پروازِ احمدیت
سُہانا ہے سَماں ، تازہ جہاں معلوم ہوتے ہیں
بشکلِ نَو زمین و آسماں معلوم ہوتے ہیں
بِنائے کائناتِ نَو ہے رکھی جا رہی شاید!
کہ پھر کہتے ہوئے وہ ’’کُن فَکاں‘‘ معلوم ہوتے ہیں
غلامانِ مسیحِ وقت ہیں گو ناتواں بندے
عزائم میں مگر کوہِ گِراں معلوم ہوتے ہیں
زہے مَٹّی مسیحِ پاک کے جس نے قدم چُومے!
وہ ذرّے مجھ کو مثلِ کہکشاں معلوم ہوتے ہیں
دلائل کی لئے تیغیں چلے ہیں سومناتوں کو
کسی محمود کے یہ کارواں معلوم ہوتے ہیں
اگر تاریخ پڑھتا ہوں خلیل و نوح و آدم کی
سبھی اَوراق میری داستاں معلوم ہوتے ہیں
نہ جانے کیوں ٹپک جاتے ہیں جاکر اُن کی آنکھوں سے!
مری آنکھوں سے جو آنسو رواں معلوم ہوتے ہیں
یہ بیعت کرنے والے صد ہزاراں اَسود و اَحمر
سبھی مہدی کے تائیدی نشاں معلوم ہوتے ہیں
حصارِاحمدیت میں اماں پائیں گی اب قومیں
جہاں بھر میں یہ آثار و نشاں معلوم ہوتے ہیں
ذرا دیکھو تو کشتی نوح کی اے دیکھنے والو!
تلاطم جس کے حق میں بادباں معلوم ہوتے ہیں
(عبدالسلام اِسلامؔ)