہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فداہ روحی نے مجھ غلام کو اپنے ایک عزیز مکرم مرزا محمد احسن بیگ صاحب رئیس کی درخواست پر ان کے زمینداری کاروبار کی خدمات کے لئے راجپوتانہ جانے کا حکم دیا جہاں کثرت جنگلات کے باعث وحوش اور درندوں کی بہتات تھی۔ اس زمانہ میں درندوں اور وحوش سے پالا پڑتا رہتا تھا جس میں پانچ سات چیتے اور ایک شیر نر کے شکار کے علاوہ بے شمار چیتل، سانبر، نیل گائے اور ہرن وغیرہ کا شکار کیا۔ اور یہ دو کھالیں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور پیش کرنے کو ساتھ لایا تھا۔ پہلے چیتل کی کھال پیش کی اور جب اس کو شرف قبولیت مل گیا تو چیتے کی کھال بھی پیش کردی۔‘‘
حضرت اقدس علیہ السلام نے جوابًا تحریر فرمایا
’’السلام علیکم۔ کھال پہونچ گئی۔ جزاکم اللہ خیرًا۔ انشاء اللہ دعا کروں گا۔‘‘
(اصحاب احمد جلد نہم صفحہ140,141 ۔دوسرا ایڈیشن 1992۔ کھنہ پرنٹرز جالندھر)
افریقہ سے شتر مرغ کے انڈے لے کر آنا
حضرت ڈاکٹر عمر الدین صاحب افریقی رضی اللہ عنہ (بیعت 1905ء ۔ وفات 24؍ جولائی 1950ء) اصل میں ضلع گجرات کے رہنے والے تھے لیکن ملازمت کے سلسلے میں مشرقی افریقہ کے ملک کینیا میں مقیم ہوگئے تھے ، وہیں سے بیعت کا خط لکھا، 1907ء میں ہندوستان آنے کا جب ارادہ کیا تو اس کے متعلق آپ بیان کرتے ہیں
’’خدا خدا کرکے میری رخصت کا وقت قریب پہنچا۔ خدا نے میرے پیارے مسیح کے نذرانہ کی تحریک میرے دل میں ڈالی۔ میں نے چار شتر مرغ کے انڈے لے جانے کے لیے دل میں فیصلہ کیا۔ مجھے ان کے حاصل کرنے کے اور پرمٹ لینے کے لیے جرمن پورٹ سے کوشش کرنی پڑی کیونکہ ایسٹ افریقہ سے اجازت نہ دی جاتی تھی۔
…. 1907ء کے جلسہ سالانہ پر …. اس عاجز نے شتر مرغ کے چار انڈے بطور نذرانہ پیش کیے، حضور نے ازراہ کرم منظور فرمائے…‘‘
(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 1 صفحہ 179-182)
قلم کے نِب اور جیبی گھڑی پیش کرنا
حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ (بیعت 31جنوری 1891ء ۔ وفات 13جنوری 1957ء ) نہایت ہی جاں نثار اور فدائی وجود تھے۔ حضرت اقدس علیہ السلام کے بہت قریب رہ کر بہت سی خدمات کی توفیق پائی۔ آپ نے پین کے نِب اور جیبی گھڑی پیش کی۔ آپ بیان کرتے ہیں
’’ایک دفعہ جبکہ عید کا موقع تھا، مَیں نے حضورؑ کی خدمت میں بطور تحفہ دو ٹیڑھی نبیں پیش کیں، اس وقت تو حضرت صاحبؑ نے خاموشی کے ساتھ رکھ لیں لیکن جب مَیں لاہور واپس آگیا تو دو تین دن کے بعد حضرتؑ کا خط آیا کہ آپ کی وہ نبیں بہت اچھی ہیں اور اب مَیں اُن ہی سے لکھا کروں گا، آپ ایک ڈبیہ ویسے نبوں کی بھیج دیں۔ چنانچہ میں نے ایک ڈبیہ بھجوا دی اور اس کے بعد اِس قسم کی نبیں حضورؑ کی خدمت میں پیش کرتا رہا۔ لیکن جیسا کہ ولایتی چیزوں کا قاعدہ ہوتا ہے کچھ عرصہ کے بعد مال میں کچھ نقص پیدا ہوگیا اور حضرت صاحب نے مجھ سے ذکر فرمایا کہ اب یہ نِب اچھا نہیں لکھتا۔ جس پر مجھے آئندہ کے لیے اس ثواب سے محروم ہو جانے کا فکر دامنگیر ہوا اور مَیں نے کارخانے کے مالک کو ولایت میں خط لکھا کہ مَیں اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں تمہارے کارخانہ کی نبیں پیش کیا کرتا تھا لیکن اب تمہارا مال خراب آنے لگا ہے اور مجھ کو اندیشہ ہے کہ حضرت صاحب اس نِب کے استعمال کو چھوڑ دیں گے اور اس طرح تمہاری وجہ سے مَیں اس ثواب سے محروم ہو جاؤں گا۔ اور اس خط میں مَیں نے یہ بھی لکھا کہ تم جانتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کون ہیں؟ اور پھر میں نے حضور کے دعوے وغیرہ کا ذکر کر کے اس کو اچھی طرح تبلیغ بھی کر دی۔ کچھ عرصے کے بعد اس کا جواب آیا جس میں اُس نے معذرت کی اور ٹیڑھی نبوں کی ایک اعلیٰ قسم کی ڈبیہ مفت ارسال کی، جو مَیں نے حضرت کے حضور پیش کر دیں….‘‘
(ذکر حبیب صفحہ 322 از حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ)
’’ایک مرتبہ میں نے اپنی ایک جیبی گھڑی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خدمت میں بطور نذرانے کے پیش کی۔‘‘
(ذکر حبیب صفحہ 45 از حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ )
مدراس کا حلوہ اور مچھلی بھجوانا
حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی رضی اللہ عنہ (بیعت 1894ء ۔ وفات جون 1915ء) نہایت ہی مخلص اور جاں نثار صحابی تھے۔ آپ قادیان سے اڑھائی ہزار سے زائد میل کی مسافت پر مدراس (موجودہ چنائی) میں رہتے تھے۔ آپ نے اپنے اوپر فرض کر رکھا تھا کہ ہر مہینے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں ایک سو روپیہ پیش کریں گے، اس کے علاوہ بھی بہت سے مواقع پر مالی خدمت میں پیش پیش رہے۔ مالی خدمات کے علاوہ مدراس اور بمبئی سے بعض قیمتی اشیاء بھی حضور اقدسؑ کی خدمت میں ارسال کرتے جس میں خاص طور پر مشک اور عنبر کا ذکر آتا ہے۔
ایک مرتبہ آپ نے محبت و عقیدت سے مدراس سے حلوہ کا تحفہ حضور علیہ السلام کی خدمت میں بھجوایا، جس کے جواب میں حضورؑ نے تحریر فرمایا
’’حلوا پہنچ گیا ہے۔ خداتعالیٰ آپ کو بہت بہت جزائے خیر دے کہ مدراس کا رزق قادیان پہنچا دیا۔ حلوا بظاہر بباعث شدت موسم گرما خراب ہوگیا اور اس پر وہ زنگ جیسا شیرینی پر چڑھ جاتا ہے ایسا چڑھ گیا تھا کہ شیرینی پھینکنے کے لائق معلوم ہوتی ہے۔ بعض نے کہا اب قابل استعمال نہیں لیکن ایک خادمہ نے کہا کہ میں اس کو نئے سرے سے بنا دیتی ہوں۔ پھر خبر نہیں کہ اس نے کیا کیا، ایسی عمدہ شیرینی بطور قرص بنالائی کہ نہایت لذیذ تھی۔ اسی وقت تمام اہل و عیال میں تقسیم کی گئی۔ چونکہ بھیجنے والوں نے محبت اور ارادت سے بھیجی تھی اس لئے خدا نے شیرینی کو بگڑنے اور بیکار ہونے سے محفوظ رکھا۔ خدا اُن کو جزائے خیر بخشے اور آپ کو جزائے خیر بخشے، آمین۔‘‘
(مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 421 مکتوب نمبر 91۔جدید ایڈیشن 2009ء قادیان)
سیالکوٹ سے ٹرنک لے کر آنا
حضرت سید امیر علی شاہ صاحب رضی اللہ عنہ (بیعت مئی 1891ء۔ وفات 11؍اکتوبر 1927ء) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نہایت مخلص اصحاب میں سے تھے اور حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ کے داماد تھے۔ آپ نے سیالکوٹ کے ایک احمدی تاجر حضرت محمد دین صاحب سیالکوٹی کے کارخانہ سے خاص آرڈر پر ایک ٹرنک بنوایا جس میں لکھنے پڑھنے کے سامان کے لئے متفرق خانے بنے ہوئے تھے اور وہ بلحاظ اپنی مضبوطی ، خوبصورتی اور کارآمد شے کے ہر طرح عمدہ تھا۔ حضرت اقدس کی خدمت میں وہ خوبصورت ٹرنک بطور تحفہ پیش کیا۔ حضرت اقدس نے اس ٹرنک کو بہت پسند فرمایا۔
(الحکم 24جون 1905ء صفحہ 12 کالم 2)
پتاشے لے کر آنا
حضرت مولوی غلام رسول راجیکی صاحب رضی اللہ عنہ (بیعت1897ء ۔ وفات 15دسمبر 1963ء)کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، آپ بیان کرتے ہیں
’’ایک مرتبہ قادیان میں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بارگاہِ عالیہ میں حاضر ہوا، اتفاق سے اس وقت میرے پاس کافی رقم نہ تھی کہ خدمت عالیہ میں مناسب نذرانہ پیش کرتا، اس لئے جذبہ محبت و عقیدت سے دو آنہ کے پتاشے ہی لے کر حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور نماز عصر کے بعد پیش کر دیے۔ حضور اقدس علیہ السلام نے بڑی مسرت سے انہیں قبول فرمایا اور ایک خادم کے ذریعہ اندرون خانہ بھجوا دیے۔‘‘
(حیات قدسی جلد دوم صفحہ 14)
پیسے بھجوا کر عمدہ کھانا کھانے کی خواہش کرنا
حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحبؓ نے ایک مرتبہ اپنی بیوی کا زیور حضرت اقدسؑ کی خدمت میں بھجوایا اور لکھا کہ اس زیور کی قیمت میں سے فلاں قدر رقم (غالبًا دوروپیہ لکھے تھے یا اس سے کم و بیش) کا عمدہ کھانا میرے طرف سے تیار کروا کر حضور تناول فرماویں۔
حضرت اقدسؑ نے جوابًا تحریر فرمایا
’’آپ کی مرضی کے موافق تعمیل کر دی ہے۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحہ 196,197مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ)
تلاش کے بعد بھینس بطور تحفہ لے کر آنا
حضرت میاں عبدالمجید خان صاحب رضی اللہ عنہ (بیعت1892ء۔وفات4 جنوری 1963ء) کپورتھلہ کے جلیل القدر بزرگ حضرت میاں محمد خان صاحب رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے، آپ بھی اپنے والد کی طرح نہایت مخلص اور فدائی وجود تھے۔ آپ کے اخلاص بھرے تحفہ کے متعلق ایڈیٹر اخبار بدر لکھتے ہیں
’’خان صاحب عبدالمجید خان افسر بگھی خانہ کپورتھلہ …. اپنے علاقہ سے نہایت محنت اور تلاش کے بعد ایک بھینس…. اپنی گرہ سے خرید کر کے حضرت کے حضور میں لائے ہیں۔ حضرت نے اس کی قیمت بھی ادا کرنی چاہی مگر خان صاحب نے باصرار قیمت لینے سے انکار کیا اور عرض کیا کہ یہ حضور کی نذر ہے۔‘‘
(بدر 23مئی 1907ء صفحہ 8,9)
کٹک سے آموں کا تحفہ
اسی صفحے پر بھارتی صوبہ اڈیشہ کے شہر کٹک (قادیان سے دو ہزار کلو میٹر سے زائد فاصلے پر) سے حضرت سید احمد حسین صاحب اور سید سعید الدین صاحب کا کٹک سے آم بھجوانے کا ذکر ہے۔
یہ ایک جھلک تھی اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے ایفاء کی کہ ایک طرف مخالفین نے فتووں سے لے کر عملی اقدام تک ہر ممکن کوشش کی کہ کوئی بھی قادیان نہ جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے محبّین کی تعداد میں دن بدن اضافہ کیا اور آپؑ کو اپنی اس مقبولیت کا وارث بنایا جس کا ذکر حدیث مبارک میں آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرئیل ؑکو بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے فلاں شخص سے محبت ہے پس تُو بھی اُس سے محبت کر، تو جبرئیل بھی اُس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ پھر جبرئیل ؑ آسمان والوں کو منادی کر کے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاںشخص سے محبت کرتا ہے پس تم بھی اُس سے محبت کرو تو اہل سماء بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں۔ ثُمَّ یُوْضَعُ لَہٗ القَبُوْلُ فِی الْاَرْضِ پھر اُس شخص کی مقبولیت ساری زمین میں رکھ دی جاتی ہے۔
(بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’مَیں دیکھتا ہوں کہ صدہا لوگ ایسے بھی ہماری جماعت میں داخل ہیں جن کے بدن پر مشکل سے لباس بھی ہوتا ہے، مشکل سے چادر یا پاجامہ بھی ان کو میسر آتا ہے، ان کی کوئی جائیداد نہیں مگر ان کے لا انتہاء اخلاص اور ارادت سے محبت اور وفا سے طبیعت میں ایک حیرانی اور تعجب پیدا ہوتا ہے جو اُن سے وقتًا فوقتًا صادر ہوتی رہتی ہے یا جس کے آثار اُن کے چہروں سے عیاں ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ایمان کے ایسے پکّے اور یقین کے ایسے سچے اور صدق و ثبات کے ایسے مخلص اور با وفا ہوتے ہیں کہ اگر ان مال و دولت کے بندوں ، ان دنیوی لذّات کے دلدادوں کو اس لذّت کا علم ہو جائے تو اس کے بدلے میں یہ سب کچھ دینے کو تیار ہو جاویں۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 584۔ نظارت اشاعت ربوہ)
تری نعمت کی کچھ قلّت نہیں ہے
تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے
شمارِ فضل اور رحمت نہیں ہے
مجھے اب شکر کی طاقت نہیں ہے
یہ کیا احساں ترے ہیں میرے ہادی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِی