خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ06؍ اپریل 2018ء بمقام مسجدبیت الرحمٰن، ویلنسیا(سپین)

احمدیوں کے پاکستان میں حالات ایسے نہیں کہ آزادانہ طور پر ہم اپنے آپ کو اپنے ایمان کے مطابق مسلمان کہہ سکیں یا عبادات کرسکیں یا مذہبی رسومات ادا کر سکیں۔ پاکستان میں مذہب کے نام پر ہم پر جو زیادتیاں ہو رہی ہیں انہیں ہی بتا کر صرف یہ کہا جائے کہ ایسے حالات میں میرا وہاں رہنا مجھے ذہنی طور پر شدید دباؤ میں لا رہا ہے یا ڈالتا ہے اور مستقل ٹارچر بھی ہے تو عام طور پر یہ لوگ، حکومتی انتظامیہ بھی یا عدالتوں کے جج بھی یہ بات سمجھ جاتے ہیں اور مدد کا اور ہمدردی کا رجحان رکھتے ہیں۔ پس کیس کرتے وقت دوسروں کے کہنے میں آ کر یا وکیلوں کے کہنے میں آ کر اپنے آپ کو یا اپنی بات کو مبالغہ آمیزی کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

جب ہم اپنے ایمان کو بچانے کے لئے، اپنے دین پر قائم رہنے کے لئے اپنے ملک سے نکلے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سب سے اوّل فوقیت ہمیں دینی چاہئے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کو حاصل کرنا اور دنیا کی رنگینیوں میں ڈوبنا ہمارا مقصد نہیں ہے اور نہ ہی یہ ایک مومن کا مقصد پیدائش ہے۔

ہر جگہ جہاں احمدی ہیں اپنے ماحول کو بتائیں کہ حقیقی اسلام کیا ہے۔ ہر احمدی کا عمل، اس کے اخلاق، اس کی عبادت کے معیار ایسے ہوں کہ دوسروں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے والے ہوں۔ یہ جہاں احمدیوں کو دوسروں سے ممتاز کریں گے وہاں یہاں کے مقامی لوگوں میں تبلیغ کے راستے کھولنے میں بھی مددگار ہوں گے۔

جس تباہی کی طرف دنیا بڑھ رہی ہے اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی دنیا کی ترقی انہیں بچا لے گی اور اگر نقصان ہوا بھی تو ایسا کہ ہم پورا کر لیں گے۔ لیکن یہ ان کی غلطی ہے جو ایسا سوچتے ہیں۔

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔


سپین مغربی ممالک میں سے تو بیشک ہے لیکن معاشی استحکام کے لحاظ سے یورپ کے کم مستحکم ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کام کے مواقع اور آمد اور معیار زندگی یورپ کے دوسرے ممالک مثلاً فرانس، جرمنی، ہالینڈ یا یُوکے وغیرہ سے کم ہے اور یہ عموماً بتایا جاتاہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کے مقابلے میں اس کے معاشی حالات پاکستان سے یہاں آنے والوں کے لئے بہتر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے پاکستانی یہاں کاروباری سلسلہ میں بھی اور ملازمت کے سلسلہ میں بھی آتے ہیں۔ اور جہاں تک احمدیوں کا سوال ہے وہ جب پاکستان سے نکلتے ہیں تو دو وجوہات سے نکلتے ہیں۔ جن میں سے سب سے بڑی وجہ پاکستان میں احمدیوں کے لئے مذہبی پابندیاں اور آزادی کا نہ ہونا ہے۔ دوسرے معاشی حالات کی بہتری ہے۔ یہاں آنے والوں کی اکثریت یہی کہہ کر یہاں اسائلم لیتی ہے یا مستقل رہائش کا ویزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ احمدیوں کے پاکستان میں حالات ایسے نہیں کہ آزادانہ طور پر ہم اپنے آپ کو اپنے ایمان کے مطابق مسلمان کہہ سکیں یا عبادات کر سکیں یا مذہبی رسومات ادا کر سکیں۔ بعض لوگ یہاں جب کیس کرتے ہیں تو صحیح طور پر اپنے حالات بیان کرتے ہیں۔ لیکن بعض یہاں کم اور یورپ کے دوسرے ممالک میں زیادہ زیبِ داستان بھی کرلیتےہیں۔ حالانکہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔

مَیں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ اگر حقیقی اور سچی بات بیان کی جائے اور پاکستان میں مذہب کے نام پر ہم پر جو زیادتیاں ہو رہی ہیں انہیں ہی بتا کر صرف یہ کہا جائے کہ ایسے حالات میں میرا وہاں رہنا مجھے ذہنی طور پر شدید دباؤ میں لا رہا ہے یا ڈالتا ہے اور مستقل ٹارچر بھی ہے تو عام طور پر یہ لوگ، حکومتی انتظامیہ بھی یا عدالتوں کے جج بھی یہ بات سمجھ جاتے ہیں اور مدد کا اور ہمدردی کا رجحان رکھتے ہیں۔ پس کیس کرتے وقت دوسروں کے کہنے میں آ کر یا وکیلوں کے کہنے میں آ کر اپنے آپ کو یا اپنی بات کو مبالغہ آمیزی کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح شروع سے آخر تک بیان بھی ایک ہی ہونا چاہئے، نہ کہ بیان بدلے جائیں جس سے انتظامیہ کو جھوٹ کا شبہ ہو۔ جھوٹ سے تو ویسے بھی ایک احمدی کو بچنا چاہئے۔

اللہ تعالیٰ نے تو جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے اور ایک احمدی سے کبھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ شرک کرنے والا ہو۔ ایک طرف تو اس کا دعویٰ یہ ہے کہ میں سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرنے والا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آنے والا ہوں۔ اور زمانے کے امام اور مسیح موعود اور مہدی معہود کو مانتا ہوں۔ اور دوسری طرف اس بنیادی گناہ جس سے بچنا ایک موحّد کا پہلا فرض ہے اس سے انسان بچنے والا نہ ہو۔ پس اس لحاظ سے ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ دنیاوی فوائد کے حصول کے لئے ہم سے کوئی ایسی حرکت سرزد تو نہیں ہو رہی یا ہم کوئی ایسی حرکت تو نہیں کر رہے جو ہمیں خدا تعالیٰ کے نزدیک انتہائی گناہگار بنا رہی ہو۔

پس جیسا کہ میں نے کہا جب ہم اپنے ایمان کو بچانے کے لئے، اپنے دین پر قائم رہنے کے لئے اپنے ملک سے نکلے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سب سے اوّل فوقیت ہمیں دینی چاہئے۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام قبول کرنے کے بعد ہماری ترجیحات کیا ہیںا ور کیا ہونی چاہئیں۔ اگر یہ ترجیحات خدا تعالیٰ کے احکامات کے مطابق نہیں تو ہم نے اس مقصد کو نہیں پایا جو مقصد ہماری ہجرت کا ہے۔ اور اگر یہ اس کے مطابق ہیں تو ہم نے اس ہجرت کے مقصد کو پا لیا اور ایسی صورت میں پھر اللہ تعالیٰ کے فضل بھی ہمارے شامل حال ہوں گے۔ اگر ہماری بنیاد ہی جھوٹ پر ہے اور ہم نے دنیا کے حصول کو اپنا مقصد سمجھا ہوا ہے تو پھر ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں بن سکتے۔ اللہ تعالیٰ کو واحد ماننے والے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے کبھی شرک نہیں کر سکتے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے مقصد پیدائش کی حقیقت کو سمجھا ہے ان کی زندگی کا پہلا مقصد خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہوتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کو حاصل کرنا اور دنیا کی رنگینیوں میں ڈوبنا ہمارا مقصد نہیں ہے اور نہ ہی یہ ایک مومن کا مقصد پیدائش ہے۔ اگر ہم خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے اس کے بتائے ہوئے مقصد پیدائش کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو تبھی ہم حقیقی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس دنیا میں آنے کے مقصد کو پورا کر سکتے ہیں۔ یہ دنیا اور اس کی نعمتیں تو ہمیں مل ہی جائیںگی کہ اللہ تعالیٰ دین و دنیا کی نعماء سے اپنی طرف آنے والوں کو محروم نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دنیاوی نعمتوں سے بھی محروم نہیں رکھتا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ مجھ سے دنیا وآخرت کی حسنات مانگو۔ جیسا کہ فرماتا ہے رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ202:)۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ

’’انسان اپنے نفس کی خوشحالی کے واسطے دو چیزوں کا محتاج ہے۔ ایک دنیا کی مختصر زندگی اور اس میں جو کچھ مصائب شدائد ابتلا وغیرہ اسے پیش آتے ہیں ان سے امن میں رہے۔ دوسرے فسق و فجور اور روحانی بیماریاں جو اسے خدا سے دُور کرتی ہیں ان سے نجات پاوے‘‘۔( انسان کے لئے دو باتیں ہیں ایک دنیاوی مشکلات اور بیماریاں دوسرے روحانی مشکلات اور بیماریاں۔ پس انسان ان دونوں سے نجات پانے کی کوشش کرتا ہے۔) فرمایا کہ ’’تو دنیا کا حَسَنَہ یہ ہے کہ کیا جسمانی اور کیا روحانی دونوں طور پر یہ ہر ایک بلا اور گندی زندگی اور ذلّت سے محفوظ رہے‘‘۔

(ملفوظات جلد 4صفحہ 302۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آپ پھر رَبَّنَآ کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’۰۰۰۰۰دیکھواللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً۰۰۰۰۰۔‘‘ اس بارے میں آپ نے فرمایا کہ ’’اصل رَبَّنَآ کے لفظ میں توبہ ہی کی طرف ایک باریک اشارہ ہے‘‘۔ جب انسان رَبَّنَآ کہتا ہے یعنی اے ہمارے رب تو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے۔ فرمایا ’’کیونکہ رَبَّنَآ کا لفظ چاہتا ہے کہ وہ بعض اور ربّوں کو جو اس نے پہلے بنائے ہوئے تھے ان سے بیزار ہو کر اس ربّ کی طرف آیا ہے اور یہ لفظ حقیقی درد اور گداز کے سوا انسان کے دل سے نکل ہی نہیں سکتا۰۰۰۰‘‘۔ جب انسان حقیقی طور پر رَبَّنَآ کہتا ہے تو پھر ایک درد سے رَبَّنَآ نکلتا ہے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو صرف ظاہری طور پر ہی رَبَّنَآ کی دعا پڑھ لیتے ہیں۔ لیکن اگر انسان دلی کیفیت سے دعا مانگ رہا ہو تو تبھی حقیقت میں رَبَّنَآ کا لفظ منہ سے نکلتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مطابق تو رَبَّنَآ کا لفظ منہ سے نکل ہی نہیں سکتا جب تک حقیقی درد نہ ہو اور گداز نہ ہو۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اصل میں انسان نے اپنے بہت سے ارباب بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اپنے حیلوں اور دغا بازیوں پر اسے پورا بھروسہ ہوتا ہے تو وہی اس کے ربّ ہوتے ہیں۔ اگر اسے اپنے علم کا یا قوت بازو کا گھمنڈ ہے تو وہی اس کے ربّ ہیں۔ اگر اسے اپنے حسن یا مال و دولت پر فخر ہے تو وہی اس کا ربّ ہے۔ غرض اس طرح کے ہزاروں اسباب اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ جب تک ان سب کو ترک کر کے ان سے بیزار ہو کر اس واحد لاشریک سچے اور حقیقی ربّ کے آگے سرنیاز نہ جھکائے اور رَبَّنَآ کی پُردرد اور دل کو پگھلانے والی آوازوں سے اس کے آستانے پر نہ گرے تب تک وہ حقیقی ربّ کو نہیں سمجھا‘‘۔ جیسا کہ میں نے کہا لوگ کہتے ہیں ہم رَبَّنَآ کی دعا بھی پڑھتے ہیں۔ لیکن فرمایا کہ حقیقی رَبَّنَآ اسی وقت ادا ہوتا ہے جب پُردرد اور دل کو پگھلانے والی آواز نکل رہی ہو۔ اس حقیقت کو جانتا ہو کہ جب میں نے رَبَّنَآ کہا ہے تو میں ایک وحدہٗ لاشریک خدا کو پکار رہا ہوں جو میرا ربّ ہے۔ اور آپ نے فرمایا جب یہ ہو گا تو تبھی وہ حقیقی ربّ کو سمجھتا ہے، اسی سے دعا مانگتا ہے۔ پس فرمایا’’پس جب ایسی دل سوزی اور جان گدازی سے اس کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے توبہ کرتا اور اسے مخاطب کرتا ہے کہ رَبَّنَآ یعنی اصل اور حقیقی ربّ تو تُو ہی تھا مگر ہم اپنی غلطی سے دوسری جگہ بہکتے پھرتے رہے ۔ اب میں نے ان جھوٹے بتوں اور باطل معبودوں کو ترک کر دیا ہے اور صدق دل سے تیری ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں۔ تیرے آستانے پر آتا ہوں۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 188-189۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس یہ ہے وہ حالت جو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے اور اس کی عبادت کرنے اور اپنے مقصد پیدائش کو سمجھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب ہم اس طرح اپنے ربّ کو پکارنے کا حق ادا کریں گے تو دنیا کی حسنات بھی ہمیں مل جائیں گی اور آخرت کی حسنات بھی ملیں گی بلکہ دنیا کی حسنات بھی انسان آخرت کی حسنات کے حصول کے لئے ہی مانگتا ہے تا کہ صحت ہو تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا ہو۔ صحت ایک دنیاوی خیر ہے، بھلائی ہے، حسنات میں شامل ہے۔ اگر صحت ہو گی تو انسان عبادت بھی صحیح طرح کر سکتا ہے۔ مال ہو تو اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اس کی قربانی کا حق ادا کر سکتا ہے۔ اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق اسے مل سکتی ہے۔

پس اس اہم اصول کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ عبادت کا حق ادا کرنے کی بات ہوئی ہے تو اس بارے میں ہمیشہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اس وقت ادا کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے جب ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے پیدائش کے مقصد کو پورا کرنے والے بھی ہوں گے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےوَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(الذاریات57:) اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔

پس اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف جب ہم دیکھتے ہیں تو ایک حکم کے بعد دوسرا حکم جس طرف ہمیں لے کر جاتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کو کبھی نہ بھولو۔ تمہاری دنیاوی کوششیں بھی تمہیں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کرنے والی نہیں ہونی چاہئیں اور نہ کبھی صرف دنیا حاصل کرنے کی غرض سے دنیاوی خواہشات کی تکمیل تمہارا مطمح نظر ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میںا یک جگہ فرماتے ہیں کہ

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’مَیں نے جنّ اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں۔پس اس آیت کی رُو سے اصل مدّعا انسان کی زندگی کا خدا تعالیٰ کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ کے لئے ہو جانا ہے‘‘۔ فرماتے ہیں’’ یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو تو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدّعا اپنے اختیار سے آپ مقرر کرے۔ کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا۔ بلکہ وہ ایک مخلوق ہے۔ اور جس نے پیدا کیا اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قویٰ اس کو عنایت کئے‘‘( یعنی باقیوں کی نسبت انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، بہترین قویٰ عنایت کئے)’’ اسی نے اس کی زندگی کا ایک مدّعا ٹھہرا رکھا ہے خواہ کوئی انسان اس مدّعا کو سمجھے یا نہ سمجھے۔ مگر انسان کی پیدائش کا مدّعا بلا شبہ خدا کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ میں فانی ہو جانا ہی ہے ‘‘۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 414)

پس جب انسان اس مدّعا کو سامنے رکھتا ہے تو وہ حقیقی مومن بنتا ہے اور دنیا کی حسنات کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بناتا ہے۔ پس انسان کی ذہنی صلاحیتیں، انسان کی جسمانی قوتیں، انسان کے بہتر مالی حالات موجودہ زمانے کی ایجادات سے یا اَور ان سب باتوں سے انسان کو کبھی غافل نہ کریں۔ نہ صحت، نہ مال، نہ ذہنی صلاحیتیں، نہ جو ہمارے ارد گرد دنیاوی چمک دمک ہے اس بات سے ہمیں غافل کریں کہ ہم اپنے مقصد پیدائش کو بھول جائیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ احمدیوں کی اکثریت ان ملکوں میں دین کی وجہ سے آئی ہے، مذہبی پابندیوں کی وجہ سے آئی ہے جو اُن کو اپنے ملک میں تھیں۔ پس اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھیں۔ احمدی اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ایک لمبے اندھیرے زمانے کے بعد پھر اسلام کا روشن سورج مسیح موعود کے زمانے میں طلوع ہونا تھا جس نے مسلمانوں کے دلوں کو بھی اندھیروں سے روشنی کی طرف حقیقی تعلیم اور بدعات سے پاک تعلیم بتا کر لانا تھا اور غیر مسلموں کو بھی اسلام کی حقیقی خوبصورت تعلیم بتانی تھی۔

ان ملکوں میںآ کر اب ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس اہم فریضہ کو پوری طرح ادا کرنے کی کوشش کرے۔ ہر جگہ جہاں احمدی ہیں اپنے ماحول کو بتائیں کہ حقیقی اسلام کیا ہے۔ ہر احمدی کا عمل، اس کے اخلاق، اس کی عبادت کے معیار ایسے ہوں کہ دوسروں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے والے ہوں۔ یہ جہاں احمدیوں کو دوسروں سے ممتاز کریں گے وہاں یہاں کے مقامی لوگوں میں تبلیغ کے راستے کھولنے میں بھی مددگار ہوں گے۔ پس اس بات کو ہر احمدی کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہر احمدی کا ایک بہت بڑا مقصد ہے کہ پہلے اس نے خود اپنے مقصد پیدائش کو سمجھنا ہے اور پھر دوسروں کو اس مقصد پیدائش کو سمجھنے کی طرف توجہ دلانی ہے۔ دنیا کو اس حقیقت سے آشنا کروانا ہے کہ دنیا کی نعمتیں جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں وہ خدا تعالیٰ سے دُور لے جانے کے لئے نہیں ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کے لئے ہیں۔ اس لئے اس میں اعتدال اختیار کرو ورنہ اعتدال سے نکلنے کی وجہ سے تم تباہی کی طرف بڑھ رہے ہو۔ آج سے چار پانچ سال پہلے دنیا کا اس طرح تباہی کی طرف بڑھنے کا تصور نہیں تھا یا دنیا اس کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی لیکن آج حالات بالکل مختلف ہیں اور جس تباہی کی طرف دنیا بڑھ رہی ہے اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی دنیا کی ترقی انہیں بچا لے گی اور اگر نقصان ہوا بھی تو ایسا کہ ہم پورا کر لیں گے۔ لیکن یہ ان کی غلطی ہے جو ایسا سوچتے ہیں۔ جب جنگوں کی تباہی آئے گی یا آتی ہے تو پھر بیشک معاشی لحاظ سے زیادہ مستحکم حکومتیں بھی ہوں تو وہ ملک ان جنگوں کے بعد پھر اپنے آپ کو سنبھالنے کی پہلی کوشش کرتے ہیں اور اب بھی کریں گے۔ یورپ کے بعض ممالک جو کم مستحکم ہیں یہ تو پھر اور بھی زیادہ برے حالات میں جا سکتے ہیں۔ پس جہاں جہاں بھی احمدی ہیں وہ عملی کوشش اور سب سے بڑھ کر دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی طرف توجہ کریں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے جو دنیا کو تباہی سے بچا سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے ان باتوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں۔ اس کے حضور جھک کر ہی اسے راضی کیا جا سکتا ہے۔ ہر احمدی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننا بھی اسے دنیا و آخرت کی حسنات کا مالک نہیں بنا سکتا، نہ ہی آگ کے عذاب سے بچا سکتا ہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننا زیادہ ذمہ داری ڈالتا ہے کہ اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالا جائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

’’یاد رکھو نری بیعت سے کچھ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس رسم سے راضی نہیں ہوتا جب تک کہ حقیقی بیعت کے مفہوم کو ادا نہ کرے۔ اس وقت تک یہ بیعت بیعت نہیں، نری رسم ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بیعت کے حقیقی منشاء کو پورا کرنے کی کوشش کرو‘‘۔ اور حقیقی منشاء کیا ہے؟ فرمایا ’’یعنی تقویٰ اختیار کرو۔ قرآن شریف کو خوب غور سے پڑھو اور اس پر تدبّر کرو اور پھر عمل کرو۔ کیونکہ سنّت اللہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نرے اقوال اور باتوں سے کبھی خوش نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے کے واسطے ضروری ہے کہ اس کے احکام کی پیروی کی جاوے اور اس کے نواہی سے بچتے رہو۔‘‘ (جن باتوں سے اس نے روکا ہے ان سے بچو۔) ’’اور یہ ایک ایسی صاف بات ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بھی نری باتوں سے خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ بھی خدمت ہی سے خوش ہوتا ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’سچے مسلمان اور جھوٹے مسلمان میں یہی فرق ہوتا ہے کہ جھوٹا مسلمان باتیں بناتا ہے، کرتا کچھ نہیں۔ اور اس کے مقابلہ میں حقیقی مسلمان عمل کر کے دکھاتا ہے، باتیں نہیں بناتا۔ پس جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ میرا بندہ میرے لئے عبادت کر رہا ہے اور میرے لئے میری مخلوق پر شفقت کر رہا ہے تو اس وقت اپنے فرشتے اس پر نازل کرتا ہے اور سچے اور جھوٹے مسلمان میں جیسا کہ اس کا وعدہ ہے فرقان رکھ دیتا ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 6 صفحہ 404-405۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ سچا مسلمان بننے کی کوشش کرے۔ یہ جو دنیا کی حسنات اور نعمتیں ہیں ان سے فائدہ اس لئے اٹھائے کہ یہ آخرت کی حسنات کا وارث بنانے والی ہوں گی۔ ہم اپنی عبادتوں کے حق ادا کرنے والے بنیں۔ دین کی وجہ سے بامر مجبوری جو ہمیں اپنے ملکوں کو چھوڑنا پڑا ہے تو یہاں آ کر پھر دینی تعلیمات پر عمل کرنے کا حق ادا کرنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button